Tafheem ul Quran

Surah 40 Ghafir, Ayat 28-37

وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤۡمِنٌ ​ۖ مِّنۡ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ يَكۡتُمُ اِيۡمَانَهٗۤ اَتَقۡتُلُوۡنَ رَجُلًا اَنۡ يَّقُوۡلَ رَبِّىَ اللّٰهُ وَقَدۡ جَآءَكُمۡ بِالۡبَيِّنٰتِ مِنۡ رَّبِّكُمۡ ؕ وَاِنۡ يَّكُ كَاذِبًا فَعَلَيۡهِ كَذِبُهٗ ؕ وَاِنۡ يَّكُ صَادِقًا يُّصِبۡكُمۡ بَعۡضُ الَّذِىۡ يَعِدُكُمۡ ۚ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهۡدِىۡ مَنۡ هُوَ مُسۡرِفٌ كَذَّابٌ‏  ﴿40:28﴾ يٰقَوۡمِ لَـكُمُ الۡمُلۡكُ الۡيَوۡمَ ظٰهِرِيۡنَ فِى الۡاَرۡضِ فَمَنۡ يَّنۡصُرُنَا مِنۡۢ بَاۡسِ اللّٰهِ اِنۡ جَآءَنَا ؕ قَالَ فِرۡعَوۡنُ مَاۤ اُرِيۡكُمۡ اِلَّا مَاۤ اَرٰى وَمَاۤ اَهۡدِيۡكُمۡ اِلَّا سَبِيۡلَ الرَّشَادِ‏ ﴿40:29﴾ وَقَالَ الَّذِىۡۤ اٰمَنَ يٰقَوۡمِ اِنِّىۡۤ اَخَافُ عَلَيۡكُمۡ مِّثۡلَ يَوۡمِ الۡاَحۡزَابِۙ‏ ﴿40:30﴾ مِثۡلَ دَاۡبِ قَوۡمِ نُوۡحٍ وَّعَادٍ وَّثَمُوۡدَ وَالَّذِيۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِهِمۡؕ وَمَا اللّٰهُ يُرِيۡدُ ظُلۡمًا لِّلۡعِبَادِ‏ ﴿40:31﴾ وَيٰقَوۡمِ اِنِّىۡۤ اَخَافُ عَلَيۡكُمۡ يَوۡمَ التَّنَادِۙ‏ ﴿40:32﴾ يَوۡمَ تُوَلُّوۡنَ مُدۡبِرِيۡنَ​ۚ مَا لَكُمۡ مِّنَ اللّٰهِ مِنۡ عَاصِمٍۚ وَمَنۡ يُّضۡلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنۡ هَادٍ‏ ﴿40:33﴾ وَلَقَدۡ جَآءَكُمۡ يُوۡسُفُ مِنۡ قَبۡلُ بِالۡبَيِّنٰتِ فَمَا زِلۡـتُمۡ فِىۡ شَكٍّ مِّمَّا جَآءَكُمۡ بِهٖ ؕ حَتّٰٓى اِذَا هَلَكَ قُلۡتُمۡ لَنۡ يَّبۡعَثَ اللّٰهُ مِنۡۢ بَعۡدِهٖ رَسُوۡلًا ؕ كَذٰلِكَ يُضِلُّ اللّٰهُ مَنۡ هُوَ مُسۡرِفٌ مُّرۡتَابٌ  ۚ ۖ‏ ﴿40:34﴾ اۨلَّذِيۡنَ يُجَادِلُوۡنَ فِىۡۤ اٰيٰتِ اللّٰهِ بِغَيۡرِ سُلۡطٰنٍ اَتٰٮهُمۡ ؕ كَبُـرَ مَقۡتًا عِنۡدَ اللّٰهِ وَعِنۡدَ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا ؕ كَذٰلِكَ يَطۡبَعُ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ قَلۡبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ‏ ﴿40:35﴾ وَقَالَ فِرۡعَوۡنُ يٰهَامٰنُ ابۡنِ لِىۡ صَرۡحًا لَّعَلِّىۡۤ اَبۡلُغُ الۡاَسۡبَابَۙ‏  ﴿40:36﴾ اَسۡبَابَ السَّمٰوٰتِ فَاَطَّلِعَ اِلٰٓى اِلٰهِ مُوۡسٰى وَاِنِّىۡ لَاَظُنُّهٗ كَاذِبًا ؕ وَكَذٰلِكَ زُيِّنَ لِفِرۡعَوۡنَ سُوۡٓءُ عَمَلِهٖ وَصُدَّ عَنِ السَّبِيۡلِ ؕ وَمَا كَيۡدُ فِرۡعَوۡنَ اِلَّا فِىۡ تَبَابٍ‏ ﴿40:37﴾

28 - اس موقع پر آلِ فرعون میں سے ایک مومن شخص، جو اپنا ایمان چھُپائے ہوئے تھا، بول اُٹھا” کیا تم ایک شخص کو صرف اِس بنا پر قتل کر دو گے کہ وہ کہتا ہے میرا ربّ اللہ ہے؟ حالانکہ وہ تمہارے ربّ کی طرف سے تمہارے پاس بیّنات لے 45 آیا۔ اگر وہ جھُوٹا ہے تو اس کا جھُوٹ خود اسی پرپلٹ پڑے گا۔ 46 لیکن اگر وہ سچا ہے تو جن ہولناک تنائج کا وہ تم کو خوف دلاتا ہے ان میں سے کچھ تو تم پر ضرور ہی آجائیں گے۔ اللہ کسی ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے گزر جانے والا اور کذّاب ہو۔ 47 29 - اے میری قوم کے لوگو! آج تمہیں بادشاہی حاصل ہے اور زمین میں تم غالب ہو، لیکن اگر خدا کا عذاب ہم پر آگیا تو پھر کون ہے جو ہماری مدد کر سکے گا۔“ 48 فرعون نے کہا”میں تو تم لوگوں کو وہی رائے دے رہا ہوں جو مجھے مناسب نظر آتی ہے ۔ اور میں اُسی راستے کی طرف تمہاری رہنمائی کرتا ہوں جو ٹھیک ہے۔“ 49 30 - وہ شخص جو ایمان لایاتھا اُس نے کہا” اے میری قوم کے لوگو، مجھے خوف ہے کہ کہیں تم پر بھی وہ دن نہ آجائے جو اس سے پہلے بہت سے جتّھوں پر آچکا ہے، 31 - جیسا دن قومِ نوحؑ ، اور عاد اور ثمود اور ان کے بعد والی قوموں پر آیا تھا۔ اور یہ حقیقت ہے کہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ 50 32 - اے قوم، مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم پر فریاد و فغاں کا دن نہ آجائے 33 - جب تم ایک دُوسرے کو پکارو گے اور بھاگے بھاگے پھرو گے، مگر اُس وقت اللہ سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا۔ سچ یہ ہے کہ جسے اللہ بھٹکا دے اُسے پھر کوئی راستہ دکھانے والا نہیں ہوتا۔ 34 - اس سے پہلے یوسُفؑ تمہارے پاس بیّنات لے کر آئے تھے مگر تم اُن کی لائی ہوئی تعلیم کی طرف سے شک میں پڑے رہے۔ پھر جب اُن کا انتقال ہوگیا تو تم نے کہا اب اُن کے بعد اللہ کوئی رسُول ہر گز نہ بھیجے گا 51 “۔۔۔۔ 52 اِسی طرح اللہ اُن سب لوگوں کو گمراہی میں ڈال دیتا ہے جو حد سے گزرنے والے اور شکّی ہوتے ہیں 35 - اور اللہ کی آیات میں جھگڑے کرتے ہیں بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی سَنَد یا دلیل آئی ہو۔ 53 یہ رویّہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے نزدیک سخت مبغوض ہے۔ اِسی طرح اللہ ہر متکبّر و جبّار کے دل پر ٹھپّہ لگا دیتا ہے۔ 54 36 - فرعون نے کہا”اے ہامان، میرے لیے ایک بلند عمارت بنا تاکہ میں راستوں تک پہنچ سکوں ، 37 - آسمانوں کے راستوں تک ، اور موسیٰؑ کے خدا کو جھانک کر دیکھوں۔ مجھے تو یہ موسیٰؑ جھُوٹا ہی معلوم ہوتا ہے۔“ 55 ۔۔۔۔ اس طرح فرعون کے لیے اس کی بدعملی خوشنما بنادی گئی اور وہ راہِ راست سے روک دیا گیا۔ فرعون کی ساری چال بازی (اُس کی اپنی)تباہی کے راستہ ہی میں صَرف ہوئی ۔ ؏۴


Notes

45. یعنی اس نے ایسی کھلی کھلی نشانیاں تمہیں دکھا دی ہیں جن سے یہ بات روز روشن کی طرح ظاہر ہو چکی ہے کہ وہ تمہارے رب کا بھیجا ہوا رسول ہے۔ مومن آل فرعون کا اشارہ ان نشانیوں کی طرف تھا جن کی تفصیلات اس سے پہلے گزر چکی ہیں (تفہیم القرآن، جلد دوم،الاعراف،حواشی 87-89،90-91،94تا96،بنی اسرائیل 113تا 116،جلد سوم طہ حواشی 29تا50،الشعراء حواشی 26تا39،النمل حاشیہ 16)۔

46. یعنی اگر ایسی صریح نشانیوں کے باوجود تم اسے جھوٹا سمجھتے ہو تب بھی تمہارے لیے مناسب یہی ہے کہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دو، کیونکہ دوسرا احتمال، اور نہایت قومی احتمال یہ بھی ہے کہ وہ سچا ہو اور اس پر ہاتھ ڈال کر تم خدا کے عذاب میں مبتلا ہو جاؤ۔ اس لیے اگر تم اسے جھوٹا بھی سمجھتے ہو تا اس سے تعرض نہ کرو۔ وہ اللہ کا نام لے کر جھوٹ بول رہا ہو گا تو اللہ خود اس سے نمٹ لے گا۔قریب قریب اسی طرح کی بات اس سے پہلے خود حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی فرعون سے کہہ چکے تھے۔ وَاِنْلَّمْ تُؤْ مِنُوْ الِیْ فَا عْتَزِلُوْنِ (الدخان : 21) ’’ اگر تم میری بات نہیں مانتے تو مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔‘‘

یہاں یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ مومن آل فرعون نے گفتگو کے آغاز میں کھل کر یہ ظاہر نہیں کیا تھا کہ وہ حضرت موسیٰ پر ایمان لے آیا ہے، بلکہ ابتداءً وہ اسی طرح کلام کرتا رہا کہ وہ بھی فرعون ہی کے گروہ کا ایک آدمی ہے اور محض اپنی قوم کی بھلائی کے لیے بات کر رہا ہے۔ مگر جب فرعون اور اس کے درباری کسی طرح راہ راست پر آتے نظر نہ آئے تو آخر میں اس نے اپنے ایمان کا راز فاش کر دیا، جیسا کہ پانچویں رکوع میں اس کی تقریر سے ظاہر ہوتا ہے۔

47. اس فقرے کے دو مطلب ممکن ہیں، اور غالباً مومن آل فرعون نے قصداً یہ ذو معنی بات اسی لیے کہی تھی کہ ابھی وہ کھل کر اپنے خیالات ظاہر کرنا نہیں چاہتا تھا۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ ایک ہی شخص کی ذات میں راست روی جیسی خوبی اور کذب و افترا جیسی بدی جمع نہیں ہو سکتیں۔ تم علانیہ دیکھ رہے ہو کہ موسیٰ ایک نہایت پاکیزہ سیرت اور کمال درجہ کا بلند کردار انسان ہے۔ اب آخر یہ بات تمہارے دماغ میں کیسے سماتی ہے کہ ایک طرف تو وہ اتنا بڑا جھوٹا ہو کہ اللہ کا نام لے کر نبوت کا بے بنیاد دعویٰ کر بیٹھے، اور دوسری طرف اللہ اسے اتنے اعلیٰ درجے کے اخلاق عطا فرمائے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم لوگ اگر حد سے تجاوز کر کے موسیٰ علیہ السلام کی جان لینے کے درپے ہو گے اور ان پر جھوٹے الزامات عائد کر کے اپنے نا پاک منصوبے عمل میں لاؤ گے تو یاد رکھو کہ اللہ تمہیں ہر گز کامیابی کا راستہ نہ دکھائے گا۔

48. یعنی کیوں اللہ کی دی ہوئی اس نعمتِ غلبہ و اقتدار کی ناشکری کر کے اس کے غضب کو اپنے اوپر دعوت دیتے ہو؟

49. فرعون کے اس جواب سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی تک وہ یہ راز نہیں پاسکا تھا کہ اس کے دربار کا یہ امیر دل میں مومن ہو چکا ہے، اسی لیے اس نے اس شخص کی بات پر کسی ناراضی کا اظہار تو نہیں کیا، البتہ یہ واضح کر دیا کہ اس کے خیالات سننے کے بعد بھی اپنی رائے بدلنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

50. یعنی اللہ کو بندوں سے کوئی عداوت نہیں ہے کہ وہ خواہ مخواہ انہیں ہلاک کر دے، بلکہ وہ ان پر عذاب اسی وقت بھیجتا ہے جبکہ وہ حد سے گزر جاتے ہیں، اور اس وقت ان پر عذاب بھیجنا عین تقاضائے عدل و انصاف ہوتا ہے۔

51. یعنی تمہاری گمراہی اور پھر اس پر ہٹ دھرمی کا حال یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام سے پہلے تمہارے ملک میں یوسف علیہ السلام آئے جن کے متعلق تم خود مانتے ہو کہ وہ بلند ترین اخلاق کے حامل تھے، اور اس بات کا بھی تمہیں اعتراف ہے کہ انہوں نے بادشاہ وقت کے خواب کی صحیح تعبیر دے کر تمہیں سات برس کے اس خوفناک قحط کی تباہ کاریوں سے بچا لیا جو ان کے دور میں تم پر آیا تھا، اور تمہاری ساری قوم اس بات کی بھی معترف ہے کہ ان کے دور حکومت سے بڑھ کر عدل و انصاف اور خیر و برکت کا زمانہ کبھی مصر کی سر زمین نے نہیں دیکھا، مگر ان کی ساری خوبیاں جانتے اور مانتے ہوئے بھی تم نے ان کے جیتے جی ان پر ایمان لا کر نہ دیا، اور جب ان کی وفات ہو گئی تو تم نے کہا کہ اب بھلا ایسا آدمی کہاں پیدا ہو سکتا ہے۔ گویا تم ان کی خوبیوں کے معترف ہوئے بھی تو اس طرح کی بعد کے آنے والے ہر نبی کا انکار کرنے کے لیے اسے ایک مستقل بہانا بنا لیا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہدایت بہرحال تمہیں قبول نہیں کرنی ہے۔

52. بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آگے کے یہ چند فقرے اللہ تعالیٰ نے مومن آل فرعون کے قول پر بطور اضافہ و تشریح ارشاد فرمائے ہیں۔

53. یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے گمراہی میں انہی لوگوں کو پھینکا جاتا ہے جن میں یہ تین صفات موجود ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اپنی بد اعمالیوں میں حد سے گزر جاتے ہیں اور پھر انہیں فسق و فجور کی ایسی چاٹ لگ جاتی ہے کہ اصلاح اخلاق کی کسی دعوت کو قبول کرنے کے لیے وہ آمادہ نہیں ہوتے۔ دوسرے یہ کہ انبیاء علیہم السلام کے معاملہ میں ان کا مستقل رویہ شک کا رویہ ہوتا ہے۔ خدا کے نبی ان کے سامنے خواہ کیسے ہی بیّنات لے آئیں، مگر وہ ان کی نبوت میں بھی شک کرتے ہیں اور ان حقائق کو بھی ہمیشہ شک ہی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو توحید اور آخرت کے متعلق انہوں نے پیش کیے ہیں۔ تیسرے یہ کہ وہ کتاب اللہ کی آیات پر معقولیت کے ساتھ غور کرنے کے بجائے کج بحثیوں سے ان کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کج بحثیوں کی بنیاد نہ کسی عقلی دلیل پر ہوتی ہے، نہ کسی آسمانی کتاب کی سند پر، بلکہ از اول تا آخر صرف ضد اور ہٹ دھرمی ہی ان کی واحد بنیاد ہوتی ہے۔ یہ تین عیوب جب کسی گروہ میں پیدا ہو جاتے ہیں تو پھر اللہ اسے گمراہی کے گڑھے میں پھینک دیتا ہے جہاں سے دنیا کی کوئی طاقت اسے نہیں نکال سکتی۔

54. یعنی کسی کے دل پر ٹھپہ بلا وجہ نہیں لگا دیا جاتا۔ یہ لعنت کی مہر صرف اسی کے دل پر لگائی جاتی ہے جس میں تکبر اور جباریت کی ہوا بھر چکی ہو۔ تکبر سے مراد ہے آدمی کا جھوٹا پندار جس کی بنا پر وہ حق کے آگے سر جھکانے کو اپنی حیثیت سے گری ہوئی بات سمجھتا ہے۔ اور جباریت سے مراد خلق خدا پر ظلم ہے جس کی کھلی چھوٹ حاصل کرنے کے لیے آدمی شریعت الٰہیہ کی پابندیاں قبول کرنے سے بھاگتا ہے۔

55. مومن آل فرعون کی تقریر کے دوران میں فرعون اپنے وزیر ہامان کو مخاطب کر کے یہ بات کچھ انداز میں کہتا ہے کہ گویا وہ اس مومن کے کلام کو کسی التفات کے قابل نہیں سمجھتا، اس لیے متکبرانہ شان کے ساتھ اس کی طرف سے منہ پھیر کر ہامان سے کہتا ہے کہ ذرا میرے لیے ایک اونچی عمارت تو بنوا، دیکھوں تو سہی کہ یہ موسیٰ جس خدا کی باتیں کر رہا ہے وہ کہاں رہتا ہے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم،القصص حواشی 52،53)