Tafheem ul Quran

Surah 40 Ghafir, Ayat 38-50

وَقَالَ الَّذِىۡۤ اٰمَنَ يٰقَوۡمِ اتَّبِعُوۡنِ اَهۡدِكُمۡ سَبِيۡلَ الرَّشَادِ​ۚ‏  ﴿40:38﴾ يٰقَوۡمِ اِنَّمَا هٰذِهِ الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَا مَتَاعٌ وَّاِنَّ الۡاٰخِرَةَ هِىَ دَارُ الۡقَرَارِ‏ ﴿40:39﴾ مَنۡ عَمِلَ سَيِّـئَـةً فَلَا يُجۡزٰٓى اِلَّا مِثۡلَهَا ۚ وَمَنۡ عَمِلَ صَالِحًـا مِّنۡ ذَكَرٍ اَوۡ اُنۡثٰى وَهُوَ مُؤۡمِنٌ فَاُولٰٓـئِكَ يَدۡخُلُوۡنَ الۡجَـنَّةَ يُرۡزَقُوۡنَ فِيۡهَا بِغَيۡرِ حِسَابٍ‏ ﴿40:40﴾ وَيٰقَوۡمِ مَا لِىۡۤ اَدۡعُوۡكُمۡ اِلَى النَّجٰوةِ وَتَدۡعُوۡنَنِىۡۤ اِلَى النَّارِؕ‏ ﴿40:41﴾ تَدۡعُوۡنَنِىۡ لِاَكۡفُرَ بِاللّٰهِ وَاُشۡرِكَ بِهٖ مَا لَيۡسَ لِىۡ بِهٖ عِلۡمٌ وَّاَنَا اَدۡعُوۡكُمۡ اِلَى الۡعَزِيۡزِ الۡغَفَّارِ‏ ﴿40:42﴾ لَا جَرَمَ اَنَّمَا تَدۡعُوۡنَنِىۡۤ اِلَيۡهِ لَيۡسَ لَهٗ دَعۡوَةٌ فِى الدُّنۡيَا وَلَا فِى الۡاٰخِرَةِ وَاَنَّ مَرَدَّنَاۤ اِلَى اللّٰهِ وَاَنَّ الۡمُسۡرِفِيۡنَ هُمۡ اَصۡحٰبُ النَّارِ‏ ﴿40:43﴾ فَسَتَذۡكُرُوۡنَ مَاۤ اَقُوۡلُ لَـكُمۡؕ وَاُفَوِّضُ اَمۡرِىۡۤ اِلَى اللّٰهِؕ اِنَّ اللّٰهَ بَصِيۡرٌۢ بِالۡعِبَادِ‏ ﴿40:44﴾ فَوَقٰٮهُ اللّٰهُ سَيِّاٰتِ مَا مَكَرُوۡا وَحَاقَ بِاٰلِ فِرۡعَوۡنَ سُوۡٓءُ الۡعَذَابِ​ۚ‏ ﴿40:45﴾ اَلنَّارُ يُعۡرَضُوۡنَ عَلَيۡهَا غُدُوًّا وَّعَشِيًّا ۚ وَيَوۡمَ تَقُوۡمُ السَّاعَةُ اَدۡخِلُوۡۤا اٰلَ فِرۡعَوۡنَ اَشَدَّ الۡعَذَابِ‏ ﴿40:46﴾ وَاِذۡ يَتَحَآجُّوۡنَ فِى النَّارِ فَيَقُوۡلُ الضُّعَفٰٓؤُا لِلَّذِيۡنَ اسۡتَكۡبَرُوۡۤا اِنَّا كُنَّا لَـكُمۡ تَبَعًا فَهَلۡ اَنۡتُمۡ مُّغۡنُوۡنَ عَنَّا نَصِيۡبًا مِّنَ النَّارِ‏ ﴿40:47﴾ قَالَ الَّذِيۡنَ اسۡتَكۡبَرُوۡۤا اِنَّا كُلٌّ فِيۡهَاۤ ۙاِنَّ اللّٰهَ قَدۡ حَكَمَ بَيۡنَ الۡعِبَادِ‏ ﴿40:48﴾ وَقَالَ الَّذِيۡنَ فِى النَّارِ لِخَزَنَةِ جَهَنَّمَ ادۡعُوۡا رَبَّكُمۡ يُخَفِّفۡ عَنَّا يَوۡمًا مِّنَ الۡعَذَابِ‏ ﴿40:49﴾ قَالُوۡۤا اَوَلَمۡ تَكُ تَاۡتِيۡكُمۡ رُسُلُكُمۡ بِالۡبَيِّنٰتِ ؕ قَالُوۡا بَلٰى ؕ قَالُوۡا​ فَادۡعُوۡا ۚ وَمَا دُعٰٓـؤُا الۡكٰفِرِيۡنَ اِلَّا فِىۡ ضَلٰلٍ‏  ﴿40:50﴾

38 - وہ شخص جو ایمان لایا تھا ،بولا”اے میری قوم کے لوگو، میری بات مانو، میں تمہیں صحیح راستہ بتاتا ہوں۔ 39 - اے قوم، یہ دُنیا کی زندگی تو چند روزہ ہے، 56 ہمیشہ کے قیام کی جگہ آخرت ہی ہے۔ 40 - جو بُرائی کرے گا اُس کو اتنا ہی بدلہ ملے گا جتنی اُس نے برائی کی ہوگی۔ اور جو نیک عمل کرے گا ، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن، ایسے سب لوگ جنّت میں داخل ہوں گے جہاں اُن کو بے حساب رزق دیا جائے گا۔ 41 - اے قوم، آخر یہ کیا ماجرا ہے کہ میں تو تم لوگوں کو نجات کی طرف بُلاتا ہوں اور تم لوگ مجھے آگ کی طرف دعوت دیتے ہو! 42 - تم مجھے اس بات کی دعوت دیتے ہو کہ میں اللہ سے کفر کروں اور اس کے ساتھ اُن ہستیوں کو شریک ٹھہراوٴں جنہیں میں نہیں جانتا 57 ، حالانکہ میں تمہیں اُس زبردست مغفرت کرنے والے خدا کی طرف بُلا رہا ہوں ۔ 43 - نہیں، حق یہ ہے اور اِس کے خلاف نہیں ہو سکتا کہ جن کی طرف تم مجھے بُلا رہے ہو اُن کے لیے نہ دنیا میں کوئی دعوت ہے اور نہ آخرت میں 58 ، اور ہم سب کو پلٹنا اللہ ہی کی طرف ہے ، اور حد سے گزرنے والے 59 آگ میں جانے والے ہیں۔ 44 - آج جو کچھ میں کہہ رہا ہوں، عنقریب وہ وقت آئے گا جب تم اُسے یاد کرو گے۔ اور اپنا معاملہ میں اللہ کے سپرد کرتا ہوں، وہ اپنے بندوں کا نگہبان ہے۔“ 60 45 - آخر کار اُن لوگوں نے جو بُری سے بُری چالیں اُس مومن کے خلاف چلیں، اللہ نے اُن سب سے اُس کو بچا لیا 61 ، اور فرعون کے ساتھی خود بدترین عذاب کے پھیر میں آگئے۔ 62 46 - دوزخ کی آگ ہے جس کے سامنے صبح و شام وہ پیش کیے جاتے ہیں، اور جب قیامت کی گھڑی آجائے گی تو حکم ہوگا کہ آلِ فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کرو۔ 63 47 - پھر ذرا خیال کرو اُس وقت کا جب یہ لوگ دوزخ میں ایک دُوسرے سے جھگڑ رہے ہوں گے۔ دنیا میں جو لوگ کمزور تھے وہ بڑے بننے والوں سے کہیں گے کہ ” ہم تمہارے تابع تھے، اب کیا یہاں تم نارِ جہنّم کی تکلیف کے کچھ حصّے سے ہم کو بچا لو گے؟“ 64 48 - وہ بڑے بننے والے جواب دیں گے”ہم سب یہاں ایک حال میں ہیں، اور اللہ بندوں کے درمیان فیصلہ کر چکا ہے۔“ 65 49 - پھر یہ دوزخ میں پڑے ہوئے لوگ جہنّم کے اہل کاروں سے کہیں گے”اپنے ربّ سے دعا کرو کہ ہمارے عذاب میں بس ایک دن کی تخفیف کر دے۔“ 50 - وہ پوچھیں گے” کیا تمہارے پاس تمہارے رسُول بیّنات لے کر نہیں آتے رہے تھے؟“وہ کہیں گے”ہاں۔“ جہنّم کے اہل کار بولیں گے”پھر تو تم ہی دُعا کرو ، اور کافروں کی دُعا اکارت ہی جانے والی ہے۔“ 66 ؏۵


Notes

56. یعنی اس دنیا کی عارضی دولت و خوشحالی پر پھول کر تم جو اللہ کو بھول رہے ہو، یہ تمہاری نادانی ہے۔

57. یعنی ان کے شریک خدا ہونے کا میرے پاس کوئی علمی ثبوت نہیں ہے، پھر آخر آنکھیں بند کر کے میں اتنی بڑی بات کیسے مان لوں کہ خدائی میں ان کی بھی شرکت ہے اور مجھے اللہ کے ساتھ ان کی بھی بندگی کرنی ہے۔

58. اس فقرے کے کئی معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ان کو نہ دنیا میں یہ حق پہنچتا ہے اور نہ آخرت میں کہ ان کی خدائی تسلیم کرنے کے لیے خلق خدا کو دعوت دی جائے۔ دوسرے یہ کہ انہیں تو لوگوں نے زبردستی خدا بنایا ہے ورنہ وہ خود نہ اس دنیا میں خدائی کے مدعی ہیں، نہ آخرت میں یہ دعویٰ لے کر اٹھیں گے کہ ہم بھی تو خدا تھے، تم نے ہمیں کیوں نہ مانا۔ تیسرے یہ کہ ان کو پکارنے کا کوئی فائدہ نہ اس دنیا میں ہے نہ آخرت میں، کیونکہ وہ بالکل بے اختیار ہیں اور انہیں پکارنا قطعی لا حاصل ہے۔

59. ’’حد سے گزر جانے ‘‘کا مطلب حق سے تجاوز کرنا ہے۔ ہر وہ شخص جو اللہ کے سوا دوسروں کی خدائی مانتا ہے یا خود خدا بن بیٹھتا ہے، یا خدا سے باغی ہو کر دنیا میں خود مختاری کا رویہ اختیار کرتا ہے، اور پھر اپنی ذات پر، خلق خدا پر اور دنیا کی ہر اس چیز پر جس سے اس کو سابقہ پیش آئے، طرح طرح کی زیادتیاں کرتا ہے، وہ حقیقت میں عقل اور انصاف کی تمام حدوں کو پھاند جانے والا انسان ہے۔

60. اس فقرے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ باتیں کہتے وقت اس مومن شخص کو پورا یقین تھا کہ اس حق گوئی کی پاداش میں فرعون کی پوری سلطنت کا عتاب اس پر ٹوٹ پڑے گا اور اسے محض اپنے اعزازات اور مفادات ہی سے نہیں، اپنی جان تک سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ مگر یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی اس نے محض اللہ کے بھروسے پر اپنا وہ فرض انجام دے دیا جسے اس نازک موقع پر اس کے ضمیر نے اس کا فرض سمجھا تھا۔

61. اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص فرعون کی سلطنت میں اتنی اہم شخصیت کا مالک تھا کہ بھرے دربار میں فرعون کے رو در رو یہ حق گوئی کر جانے کے باوجود علانیہ اس کو سزا دینے کی جرأت نہ کی جا سکتی تھی، اس وجہ سے فرعون اور اس کے حامیوں کو اسے ہلاک کرنے کے لیے خفیہ تدبیریں کرنی پڑیں، مگر ان تدبیروں کو بھی اللہ نے نہ چلنے دیا۔

62. اس طرز بیان سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ مومن آل فرعون کی حق گوئی کا یہ واقعہ حضرت موسیٰ اور فرعون کی کشمکش کے بالکل آخری زمانے میں پیش آیا تھا۔ غالباً اس طویل کشمکش سے دل برداشتہ ہو کر آخر کار فرعون نے حضرت موسیٰ کو قتل کر دینے کا ارادہ کیا ہو گا۔ مگر اپنی سلطنت کے اس با اثر شخص کی حق گوئی سے اس کو یہ خطرہ لاحق ہو گیا ہو گا کہ موسیٰ علیہ السلام کے اثرات حکومت کے بالا ئی طبقوں تک میں پہنچ گئے ہیں۔ اس لیے اس نے فیصلہ کیا ہو گا کہ حضرت موسیٰ کے خلاف یہ انتہائی اقدام کرنے سے پہلے ان عناصر کا پتہ چلایا جائے جو سلطنت کے امراء اور اعلیٰ عہدہ داروں میں اس تحریک سے متأثر ہو چکے ہیں، اور ان کی سرکوبی کر لینے کے بعد حضرت موسیٰ پر ہاتھ ڈالا جائے۔ لیکن ابھی وہ ان تدبیروں میں لگا ہی ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کو ہجرت کا حکم دے دیا، اور ان کا پیچھا کرتے ہوئے فرعون اپنے لشکروں سمیت غرقاب ہو گیا۔

63. یہ آیت اس عذاب برزخ کا صریح ثبوت ہے جس کا ذکر بکثرت احادیث میں عذاب قبر کے عنوان سے آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ یہاں صاف الفاظ میں عذاب کے دو مرحلوں کا ذکر فرما رہا ہے، ایک کم تر درجے کا عذاب جو قیامت کے آنے سے پہلے فرعون اور آل فرعون کو اب دیا جا رہا ہے، اور وہ یہ ہے کہ انہیں صبح و شام دوزخ کی آگ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جسے دیکھ کر وہ ہر وقت ہول کھاتے رہتے ہیں کہ یہ ہے وہ دوزخ جس میں آخر کار ہمیں جانا ہے۔ اس کے بعد جب قیامت آ جائے گی تو انہیں وہ اصلی اور بڑی سزا دی جائے گی جو ان کے لیے مقدر ہے، یعنی وہ اسی دوزخ میں جھونک دیے جائیں گے جس کا نظارہ انہیں غرقاب ہو جانے کے وقت سے آج تک کرایا جا رہا ہے اور قیامت کی گھڑی تک کرایا جاتا رہے گا۔ اور یہ معاملہ صرف فرعون و آل فرعون کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے۔ تمام مجرموں کو موت کی ساعت سے لے کر قیامت تک وہ انجام بد نظر آتا رہتا ہے جو ان کا انتظار کر رہا ہے، اور تمام نیک لوگوں کو اس انجام نیک کی حسین تصویر دکھائی جاتی رہتی ہے جو اللہ نے ان کے لیے مہیا کر رکھا ہے۔ بخاری، مسلم اور مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا ’’ان احد کم اذا مات عرض علیہ مقعدہ بالغداۃ و العشی، ان کان من اھل الجنۃ فمن اھل الجنۃ، وان کان من اھل النار فمن اھل النار، فیقال ھٰذا مقعدک حتیٰ یبعثک اللہ عزوجل الیہ یوم القیٰمۃ‘‘ تم میں سے جو شخص بھی مرتا ہے اسے صبح و شام اس کی آخری قیام گاہ دکھائی جاتی رہتی ہے، خواہ وہ جنتی ہو یا دوزخی۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں تو اس وقت جائے گا جب اللہ تجھے قیامت کے روز دوبارہ اٹھا کر اپنے حضور بلائے گا۔‘‘(مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القران جلد اول، النساء آیت 97،الانعام آیت، 93-94۔ جلد دوم،الانفال 50،النحل 28،32، ۔ جلد سوم، المؤمنون 99-100۔ جلد چہارم، سورہ یٰسٓ،26-27 مع حاشیہ 22۔23،جلد پنجم، محمد 27،مع حاشیہ،37)

64. یہ بات وہ اس امید پر نہیں کہیں گے کہ ہمارے یہ سابق پیشوا یا حاکم یا رہنما فی الواقع ہمیں عذاب سے بچا سکیں گے یا اس میں کچھ کمی کرا دیں گے۔ اس وقت تو ان پر یہ حقیقت کھل چکی ہو گی کہ یہ لوگ یہاں ہمارے کسی کام آنے والے نہیں ہیں۔ مگر وہ انہیں ذلیل کرنے کے لیے ان سے کہیں گے کہ دنیا میں تو حضور بڑے طنطنے سے اپنی سرداری ہم پر چلاتے تھے، اب یہاں اس آفت سے بھی تو ہمیں بچایئے جو آپ ہی کی بدولت ہم پر آئی ہے۔

65. یعنی ہم اور تم، دونوں ہی سزا یافتہ ہیں، اور اللہ کی عدالت سے جس کو جو سزا ملنی تھی مل چکی ہے۔ اس کے فیصلے کو بدلنا، یا اس کی دی ہوئی سزا میں کمی بیشی کر دینا اب کسی کے اختیار میں نہیں ہے۔

66. یعنی جب واقعہ یہ ہے کہ رسول تمہارے پاس بینات لے کر آ چکے تھے اور تم اس بنا پر سزا پاکر یہاں آئے ہو کہ تم نے ان کی بات ماننے سے انکار(کفر)کر دیا تھا، تو اب ہمارے لیے تمہارے حق میں اللہ تعالیٰ سے کوئی دعا کرنا کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے، کیونکہ ایسی دعا کے لیے کوئی نہ کوئی عذر تو ہونا چاہیے، اور تم اپنی طرف سے ہر معذرت کی گنجائش پہلے ہی ختم کر چکے ہو۔ اس حالت میں تم خود دعا کرنا چاہو تو کر دیکھو۔ مگر ہم یہ پہلے ہی تمہیں بتائے دیتے ہیں کہ تمہاری طرح کفر کر کے جو لوگ یہاں آئے ہیں ان کی دعا بالکل لا حاصل ہے۔