67. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، الصافّات، حاشیہ نمبر 93۔
68. یعنی جب اللہ کی عدالت قائم ہو گی اور اس کے حضور گواہ پیش کیے جائیں گے۔
69. یعنی موسیٰ کو ہم نے فرعون کے مقابلے پر بھیج کر بس یونہی ان کے حال پر نہیں چھوڑ دیا تھا، بلکہ قدم قدم پر ہم ان کی رہنمائی کرتے رہے یہاں تک کی انہیں کامیابی کی منزل تک پہنچا دیا۔ اس ارشاد میں ایک لطیف اشارہ اس مضمون کی طرف ہے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم )، ایسا ہی معاملہ ہم تمہارے ساتھ بھی کریں گے۔ تم کو بھی مکے کے شہر اور قریش کے قبیلے میں نبوت کے لیے اٹھا دینے کے بعد ہم نے تمہارے حال پر نہیں چھوڑ دیا ہے کہ یہ ظالم تمہارے ساتھ جو سلوک چاہیں کریں، بلکہ خود تمہاری پشت پر موجود ہیں اور تمہاری رہنمائی کر رہے ہیں۔
70. یعنی جس طرح موسیٰ کا انکار کرنے والے اس نعمت و برکت سے محروم رہ گئے اور ان پر ایمان لانے والے بنی اسرائیل ہی کتاب کے وارث بنائے گئے، اسی طرح اب جو لوگ تمہارا انکار کریں گے وہ محروم ہو جائیں گے اور تم پر ایمان لانے والوں ہی کو یہ سعادت نصیب ہو گی کہ قرآن کے وارث ہوں اور دنیا میں ہدایت کے علمبردار بن کر اٹھیں۔
71. یعنی جو حالات تمہارے ساتھ پیش آ رہے ہیں ان کو ٹھنڈے دل سے برداشت کرتے چلے جاؤ۔
72. اشارہ ہے اس وعدے کی طرف جو ابھی ابھی اوپر کے اس فقرے میں کیا گیا تھا کہ ’’ ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی مدد اس دنیا کی زندگی میں بھی لازماً کرتے ہیں ‘‘۔
73. جس سیاق و سباق میں یہ بات ارشاد ہوئی ہے اس پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس مقام پر ’’ قصور‘‘ سے مراد بے صبری کی وہ کیفیت ہے جو شدید مخالفت کے اس ماحول میں خصوصیت کے ساتھ اپنے ساتھیوں کی مظلومی دیکھ دیکھ کر، نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اندر پیدا ہو رہی تھی۔ آپ چاہتے تھے کہ جلدی سے کوئی معجزہ ایسا دکھا دیا جائے جس سے کفار قائل ہو جائیں، یا اللہ کی طرف سے اور کوئی ایسی بات جلدی ظہور میں آ جائے جس سے مخالفت کا یہ طوفان ٹھنڈا ہو جائے۔ یہ خواہش بجائے خود کوئی گناہ نہ تھی جس پر کسی توبہ و استغفار کی حاجت ہوتی، لیکن جس مقام بلند پر اللہ تعالیٰ نے حضور کو سرفراز فرمایا تھا اور جس زبردست اولوالعزمی کا وہ مقام مقتقضی تھا، اس کے لحاظ سے یہ ذرا سی بے صبری بھی اللہ تعالیٰ کو آپ کے مرتبے سے فرو تر نظر آئی، اس لیے ارشاد ہوا کہ اس کمزوری پر اپنے رب سے معافی مانگو اور چٹان کی سی مضبوطی کے ساتھ اپنے موقف پر قائم ہو جاؤ جیسا کہ تم جیسے عظیم المرتبت آدمی کو ہونا چاہیے۔
74. یعنی یہ حمد و تسبیح ہی وہ ذریعہ ہے جس سے اللہ کے لیے کام کرنے والوں کو اللہ کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کا مقابلہ کرنے کی طاقت حاصل ہوتی ہے۔ صبح و شام حمد و تسبیح کرنے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ دائماً اللہ کو یاد کرتے رہو۔ دوسرے یہ کہ ان مخصوص اوقات میں نماز ادا کرو۔ اور یہ دوسرے معنی لینے کی صورت میں اشارہ نماز کے ان پانچوں اوقات کی طرف ہے جو اس سورت کے نزول کے کچھ مدت بعد تمام اہل ایمان پر فرض کر دیے گئے۔ اس لیے کہ عَشِی کا لفظ عربی زبان میں زوال آفتاب سے لے کر رات کے ابتدائی حصے تک کے لیے بولا جاتا ہے جس میں ظہر سے عشاء تک کی چاروں نمازیں آ جاتی ہیں۔ اور اِبکار صبح کی پو پھٹنے سے طلوع آفتاب تک کے وقت کو کہتے ہیں جو نماز فجر کا وقت ہے (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، البقرۃ حواشی،5،59،60،263،جلد دوم ہود حاشیہ 113،الحجر حاشیہ 53،بنی اسرائیل دیباچہ،حواشی 1،91تا98،جلد سوم طہ حاشیہ111،النور حواشی 84تا89،العنکبوت، حواشی76تا79،الروم، حواشی 24تا50)
75. یعنی ان لوگوں کی بے دلیل مخالفت اور ان کی غیر معقول کج بحثیوں کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ اللہ کی آیات میں جو سچائیاں اور خیر و صلاح کی باتیں ان کے سامنے پیش کی جا رہی ہیں وہ ان کی سمجھ میں نہیں آتیں اس لیے یہ نیک نیتی کے ساتھ ان کو سمجھنے کی خاطر بحثیں کرتے ہیں، بلکہ ان کے اس رویہ کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان کا غرور نفس یہ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ ان کے ہوتے عرب میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشوائی و رہنمائی تسلیم کر لی جائے اور بالآخر ایک روز انہیں خود بھی اس شخص کی قیادت ماننی پڑے جس کے مقابلے میں یہ اپنے آپ کو سرداری کا زیادہ حقدار سمجھتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بات کسی طرح نہ چلنے پائے، اور اس مقصد کے لیے انہیں کوئی ذلیل سے ذلیل حربہ استعمال کرنے میں بھی کوئی تامّل نہیں ہے۔
76. دوسرے الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ جس کو اللہ نے بڑا بنایا ہے وہی بڑا بن کر رہے گا، اور یہ چھوٹے لوگ اپنی بڑائی قائم رکھنے کی جو کوششیں کر رہے ہیں وہ سب آخر کار ناکام ہو جائیں گی۔
77. یعنی جس طرح فرعون کی دھمکیوں کے مقابلے میں اللہ واحدِ قہار کی پناہ مانگ کر موسیٰ بے فکر ہو گئے تھے، اسی طرح سرداران قریش کی دھمکیوں اور سازشوں کے مقابلے میں تم بھی اس کی پناہ لے لو اور پھر بے فکر ہو کر اس کا کلمہ بلند کرنے میں لگ جاؤ۔
78. اوپر کے ساڑھے تین رکوعوں میں سرداران قریش کی سازشوں پر تبصرہ کرنے کے بعد اب یہاں سے خطاب کا رخ عوام کی طرف پھر رہا ہے اور ان کو یہ سمجھایا جا رہا ہے کہ جن حقائق کو ماننے کی دعوت محمد صلی اللہ علیہ و سلم تم کو دے رہے ہیں وہ سراسر معقول ہیں، ان کو مان لینے ہی میں تمہاری بھلائی ہے اور نہ ماننا تمہارے اپنے لیے تباہ کن ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے آخرت کے عقیدے کو لے کر اس پر دلائل دیے گئے ہیں، کیونکہ کفار کو سب سے زیادہ اچنبھا اسی عقیدے پر تھا اور اسے وہ بعید از فہم خیال کرتے تھے۔
79. یہ امکان آخرت کی دلیل ہے۔ کفار کا خیال تھا کہ مرنے کے بعد انسان کا دوبارہ جی اٹھنا غیر ممکن ہے۔ اس کے جواب میں ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ جو لوگ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں وہ در حقیقت نادان ہیں۔ اگر عقل سے کام لیں تو ان کے لیے یہ سمجھنا کچھ بھی مشکل نہ ہو کہ جس خدا نے یہ عظیم الشان کائنات بنائی ہے اس کے لیے انسانوں کو دوبارہ پیدا کر دینا کوئی دشوار کام نہیں ہو سکتا۔
80. یہ وجوب آخرت کی دلیل ہے۔ اوپر کے فقرے میں بتایا گیا تھا کہ آخرت ہو سکتی ہے، اس کا ہونا غیر ممکن نہیں ہے۔ اور اس فقرے میں بتایا جا رہا ہے کہ آخرت ہونی چاہیے، عقل اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ہو، اور اس کا ہونا نہیں بلکہ نہ ہونا خلاف عقل و انصاف ہے۔ آخر کوئی معقول آدمی اس بات کو کیسے درست مان سکتا ہے کہ جو لوگ دنیا میں اندھوں کی طرح جیتے ہیں اور اپنے برے اخلاق و اعمال سے خدا کی زمین کو فساد سے بھر دیتے ہیں وہ اپنی اس غلط روش کا کوئی برا انجام نہ دیکھیں، اور اسی طرح وہ لوگ بھی جو دنیا میں آنکھیں کھول کر چلتے ہیں اور ایمان لا کر نیک عمل کرتے ہیں اپنی اس اچھی کار کردگی کا کوئی اچھا نتیجہ دیکھنے سے محروم رہ جائیں؟ یہ بات اگر صریحاً خلاف عقل و انصاف ہے تو پھر یقیناً انکار آخرت کا عقیدہ بھی عقل و انصاف کے خلاف ہی ہونا چاہیے، کیونکہ آخرت نہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ نیک و بد دونوں آخر کار مر کر مٹی ہو جائیں اور ایک ہی انجام سے دوچار ہوں۔ اس صورت میں صرف عقل و انصاف ہی کا خون نہیں ہوتا بلکہ خلاق کی بھی جڑ کٹ جاتی ہے۔ اس لیے کہ اگر نیکی اور بدی کا انجام یکساں ہے تو پھر بد بڑا عقل مند ہے کہ مرنے سے پہلے اپنے دل کے سارے ارمان نکال گیا اور نیک سخت بے وقوف ہے کہ خواہ مخواہ اپنے اوپر طرح طرح کی اخلاقی پابندیاں عائد کیے رہا۔
81. یہ وقوع آخرت کا قطعی حکم ہے جو استدلال کی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف علم ہی کی بنا پر لگایا جا سکتا ہے، اور کلام وحی کے سوا کسی دوسرے کلام میں یہ بات اس قطعیت کے ساتھ بیان نہیں ہو سکتی۔ وحی کے بغیر محض عقلی استدلال سے جو کچھ کہا جا سکتا ہے وہ بس اسی قدر ہے کہ آخرت ہو سکتی ہے، اور اس کو ہونا چاہیے۔ اس سے آگے بڑھ کر یہ کہنا کہ آخرت یقیناً ہو گی اور ہو کر رہے گی، یہ صرف اس ہستی کے کہنے کی بات ہے جسے معلوم ہے کہ آخرت ہو گی، اور وہ ہستی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قیاس و استدلال کے بجائے خالص علم پر دین کی بنیاد اگر قائم ہو سکتی ہے تو وہ صرف وحی الہیٰ کے ذریعہ ہی سے ہو سکتی ہے۔
82. آخرت کے بعد اب توحید پر کلام شروع ہو رہا ہے جو کفار اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے درمیان دوسرے بنائے نزاع تھی۔
83. یعنی دعائیں قبول کرنے اور نہ کرنے کے جملہ اختیارات میرے پاس ہیں، لہٰذا تم دوسروں سے دعائیں نہ مانگو بلکہ مجھ سے مانگو۔ اس آیت کی روح کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے تین باتیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہییں :
اول یہ کہ دعا آدمی صرف اس ہستی سے مانگتا ہے جس کو وہ سمیع و بصیر اور فوق الفطری اقتدار (Supernatural powers)کا مالک سمجھتا ہے، اور دعا مانگنے کا محرک دراصل آدمی کا یہ اندرونی احساس ہوتا ہے کہ عالم اسباب کے تحت فطری ذرائع و وسائل اس کی کسی تکلیف کو رفع کرنے یا کسی حاجت کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں یا کافی ثابت نہیں ہو رہے ہیں، اس لیے کسی فوق الفطری اقتدار کی مالک ہستی سے رجوع کرنا نا گزیر ہے۔ اس ہستی کو آدمی بے دیکھے پکارتا ہے۔ہر وقت ہر جگہ ہر حال میں پکارتا ہے۔خلوت کی تنہائیوں میں پکارتا ہے۔ بآواز بلند ہی نہیں، چپکے چپکے بھی پکارتا ہے، بلکہ دل ہی دل میں اس سے مدد کی التجائیں کرتا ہے۔ یہ سب کچھ لازماً اس عقیدے کی بنا پر ہوتا ہے کہ وہ ہستی اس کو ہر جگہ ہر حال میں دیکھ رہی ہے۔ اس کے دل کی بات بھی سن رہی ہے۔ اور اس کو ایسی قدرت مطلقہ حاصل ہے کہ اسے پکارنے والا جہاں بھی ہو وہ اس کی مدد کو پہنچ سکتی ہے اور اس کی بگڑی بنا سکتی ہے۔ دعا کی اس حقیقت کو جان لینے کے بعد یہ سمجھنا آدمی کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں رہتا کہ جو شخص اللہ کے سوا کسی اور ہستی کو مدد کے لیے پکارتا ہے وہ در حقیقت قطعی اور خالص اور صریح شرک کا ارتکاب کرتا ہے، کیونکہ وہ اس ہستی کے اندر ان صفات کا اعتقاد رکھتا ہے جو صرف اللہ تعالیٰ ہی کی صفات ہیں۔ اگر وہ اس کو ان خدائی صفات میں اللہ کا شریک نہ سمجھتا تو اس سے دعا مانگنے کا تصور تک کبھی اس کے ذہن میں نہ آ سکتا تھا۔
دوسری بات جو اس سلسلے میں اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ کسی ہستی کے متعلق آدمی کا اپنی جگہ یہ سمجھ بیٹھنا کہ وہ اختیارات کی مالک ہے، اس سے یہ لازم نہیں آ جاتا کہ وہ فی الواقع مالک اختیارات ہو جائے۔ مالک اختیارات ہونا تو ایک امر واقعی ہے جو کسی کے سمجھنے یا نہ سمجھنے پر موقوف نہیں ہے۔ جو در حقیقت اختیارات کا مالک ہے وہ بہر حال مالک ہی رہے گا، خواہ آپ اسے مالک سمجھیں یا نہ سمجھیں۔ اور جو حقیقت میں مالک نہیں ہے، اس کو محض یہ بات کہ آپ نے اسے مالک سمجھ لیا ہے، اختیارات میں ذرہ برابر بھی کوئی حصّہ نہ دلوا سکے گی۔ اب یہ بات ایک امر واقعی ہے کہ قادر مطلق اور مدبر کائنات اور سمیع و بصیر ہستی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہے اور وہی کُلی طور پر اختیارات کا مالک ہے۔ دوسری کوئی ہستی بھی اس پوری کائنات میں ایسی نہیں ہے جو دعائیں سننے اور ان پر قبولیت یا عدم قبولیت کی صورت میں کوئی کار روائی کرنے کے اختیارات رکھتی ہو۔اس امر واقعی کے خلاف اگر لوگ اپنی جگہ کچھ انبیاء اور اولیاء اور فرشتوں اور جِنوں اور سیاروں اور فرضی دیوتاؤں کو اختیارات میں شریک سمجھ بیٹھیں تو اس سے حقیقت میں ذرہ برابر بھی کوئی فرق رو نما نہ ہو گا۔ مالک مالک ہی رہے گا اور بے اختیار بندے، بندے ہی رہیں گے۔
تیسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں سے دعا مانگنا بالکل ایسا ہے جیسے کوئی شخص درخواست لکھ کر ایوان حکومت کی طرف جائے مگر اصل حاکم ذی اختیار کو چھوڑ کر وہاں جو دوسرے سائلین اپنی حاجتیں لیے بیٹھے ہوں انہی میں سے کسی ایک کے آگے اپنی درخواست پیش کر دے اور پھر ہاتھ جوڑ جوڑ کر اس سے التجائیں کرتا چلا جائے کہ حضور ہی سب کچھ ہیں، آپ ہی کا یہاں حکم چلتا ہے، میری مراد آپ ہی بر لائیں گے تو بر آئے گی۔ یہ حرکت اول تو بجائے خود سخت حماقت و جہالت ہے لیکن ایسی حالت میں یہ انتہائی گستاخی بھی بن جاتی ہے جبکہ اصل حاکم ذی اختیار سامنے موجود ہو اور عین اس کی موجود گی میں اسے چھوڑ کر کسی دوسرے کے سامنے درخواستیں اور التجائیں پیش کی جا رہی ہوں۔ پھر یہ جہالت اپنے کمال پر اس وقت پہنچ جاتی ہے جب وہ شخص جس کے سامنے درخواست پیش کی جا رہی ہو خود بار بار اس کو سمجھائے کہ میں تو خود تیری ہی طرح کا ایک سائل ہوں، میرے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے، اصل حاکم سامنے موجود ہیں، تو ان کی سرکار میں اپنی درخواست پیش کر، مگر اس کے سمجھانے اور منع کرنے کے باوجود یہ احمق کہتا ہی چلا جائے کہ میرے سرکار تو آپ ہیں، میرا کام آپ ہی بنائیں گے تو بنے گا۔
ان تین باتوں کو ذہن میں رکھ کر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ مجھے پکارو، تمہاری دعاؤں کا جواب دینے والا میں ہوں، انہیں قبول کرنا میرا کام ہے۔
84. اس آیت میں دو باتیں خاص طور پر قابل توجہ ہیں۔ ایک یہ کہ دعا اور عبادت کو یہاں مترادف الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ دعائیں عبادت اور جانِ عبادت ہے۔ دوسرے یہ کہ اللہ سے دعا نہ مانگنے والوں کے لیے ’’گھمنڈ میں آ کر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں ‘‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ سے دعا مانگنا عین تقاضائے بندگی ہے، اور اس سے منہ موڑنے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی تکبر میں مبتلا ہے اس لیے اپنے خالق و مالک کے آگے اعتراف عبودیت کرنے سے کتراتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ارشادات میں آیت کے ان دونوں مضامین کو کھول کر بیان فرما دیا ہے۔ حضرت نعمان بن بشیر کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا انْ الدعاء ھوا لعبادۃ ثم قرأ ادعونی استجب لکم۔ ..... یعنی دعا عین عبادت ہے، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی(احمد، ترمذی، ابو داؤد و، نسائی، ابن ماجہ،ابن ابی حاتم، ابن جریر)۔ حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا الدعاء مخ العبادۃ، ’’ دعا مغز عبادت ہے ‘‘ (ترمذی)۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ حضورؐ نے ارشاد فرمایا من لم یسأل اللہ یغضب علیہ، ’’ جو اللہ سے نہیں مانگتا اللہ اس پر غضبناک ہوتا ہے۔‘‘ (ترمذی)
اس مقام پر پہنچ کر وہ عقدہ بھی حل ہو جاتا ہے جو بہت سے ذہنوں میں اکثر الجھن ڈالتا رہتا ہے۔ لوگ دعا کے معاملے پر اس طرح سوچتے ہیں کہ جب تقدیر کی برائی اور بھلائی اللہ کے اختیار میں ہے اور وہ اپنی غالب حکمت و مصلحت کے لحاظ سے جو فیصلہ کر چکا ہے وہی کچھ لازماً رونما ہو کر رہنا ہے تو پھر ہمارے دعا مانگنے کا حاصل کیا ہے۔ یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے جو آدمی کے دل سے دعا کی ساری اہمیت نکال دیتی ہے، اور اس باطل خیال میں مبتلا رہتے ہوئے اگر آدمی دعا مانگے بھی تو اس کی دعا میں کوئی روح باقی نہیں رہتی۔ قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیت اس غلط فہمی کو دو طریقوں سے رفع کرتی ہے۔ اولاً، اللہ تعالیٰ بالفاظ صریح فرما رہا ہے کہ ’’ مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا‘‘ اس سے صاف معلوم ہوا کہ قضا اور تقدیر کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس نے ہماری طرح معاذاللہ، خود اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بھی باندھ دیے ہوں اور دعا قبول کرنے کے اختیارات اس سے سلب ہوگئے ہوں۔ بندے تو بلا شبہ اللہ کے فیصلوں کو ٹالنے یا بدل دینے کی طاقت نہیں رکھتے، مگر اللہ تعالیٰ خود یہ طاقت ضرور رکھتا ہے کہ کسی بندے کی دعائیں اور التجائیں سن کر اپنا فیصلہ بدل دے۔ دوسری بات جو اس آیت میں بیان کی گئ ہے وہ یہ ہے کہ دعا خواہ قبول ہو یا نہ ہو، بہر حال ایک فائدے اور بہت بڑے فائدے سے وہ کسی صورت میں بھی خالی نہیں ہوتی، اور وہ یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کے سامنے اپنی حاجتیں پیش کر کے اور اس سے دعا مانگ کر اس کی آقائی و بالا دستی کا اعتراف اور اپنی بندگی و عاجزی کا اقرار کرتا ہے۔ یہ اظہار عبودیت بجائے خود عبادت، بلکہ جان عبادت ہے جس کے اجر سے بندہ کسی حال میں بھی محروم نہ رہے گا قطع نظر اس سے کہ وہ خاص چیز اس کو عطا کی جائے یا نہ کی جائے جس کے لیے اس نے دعا کی تھی۔
نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات میں ان دونوں مضامین کی بھی پوری وضاحت ہمیں مل جاتی ہے۔ پہلے مضمون پر حسب ذیل احادیث روشنی ڈالتی ہیں :
حضرت سلمان فارسی کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : لا یرد و القضاءَ الاالدعاء(ترمذی)۔’’قضا کو کوئی چیز نہیں ٹال سکتی مگر دعا۔‘‘ یعنی اللہ کے فیصلے کو بدل دینے کی طاقت کسی میں نہیں ہے، مگر اللہ خود اپنا فیصلہ بد ل سکتا ہے، اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب بندہ اس سے دعا مانگتا ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ما من احدید عو بدعاءٍ الّا اٰتا ہ اللہ ماسأل اوکف عنہ من السوء مثلہ مالم یدع باثمٍ او قطیعۃ رحمٍ (ترمذی)۔’’ آدمی جب کبھی اللہ سے دعا مانگتا ہے، اللہ اسے یاتو وہی چیز دیتا ہے جس کی اس نے دعا کی تھی یا اسی درجے کی کوئی بلا اس پر آنے سے روک دیتا ہے، بشرطیکہ وہ کسی گناہ کی یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے ‘‘۔ اسی سے ملتا جلتا مضمون ایک دوسری حدیث میں ہے جو حضرت ابو سعید خدریؓ نے حضورؐ سے روایت کی ہے۔ اس میں آپ کا ارشاد یہ ہے کہ مامن مسلم یدعوبدعوۃٍ لیس فیھا اثم ولا قطیعۃ رحمٍ الا اعطاہ اللہ احدیٰ ثلٰث، اما ان یعجل لہ، و اما ان یَدَّ خِر ھا لہٗ فی الاٰخرۃ واما ان یصرف عنہ من السوء مثلھا (مسند احمد ) ’’ ایک مسلمان جب بھی کوئی دعا مانگتا ہے، بشرطیکہ وہ کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ ہو، تو اللہ تعالیٰ اسے تین صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں قبول فرماتا ہے۔ یا تو اس کی وہ دعا اسی دنیا میں قبول کر لی جاتی ہے۔ یا اسے آخرت میں اجر دینے کے لیے محفوظ رکھ لیا جاتا ہے۔ یا اسی درجہ کی کسی آفت کو اس پر آنے سے روک دیا جاتا ہے۔‘‘
حضرت ابو ہریرہؓ کا بیان ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : اذا دعا احد کم فلا یقل اللھم اغفرلی ان شئت، ارحمنی ان شئت، ارزقنی ان شئت، وَلْیَعْزِم مسئلتہٗ (بخاری)۔’’جب تم میں سے کوئی شخص دعا مانگے تو یوں نہ کہے کہ خدایا مجھے بخش دے اگر تو چاہے، مجھ پر رحم کر اگر تو چاہے، مجھے رزق دے اگر تو چاہے، بلکہ اسے قطعیت کے ساتھ کہنا چاہیے کہ خدایا میری فلاں حاجت پوری کر‘‘۔ دوسری روایت حضرت ابو ہریرہؓ ہی سے ان الفاظ میں آئی ہے کہ آپ نے فرمایا ادعواللہ وانتم موقنون بالاجابۃ (ترمذی)’’ اللہ سے دعا مانگو اس یقین کے ساتھ کہ وہ قبول فرمائے گا۔‘‘
ایک اور روایت میں حضرت ابوہریرہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ : یستجاب للعبد مالم یدعُ با ثم او قطیعۃ رحم مالم یستعجل، قیل یارسول اللہ ما الا ستعجال؟ قال یقول قد دعوت وقد دعوت فلم اَرَیُستجاب لی فیستحسر عند ذٰلک وید ع الدعاْ(مسلم)۔‘‘ بندے کی دعا قبول کی جاتی ہے بشرطیکہ وہ کسی گناہ کی یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے، اور جلد بازی سے کام نہ لے۔ عرض کیا گیا جلد بازی کیا ہے یا رسول اللہ؟ فرمایا جلد بازی یہ ہے کہ آدمی کہے میں نے بہت دعا کی، مگر میں دیکھتا ہوں کہ میری دعا قبول نہیں ہوتی، اور یہ کہہ کر آدمی تھک جائے اور دعا مانگنی چھوڑ دے۔‘‘
دوسرے مضمون کو حسب ذیل احادیث واضح کرتی ہیں :
حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا لیس شئ اکرم علی اللہ من الدعاء (ترمذی۔ ابن ماجہ ) ’’ اللہ کی نگاہ میں دعا سے بڑھ کر کوئی چیز با وقعت نہیں ہے ‘‘۔
حضرت ابن مسعودؓ کی روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا : سلوااللہ من فضلہ فان اللہ یحبّ ان یسأ ل (ترمذی)۔ ’’ اللہ سے اس کا فضل مانگو کیونکہ اللہ اسے پسند فرماتا ہے کہ اس سے مانگا جائے۔’’
حضرت ابن عمر اور حضرت مُعاذ بن جَبَل کا بیان ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: ان الدعاء ینفع ممّا نزل و ممّا لم ینزل فعلیکم عباداللہ بالدعاء (ترمذی۔ مسند احمد ) ’’ دعا بہر حال نافع ہے ان بلاؤں کے معاملے میں بھی جو نازل ہو چکی ہیں اور انکے معاملے میں بھی جو نازل نہیں ہوئیں۔ پس اے بندگان خدا تم ضرور دعا مانگا کرو‘‘۔
حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ حضورؐ نے ارشاد فرمایا : یسأ ل احد کم ربہ حاجتہٗ کلّہ حتیٰ یسأ ل شسع بعلہٖ اذا انقطع (ترمذی) ’’ تم میں سے ہر شخص کو اپنی حاجت خدا سے مانگنی چاہیے، حتیٰ کہ اگر اس کی جوتی کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے تو خدا سے دعا کرے۔‘‘ یعنی جو معاملات بظاہر آدمی کو اپنے اختیار میں محسوس ہوتے ہیں ان میں بھی تدبیر کرنے سے پہلے اسے خدا سے مدد مانگنی چاہیے، اس لیے کہ کسی معاملے میں بھی ہماری کوئی تدبیر خدا کی توفیق و تائید کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی، اور تدبیر سے پہلے دعا کے معنی یہ ہیں کہ بندہ ہر وقت اپنی عاجزی اور خدا کی بالا دستی کا اعتراف کر رہا ہے۔