Tafheem ul Quran

Surah 40 Ghafir, Ayat 61-68

اَللّٰهُ الَّذِىۡ جَعَلَ لَـكُمُ الَّيۡلَ لِتَسۡكُنُوۡا فِيۡهِ وَالنَّهَارَ مُبۡصِرًا ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوۡ فَضۡلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰـكِنَّ اَكۡثَرَ النَّاسِ لَا يَشۡكُرُوۡنَ‏ ﴿40:61﴾ ذٰ لِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمۡ خَالِقُ كُلِّ شَىۡءٍ​ ۘ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ​ۚ  فَاَ نّٰى تُؤۡفَكُوۡنَ‏ ﴿40:62﴾ كَذٰلِكَ يُؤۡفَكُ الَّذِيۡنَ كَانُوۡا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ يَجۡحَدُوۡنَ‏  ﴿40:63﴾ اَللّٰهُ الَّذِىۡ جَعَلَ لَـكُمُ الۡاَرۡضَ قَرَارًا وَّالسَّمَآءَ بِنَآءً وَّصَوَّرَكُمۡ فَاَحۡسَنَ صُوَرَكُمۡ وَرَزَقَكُمۡ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ ؕ ذٰ لِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمۡ ​ ۖۚ فَتَبٰـرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الۡعٰلَمِيۡنَ‏ ﴿40:64﴾ هُوَ الۡحَىُّ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ فَادۡعُوۡهُ مُخۡلِصِيۡنَ لَهُ الدِّيۡنَؕ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰهِ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَ‏ ﴿40:65﴾ قُلۡ اِنِّىۡ نُهِيۡتُ اَنۡ اَعۡبُدَ الَّذِيۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ لَمَّا جَآءَنِىَ الۡبَيِّنٰتُ مِنۡ رَّبِّىۡ وَاُمِرۡتُ اَنۡ اُسۡلِمَ لِرَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَ‏  ﴿40:66﴾ هُوَ الَّذِىۡ خَلَقَكُمۡ مِّنۡ تُرَابٍ ثُمَّ مِنۡ نُّطۡفَةٍ ثُمَّ مِنۡ عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخۡرِجُكُمۡ طِفۡلًا ثُمَّ لِتَبۡلُغُوۡۤا اَشُدَّكُمۡ ثُمَّ لِتَكُوۡنُوۡا شُيُوۡخًا ؕ وَمِنۡكُمۡ مَّنۡ يُّتَوَفّٰى مِنۡ قَبۡلُ وَلِتَبۡلُغُوۡۤا اَجَلًا مُّسَمًّى وَّلَعَلَّكُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ‏ ﴿40:67﴾ هُوَ الَّذِىۡ يُحۡىٖ وَيُمِيۡتُؕ فَاِذَا قَضٰٓى اَمۡرًا فَاِنَّمَا يَقُوۡلُ لَهٗ كُنۡ فَيَكُوۡنُ‏ ﴿40:68﴾

61 - وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرو، اور دن کو روشن کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے مگر اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔ 85 62 - وہی اللہ (جس نے تمہارے لیے یہ کچھ کیا ہے)تمہارا ربّ ہے ۔ ہر چیز کا خالق۔ اس کے سوا کوئی معبُود نہیں ہے۔ 86پھر تم کدھر سے بہکائے جارہے ہو؟87 63 - اِسی طرح وہ سب لوگ بہکائے جاتے رہے ہیں جو اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے۔88 64 - وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو جائے قرار بنایا، 89اور اُوپر آسمان کا گُنبد بنا دیا۔90 جس نے تمہاری صُورت بنائی اور بڑی ہی عمدہ بنائی ۔ جس نے تمہیں پاکیزہ چیزوں کا رزق دیا۔91 وہی اللہ ( جس کے یہ کام ہیں)تمہارا ربّ ہے۔ بے حساب برکتوں والا ہے وہ کائنات کا ربّ۔ 65 - وہی زندہ ہے۔92 اُس کے سوا کوئی معبُود نہیں۔ اُسی کو تم پکارو اپنے دین کو اس کے لیے خالص 93کر کے۔ ساری تعریف اللہ ربّ العالمین ہے کے لیے ہے۔94 66 - اے نبیؐ، اِن لوگوں سے کہہ دو کہ مجھے تو اُن ہستیوں کی عبادت سے منع کر دیا گیا ہے جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو۔95 (میں یہ کام کیسے کر سکتا ہوں)جبکہ میرے پاس میرے ربّ کی طرف سے بیّنات آچکی ہیں۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ربّ العالمین کے آگے سرِ تسلیم خم کر دوں۔ 67 - وہی تو ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا،پھر نطفے سے، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر وہ تمہیں بچے کی شکل میں نکالتا ہے، پھر تمہیں بڑھاتا ہے تاکہ تم اپنی پوری طاقت کو پہنچ جاوٴ، پھر اور بڑھاتا ہے تاکہ تم بُڑھاپے کو پہنچو۔ اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بُلا لیا جاتا ہے۔96 یہ سب کچھ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ تم اپنے مقرر وقت تک پہنچ جاوٴ،97 اور اس لیے تم حقیقت کو سمجھو۔ 98 68 - وہی ہے زندگی دینے والا، اور وہی موت دینے والا ہے۔ وہ جس بات کا بھی فیصلہ کرتا ہے، بس ایک حکم دیتا ہے کہ وہ ہو جائے اور وہ ہو جاتی ہے۔ ؏۷


Notes

85. یہ آیت دو اہم مضامین پر مشتمل ہے۔ اوّلاً اس میں رات اور دن کو دلیل توحید کے طور پر پیش کیا گیا ہے، کیونکہ ان کا باقاعدگی کے ساتھ آنا یہ معنی رکھتا ہے کہ زمین اور سورج پر ایک ہی خدا حکومت کر رہا ہے، اور ان کے الٹ پھیر کا انسان اور دوسری مخلوقات ارضی کے لیے نافع ہونا اس بات کی صریح دلیل ہے کہ وہی ایک خدا ان سب اشیاء کا خالق بھی ہے اور اس نے یہ نظام کمال درجہ حکمت کے ساتھ اس طرح بنایا ہے کہ وہ اس کی پیدا کردہ مخلوقات کے لیے نافع ہو۔ثانیاً، اس میں خدا کے منکر اور خدا کے ساتھ شرک کرنے والوں کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ خدا نے رات اور دن کی شکل میں یہ کتنی بڑی نعمت ان کو عطا کی ہے، اور وہ کتنے سخت ناشکرے ہیں کہ اس کی اس نعمت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شب و روز اس سے غداری و بے وفائی کیے چلے جاتے ہیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد دوم، یونس ،حاشیہ 65۔ جلد سوم، فرقان حاشیہ 77،النمل 104،القصص حاشیہ 91،الروم حاشیہ36،۔ جلد چہارم، لقمان، آیت 29، حاشیہ 50۔ یٰس، آیت 37، حاشیہ 32)۔

86. یعنی رات اور دن کے الٹ پھیر نے ثابت کیا کہ وہی تمہاری اور ہر چیز کا خالق ہے۔ اور یہ الٹ پھیر تمہاری زندگی کے لیے جو عظیم فوائد و منافع اپنے اندر رکھتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ وہ تمہارا نہایت مہربان پروردگار ہے۔ اس کے بعد لامحالہ یہ بات خود بخود ثابت ہو جاتی ہے کہ تمہارا حقیقی معبود بھی وہی ہے۔ یہ بات سراسر عقل اور انصاف کے خلاف ہے کہ خالق اور پروردگار تو ہو اللہ، اور تمہارے معبود بن جائیں دوسرے۔

87. یعنی کون تم کو یہ الٹی پٹی پڑھا رہا ہے کہ جو نہ خالق ہیں نہ پروردگار وہ تمہاری عبادت کے مستحق ہیں۔

88. یعنی ہر زمانے میں عوام الناس صرف اس وجہ سے ان بہکانے والوں کے فریب میں آتے رہے ہیں کہ اللہ نے اپنے رسولوں کے ذریعہ سے حقیقت سمجھانے کے لیے جو آیات نازل کیں، لوگوں نے ان کو نہ مانا۔ نتیجہ یہ ہو کہ وہ ان خود غرض فریبیوں کے جال میں پھنس گئے جو اپنی دُکان چمکانے کے لیے جعلی خداؤں کے آستانے بنائے بیٹھے تھے۔

89. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد سوم، النمل حواشی 74،75۔

90. یعنی تمہیں کھلی فضا میں نہیں چھوڑ دیا گیا کہ عالم بالا کی آفات بارش کی طرح برس کر تم کو تہس نہس کر دیں، بلکہ زمین کے اوپر ایک نہایت مستحکم سماوی نظام (جو دیکھنے والی آنکھ کو گنبد کی طرح نظر آتا ہے ) تعمیر کر دیا جس سے گزر کر کوئی تباہ کن چیز تم تک نہیں پہنچ سکتی، حتیٰ کہ آفاق کی مہلک شعاعیں تک نہیں پہنچ سکتیں، اور اسی وجہ سے تم امن و چین کے ساتھ زمین پر جی رہے ہو۔

91. یعنی تمہارے پیدا کرنے سے پہلے تمہارے لیے اس قدر محفوظ اور پر امن جائے قرار مہیا کی۔پھر تمہیں پیدا کیا تو اس طرح کہ ایک بہترین جسم، نہایت موزوں اعضاء اور نہایت اعلیٰ درجہ کی جسمانی و ذہنی قوتوں کے ساتھ تم کو عطا کیا۔ یہ سیدھا قامت، یہ ہاتھ اور یہ پاؤں، یہ آنکھ ناک اور یہ کان، یہ بولتی ہوئی زبان اور یہ بہترین صلاحیتوں کا مخزن دماغ تم خود بنا کر نہیں لے آئے تھے، نہ تمہاری ماں اور تمہارے باپ نے انہیں بنایا تھا، نہ کوئی نبی یا ولی یا دیوتا میں یہ قدرت تھی کہ انہیں بناتا۔ ان کا بنانے والا وہ حکیم و رحیم قادر مطلق تھا جس نے انسان کو وجود میں لانے کا جب فیصلہ کیا تو اسے دنیا میں کام کرنے کے لیے ایسا بے نظیر جسم دے کر پیدا کیا۔ پھر پیدا ہوتے ہی اس کی مہربانی سے تم نے اپنے لیے پاکیزہ رزق کا ایک وسیع خوانِ یغما بچھا ہوا پا یا۔ کھانے اور پینے کا ایسا پاکیزہ سامان جو زہریلا نہیں بلکہ صحت بخش ہے، کڑوا کسیلا اور بد مزہ نہیں بلکہ خوش ذائقہ ہے، سڑا بُسا اور بد بو دار نہیں بلکہ خوش رائحہ ہے، بے جان پھوک نہیں بلکہ ان حیاتینوں اور مفید غذائی مادّوں سے مالا مال ہے جو تمہارے جسم کی پرورش اور نشو و نما کے لیے موزوں ترین ہیں۔ یہ پانی، یہ غلے، یہ ترکاریاں، یہ پھل، یہ دودھ، یہ شہد، یہ گوشت، یہ نمک مرچ اور مسالے، جو تمہارے تغذیے کے لیے اس قدر موزوں اور تمہیں زندگی کی طاقت ہی نہیں، زندگی کا لطف دینے کے لیے بھی اس قدر مناسب ہیں، آخر کس نے اس زمین پر اتنی افراط کے ساتھ مہیا کیے ہیں، اور کس نے یہ انتظام کیا ہے کہ غذا کے یہ بے حساب خزانے زمین سے پے در پے نکلتے چلے آئیں اور ان کی رسد کا سلسلہ کبھی ٹوٹنے نہ پائے؟ یہ رزق کا انتظام نہ ہوتا اور بس تم پیدا کر دیے جاتے تو سوچو کہ تمہاری زندگی کا کیا رنگ ہوتا۔ کیا یہ اس بات کا صریح ثبوت نہیں ہے کہ تمہارا پیدا کرنے والا محض خالق ہی نہیں بلکہ خالق حکیم اور ربّ رحیم ہے؟ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد دوم، ہود ،حواشی،6،7،۔ جلد سوم،النمل حواشی73تا83)

92. یعنی اصلی اور حقیقی زندگی اسی کی ہے۔ اپنے بل پر آپ زندہ وہی ہے۔ ازلی و ابدی حیات اس کے سوا کسی کی بھی نہیں ہے۔ باقی سب کی حیات عطائی ہے، عارضی ہے، موت آشنا اور فنا در آغوش ہے۔

93. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، الزُّمُر، حاشیہ 3۔4۔

94. یعنی کوئی دوسرا نہیں ہے جس کی حمد و ثنا کے گیت گائے جائیں اور جس کے شکرانے بجا لائے جائیں۔

95. یہاں پھر عبادت اور دعا کو ہم معنی استعمال کیا گیا ہے۔

96. یعنی کوئی پیدا ہونے سے پہلے اور کوئی جوانی کو پہنچنے سے پہلے اور کوئی بڑھاپے کو پہنچنے سے پہلے مر جاتا ہے۔

97. وقت مقرر سے مراد یا تو موت کا وقت ہے، یا وہ وقت جب تمام انسانوں کو دوبارہ اٹھ کر اپنے خدا کے حضور حاضر ہونا ہے پہلی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ ہر انسان کو زندگی کے مختلف مرحلوں سے گزارتا ہوا اس ساعت خاص تک لے جاتا ہے جو اس نے ہر ایک کی واپسی کے لیے مقرر کر رکھی ہے۔ اُس وقت سے پہلے ساری دنیا مل کر بھی کسی کو مارنا چاہے تو نہیں مار سکتی، اور وہ وقت آ جانے کے بعد دنیا کی ساری طاقتیں مل کر بھی کسی کو زندہ رکھنے کی کوشش کریں تو کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ دوسرے معنی لینے کی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ یہ ہنگامہ ہستی اس لیے برپا نہیں کیا گیا ہے کہ تم مر کر مٹی میں مل جاؤ اور فنا ہو جاؤ، بلکہ زندگی کے ان مختلف مرحلوں سے اللہ تم کو اس لیے گزارتا ہے کہ تم سب اس وقت پر جو اس نے مقرر کر رکھا ہے، اس کے سامنے حاضر ہو۔

98. یعنی زندگی کے ان مختلف مراحل سے تم کو اس لیے نہیں گزارا جاتا کہ تم جانوروں کی طرح جیو اور انہی کی طرح مر جاؤ، بلکہ اس لیے گزارا جاتا ہے کہ تم اس عقل سے کام لو جو اللہ نے تمہیں عطا کی ہے اور اس نظام کو سمجھو جس میں خود تمہارے اپنے وجود پر یہ احوال گزرتے ہیں۔ زمین کے بے جان مادوں میں زندگی جیسی عجیب و غریب چیز کا پیدا ہونا، پھر نطفے کے ایک خورد بینی کیڑے سے انسان جیسی حیرت انگیز مخلوق کا وجود میں آنا، پھر ماں کے پیٹ میں استقرار حمل کے وقت سے وضع حمل تک اندر ہی اندر اس کا اس طرح پرورش پانا کہ اس کی جنس، اس کی شکل و صورت، اس کے جسم کی ساخت، اس کے ذہن کی خصوصیات، اور اس کی قوتیں اور صلاحیتیں سے کچھ وہیں متعین ہو جائیں اور ان کی تشکیل پر دنیا کی کوئی طاقت اثر انداز نہ ہو سکے، پھر یہ بات کہ جسے اسقاط حمل کا شکار ہونا ہے اس کا اسقاط ہی ہو کر رہتا ہے، جسے بچپن میں مرنا ہے وہ بچپن ہی میں مرتا ہے خواہ وہ کسی بادشاہ ہی کا بچہ کیوں نہ ہو، اور جسے جوانی یا بڑھاپے کی کسی عمر تک پہنچنا ہے وہ خطرناک سے خطرناک حالات سے گزر کر بھی، جن میں بظاہر موت یقینی ہونی چاہیے، اس عمر کو پہنچ کر رہتا ہے، اور جسے عمر کے جس خاص مرحلے میں مرنا ہے اس میں وہ دنیا کے کسی بہترین ہسپتال کے اندر بہترین ڈاکٹروں کے زیر علاج رہتے ہوئے بھی مر کر رہتا ہے، یہ ساری باتیں کیا اس حقیقت کی نشاندہی نہیں کر رہی ہیں کہ ہماری اپنی حیات و ممات کا سر رشتہ کسی قادر مطلق کے ہاتھ میں ہے؟ اور جب امر واقعہ یہی ہے کہ ایک قادر مطلق ہماری موت و زیست پر حکمراں ہے تو پھر کوئی نبی یا ولی یا فرشتہ یا ستارہ اور سیارہ آخر کیسے ہماری بندگی و عبادت کا مستحق ہو گیا؟ کسی بندے کو یہ مقام کب سے حاصل ہوا کہ ہم اس سے دعائیں مانگیں اور اپنی قسمت کے بننے اور بگڑنے کا مختار اس کو مان لیں؟ اور کسی انسانی طاقت کا یہ منصب کیسے ہو گیا کہ ہم اس کے قانون اور اس کے امر و نہی اور اس کے خود ساختہ حلال و حرام کی بے چون و چرا اطاعت کریں؟ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد سوم، الحج حاشیہ 9)۔