99. مطلب یہ ہے کہ اوپر والی تقریر کے بعد بھی کیا تمہاری سمجھ میں یہ بات نہ آئی کہ ان لوگوں کی غلط بینی اور غلط روی کا اصل سر چشمہ کہاں ہے اور کہاں سے ٹھوکر کھا کر یہ اس گمراہی کے گڑھے میں گرے ہیں؟ (واضح رہے کہ یہاں تم کا خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے نہیں ہے بلکہ ہر وہ شخص مخاطب ہے جو ان آیات کو پڑھے یا سنے )
100. یہ ہے ان کے ٹھوکر کھانے کی اصل وجہ۔ ان کا قرآن کو اور اللہ کے رسولوں کی لائی ہوئی تعلیمات کو نہ ماننا اور اللہ کی آیات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کے بجائے جھگڑالو پن سے ان کا مقابلہ کرنا، یہی وہ بنیادی سبب ہے جس نے ان کو بھٹکا دیا ہے اور ان کے لیے سیدھی راہ پر آنے کے سارے امکانات ختم کر دیے ہیں۔
101. یعنی جب وہ پیاس کی شدت سے مجبور ہو کر پانی مانگیں گے تو دوزخ کے کارکن ان کو زنجیروں سے کھینچتے ہوئے ایسے چشموں کی طرف لے جائیں گے جن سے کھولتا ہوا پانی نکل رہا ہو گا۔ اور پھر جب وہاں سے پی کر فارغ ہوں گے تو پھر وہ انہیں کھینچتے ہوئے واپس لے جائیں گے اور دوزخ کی آگ میں جھونک دیں گے۔
102. یعنی اگر وہ واقعی خدایا خدائی میں شریک تھے، اور تم اس امید پر ان کی عبادت کرتے تھے کہ وہ برے وقت پر تمہارے کام آئیں گے تو اب کیوں وہ آ کر تمہیں نہیں چھڑاتے؟
103. یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم دنیا میں شرک نہیں کرتے تھے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اب ہم پر یہ بات کھل گئی ہے کہ ہم جنھیں دنیا میں پکارتے تھے وہ کچھ بھی نہ تھے، ہیچ تھے، لاشے تھے۔
104. یعنی تم نے صرف اتنے ہی پر اکتفا نہ کیا کہ جو چیز حق نہ تھی اس کی تم نے پیروی کی، بلکہ تم اس غیر حق پر ایسے مگن سے کہ جب حق تمہارے سامنے پیش کیا گیا تو تم نے اس کی طرف التفات نہ کیا اور الٹے اپنی باطل پرستی پر اتراتے رہے۔
105. یعنی جو لوگ جھگڑالو پن سے تمہارا مقابلہ کر رہے ہیں اور ذلیل ہتھکنڈوں سے تمہیں نیچا دکھانا چاہتے ہیں ان کی باتوں اور ان کی حرکتوں پر صبر کرو۔
106. یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم ہر اس شخص کو جس نے تمہیں زک دینے کی کوشش کی ہے اسی دنیا میں اور تمہاری زندگی ہی میں سزا دے دیں۔ یہاں کوئی سزا پاۓ، بہر حال وہ ہماری گرفت سے بچ کر نہیں جا سکتا۔ مر کر تو اسے ہمارے پاس ہی آنا ہے۔ اس وقت وہ اپنے کرتوتوں کی بھر پور سزا پالے گا۔
107. یہاں سے ایک اور موضوع شروع ہو رہا ہے۔ کفار مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہتے تھے کہ ہم آپ کو اس وقت تک خدا کا رسول نہیں مان سکتے جب تک آپ ہمارا منہ مانگا معجزہ ہمیں نہ دکھا دیں۔ آگے کی آیات میں ان کی اسی بات کو نقل کیے بغیر اس کا جواب دیا جا رہا ہے۔ (جس قسم کے معجزات کا وہ لوگ مطالبہ کرتے تھے ان کے چند نمونوں کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم،ہود،حاشیہ 13،الحجر،حواشی،4،5،بنی اسرائیل،حاشیہ 105،106۔ جلد سوم، الفرقان،حاشیہ 33)۔
108. یعنی کسی نبی نے بھی کبھی ا پنی مرضی سے کوئی معجزہ نہیں دکھایا ہے، اور نہ کوئی نبی خود معجزہ دکھانے پر قادر تھا۔ معجزہ تو جب بھی کسی نبی کے ذریعہ سے ظاہر ہوا ہے اس وقت ظاہر ہوا ہے جب اللہ نے یہ چاہا کہ اس کے ہاتھ سے کوئی معجزہ کسی منکر قوم کو دکھایا جائے۔ یہ کفار کے مطالبے کا پہلا جواب ہے۔
109. یعنی معجزہ کبھی کھیل کے طور پر نہیں دکھایا گیا ہے۔ وہ تو ایک فیصلہ کن چیز ہے۔ اس کے ظاہر ہو جانے کے بعد جب کوئی قوم نہیں مانتی تو پھر اس کا خاتمہ کر دیا جاتا ہے۔ تم محض تماش بینی کے شوق میں معجزے کا مطالبہ کر رہے ہو، مگر تمہیں اندازہ نہیں ہے کہ اس طرح دراصل تم خود تقاضے کر کر کے اپنی شامت بلا رہے ہو۔ یہ کفار کے اس مطالبہ کا دوسرا جواب ہے، اور اس کی تفصیلات اس سے پہلے قرآن میں متعدد مقامات پر گزر چکی ہیں (ملاحظہ ہو جلد دوم، الحجر حواشی،5،30،بنی اسرائیل،حواشی،68،69،جلد سوم،الانبیاء،حواشی،7،8،الفرقان،حاشیہ،33،الشعراء،حاشیہ،49)