Tafheem ul Quran

Surah 40 Ghafir, Ayat 69-78

اَلَمۡ تَرَ اِلَى الَّذِيۡنَ يُجَادِلُوۡنَ فِىۡۤ اٰيٰتِ اللّٰهِؕ اَنّٰى يُصۡرَفُوۡنَ  ۛۚ ۙ‏ ﴿40:69﴾ الَّذِيۡنَ كَذَّبُوۡا بِالۡكِتٰبِ وَبِمَاۤ اَرۡسَلۡنَا بِهٖ رُسُلَنَا ۛ  فَسَوۡفَ يَعۡلَمُوۡنَ ۙ‏ ﴿40:70﴾ اِذِ الۡاَغۡلٰلُ فِىۡۤ اَعۡنَاقِهِمۡ وَالسَّلٰسِلُؕ يُسۡحَبُوۡنَۙ‏ ﴿40:71﴾ فِى الۡحَمِيۡمِ ۙ ثُمَّ فِى النَّارِ يُسۡجَرُوۡنَ​ ۚ‏ ﴿40:72﴾ ثُمَّ قِيۡلَ لَهُمۡ اَيۡنَ مَا كُنۡتُمۡ تُشۡرِكُوۡنَۙ‏ ﴿40:73﴾ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ ؕ قَالُوۡا ضَلُّوۡا عَنَّا بَلْ لَّمۡ نَـكُنۡ نَّدۡعُوۡا مِنۡ قَبۡلُ شَيۡـئًـا ؕ كَذٰلِكَ يُضِلُّ اللّٰهُ الۡكٰفِرِيۡنَ‏ ﴿40:74﴾ ذٰ لِكُمۡ بِمَا كُنۡتُمۡ تَفۡرَحُوۡنَ فِى الۡاَرۡضِ بِغَيۡرِ الۡحَقِّ وَبِمَا كُنۡـتُمۡ تَمۡرَحُوۡنَ​ ۚ‏ ﴿40:75﴾ اُدۡخُلُوۡۤا اَبۡوَابَ جَهَـنَّمَ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا ۚ فَبِئۡسَ مَثۡوَى الۡمُتَكَبِّرِيۡنَ‏  ﴿40:76﴾ فَاصۡبِرۡ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰهِ حَقٌّ ۚ فَاِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعۡضَ الَّذِىۡ نَعِدُهُمۡ اَوۡ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَاِلَيۡنَا يُرۡجَعُوۡنَ‏ ﴿40:77﴾ وَلَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلًا مِّنۡ قَبۡلِكَ مِنۡهُمۡ مَّنۡ قَصَصۡنَا عَلَيۡكَ وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ لَّمۡ نَقۡصُصۡ عَلَيۡكَؕ وَمَا كَانَ لِرَسُوۡلٍ اَنۡ يَّاۡتِىَ بِاٰيَةٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰه​ِۚ فَاِذَا جَآءَ اَمۡرُ اللّٰهِ قُضِىَ بِالۡحَقِّ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الۡمُبۡطِلُوۡنَ‏ ﴿40:78﴾

69 - تم نے دیکھا اُن لوگوں کو جو اللہ کی آیات میں جھگڑے کرتے ہیں، کہاں سے وہ پھرائے جا رہے ہیں؟99 70 - یہ لوگ جو اِس کتاب کو اور اُن ساری کتابوں کو جھُٹلاتے ہیں جو ہم نے اپنے رسُولوں کے ساتھ بھیجی تھیں؟100 عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گا 71 - جب طوق ان کی گردنوں میں ہوں گے، اور زنجیریں، جن سے پکڑ کر وہ کھینچے جائیں گے 72 - کھولتے ہوئے پانی کی طرف اور پھر دوزخ کی آگ میں جھونک دیے جائیں گے۔101 73 - پھر اُن سے پوچھا جائے گا کہ اب کہاں ہیں وہ دوسرے خدا جن کو تم شریک کرتے تھے؟102 74 - اللہ کے سوا، وہ جواب دیں گے”کھوئے گئے وہ ہم سے، بلکہ ہم اس سے پہلے کسی چیز کو نہ پکارتے تھے۔“103 اِس طرح اللہ کافروں کا گمراہ ہونا متحقق کر دے گا۔ 75 - اُن سے کہا جائے گا”یہ تمہارا انجام اِس لیے ہوا ہے کہ تم زمین میں غیر حق پر مگن تھے اور پھر اُس پر اِتراتے تھے۔ 104 76 - اب جاوٴ ، جہنّم کے دروازوں میں داخل ہو جاوٴ، ہمیشہ تم کو وہیں رہنا ہے، بہت ہی بُرا ٹھکانا ہے متکبّرین کا۔“ 77 - پس اے نبیؐ ، صبر کرو، 105اللہ کا وعدہ بر حق ہے۔ اب خواہ ہم تمہارے سامنے ہی اِن کو اُن بُرے نتائج کا کوئی حصّہ دکھا دیں جن سے ہم اِنہیں ڈرا رہے ہیں، یا (اُس سے پہلے)تمہیں دنیا سے اُٹھا لیں ، پلٹ کر آنا تو اِنہیں ہماری ہی طرف ہے۔106 78 - 107اے نبیؐ ، تم سے پہلے ہم بہت سے رسُول بھیج چکے ہیں جن میں سے بعض کے حالات ہم نے تم کو بتائے ہیں اور بعض کے نہیں بتائے ۔ کسی رسُول کی بھی یہ طاقت نہ تھی کہ اللہ اِذن کے بغیر خود کوئی نشانی لے آتا۔108 پھر جب اللہ کا حکم آگیا تو حق کے مطابق فیصلہ کر دیا گیا اور اُس وقت غلط کار لوگ خسارے میں پڑ گئے۔109 ؏۸


Notes

99. مطلب یہ ہے کہ اوپر والی تقریر کے بعد بھی کیا تمہاری سمجھ میں یہ بات نہ آئی کہ ان لوگوں کی غلط بینی اور غلط روی کا اصل سر چشمہ کہاں ہے اور کہاں سے ٹھوکر کھا کر یہ اس گمراہی کے گڑھے میں گرے ہیں؟ (واضح رہے کہ یہاں تم کا خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے نہیں ہے بلکہ ہر وہ شخص مخاطب ہے جو ان آیات کو پڑھے یا سنے )

100. یہ ہے ان کے ٹھوکر کھانے کی اصل وجہ۔ ان کا قرآن کو اور اللہ کے رسولوں کی لائی ہوئی تعلیمات کو نہ ماننا اور اللہ کی آیات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کے بجائے جھگڑالو پن سے ان کا مقابلہ کرنا، یہی وہ بنیادی سبب ہے جس نے ان کو بھٹکا دیا ہے اور ان کے لیے سیدھی راہ پر آنے کے سارے امکانات ختم کر دیے ہیں۔

101. یعنی جب وہ پیاس کی شدت سے مجبور ہو کر پانی مانگیں گے تو دوزخ کے کارکن ان کو زنجیروں سے کھینچتے ہوئے ایسے چشموں کی طرف لے جائیں گے جن سے کھولتا ہوا پانی نکل رہا ہو گا۔ اور پھر جب وہاں سے پی کر فارغ ہوں گے تو پھر وہ انہیں کھینچتے ہوئے واپس لے جائیں گے اور دوزخ کی آگ میں جھونک دیں گے۔

102. یعنی اگر وہ واقعی خدایا خدائی میں شریک تھے، اور تم اس امید پر ان کی عبادت کرتے تھے کہ وہ برے وقت پر تمہارے کام آئیں گے تو اب کیوں وہ آ کر تمہیں نہیں چھڑاتے؟

103. یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم دنیا میں شرک نہیں کرتے تھے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اب ہم پر یہ بات کھل گئی ہے کہ ہم جنھیں دنیا میں پکارتے تھے وہ کچھ بھی نہ تھے، ہیچ تھے، لاشے تھے۔

104. یعنی تم نے صرف اتنے ہی پر اکتفا نہ کیا کہ جو چیز حق نہ تھی اس کی تم نے پیروی کی، بلکہ تم اس غیر حق پر ایسے مگن سے کہ جب حق تمہارے سامنے پیش کیا گیا تو تم نے اس کی طرف التفات نہ کیا اور الٹے اپنی باطل پرستی پر اتراتے رہے۔

105. یعنی جو لوگ جھگڑالو پن سے تمہارا مقابلہ کر رہے ہیں اور ذلیل ہتھکنڈوں سے تمہیں نیچا دکھانا چاہتے ہیں ان کی باتوں اور ان کی حرکتوں پر صبر کرو۔

106. یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم ہر اس شخص کو جس نے تمہیں زک دینے کی کوشش کی ہے اسی دنیا میں اور تمہاری زندگی ہی میں سزا دے دیں۔ یہاں کوئی سزا پاۓ، بہر حال وہ ہماری گرفت سے بچ کر نہیں جا سکتا۔ مر کر تو اسے ہمارے پاس ہی آنا ہے۔ اس وقت وہ اپنے کرتوتوں کی بھر پور سزا پالے گا۔

107. یہاں سے ایک اور موضوع شروع ہو رہا ہے۔ کفار مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہتے تھے کہ ہم آپ کو اس وقت تک خدا کا رسول نہیں مان سکتے جب تک آپ ہمارا منہ مانگا معجزہ ہمیں نہ دکھا دیں۔ آگے کی آیات میں ان کی اسی بات کو نقل کیے بغیر اس کا جواب دیا جا رہا ہے۔ (جس قسم کے معجزات کا وہ لوگ مطالبہ کرتے تھے ان کے چند نمونوں کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم،ہود،حاشیہ 13،الحجر،حواشی،4،5،بنی اسرائیل،حاشیہ 105،106۔ جلد سوم، الفرقان،حاشیہ 33)۔

108. یعنی کسی نبی نے بھی کبھی ا پنی مرضی سے کوئی معجزہ نہیں دکھایا ہے، اور نہ کوئی نبی خود معجزہ دکھانے پر قادر تھا۔ معجزہ تو جب بھی کسی نبی کے ذریعہ سے ظاہر ہوا ہے اس وقت ظاہر ہوا ہے جب اللہ نے یہ چاہا کہ اس کے ہاتھ سے کوئی معجزہ کسی منکر قوم کو دکھایا جائے۔ یہ کفار کے مطالبے کا پہلا جواب ہے۔

109. یعنی معجزہ کبھی کھیل کے طور پر نہیں دکھایا گیا ہے۔ وہ تو ایک فیصلہ کن چیز ہے۔ اس کے ظاہر ہو جانے کے بعد جب کوئی قوم نہیں مانتی تو پھر اس کا خاتمہ کر دیا جاتا ہے۔ تم محض تماش بینی کے شوق میں معجزے کا مطالبہ کر رہے ہو، مگر تمہیں اندازہ نہیں ہے کہ اس طرح دراصل تم خود تقاضے کر کر کے اپنی شامت بلا رہے ہو۔ یہ کفار کے اس مطالبہ کا دوسرا جواب ہے، اور اس کی تفصیلات اس سے پہلے قرآن میں متعدد مقامات پر گزر چکی ہیں (ملاحظہ ہو جلد دوم، الحجر حواشی،5،30،بنی اسرائیل،حواشی،68،69،جلد سوم،الانبیاء،حواشی،7،8،الفرقان،حاشیہ،33،الشعراء،حاشیہ،49)