Tafheem ul Quran

Surah 40 Ghafir, Ayat 79-85

اَللّٰهُ الَّذِىۡ جَعَلَ لَكُمُ الۡاَنۡعَامَ لِتَرۡكَبُوۡا مِنۡهَا وَمِنۡهَا تَاۡكُلُوۡنَ‏ ﴿40:79﴾ وَلَكُمۡ فِيۡهَا مَنَافِعُ وَ لِتَبۡلُغُوۡا عَلَيۡهَا حَاجَةً فِىۡ صُدُوۡرِكُمۡ وَعَلَيۡهَا وَعَلَى الۡفُلۡكِ تُحۡمَلُوۡنَؕ‏ ﴿40:80﴾ وَيُرِيۡكُمۡ اٰيٰتِهٖ ۖ  فَاَىَّ اٰيٰتِ اللّٰهِ تُنۡكِرُوۡنَ‏ ﴿40:81﴾ اَفَلَمۡ يَسِيۡرُوۡا فِى الۡاَرۡضِ فَيَنۡظُرُوۡا كَيۡفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡؕ كَانُوۡۤا اَكۡثَرَ مِنۡهُمۡ وَاَشَدَّ قُوَّةً وَّ اٰثَارًا فِى الۡاَرۡضِ فَمَاۤ اَغۡنٰى عَنۡهُمۡ مَّا كَانُوۡا يَكۡسِبُوۡنَ‏ ﴿40:82﴾ فَلَمَّا جَآءَتۡهُمۡ رُسُلُهُمۡ بِالۡبَيِّنٰتِ فَرِحُوۡا بِمَا عِنۡدَهُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ وَحَاقَ بِهِمۡ مَّا كَانُوۡا بِهٖ يَسۡتَهۡزِءُوۡنَ‏ ﴿40:83﴾ فَلَمَّا رَاَوۡا بَاۡسَنَا قَالُوۡۤا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَحۡدَهٗ وَكَفَرۡنَا بِمَا كُنَّا بِهٖ مُشۡرِكِيۡنَ‏ ﴿40:84﴾ فَلَمۡ يَكُ يَنۡفَعُهُمۡ اِيۡمَانُهُمۡ لَمَّا رَاَوۡا بَاۡسَنَا ؕ سُنَّتَ اللّٰهِ الَّتِىۡ قَدۡ خَلَتۡ فِىۡ عِبَادِهٖ​ۚ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الۡكٰفِرُوۡنَ‏  ﴿40:85﴾

79 - اللہ ہی نے تمہارے لیے یہ مویشی جانور بنائے ہیں تاکہ ان میں سے کسی پر تم سوار ہو اور کسی کا گوشت کھاوٴ۔ 80 - ان کے اندر تمہارے لیے اور بھی بہت سے منافع ہیں۔ وہ اس کام بھی آتے ہیں کہ تمہارے دلوں میں جہاں جانے کی حاجت ہو وہاں تم اُن پر پہنچ سکو۔ اُن پر بھی اور کشتیوں پر بھی تم سوار کیے جاتے ہو۔ 81 - اللہ اپنی یہ نشانیاں تمہیں دکھا رہا ہے ، آخر تم اُس کی کِن کِن نشانیوں کا انکار کرو گے۔110 82 - پھر کیا 111یہ زمین مین چلے پھرے نہیں ہیں کہ اِن کو اُن لوگوں کا انجام نظر آتا جو اِن سے پہلے گزر چکے ہیں ؟ وہ اِن سے تعداد میں زیادہ تھے، اِن سے بڑھ کر طاقتور تھے، اور زمین میں اِن سے زیادہ شاندار آثار چھوڑ گئے ہیں۔ جو کچھ کمائی اُنہوں نے کی تھی، آخر وہ اُن کے کس کام آئی؟ 83 - جب ان کے رسُول ان کے پاس بیّنات لے کر آئے تو وہ اُسی علم میں مگن رہے جو ان کے اپنے پاس تھا، 112اور پھر اُسی چیز کے پھیر میں آگئے جس کا وہ مذاق اُڑاتے تھے۔ 84 - جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو پکار اُٹھے کہ ہم نے مان لیا اللہ وحدہٗ لاشریک کو اور ہم انکار کرتے ہیں اُن سب معبوُدوں کا جنہیں ہم شریک ٹھہراتے تھے۔ 85 - مگر ہمارا عذاب دیکھ لینے کے بعد ان کا ایمان اُن کے لیے کچھ بھی نافع نہ ہو سکتا تھا، کیونکہ یہی اللہ کا مقرر ضابطہ ہے جو ہمیشہ اس کے بندوں میں جاری رہا ہے،113 اورا س وقت کافر خسارے میں پڑ گئے۔ ؏۹


Notes

110. مطلب یہ ہے کہ اگر تم محض تماشا دیکھنے اور دل بہلانے کے لیے معجزے کا مطالبہ نہیں کر رہے ہو، بلکہ تمہیں صرف یہ اطمینان کرنے کی ضرورت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم جن باتوں کو ماننے کی دعوت تمہیں دے رہے ہیں (یعنی توحید اور آخرت) وہ حق ہیں یا نہیں، تو اس کے لیے خدا کی یہ نشانیاں بہت کافی ہیں جو ہر وقت تمہارے مشاہدے اور تجربے میں آ رہی ہیں۔ حقیقت کو سمجھنے کے لیے ان نشانیوں کے ہوتے کسی اور نشانی کی کیا حاجت رہ جاتی ہے۔ یہ معجزات کے مطالبے کا تیسرا جواب ہے۔ یہ جواب بھی اس سے پہلے متعدد مقامات پر قرآن میں دیا گیا ہے اور ہم اس کی تشریح اچھی طرح کر چکے ہیں (ملاحظہ ہو جلد اول، الانعام حواشی،26،27،۔ جلد دوم یونس حاشیہ،105،الرعد حواشی،15تا20۔ جلد سوم، الشعراء،حواشی،3،4،5)۔

زمین پر جو جانور انسان کی خدمت کر رہے ہیں، خصوصاً گائے، بیل، بھینس، بھیڑ، بکری، اونٹ اور گھوڑے، ان کو بنانے والے نے ایسے نقشے پر بنایا ہے کہ یہ بآسانی انسان کے پالتو خادم بن جاتے ہیں، اور ان سے اس کی بے شمار ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ ان پر سواری کرتا ہے۔ ان سے بار برداری کا کام لیتا ہے۔ انہیں کھیتی باڑی کے کام میں استعمال کرتا ہے۔ ان کا دودھ نکال کر اسے پیتا بھی ہے اور اس سے دہی، لسّی،مکھن، گھی، کھویا، پنیر، اور طرح طرح کی مٹھائیاں بناتا ہے۔ ان کا گوشت کھاتا ہے۔ ان کی چربی استعمال کرتا ہے۔ ان کے اون اور بال اور کھال اور آنتیں اور ہڈی اور خون اور گوبر، ہر چیز اسکے کام آتی ہے۔ کیا یہ اس بات کا کھلا ثبوت نہیں ہے کہ انسان کے خالق نے زمین پر اس کو پیدا کرنے سے بھی پہلے اس کی ان بے شمار ضروریات کو سامنے رکھ کر یہ جانور اس خاص نقشے پر پیدا کر دیے تھے تاکہ وہ ان سے فائدہ اٹھائے؟

پھر زمین کا تین چوتھائی حصّہ پانی سے لبریز ہے اور صرف ایک چوتھائی خشکی پر مشتمل ہے۔ خشک حصوں کے بھی بہت سے چھوٹے اور بڑے رقبے ایسے ہیں جن کے درمیان پانی حائل ہے۔ کرہ زمین کے ان خشک علاقوں پر انسانی آبادیوں کا پھیلنا اور پھر ان کے درمیان سفر و تجارت کے تعلقات کا قائم ہونا اس کے بغیر ممکن نہ تھا کہ پانی اور سمندروں اور ہواؤں کو ایسے قوانین کا پابند بنایا جاتا جن کی بدولت جہاز رانی کی جا سکتی، اور زمین پر وہ سر و سامان پیدا کیا جاتا جسے استعمال کر کے انسان جہاز سازی پر قادر ہوتا۔ کیا یہ اس بات کی صریح علامت نہیں ہے کہ ایک ہی قادر مطلق ربّ رحیم و حکیم ہے جس نے انسان اور زمین اور پانی اور سمندروں اور ہواؤں اور ان تمام چیزوں کو جو زمین پر ہیں اپنے خاص منصوبے کے مطابق بنایا ہے۔ بلکہ اگر انسان صرف جہاز رانی ہی کے نقطہ نظر سے دیکھے تو اس میں تاروں کے مواقع اور سیاروں کی باقاعدہ گردش سے جو مدد ملتی ہے وہ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ زمین ہی نہیں، آسمان کا خالق بھی وہی ایک رب کریم ہے۔

اس کے بعد اس بات پر بھی غور کیجیے کہ جس خدائے حکیم نے اپنی اتنی بے شمار چیزیں انسان کے تصرف میں دی ہیں اور اس کے مفاد کے لیے یہ کچھ سر و سامان فراہم کیا ہے، کیا بسلامتی ہوش و حواس آپ اس کے متعلق یہ گمان کر سکتے ہیں کہ وہ معاذاللہ ایسا آنکھ کا اندھا اور گانٹھ کا پورا ہو گا کہ وہ انسان کو یہ سب کچھ دے کر کبھی اس سے حساب نہ لے گا۔

111. یہ خاتمہ کلام ہے۔ اس حصے کو پڑھتے وقت آیات 4۔5۔اور آیت 21 پر ایک دفعہ پھر نگاہ ڈال لیں۔

112. یعنی اپنے فلسفے اور سائنس، اپنے قانون، اپنے دنیوی علوم، اور اپنے پیشواؤں کے گھڑے ہوئے مذہبی افسانوں (Mythology)اور دینیات (Theology)ہی کو انہوں نے اصل علم سمجھا اور انبیاء علیہم السلام کے لائے ہوئے علم کو ہیچ سمجھ کر اس کی طرف کوئی التفات نہ کیا۔

113. یہ کہ توبہ اور ایمان بس اسی وقت تک نافع ہیں جب تک آدمی اللہ کے عذاب یا موت کی گرفت میں نہ آ جائے۔ عذاب آ جانے یا موت کے آثار شروع ہو جانے کے بعد ایمان لانا یا تو بہ کرنا اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں ہے۔