Tafheem ul Quran

Surah 41 Fussilat, Ayat 1-8

حٰمٓ​ ۚ‏ ﴿41:1﴾ تَنۡزِيۡلٌ مِّنَ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ​ۚ‏ ﴿41:2﴾ كِتٰبٌ فُصِّلَتۡ اٰيٰتُهٗ قُرۡاٰنًا عَرَبِيًّا لِّقَوۡمٍ يَّعۡلَمُوۡنَۙ‏ ﴿41:3﴾ بَشِيۡرًا وَّنَذِيۡرًا​ ۚ فَاَعۡرَضَ اَكۡثَرُهُمۡ فَهُمۡ لَا يَسۡمَعُوۡنَ‏  ﴿41:4﴾ وَقَالُوۡا قُلُوۡبُنَا فِىۡۤ اَكِنَّةٍ مِّمَّا تَدۡعُوۡنَاۤ اِلَيۡهِ وَفِىۡۤ اٰذَانِنَا وَقۡرٌ وَّمِنۡۢ بَيۡنِنَا وَبَيۡنِكَ حِجَابٌ فَاعۡمَلۡ اِنَّنَا عٰمِلُوۡنَ‏  ﴿41:5﴾ قُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثۡلُكُمۡ يُوۡحٰٓى اِلَىَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمۡ اِلٰـهٌ وَّاحِدٌ فَاسۡتَقِيۡمُوۡۤا اِلَيۡهِ وَاسۡتَغۡفِرُوۡهُ​ ؕ وَوَيۡلٌ لِّلۡمُشۡرِكِيۡنَ ۙ‏ ﴿41:6﴾ الَّذِيۡنَ لَا يُؤۡتُوۡنَ الزَّكٰوةَ وَهُمۡ بِالۡاٰخِرَةِ هُمۡ كٰفِرُوۡنَ‏  ﴿41:7﴾ اِنَّ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمۡ اَجۡرٌ غَيۡرُ مَمۡنُوۡنٍ‏  ﴿41:8﴾

1 - حٰ مٓ، 2 - یہ خدائے رحمٰن و رحیم کی طرف سے نازل کردہ چیز ہے ، 3 - ایک ایسی کتاب جس کی آیات خوب کھول کر بیان کی گئی ہیں، عربی زبان کا قرآن، اُن لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں، 4 - بشارت دینے والا اور ڈرانے والا۔ 1 مگر اِن لوگوں میں سے اکثر نے اس سے رُو گردانی کی اور وہ سُن کر نہیں دیتے۔ 5 - کہتے ہیں” جس چیز کی طرف تُو ہمیں بُلا رہا ہے اس کے لیے ہمارے دلوں پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں، 2 ہمارے کان بہرے ہوگئے ہیں، اور ہمارے اور تیرے درمیان ایک حجاب حائل ہو گیا ہے۔ 3 تُو اپنا کام کر ، ہم اپنا کام کیے جائیں گے۔“ 4 6 - اے نبیؐ، اِن سے کہو، میں تو ایک بشر ہوں تم جیسا۔ 5 مجھے وحی کے ذریعہ سے بتایا جاتا ہے کہ تمہارا خدا تو بس ایک ہی خدا ہے 6 ، لہٰذا تم سیدھے اُسی کا رُخ اختیار کرو 7 اور اس سے معافی چاہو۔ 8 تباہی ہے اُن مشرکوں کے لیے 7 - جو زکوٰة نہیں دیتے 9 اور آخرت کے منکر ہیں۔ 8 - رہے وہ لوگ جنہوں نے مان لیا اور نیک اعمال کیے، اُن کے لیے یقیناً ایسا اجر ہے جس کا سلسلہ ٹوٹنے والا نہیں ہے۔ 10 ؏۱


Notes

1. یہ اس سورہ کی مختصر تمہید ہے۔ آگے کی تقریر پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آ سکتی ہے کہ اس تمہید میں جو باتیں ارشاد ہوئی ہیں وہ بعد کے مضمون سے کیا مناسبت رکھتی ہیں ۔

پہلی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ یہ کلام خدا کی طرف سے نازل ہو رہا ہے۔ یعنی تم جب تک چاہو یہ رٹ لگاتے رہو کہ اسے محمد صلی اللہ علیہ و سلم خود تصنیف کر رہے ہیں ، لیکن واقعہ یہی ہے کہ اس کلام کا نزول خداوند عالم کی طرف سے ہے۔ مزید براں یہ ارشاد فرما کر مخاطبین کو اس بات پر بھی متنبہ کیا گیا ہے کہ تم اگر اس کلام کو سن کر چیں بچیں ہوتے ہو تو تمہارا یہ غصّہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف نہیں بلکہ خدا کے خلاف ہے، اگر اسے رد کرتے ہو تو ایک انسان کی بات نہیں بلکہ خدا کی بات رد کرتے ہو، اور اگر اس سے بے رخی برتتے ہو تو ایک انسان سے نہیں بلکہ خدا سے منہ موڑتے ہو۔

دوسری بات یہ ارشاد ہوئی ہے کہ اس کا نازل کرنے والا وہ خدا ہے جو اپنی مخلوق پر بے انتہا مہربان (رحمان اور رحیم) ہے۔ نازل کرنے والے خدا کی دوسری صفات کے بجائے صفت رحمت کا ذکر اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس نے اپنی رحیمی کے اقتضا سے یہ کلام نازل کیا ہے۔ اس سے مخاطبین کو خبردار کیا گیا ہے کہ اس کلام سے اگر کوئی بے رخی برتتا ہے، یا اسے رد کرتا ہے، یا اس پر چین بچیں ہوتا ہے تو در حقیقت اپنے آپ سے دشمنی کرتا ہے۔ یہ تو ایک نعمت عظمٰی ہے جو خدا نے سراسر اپنی رحمت کی بنا پر انسانوں کی رہنمائی اور فلاح و سعادت کے لیے نازل کی ہے۔ خدا اگر انسانوں سے بے رخی برتتا تو انہیں اندھیرے میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتا اور کچھ پروا نہ کرتا کہ یہ کس گڑھے میں جا کر گرتے ہیں ۔ لیکن یہ اس کا فضل و کرم ہے کہ پیدا کرنے اور روزی دینے کے ساتھ ان کی زندگی سنوارنے کے لیے علم کی روشنی دکھانا بھی وہ اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے اور اسی بنا پر یہ کلام اپنے ایک بندے پر نازل کر رہا ہے۔ اب اس شخص سے بڑھ کر ناشکرا اور آپ اپنا دشمن کون ہو گا جو اس رحمت سے فائدہ اٹھانے کے بجائے الٹا اس سے لڑنے کے لیے دوڑے۔

تیسری بات یہ فرمائی ہے کہ اس کتاب کی آیات خوب کھول کر بیان کی گئی ہیں ۔ اس میں کوئی بات گنجلک اور پیچیدہ نہیں ہے کہ کوئی شخص اس بنا پر اسے قبول کرنے سے معذوری ظاہر کر دے کہ اس کی سمجھ میں اس کتاب کے مضامین آتے نہیں ہیں ۔ اس میں تو صاف صاف بتایا گیا ہے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا، صحیح عقائد کون سے ہیں اور غلط عقائد کون سے، اچھے اخلاق کیا ہیں اور برے اخلاق کیا، نیکی کیا ہے اور بدی کیا، کس طریقے کی پیروی میں انسان کی بھلائی ہے اور کس طریقے کو اختیار کرنے میں اس کا اپنا خسارہ ہے۔ ایسی صاف اور کھلی ہوئی ہدایت کو اگر کوئی شخص رد کرتا ہے یا اس کی طرف توجہ نہیں کرتا تو وہ کوئی معذرت پیش نہیں کر سکتا۔ اس کے اس رویے کے صاف معنی یہ ہیں کہ وہ خود بر سر غلط رہنا چاہتا ہے۔

چوتھی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ یہ عربی زبان کا قرآن ہے۔ مطلب یہ ہے اگر یہ قرآن کسی غیر زبان میں آتا تو اہل عرب یہ عذر پیش کر سکتے تھے کہ اس زبان ہی سے نابلد ہیں جس میں خدا نے اپنی کتاب بھیجی ہے۔ لیکن یہ تو ان کی اپنی زبان ہے۔ اسے نہ سمجھ سکنے کا بہانا نہیں بنا سکتے۔(اس مقام پر آیت 44 بھی پیش نظر رہے جس میں یہی مضمون ایک دوسرے طریقے سے بیان ہوا ہے۔ اور یہ شبہ کہ پھر غیر اہل عرب کے لیے تو قرآن کی دعوت کو قبول نہ کرنے کے لیے ایک معقول عذر موجود ہے، اس سے پہلے ہم رفع کر چکے ہیں ۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم،یوسف،حاشیہ،5 ۔ رسائل و مسائل، حصہ اول، ص 19 تا 23)

پانچویں بات یہ فرمائی گئی ہے کہ یہ کتاب ان لوگوں کے لیے ہے جو علم رکھتے ہیں ۔ یعنی اس سے فائدہ صرف دانالوگ ہی اٹھا سکتے ہیں۔نادان لوگوں کے لئے یہ اسی طرح بے فائدہ ہے جس طرح ایک قیمتی ہیرا اس شخص کے لئے بے فائدہ ہے جو ہیرے اور پتھر کا فرق نہ جانتا ہو۔

چھٹی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ یہ کتاب بشارت دینے والی اور ڈرانے والی ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ یہ محض ایک تخیل، ایک فلسفہ، اور ایک نمونہ انشاء پیش کرتی ہو جسے ماننے یا نہ ماننے کا کچھ حاصل نہ ہو۔ بلکہ یہ ہانکے پکارے تمام دنیا کو خبردار کر رہی ہے کہ اسے ماننے کے نتائج نہایت شاندار اور نہ ماننے کے نتائج انتہائی ہولناک ہیں ۔ ایسی کتاب کو صرف ایک بیوقوف ہی سر سری طور پر نظر انداز کر سکتا ہے۔

2. یعنی اس کے لیے ہمارے دلوں تک پہنچنے کا کوئی راستہ کھلا ہوا نہیں ہے۔

3. یعنی اس دعوت نے ہمارے اور تمہارے درمیان جدائی ڈال دی ہے۔ اس نے ہمیں اور تمہیں ایک دوسرے سے کاٹ دیا ہے۔ یہ ایک ایسی رکاوٹ بن گئی ہے جو ہم کو اور تم کو جمع نہیں ہونے دیتی۔

4. اس کے دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ ہم کو تم سے کوئی سروکار نہیں ۔ دوسرے یہ کہ تم اپنی دعوت سے باز نہیں آتے تو اپنا کام کیے جاؤ، ہم بھی تمہاری مخالفت سے باز نہ آئیں گے اور جو کچھ تمہیں نیچا دکھانے کے لیے ہم سے ہو سکے گا کریں گے۔

5. یعنی میرے بس میں یہ نہیں ہے کہ تمہارے دلوں پر چڑھے ہوٴئے غلاف اتار دوں ، تمہارے بہرے کان کھول دوں ، اور اس حجاب کو پھاڑ دوں جو تم نے خود ہی میرے اور اپنے درمیان ڈال لیا ہے۔ میں تو ایک انسان ہوں ۔ اسی کو سمجھا سکتا ہوں جو سمجھنے کےلئے تیار ہو۔اسی کو سناسکتا ہوں، جو سننے کے لئے تیار ہو۔ اسی سے مل سکتا ہوں جوملنے کے لیے تیار ہو۔

6. یعنی تم چاہے اپنے دلوں پر غلاف چڑھا لو اور اپنے کان بہرے کر لو۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ تمہارے بہت سے خدا نہیں ہیں بلکہ صرف ایک ہی خدا ہے جس کے تم بندے ہو۔ اور یہ کوئی فلسفہ نہیں ہے جو میں نے اپنے غور و فکر سے بنایا ہو، جس کے صحیح اور غلط ہونے کا یکساں احتمال ہو، بلکہ یہ حقیقت مجھ پر وحی کے ذریعہ سے منکشف کی گئی ہے جس میں غلطی کے احتمال کا شائبہ تک نہیں ہے۔

7. یعنی کسی اور کو خدا نہ بناؤ، کسی اور کی بندگی و پرستش نہ کرو، کسی اور کو مدد کے لیے نہ پکارو، کسی اور کے آگے سر تسلیم و اطاعت خم نہ کرو، کسی اور کے رسم و رواج اور قانون و ضابطہ کو شریعتِ واجب الاطاعت نہ مانو۔

8. معافی اس بے وفائی کی جواب تک تم اپنے خدا سے کرتے رہے، اس شرک اور کفر اور نافرمانی کی جس کا ارتکاب تم سے اب تک ہوتا رہا، اور ان گناہوں کی جو خدا فراموشی کے باعث تم سے سرزد ہوئے۔

9. یہاں زکوٰۃ کے معنی میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ ابن عباس اور ان کے جلیل القدر شاگرد عکرمہ اور مجاہد کہتے ہیں کہ اس مقام پر زکوٰۃ سے مراد وہ پاکیزگی نفس ہے جو توحید کے عقیدے اور اللہ کی اطاعت سے حاصل ہوتی ہے۔ اس تفسیر کے لحاظ سے آیت کا ترجمہ یہ ہو گا کہ تباہی ہے ان مشرکین کے لیے جو پاکیزگی اختیار نہیں کرتے۔ دوسرا گروہ جس میں قتادہ، سُدی، حسن بصری، ضحاک، مُقاتل اور ابن السائب جیسے مفسرین شامل ہیں ، اس لفظ کو یہاں بھی زکوٰۃ مال ہی کے معنی میں لیتا ہے۔ اس تفسیر کے لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جو شرک کر کے خدا کا اور زکوٰۃ نہ دے کر بندوں کا حق مارتے ہیں ۔

10. اصل میں : اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن کے دو معنی اور بھی ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ ایسا اجر ہو گا جس میں کبھی کمی نہ آٴئے گی۔ دوسرے یہ کہ وہ اجر احسان جتا جتا کر نہیں دیا جاٴئے گا جیسے کسی بخیل کا عطیہ ہوتا ہے کہ اگر وہ جی کڑا کر کے کسی کو کچھ دیتا بھی ہے تو بار بار اس کو جتاتا ہے۔