Tafheem ul Quran

Surah 41 Fussilat, Ayat 26-32

وَقَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لَا تَسۡمَعُوۡا لِهٰذَا الۡقُرۡاٰنِ وَالۡغَوۡا فِيۡهِ لَعَلَّكُمۡ تَغۡلِبُوۡنَ‏ ﴿41:26﴾ فَلَـنُذِيۡقَنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا عَذَابًا شَدِيۡدًاۙ وَّلَنَجۡزِيَنَّهُمۡ اَسۡوَاَ الَّذِىۡ كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿41:27﴾ ذٰ لِكَ جَزَآءُ اَعۡدَآءِ اللّٰهِ النَّارُ​ ۚ لَهُمۡ فِيۡهَا دَارُ الۡخُـلۡدِ​ ؕ جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوۡا بِاٰيٰتِنَا يَجۡحَدُوۡنَ‏ ﴿41:28﴾ وَقَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا رَبَّنَاۤ اَرِنَا الَّذَيۡنِ اَضَلّٰنَا مِنَ الۡجِنِّ وَالۡاِنۡسِ نَجۡعَلۡهُمَا تَحۡتَ اَقۡدَامِنَا لِيَكُوۡنَا مِنَ الۡاَسۡفَلِيۡنَ‏  ﴿41:29﴾ اِنَّ الَّذِيۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا تَتَنَزَّلُ عَلَيۡهِمُ الۡمَلٰٓـئِكَةُ اَلَّا تَخَافُوۡا وَلَا تَحۡزَنُوۡا وَاَبۡشِرُوۡا بِالۡجَـنَّةِ الَّتِىۡ كُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ‏ ﴿41:30﴾ نَحۡنُ اَوۡلِيٰٓـؤُکُمۡ فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا وَفِى الۡاٰخِرَةِ ۚ وَلَـكُمۡ فِيۡهَا مَا تَشۡتَهِىۡۤ اَنۡفُسُكُمۡ وَلَـكُمۡ فِيۡهَا مَا تَدَّعُوۡنَ ؕ‏ ﴿41:31﴾ نُزُلًا مِّنۡ غَفُوۡرٍ رَّحِيۡمٍ‏ ﴿41:32﴾

26 - یہ منکرینِ حق کہتے ہیں”اِس قرآن کو ہرگز نہ سُنو اور جب یہ سنایا جائے تو اس میں خلل ڈالو، شاید کہ اس طرح تم غالب آجاوٴ۔“ 30 27 - اِن کافروں کو ہم سخت عذاب کا مزا چکھا کر رہیں گے اور جو بدترین حرکات یہ کرتے رہے ہیں ان کا پُورا پُورا بدلہ اِنہیں دیں گے۔ 28 - وہ دوزخ ہے جو اللہ کے دُشمنوں کو بدلے میں ملے گی۔ اُسی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اِن کا گھر ہوگا۔ یہ ہے سزا اِس جرم کی کہ وہ ہماری آیات کا انکار کرتے رہے۔ 29 - وہاں یہ کافر کہیں گے کہ ” اے ہمارے ربّ، ذرا ہمیں دکھا دے اُن جِنّوں اور انسانوں کو جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا، ہم انہیں پاوٴں تلے روند ڈالیں گے تاکہ وہ خوب ذلیل و خوار ہوں۔“ 31 30 - 32 جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا ربّ ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، 33 یقیناً اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں 34 اور ان سے کہتے ہیں کہ” نہ ڈرو، نہ غم کرو، 35 اور خوش ہو جاوٴ اُس جنّت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ 31 - ہم اِس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی، وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمہیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمہاری ہوگی، 32 - یہ ہے سامانِ ضیافت اُس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے۔“ ؏۴


Notes

30. یہ کفار مکہ کے ان منصوبوں میں سے ایک تھا جس سے وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت و تبلیغ کو ناکام کرنا چاہتے تھے۔ انہیں خوب معلوم تھا کہ قرآن اپنے اندر کس بلا کی تاثیر رکھتا ہے، اور اس کو سنانے والا کس پائے کا انسان ہے، اور اس شخصیت کے ساتھ اس کا طرز ادا کس درجہ مؤثر ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ایسے عالی مرتبہ شخص کی زبان سے اس دل کش انداز میں اس بے نظیر کلام کو جو سنے گا وہ آخر کار گھائل ہو کر رہے گا۔ اس لیے انہوں نے یہ پروگرام بنایا کہ اس کلام کونہ خود سنو، نہ کسی کو سننے دو۔ محمد صلی اللہ علیہ و سلم جب بھی اسے سنانا شروع کریں ، شور مچاؤ، تالی پیٹ دو۔ آوازے کسو، اعتراضات کی بوچھاڑ کر دو۔ اور اتنی آواز بلند کرو کہ ان کی آواز اس کے مقابلے میں دب جائے۔ اس تدبیر سے وہ امید رکھتے تھے کہ اللہ کے نبی کو شکست دے دیں گے۔

31. یعنی دنیا میں تو یہ لوگ اپنے لیڈروں اور پیشواؤں اور فریب دینے والے شیاطین کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں ، مگر جب قیامت کے روز انہیں پتا چلے گا کہ یہ رہنما انہیں کہاں لے آئے ہیں تو یہی لوگ انہیں کوسنے لگیں گے اور یہ چاہیں گے کہ وہ کسی طرح ان کے ہاتھ آ جائیں تو پکڑ کر انہیں پاؤں تلے روند ڈالیں ۔

32. یہاں تک کفار کو ان کی ہٹ دھرمی اور مخالفت حق کے نتائج پر متنبہ کرنے کے بعد اب اہل ایمان اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف روئے سخن مڑتا ہے۔

33. یعنی محض اتفاقاً کبھی اللہ کو اپنا رب کہتے بھی جائیں اور ساتھ ساتھ دوسروں کو اپنا رب بناتے بھی جائیں ، بلکہ ایک مرتبہ یہ عقیدہ قبول کر لینے کے بعد پھر ساری عمر اس پر قائم رہے، اس کے خلاف کوئی دوسرا عقیدہ اختیار نہ کیا، نہ اس عقیدے کے ساتھ کسی باطل عقیدے کی آمیزش کی، اور اپنی عملی زندگی میں بھی عقیدہ توحید کے تقاضوں کو پورا کرتے رہے۔

توحید پر استقامت کا مفہوم کیا ہے، اس کی تشریح نبی صلی اللہ علیہ و سلم، اور اکابر صحابہؓ نے اس طرح کی ہے :

حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا قد قا لھا ا لناس ثم کفر اکثرھم، فمن مات علیھا فھو ممن استقام۔ ’’ بہت سے لوگوں نے اللہ کو اپنا رب کہا، مگر ان میں سے اکثر کافر ہوگئے۔ ثابت قدم وہ شخص ہے جو مرتے دم تک اسی عقیدے پر جما رہا‘‘ (ابن جریر، نسائی ابن ابی حاتم)۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اس کی تشریح یوں کرتے ہیں : لم یشرکو ا باللہ شیئاً، لَمْ یَلتفتوا الٰی الٰہٍ غیرہ۔ ’’ پھر اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنایا، اس کے سوا کسی دوسرے معبود کی طرف توجہ نہ کی‘‘(ابن جریر)۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ منبر پر یہ آیت تلاوت کی اور فرمایا،’’ خدا کی قسم، استقامت اختیار کرنے والے وہ ہیں جو اللہ کی اطاعت پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوگئے، لومڑیوں کی طرح اِدھر سے اُدھر ، اُدھر سے اِدھر دوڑتے نہ پھرے ‘‘ (ابن جریر)

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ اپنے عمل کو اللہ کے لیے خالص کر لیا‘‘ (کشاف)

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ اللہ کے عائد کردہ فرائض فرمانبرداری کے ساتھ ادا کرتے رہے ‘‘ (کشاف )

34. فرشتوں کا یہ نزول ضروری نہیں ہے کہ کسی محسوس صورت میں ہو اور اہل ایمان انہیں آنکھوں سے دیکھیں یا ان کی آواز کانوں سے سنیں ۔ اگر چہ اللہ جل شانہٗ جس کے لیے چاہے فرشتوں کو علانیہ بھی بھیج دیتا ہے، لیکن بالعموم اہل ایمان پر، خصوصاً سخت وقتوں میں جبکہ دشمنان حق کے ہاتھوں وہ بہت تنگ ہو رہے ہوں ، ان کا نزول غیر محسوس طریقہ سے ہوتا ہے، اور ان کی باتیں کان کے پردوں سے ٹکرانے کے بجائے دل کی گہرائیوں میں سکینت و اطمینان قلب بن کر اترتی ہیں ۔ بعض مفسرین نے فرشتوں کے اس نزول کو موت کے وقت، یا قبر، یا میدان حشر کے لیے مخصوص سمجھا ہے۔ لیکن اگر ان حالات پر غور کیا جائے جن میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں ، تو اس میں کچھ شک نہیں رہتا کہ یہاں اس معاملہ کو بیان کرنے کا اصل مقصد اس زندگی میں دین حق کی سر بلندی کے لیے جانیں لڑانے والوں پر فرشتوں کے نزول کا ذکر کرنا ہے، تاکہ انہیں تسکین حاصل ہو، اور ان کی ہمت بندھے، اور ان کے دل اس احساس سے مطمئن ہو جائیں کہ وہ بے یار و مدد گار نہیں ہیں بلکہ اللہ کے فرشتے ان کے ساتھ ہیں ۔ اگرچہ فرشتے موت کے وقت بھی اہل ایمان کا استقبال کرنے آتے ہیں ، اور قبر (عالم برزخ) میں بھی وہ ان کی پذیرائی کرتے ہیں ، اور جس روز قیامت قائم ہو گی اس روز بھی ابتدائے حشر سے جنت میں پہنچنے تک وہ برابر ان کے ساتھ لگے رہیں گے، لیکن ان کی یہ معیّت اسی عالم کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس دنیا میں بھی وہ جاری ہے۔ سلسلہ کلام صاف بتا رہا ہے کہ حق و باطل کی کشمکش میں جس طرح باطل پرستوں کے ساتھی شیاطین و اشرار ہوتے ہیں اسی طرح اہل ایمان کے ساتھی فرشتے ہوا کرتے ہیں ۔ ایک طرف باطل پرستوں کو ان کے ساتھی ان کے کرتوت خوشنما بنا کر دکھاتے ہیں اور انہیں یقین دلاتے ہیں کہ حق کو نیچا دکھانے کے لیے جو ظلم و ستم اور بے ایمانیاں تم کر رہے ہو، یہی تمہاری کامیابی کے ذرائع ہیں اور انہی سے دنیا میں تمہاری سرداری محفوظ رہے گی۔ دوسری طرف حق پرستوں کے پاس اللہ کے فرشتے آ کر وہ پیغام دیتے ہیں جو آگے کے فقروں میں ارشاد ہو رہا ہے۔

35. یہ بڑے جامع الفاظ ہیں جو دنیا سے لے کر آخرت تک ہر مرحلے میں اہل ایمان کے لیے تسکین کا ایک نیا مضمون اپنے اندر رکھتے ہیں ۔ اس دنیا میں فرشتوں کی اس تلقین کا مطلب یہ ہے کہ باطل کی طاقتیں خواہ کتنی ہی بالا دست اور چیرہ دست ہوں ، ان سے ہر گز خوف زدہ نہ ہو اور حق پرستی کی وجہ سے جو تکلیفیں اور محرومیاں بھی تمہیں سہنی پڑیں ، ان پر کوئی رنج نہ کرو، کیونکہ آگے تمہارے لیے وہ کچھ ہے جس کے مقابلے میں دنیا کی ہر نعمت ہیچ ہے۔ یہی کلمات جب موت کے وقت فرشتے کہتے ہیں تو ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آگے جس منزل کی طرف تم جا رہے ہو وہاں تمہارے لیے کوئی خوف کا مقام نہیں ، کیونکہ وہاں جنت تمہاری منتظر ہے، اور دنیا میں جن کو تم چھوڑ کر جا رہے ہو ان کے لیے تمہیں رنجیدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ، کیونکہ یہاں ہم تمہارے ولی و رفیق ہیں۔عالم برزخ اور میدان حشر میں جب فرشتے یہی کلمات کہیں گے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ یہاں تمہارےلیے چین ہی چین ہے، دنیا کی زندگی میں جو حالات تم پر گزرے ان کا غم نہ کرو اور آخرت میں جو کچھ پیش آنے والا ہے اس کا خوف نہ کھاؤ، اس لیے کہ ہم تمہیں اس جنت کی بشارت دے رہے ہیں جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہا ہے۔