36. اہل ایمان کو تسکین دینے اور ان کی ہمت بندھانے کے بعد اب ان کو ان کے اصل کام کی طرف رغبت دلائی جا رہی ہے۔ گزشتہ آیت میں ان کو بتایا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی پر ثابت قدم ہو جانا اور اس راستے کو اختیار کر لینے کے بعد پھر اس سے منحرف نہ ہونا بجائے خود وہ بنیادی نیکی ہے جو آدمی کو فرشتوں کا دوست اور جنت کا مستحق بناتی ہے۔ اب ان کو بتایا جا رہا ہے کہ آگے کا درجہ، جس سے زیادہ بلند کوئی درجہ انسان کے لیے نہیں ہے، یہ ہے کہ تم خود نیک عمل کرو، اور دوسروں کو اللہ کی بندگی کی طرف بلاؤ، اور شدید مخالفت کے ماحول میں بھی، جہاں اسلام کا اعلان و اظہار کرنا اپنے اوپر مصیبتوں کو دعوت دینا ہے، ڈٹ کر کہو کہ میں مسلمان ہوں ۔ اس ارشاد کی پوری اہمیت سمجھنے کے لیے اس ماحول کا نگاہ میں رکھنا ضروری ہے جس میں یہ بات فرمائی گئی تھی۔ اس وقت حالت یہ تھی کہ جو شخص بھی مسلمان ہونے کا اظہار کرتا تھا اسے یکایک یہ محسوس ہوتا تھا کہ گویا اس نے درندوں کے جنگل میں قدم رکھ دیا ہے جہاں ہر ایک اسے پھاڑ کھانے کو دوڑ رہا ہے۔ اور اس سے آگے بڑھ کو جس نے اسلام کی تبلیغ کے لیے زبان کھولی اس نے تو گویا درندوں کو پکار دیا کہ آؤ اور مجھے بھنبھوڑ ڈالو۔ ان حالات میں فرمایا گیا ہے کہ کسی شخص کا اللہ کو اپنا رب مان کر سیدھی راہ اختیار لینا اور اس سے نہ ہٹنا بلا شبہ اپنی جگہ بڑی اور بنیادی نیکی ہے، لیکن کمال درجے کی نیکی یہ ہے کہ آدمی اٹھ کر کہے کہ میں مسلمان ہوں ، اور نتائج سے بے پرواہ ہو کر اللہ کی بندگی کی طرف خلق خدا کو دعوت دے، اور اس کام کو کرتے ہوئے اپنا عمل اتنا پاکیزہ رکھے کہ کسی کو اسلام اور اس کے علمبرداروں پر حرف رکھنے کی گنجائش نہ ملے۔
37. اس ارشاد کی پوری معنویت سمجھنے کے لیے بھی وہ حالات نگاہ میں رہنے چاہییں جن میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو، اور آپ کے واسطے سے آپ کے پروؤں کو، یہ ہدایت دی گئی تھی۔ صورت حال یہ تھی کہ دعوت حق کا مقابلہ انتہائی ہٹ دھرمی اور سخت جارحانہ مخالفت سے کیا جا رہا تھا، جس میں اخلاق، انسانیت اور شرافت کی ساری حدیں توڑ ڈالی گئی تھیں ۔ ہر جھوٹ حضور اور آپ کے ساتھیوں کے خلاف بولا جا رہا تھا۔ ہر طرح کے ہتھکنڈے آپ کو بدنام کرنے اور آپ کی طرف سے لوگوں کو بدگمان کرنے کے لیے استعمال کیے جا رہے تھے۔ طرح طرح کے الزامات آپ پر چسپاں کیے جا رہے تھے اور مخالفانہ پروپیگنڈا کرنے والوں کی ایک فوج کی فوج آپ کے خلاف دلوں میں وسوسے ڈالتی پھر رہی تھی۔ ہر قسم کی اذیتیں آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو دی جا رہی تھیں جن سے تنگ آ کر مسلمانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد ملک چھوڑ کر نکل جانے پر مجبور ہو گئی تھی۔ پھر آپ کی تبلیغ کو روک دینے کے لیے پروگرام یہ بنایا گیا تھا کہ ہلڑ مچانے والوں کا ایک گروہ ہر وقت آپ کی تاک میں لگا رہے اور جب آپ دعوت حق کے لیے زبان کھولیں ، اتنا شور برپا کر دیا جائے کہ کوئی آپ کی بات نہ سن سکے۔ یہ ایسے ہمت شکن حالات تھے جن میں بظاہر دعوت کے تمام راستے مسدود نظر آتے تھے۔ اس وقت مخالفتوں کے توڑنے کا یہ نسخہ حضورؐ کو بتایا گیا۔
پہلی بات یہ فرمائی گئی کہ نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں ۔ یعنی بظاہر تمہارے مخالفین بدی کا کیسا ہی خوفناک طوفان اٹھا لائے ہوں جس کے مقابلے میں نیکی بالکل عاجز اور بے بس محسوس ہوتی ہو، لیکن بدی بجائے خود اپنے اندر وہ کمزوری رکھتی ہے جو آخر کار اس کا بَھٹّہ بٹھا دیتی ہے۔ کیوں کہ انسان جب تک انسان ہے اس کی فطرت بدی سے نفرت کیے بغیر نہیں رہ سکتی۔ بدی کے ساتھی ہی نہیں ، خود اس کے علمبردار تک اپنے دلوں میں یہ جانتے ہیں کہ وہ جھوٹے ہیں ، ظالم ہیں ، اور اپنی اغراض کے لیے ہٹ دھرمی کر رہے ہیں ۔ یہ چیز دوسروں کے دلوں میں ان کا وقار پیدا کرنا تو در کنار انہیں خود اپنی نظروں سے گرا دیتی ہے اور ان کے اپنے دلوں میں ایک چور بیٹھ جاتا ہے جو ہر مخالفانہ اقدام کے وقت ان کے عزم و ہمت پر اندر سے چھاپا مارتا رہتا ہے۔ اس بدی کے مقابلے میں اگر وہی نیکی جو بالکل عاجز و بے بس نظر آتی ہے، مسلسل کام کرتی چلی جائے، تو آخر کار وہ غالب آ کر رہتی ہے۔کیونکہ اول تو نیکی میں بجائے خود ہی ایک طاقت ہے جودلوں کو مسخر کرتی ہے، اور آدمی خواہ کتنا ہی بگڑا ہوا ہو، اپنے دل میں اس کی قدر محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پھر جب نیکی اور بدی آمنے سامنے مصروف پیکار ہوں اور کھل کر دونوں کے جوہر پوری طرح نمایاں ہو جائیں ، ایسی حالت میں تو ایک مدت کی کشمکش کے بعد کم ہی لوگ ایسے باقی رہ سکتے ہیں جو بدی سے متنفر اور نیکی کے گرویدہ نہ ہو جائیں ۔
دوسری بات یہ فرمائی گئی کہ بدی کا مقابلہ نیکی سے نہیں بلکہ اُس نیکی سے کرو جو بہت اعلیٰ درجے کی ہو یعنی کوئی شخص تمہارے ساتھ برائی کرے اور تم اس کو معاف کر دو تو یہ محض نیکی ہے۔ اعلیٰ درجے کی نیکی یہ ہے کہ جو تم سے برا سلوک کرے تم موقع آنے پر اس کے ساتھ احسان کرو۔
اس کا نتیجہ یہ بتایا گیا ہے کہ بد ترین دشمن بھی آخر کار جگری دوست بن جائے گا۔ اس لیے کہ یہی انسانی فطرت ہے۔ گالی کے جواب میں آپ خاموش رہ جائیں تو بے شک یہ ایک نیکی ہو گی، مگر گالی دینے والے کی زبان بند نہ کر سکے گی۔ لیکن اگر آپ گالی کے جواب میں دعائے خیر کریں تو بڑے سے بڑا بے حیا مخالف بھی شرمندہ ہو کر رہ جائے گا اور پھر مشکل ہی سے کبھی اس کی زبان آپ کے خلاف بد کلامی کے لیے کھل سکے گی۔ کوئی شخص آپ کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ دیتا ہو اور آپ اس کی زیادتیاں برداشت کرتے چلے جائیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی شرارتوں پر اور زیادہ دلیر ہو جائے۔ لیکن اگر کسی موقع پر اسے نقصان پہنچ رہا ہو اور آپ اسے بچا لیں تو وہ آپ کے قدموں میں آ رہے گا، کیونکہ کوئی شرارت مشکل ہی سے اس نیکی کے مقابلے میں کھڑی رہ سکتی ہے۔ تاہم اس قاعدہ کلیہ کو اس معنی میں لینا درست نہیں ہے کہ اس اعلیٰ درجے کی نیکی سے لازماً ہر دشمن جگری دوست ہی بن جائے گا۔ دنیا میں ایسے خبیث النفس لوگ بھی ہوتے ہیں کہ آپ ان کی زیادتیوں سے در گزر کرنے اور ان کی برائی کا جواب احسان اور بھلائی سے دینے میں خواہ کتنا ہی کمال کر دکھائیں ، ان کے نیش عقرب کا زہریلا پن ذرہ برابر بھی کم نہیں ہوتا۔ لیکن اس طرح کے شر مجسم انسان قریب قریب اتنے ہی کم پائے جاتے ہیں جتنے خیر مجسم انسان کمیاب ہیں ۔
38. یعنی یہ نسخہ ہے تو بڑا کار گر، مگر اسے استعمال کرنا کوئی ہنسی کھیل نہیں ہے۔ اس کے لیے بڑا دل گردہ چاہیے۔ اس کے لیے بڑا عزم، بڑا حوصلہ، بڑی قوت برداشت، اور اپنے نفس پر بہت بڑا قابو درکار ہے۔ وقتی طور پر ایک آدمی کسی بدی کے مقابلے میں بڑی نیکی برت سکتا ہے۔ یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ لیکن جہاں کسی شخص کو سالہا سال تک ان باطل پرست اشرار کے مقابلے میں حق کی خاطر لڑنا پڑے جو اخلاق کی کسی حد کو پھاند جانے میں تامل نہ کرتے ہوں ، اور پھر طاقت اور اختیارات کے نشے میں بھی بد مست ہو رہے ہوں ، اور وہاں بدی کا مقابلہ نیکی اور وہ بھی اعلیٰ درجے کی نیکی سے کرتے چلے جانا، اور کبھی ایک مرتبہ بھی ضبط کی باگیں ہاتھ سے نہ چھوڑنا کسی معمولی آدمی کے بس کا کام نہیں ہے۔ یہ کام وہی شخص کر سکتا ہے جو ٹھنڈے دل سے حق کی سربلندی کے لیے کام کرنے کا پختہ عزم کر چکا ہو، جس نے پوری طرح سے اپنے نفس کو عقل و شعور کے تابع کر لیا ہو، اور جس کے اندر نیکی و راستی ایسی گہری جڑیں پکڑ چکی ہو کہ مخالفین کی کوئی شرارت و خباثت بھی اسے اس کے مقام بلند سے نیچے اتار لانے میں کامیاب نہ ہو سکتی ہو۔
39. یہ قانون فطرت ہے۔ بڑے ہی بلند مرتبے کا انسان ان صفات سے متصف ہوا کرتا ہے، اور جو شخص یہ صفات رکھتا ہو اسے دنیا کی کوئی طاقت بھی کامیابی کی منزل تک پہنچنے سے نہیں روک سکتی۔ یہ کسی طرح ممکن ہی نہیں ہے کہ گھٹیا درجے کے لوگ اپنی کمینہ چالوں ، ذلیل ہتھکنڈوں اور رکیک حرکتوں سے اس کو شکست دے دیں ۔
40. شیطان کو سخت تشویش لاحق ہوتی ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ حق و باطل کی جنگ میں کمینگی کا مقابلہ شرافت کے ساتھ اور بدی کا مقابلہ نیکی کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کسی طرح ایک ہی مرتبہ سہی، حق کے لیے لڑنے والوں ، اور خصوصاً ان کے سربرآوردہ لوگوں ، اور سب سے بڑھ کر ان کے رہنما سے کوئی ایسی غلطی کرا دے جس کی بنا پر عامۃ الناس سے یہ کہا جا سکے کہ دیکھیے صاحب، برائی یک طرفہ نہیں ہے، ایک طرف سے اگر گھٹیا حرکتیں کی جا رہی ہیں تو دوسری طرف کے لوگ بھی کچھ بہت اونچے درجے کے انسان نہیں ہیں ، فلاں رکیک حرکت تو آخر انہوں نے بھی کی ہے۔ عامۃ الناس میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ ٹھیک انصاف کے ساتھ ایک طرف کی زیادتیوں اور دوسرے طرف کی جوابی کاروائی کے درمیان موازنہ کر سکیں ۔ وہ جب تک یہ دیکھتے رہتے ہیں کہ مخالفین ہر طرح کی ذلیل حرکتیں کر رہے ہیں مگر یہ لوگ شائستگی و شرافت اور نیکی و راستبازی کے راستے سے ذرا نہیں ہٹتے، اس وقت تک وہ ان کا گہرا اثر قبول کرتے رہتے ہیں ۔ لیکن اگر کہیں ان کی طرف سے کوئی بیجا حرکت،یا ان کے مرتبے سے گِری ہوئی حرکت سرزد ہو جائے، خواہ وہ کسی بڑی زیادتی کے جواب ہی میں کیوں نہ ہو، تو ان کی نگاہ میں دونوں برابر ہو جاتے ہیں ، اور مخالفین کو بھی ایک سخت بات کا جواب ہزار گالیوں سے دینے کا بہانا مل جاتا ہے۔ اسی بنا پر ارشاد ہوا کہ شیطان کے فریب سے چوکنے رہو۔ وہ بڑا درد مند و خیر خواہ بن کر تمہیں اشتعال دلائے گا کہ فلاں زیادتی تو ہر گز برداشت نہ کی جانی چاہیے، اور فلاں بات کا تو منہ توڑ جواب دیا جانا چاہیے، اور اس حملے کے جواب میں تو لڑ جانا چاہیے ورنہ تمہیں بزدل سمجھا جائے گا اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ ایسے ہر موقع پر جب تمہیں اپنے اندر اس طرح کا کوئی نا مناسب اشتعال محسوس ہو تو خبردار ہو جاؤ کہ یہ شیطان کی اکساہٹ ہے جو غصہ دلا کر تم سے کوئی غلطی کرانا چاہتا ہے۔ اور خبردار ہو جانے کے بعد اس زعم میں نہ مبتلا ہو جاؤ کہ میں اپنے مزاج پر قابو رکھتا ہوں ، شیطان مجھ سے کوئی غلطی نہیں کرا سکتا۔ یہ اپنی قوت فیصلہ اور قوت ارادی کا زعم شیطان کا دوسرا اور زیادہ خطرناک فریب ہو گا۔ اس کے بجائے تم کو خدا سے پناہ مانگنی چاہیے، کیونکہ وہی توفیق دے اور حفاظت کرے تو آدمی غلطیوں سے بچ سکتا ہے۔
اس مقام کی بہترین تفسیر وہ واقعہ ہے جو امام احمد نے اپنی مسند میں حضرت ابوہریرہؓ سے نقل کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی موجودگی میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بے تحاشا گالیاں دینے لگا۔ حضرت ابو بکرؓ خاموشی کے ساتھ اس کی گالیاں سنتے رہے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم انہیں دیکھ کر مسکراتے رہے۔ آخر کار جناب صدیقؓ کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا اور انہوں نے بھی جواب میں اسے ایک سخت بات کہہ دی۔ ان کی زبان سے وہ بات نکلتے ہی حضورؐ پر شدید انقباض طاری ہوا جو چہرہ مبارک پر نمایاں ہونے لگا اور آپ فوراً اٹھ کر تشریف لے گئے۔ حضرت ابو بکرؓ بھی اٹھ کر آپ کے پیچھے ہو لیے اور راستے میں عرض کیا کہ یہ کیا ماجرا ہے، وہ مجھے گالیاں دیتا رہا اور آپ خاموش مسکراتے رہے، مگر جب میں نے اسے جواب دیا تو آپ ناراض ہو گئے؟ فرمایا ’’ جب تک تم خاموش تھے، ایک فرشتہ تمہارے ساتھ رہا اور تمہاری طرف سے اس کو جواب دیتا رہا، مگر جب تم بول پڑے تو فرشتے کی جگہ شیطان آ گیا۔ میں شیطان کے ساتھ تو نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ ‘‘
41. مخالفتوں کے طوفان میں اللہ کی پناہ مانگ لینے کے بعد جو چیز مومن کے دل میں صبر و سکون اور اطمینان کی ٹھنڈک پیدا کرتی ہے وہ یہ یقین ہے کہ اللہ بے خبر نہیں ہے۔ جو کچھ ہم کر رہے ہیں اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ہمارے ساتھ کیا جا رہا ہے اس سے بھی وہ واقف ہے۔ ہماری اور ہمارے مخالفین کی ساری باتیں وہ سن رہا ہے اور دونوں کا طرز عمل جیسا کچھ بھی ہے اسے وہ دیکھ رہا ہے۔ اسی اعتماد پر بندہ مومن اپنا اور دشمنان حق کا معاملہ اللہ کے سپرد کر کے پوری طرح مطمئن ہو جا تا ہے۔
یہ پانچواں موقع ہے جہاں نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے واسطے سے اہل ایمان کو دعوت دین اور اصلاح خلق کی یہ حکمت سکھائی گئی ہے۔ اس سے پہلے کے چار مقامات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الاعراف حواشی، 149تا153،النحل 122،123،جلد سوم، المؤمنون، حاشیہ 89،90،العنکبوت، حاشیہ 81،82)
42. اب روٴئے سخن عوام الناس کی طرف مڑ رہا ہے اور چند فقرے ان کو حقیقت سمجھانے کے لیے ارشاد ہوئے ہیں ۔
43. یعنی یہ اللہ کے مظاہر نہیں ہیں کہ تم یہ سمجھتے ہوئے ان کی عبادت کرنے لگو کہ اللہ ان کی شکل میں خود اپنے آپ کو ظاہر کر رہا ہے، بلکہ یہ اللہ کی نشانیاں ہیں جن پر غور کرنے سے تم کائنات کی او اس کے نظام کی حقیقت سمجھ سکتے ہو اور یہ جان سکتے ہو کہ انبیاء علیہم السلام جس توحید خداوندی کی تعلیم دے رہے ہیں وہی امر واقعی ہے۔ سورج اور چاند سے پہلے رات اور دن کا ذکر اس امر پر متنبہ کرنے کے لیے کیا گیا ہے کہ رات کو سورج کا چھپنا اور چاند کا نکل آنا، اور دن کو چاند کا چھپنا اور سورج کا نمودار ہو جانا صاف طور پر یہ دلالت کر رہا ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی خدا یا خدا کا مظہر نہیں ہے، بلکہ دونوں ہی مجبور و لاچار بندے ہیں جو خدا کے قانون میں بندھے ہوئے گردش کر رہے ہیں ۔
44. یہ جواب ہے اس فلسفے کا جو شرک کو معقول ثابت کرنے کے لیے کچھ زیادہ ذہین قسم کے مشرکین عموماً بگھارا کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم ان چیزوں کو سجدہ نہیں کرتے بلکہ ان کے واسطے سے اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں ۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اگر تم واقعی اللہ ہی کے عبادت گزار ہو تو ان واسطوں کی کیا ضرورت ہے، براہ راست خود اسی کو سجدہ کیوں نہیں کرتے۔
45. ’’ غرور میں آ کر‘‘سے مراد یہ ہے کہ اگر یہ تمہاری بات مان لینے میں اپنی ذلت سمجھ کر اسی جہالت پر اصرار کیے چلے جائیں جس میں یہ مبتلا ہیں ۔
46. مطلب یہ ہے کہ پوری کائنات کا نظام، جو ان فرشتوں کے ذریعہ سے چل رہا ہے، اللہ کی توحید اور اسی کی بندگی میں رواں دواں ہے، اس نظام کے منتظم فرشتے ہر آن یہ شہادت دے رہے ہیں کہ ان کا رب اس سے پاک اور منزہ ہے کہ کوئی خداوندی اور معبودیت میں اس کا شریک ہو۔ اب اگر چند احمق سمجھانے پر نہیں مانتے اور ساری کائنات جس راستے پر چل رہی ہے اس سے منہ موڑ کر شرک ہی کی راہ پر چلنے پر اصرار کیے جاتے ہیں تو پڑا رہنے دو ان کو اپنی اس حماقت میں۔
اس مقام کے متعلق یہ امر تو متفق علیہ ہے کہ یہاں سجدہ لازم آتا ہے، مگر اس امر میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہو گیا ہے کہ اوپر کی دونوں آیتوں میں سے کس پر سجدہ کرنا چاہیے۔ حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما : اِنْ کُنْتُمْ اِیَّا ہُ تَعْبُدُوْنَ پر سجدہ کرتے تھے۔ اسی قول کو امام مالک نے اختیار کیا ہے، اور ایک قول امام شافعی سے بھی اسی کی تائید میں منقول ہے۔ لیکن حضرات ابن عباس، ابن عمر، سعید بن المسیّب، مسروق، قتادہ، حسن بصری، ابو عبدالرحمٰن السُّلَمِی، ابن سیرین، ابراہیم نَخَعی اور متعدد دوسرے اکابر : وَھُمْ لَا یَسْئَمُوْنَ پر سجدے کے قائل ہیں ۔ یہی امام ابو حنیفہؒ کا قول بھی ہے اور شافعیوں کے ہاں بھی مرجَّح قول یہی ہے۔
47. تشریح کے لیے ملاحظہ تفہیم القرآن، جلد دوم، النحل حاشیہ 53،جلد سوم الحج حاشیہ 8،9،الروم حاشیہ 28۔ جلد چہارم، فاطر، حاشیہ 19۔
48. عوام الناس کو چند فقروں میں یہ سمجھانے کے بعد کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم جس توحید آخرت کے عقیدے کی طرف دعوت دے رہے ہیں وہی معقول ہے اور آثار کائنات اسی کے حق ہونے کی شہادت دے رہے ہیں ، اب روٴئے سخن پھر ان مخالفین کی طرف مڑتا ہے جو پوری ہٹ دھرمی کے ساتھ مخالفت پر تُلے ہوئے تھے۔
49. اصل الفاظ ہیں : یُلْحِدُوْنَ فِیْ اٰیَا تِنَا (ہماری آیات میں الحاد کرتے ہیں )۔ الحاد کے معنی ہیں انحراف، سیدھی راہ سے ٹیڑھی راہ کی طرف مڑ جانا، کج روی اختیار کرنا۔ اللہ کی آیات میں الحاد کا مطلب یہ ہے کہ آدمی سیدھی بات میں سے ٹیڑھ نکالنے کی کوشش کرے۔ آیات الہی کا ایک صحیح اور صاف مطلب تو نہ لے، باقی ہر طرح کے غلط معنی ان کو پہنا کر خود بھی گمراہ ہو اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتا رہے۔ کفار مکہ قرآن مجید کی دعوت کو زک دینے کے لیے جو چالیں چل رہے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ قرآن کی آیات کو سن کر جاتے اور پھر کسی آیت کو سیاق و سباق سے کاٹ کر، کسی آیت میں لفظی تحریف کر کے، کسی فقرے یا لفظ کو غلط معنی پہنا کر طرح طرح کے اعتراضات جڑتے اور لوگوں کو بہکاتے پھرتے تھے کہ لو سنو، آج ان نبی صاحب نے کیا کہہ دیا ہے۔
50. ان الفاظ میں ایک سخت دھمکی مضمر ہے۔ حاکم ذی اقتدار کا کہنا کہ فلاں شخص جو حرکتیں کر رہا ہے وہ مجھ سے چھپی ہوئی نہیں ہیں ، آپ سے آپ یہ معنی اپنے اندر رکھتا ہے کہ وہ بچ کر نہیں جا سکتا۔
51. یعنی اٹل ہے۔ اس کو ان چالوں سے شکست نہیں دی جا سکتی جو باطل پرست لوگ اس کے خلاف چل رہے ہیں ۔ اس میں صداقت کا زور ہے۔ علم حق کا زور ہے۔ دلیل و حجت کا زور ہے۔ زبان اور بیان کا زور ہے۔ بھیجنے والے خدا کی خدائی کا زور ہے۔ اور پیش کرنے والے رسول کی شخصیت کا زور ہے۔ جھوٹ اور کھوکھلے پروپیگنڈے کے ہتھیاروں سے کوئی اسے زک دینا چاہے تو کیسے دے سکتا ہے۔
52. سامنے سے نہ آ سکنے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن پر براہ راست حملہ کر کے اگر کوئی شخص اس کی کسی بات کو غلط اور کسی تعلیم کو باطل و فاسد ثابت کرنا چاہے تو اس میں کامیاب نہیں ہو سکتا ۔ پیچھے سے نہ آ سکنے کا مطلب یہ ہے کہ کبھی کوئی حقیقت و صداقت ایسی منکشف نہیں ہو سکتی جو قرآن کے پیش کردہ حقائق کے خلاف ہو، کوئی علم ایسا نہیں آ سکتا جو فی الواقع ’’علم‘‘ ہو اور قرآن کے بیان کردہ علم کی تردید کرتا ہو، کوئی تجربہ اور مشاہدہ ایسا نہیں ہو سکتا جو یہ ثابت کر دے کہ قرآن نے عقائد، اخلاق، قانون، تہذیب و تمدن، معیشت و معاشرت اور سیاست تمدُن کے باب میں انسان کو جو رہنمائی دی ہے وہ غلط ہے۔ اس کتاب نے جس چیز کو حق کہہ دیا ہے وہ کبھی باطل ثابت نہیں ہو سکتی اور جسے باطل کہہ دیا ہے وہ کبھی حق ثابت نہیں ہو سکتی۔ مزید برآں اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ باطل خواہ سامنے سے آ کر حملہ آور ہو یا ہیر پھیر کے راستوں سے چھاپے مارے، بہر حال کسی طرح بھی وہ اس دعوت کو شکست نہیں دے سکتا جسے لے کر قرآن آیا ہے۔ تمام مخالفتوں اور مخالفین کی ساری خفیہ اور علانیہ چالوں کے علی الرغم یہ دعوت پھیل کر رہے گی اور کوئی اسے زک نہیں دے سکے گا۔
53. یعنی یہ اس کا حلم اور عفو و درگزر ہی ہے کہ اس کے رسولوں کو جھٹلایا گیا، گالیاں دی گئیں ، اذیتیں پہنچائی گئیں اور پھر بھی وہ سالہا سال تک مخالفین کو مہلت دیتا چلا گیا۔
54. یہ اس ہٹ دھرمی کا ایک اور نمونہ ہے جس سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا مقابلہ کیا جا رہا تھا کفار کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم ) عرب ہیں ، عربی ان کی مادری زبان ہے، وہ اگر عربی میں قرآن پیش کرتے ہیں تو یہ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ یہ کلام انہوں نے خود نہیں گھڑ لیا ہے بلکہ ان پر خدا نے نازل کیا ہے۔ ان کے اس کلام کو خدا کا نازل کیا ہوا کلام تو اس وقت مانا جا سکتا تھا جب یہ کسی ایسی زبان میں یکایک دھواں دھار تقریر کرنا شروع کر دیتے جسے یہ نہیں جانتے، مثلاً فارسی یا رومی یا یونانی۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اب ان کی اپنی زبان میں قرآن بھیجا گیا ہے جسے یہ سمجھ سکیں تو ان کو یہ اعتراض ہے کہ عرب کے ذریعہ سے عربوں کے لیے عربی زبان میں یہ کلام کیوں نازل کیا گیا۔ لیکن اگر کسی دوسری زبان میں یہ بھیجا جاتا تو اس وقت یہی لوگ یہ اعتراض کرتے کہ یہ معاملہ بھی خوب ہے۔ عرب قوم میں ایک عرب کو رسول بنا کر بھیجا گیا ہے، مگر کلام اس پر ایسی زبان میں نازل کیا گیا ہے جسے نہ رسول سمجھتا ہے نہ قوم۔
55. دور سے جب کسی کو پکارا جاتا ہے تو اس کے کان میں ایک آواز تو پڑتی ہے مگر اس کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ کہنے والا کیا کہہ رہا ہے۔ یہ ایسی بے نظیر تشبیہ ہے جس سے ہٹ دھرم مخالفین کے نفسیات کی پوری تصویر نگاہوں کے سامنے کھچ جاتی ہے۔ فطری بات ہے کہ جو شخص کسی تعصب میں مبتلا نہیں ہوتا اس سے اگر آپ گفتگو کریں تو وہ اسے سنتا ہے، سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور معقول بات ہوتی ہے تو کھلے دل سے اس کو قبول کر لیتا ہے۔ اس کے برعکس جو شخص آپ کے خلاف نہ صرف تعصب بلکہ عناد اور بغض رکھتا ہو اس کو آپ اپنی بات سمجھانے کی خواہ کتنی ہی کوشش کریں ، وہ سرے سے اس کی طرف توجہ ہی نہ کرے گا۔ آپ کی ساری بات سن کر بھی اس کی سمجھ میں کچھ نہ آئے گا کہ آپ اتنی دیر تک کیا کہتے رہے ہیں ۔ اور آپ کو بھی یوں محسوس ہو گا کہ جیسے آپ کی آواز اس کے کان کے پردوں سے اُچٹ کر باہر ہی باہر گزرتی رہی ہے، دل اور دماغ تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں پا سکی۔