Tafheem ul Quran

Surah 41 Fussilat, Ayat 45-54

وَلَقَدۡ اٰتَيۡنَا مُوۡسَى الۡكِتٰبَ فَاخۡتُلِفَ فِيۡهِ​ؕ وَلَوۡلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتۡ مِنۡ رَّبِّكَ لَـقُضِىَ بَيۡنَهُمۡ​ؕ وَاِنَّهُمۡ لَفِىۡ شَكٍّ مِّنۡهُ مُرِيۡبٍ‏  ﴿41:45﴾ مَنۡ عَمِلَ صَالِحًـا فَلِنَفۡسِهٖ​ وَمَنۡ اَسَآءَ فَعَلَيۡهَا​ؕ وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلۡعَبِيۡدِ‏ ﴿41:46﴾ اِلَيۡهِ يُرَدُّ عِلۡمُ السَّاعَةِ​ؕ وَمَا تَخۡرُجُ مِنۡ ثَمَرٰتٍ مِّنۡ اَكۡمَامِهَا وَمَا تَحۡمِلُ مِنۡ اُنۡثٰى وَلَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلۡمِهٖ​ؕ وَيَوۡمَ يُنَادِيۡهِمۡ اَيۡنَ شُرَكَآءِىۡۙ قَالُـوۡۤا اٰذَنّٰكَۙ مَا مِنَّا مِنۡ شَهِيۡدٍ​ۚ‏ ﴿41:47﴾ وَضَلَّ عَنۡهُمۡ مَّا كَانُوۡا يَدۡعُوۡنَ مِنۡ قَبۡلُ​ وَظَنُّوۡا مَا لَهُمۡ مِّنۡ مَّحِيۡصٍ‏ ﴿41:48﴾ لَا يَسۡـئَـمُ الۡاِنۡسَانُ مِنۡ دُعَآءِ الۡخَيۡرِ وَاِنۡ مَّسَّهُ الشَّرُّ فَيَـُٔـوۡسٌ قَنُوۡطٌ‏ ﴿41:49﴾ وَلَـئِنۡ اَذَقۡنٰهُ رَحۡمَةً مِّنَّا مِنۡۢ بَعۡدِ ضَرَّآءَ مَسَّتۡهُ لَيَقُوۡلَنَّ هٰذَا لِىۡ ۙ وَمَاۤ اَظُنُّ السَّاعَةَ قَآئِمَةً  ۙ وَّلَـئِنۡ رُّجِعۡتُ اِلٰى رَبِّىۡۤ اِنَّ لِىۡ عِنۡدَهٗ لَـلۡحُسۡنٰى​ ۚ فَلَـنُنَـبِّـئَنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا بِمَا عَمِلُوۡا وَلَـنُذِيۡقَنَّهُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ غَلِيۡظٍ‏ ﴿41:50﴾ وَاِذَاۤ اَنۡعَمۡنَا عَلَى الۡاِنۡسَانِ اَعۡرَضَ وَنَاٰ بِجَانِبِهٖ​ۚ وَاِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ فَذُوۡ دُعَآءٍ عَرِيۡضٍ‏ ﴿41:51﴾ قُلۡ اَرَءَيۡتُمۡ اِنۡ كَانَ مِنۡ عِنۡدِ اللّٰهِ ثُمَّ كَفَرۡتُمۡ بِهٖ مَنۡ اَضَلُّ مِمَّنۡ هُوَ فِىۡ شِقَاقٍۢ بَعِيۡدٍ‏ ﴿41:52﴾ سَنُرِيۡهِمۡ اٰيٰتِنَا فِى الۡاٰفَاقِ وَفِىۡۤ اَنۡفُسِهِمۡ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَهُمۡ اَنَّهُ الۡحَـقُّ​ ؕ اَوَلَمۡ يَكۡفِ بِرَبِّكَ اَنَّهٗ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ شَهِيۡدٌ‏ ﴿41:53﴾ اَلَاۤ اِنَّهُمۡ فِىۡ مِرۡيَةٍ مِّنۡ لِّقَآءِ رَبِّهِمۡ​ؕ اَلَاۤ اِنَّهٗ بِكُلِّ شَىۡءٍ مُّحِيۡطٌ‏ ﴿41:54﴾

45 - اس سے پہلے ہم نے موسیٰؑ کو کتاب دی تھی اور اس کے معاملے میں بھی یہی اختلاف ہوا تھا۔56 اگر تیرے ربّ نے پہلے ہی ایک بات طے نہ کردی ہوتی تو ان اختلاف کرنے والوں کے درمیان فیصلہ چُکا دیا جاتا۔57 اور حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اُس کی طرف سے سخت اضطراب انگیز شک میں پڑے ہوئے ہیں۔58 46 - جو کوئی نیک عمل کرے گا اپنے ہی لیے اچھا کرے گا، جو بدی کرے گا اُس کا وبال اُسی پر ہوگا، اور تیرا ربّ اپنے بندوں کے حق میں ظالم نہیں ہے۔59 47 - اُس ساعت 60 کا علم اللہ ہی کی طرف راجع ہوتا ہے، 61 وہی اُن سارے پھَلوں کو جانتا ہے جو اپنے شگوفوں میں سے نکلتے ہیں، اُسی کو معلوم ہے کہ کونسی مادہ حاملہ ہوئی ہے اور کس نے بچہ جنا ہے۔ 62 پھر جس روز وہ ان لوگوں کو پکارے گا کہ کہاں ہیں میرے وہ شریک؟ یہ کہیں گے، ”ہم عرض کر چکے ہیں، آج ہم میں سے کوئی اس کی گواہی دینے والا نہیں ہے۔“ 63 48 - اُس وقت وہ سارے معبُود ان سے گم ہو جائیں گے جنہیں یہ اِس سے پہلے پُکارتے تھے، 64 اور یہ لوگ سمجھ لیں گے کہ ان کے لیے اب کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔ 49 - انسان کبھی بھلائی کی دُعا مانگتے نہیں تھکتا، 65 اور جب کوئی آفت اس پر آجاتی ہے تو مایوس و دل شکستہ ہوجاتا ہے، 50 - مگر جونہی کہ سخت وقت گزر جانے کے بعد ہم اسے اپنی رحمت کا مزا چکھاتے ہیں ، یہ کہتا ہے کہ”میں اِسی کا مستحق ہوں، 66 اور میں نہیں سمجھتا کہ قیامت کبھی آئے گی، لیکن اگر واقعی میں اپنے ربّ کی طرف پلٹایا گیا تو وہاں بھی مزے کروں گا۔“ حالانکہ کُفر کرنے والوں کو لازماً ہم بتا کر رہیں گے کہ وہ کیا کر کے آئے ہیں اور انہیں ہم بڑے گندے عذاب کا مزا چکھائیں گے۔ 51 - انسان کو جب ہم نعمت دیتے ہیں تو وہ منہ پھیرتا ہے اور اکڑ جاتا ہے۔ 67 اور جب اسے کوئی آفت چھُو جاتی ہے تو لمبی چوڑی دُعائیں کرنے لگتا ہے۔ 68 52 - اے نبیؐ ، اِن سے کہو، کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر واقعی یہ قرآن خدا ہی کی طرف سے ہُوا اور تم اِس کا انکار کرتے رہے تو اُس شخص سے بڑھ کر بھٹکا ہوا اور کون ہوگا جو اِس کی مخالفت میں دُور تک نکل گیا ہو؟ 69 53 - عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھُل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے۔ 70 کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ تیرا ربّ ہر چیز کا شاہد ہے؟ 71 54 - آگاہ رہو، یہ لوگ اپنےربّ کی ملاقات میں شک رکھتے ہیں۔ 72 سُن رکھو، وہ ہر چیز پر محیط ہے۔73 ؏٦


Notes

56. یعنی کچھ لوگوں نے اسے مانا تھا اور کچھ مخالفت پر تُل گئے تھے۔

57. اس ارشاد کے دو مفہوم ہیں ۔ ایک یہ کہ اگر اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی یہ طے نہ کر دیا ہوتا کہ لوگوں کو سوچنے سمجھنے کے لیے کافی مہلت دی جائے گی تو اس طرح کی مخالفت کرنے والوں کا خاتمہ کر دیا جاتا۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اگر اللہ نے پہلے ہی یہ طے نہ کر لیا ہوتا کہ اختلافات کا آخری فیصلہ قیامت کے روز کیا جائے گا تو دنیا ہی میں حقیقت کو بے نقاب کر دیا جاتا اور یہ بات کھول دی جاتی کہ حق پر کون ہے اور باطل پر کون۔

58. اس مختصر سے فقرے میں کفار مکہ کے مرض کی پوری تشخیص کر دی گئی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ وہ قرآن اور محمد صلی اللہ و علیہ و سلم کی طرف سے شک میں پڑے ہوئے ہیں اور اس شک نے ان کو سخت خلجان و اضطراب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بظاہر تو وہ بڑے زور شور سے قرآن کے کلام الہٰی ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے رسول ہونے کا انکار کرتے ہیں ، لیکن درحقیقت ان کا یہ انکار کسی یقین کی بنیاد پر نہیں ہے، بلکہ ان کے دلوں میں شدید تذبذب برپا ہے۔ ایک طرف ان کے ذاتی مفاد، ان کے نفس کی خواہشات، اور ان کے جاہلانہ تعصبات یہ تقاضا کرتے ہیں کہ قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو جھٹلائیں اور پوری طاقت کے ساتھ ان کی مخالفت کریں ۔ دوسری طرف ان کے دل اندر سے پکارتے ہیں کہ یہ قرآن فی الواقع ایک بے مثل کلام ہے جس کے مانند کوئی کلام کسی ادیب یا شاعر سے کبھی نہیں سنا گیا ہے، نہ کوئی مجنون دیوانگی کے عالم میں ایسی باتیں کر سکتا ہے، نہ کبھی شیاطین اس غرض کے لیے آ سکتے ہیں کہ لوگوں کو خدا پرستی اور نیکی و پاکیزگی کی تعلیم دیں ۔ اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو جب وہ جھوٹا کہتے ہیں تو ان کا دل اندر سے کہتا ہے کہ خدا کے بندو کچھ شرم کرو، کیا یہ شخص جھوٹا ہو سکتا ہے؟ جب وہ ان پر الزام رکھتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم یہ سب کچھ حق کی خاطر نہیں بلکہ اپنی بڑائی کے لیے کر رہے ہیں تو ان کا دل اندر سے ملامت کرتا ہے کہ لعنت ہے تم پر، اس نیک نفس انسان کو بندہ غرض کہتے ہو جسے کبھی تم نے دولت اور اقتدار اور نام و نمود کے لیے دوڑ دھوپ کرتے نہیں دیکھا ہے، جس کی ساری زندگی مفاد پرستی کے ہر شائبے سے پاک رہی ہے، جس نے ہمیشہ نیکی اور بھلائی کے لیے کام کیا ہے، مگر کبھی اپنی کسی نفسانی غرض کے لیے کوئی بے جا کام نہیں کیا۔

59. یعنی تیرا رب کبھی یہ ظلم نہیں کر سکتا کہ نیک انسان کی نیکی ضائع کر دے اور بدی کرنے والوں کو ان کی بدی کا بدلہ نہ دے۔

60. اس ساعت سے مراد قیامت ہے،یعنی وہ گھڑی جب بدی کرنے والوں کو ان کی بدی کا بدلہ دیا جائیگا اور ان نیک انسانوں کی داد رسی کی جائے گی جن کے ساتھ بدی کی گئی ہے۔

61. یعنی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ وہ گھڑی کب آئے گی۔ یہ جواب ہے کفار کے اس سوال کا کہ ہم پر بدی کا وبال پڑنے کی جو دھمکی دی جا رہی ہے وہ آخر کب پوری ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے سوال کو نقل کیے بغیر اس کا جواب دیا ہے۔

62. اس ارشاد سے سامعین کو دو باتوں کا احساس دلایا گیا ہے، ایک یہ کہ صرف ایک قیامت ہی نہیں بلکہ تمام امور غیب کا علم اللہ ہی کے لیے مخصوص ہے، کوئی دوسرا عالم الغیب نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ جو خدا جزئیات کا اتنا تفصیلی علم رکھتا ہے اس کی نگاہ سے کسی شخص کے اعمال و افعال کا چوک جانا ممکن نہیں ہے، لہٰذا کسی کو بھی اس کی خدائی میں بے خوف ہو کر من مانی نہیں کرنی چاہیے۔ اسی دوسرے معنی کے لحاظ سے اس فقرے کا تعلق بعد کے فقروں سے جڑتا ہے۔ اس رشاد کے معاً بعد جو کچھ فرمایا گیا ہے اس پر غور کیجیے تو ترتیب کلام سے خود بخود یہ مضمون مترشح ہوتا نظر آئے گا کہ قیامت کے آنے کی تاریخ معلوم کرنے کی فکر میں کہا ں پڑے ہو، فکر اس بات کی کرو کہ جب وہ آئے گی تو اپنی ان گمراہیوں کا تمہیں کیا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ یہی بات ہے جو ایک موقع پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے قیامت کی تاریخ پوچھنے والے ایک شخص سے فرمائی بھی۔ صحاح اور سنن اور مسانید میں حد تواتر کو پہنچی ہوئی روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضورؐ سفر میں کہیں تشریف لے جا رہے تھے۔ راستہ میں ایک شخص نے دور سے پکارا یا محمدؐ۔ آپؐ نے فرمایا بولو کیا کہنا ہے۔ اس نے کہا قیامت کب آئے گی؟ آپؐ نے جواب دیا : ویحک انھا کائنۃ لا محالۃ فھا اعد دت لھا؟ ’’بندۂ خدا، وہ تو بہر حال آنی ہی ہے۔ تو نے اس کے لیے کیا تیاری کی؟‘‘

63. یعنی اب ہم پر حقیقت کھل چکی ہے اور ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ جو کچھ ہم سمجھے بیٹھے تھے وہ سراسر غلط تھا۔ اب ہمارے درمیان کوئی ایک شخص بھی اس بات کا قائل نہیں ہے کہ خدائی میں کوئی دوسرا بھی آپ کا شریک ہے۔’’ ہم عرض کر چکے ہیں ‘‘ کے الفاظ اس پر دلالت کرتے ہیں کہ قیامت کے روز بار بار ہر مرحلے میں کفار سے کہا جائے گا کہ دنیا میں تم خدا کے رسولوں کا کہا ماننے سے انکار کرتے رہے، اب بولو حق پر وہ تھے یا تم؟ اور ہر موقع پر کفار اس بات کا اعتراف کرتے چلے جائیں گے کہ واقعی حق وہی تھا جو انہوں نے بتایا تھا اور غلطی ہماری تھی کہ اس علم کو چھوڑ کر اپنی جہالتوں پر اصرار کرتے رہے۔

64. یعنی مایوسی کے عالم میں یہ لوگ ہر طرف نظر دوڑائیں گے کہ عمر بھر جن کی سیوا کرتے رہے، شاید ان میں سے کوئی مدد کو آئے اور ہمیں خدا کے عذاب سے چھڑا لے، یا کم از کم ہماری سزا ہی کم کرا دے، مگر کسی طرف سے کوئی مددگار بھی ان کو نظر نہ آئے گا۔

65. بھلائی سے مراد ہے خوشحالی، کشادہ رزق، تندرستی، بال بچوں کی خیر وغیرہ۔ اور انسان سے مراد یہاں نوع انسانی کا ہر فرد نہیں ہے، کیونکہ اس میں تو انبیاء اور صلحاء بھی آ جاتے ہیں جو اس صفت سے مبرا ہیں جس کا ذکر آگے آ رہا ہے۔بلکہ اس مقام پر وہ چھچورا اور کم ظرف انسان مراد ہے جو برا وقت آنے پر گڑگڑانے لگتا ہے اور دنیا کا عیش پاتے ہی آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ چونکہ نوع انسانی کی اکثریت اسی کمزوری میں مبتلا ہے اس لیے اسے انسان کی کمزوری قرار دیا گیا ہے۔

66. یعنی یہ سب کچھ مجھے اپنی اہلیت کی بنا پر ملا ہے اور میرا حق یہی ہے کہ میں یہ کچھ پاؤں ۔

67. یعنی ہماری اطاعت و بندگی سے منہ موڑتا ہے اور ہمارے آگے جھکنے کو اپنی توہین سمجھنے لگتا ہے۔

68. اس مضمون کی متعدد آیات اس سے پہلے قرآن مجید میں گزر چکی ہیں ۔ اس کو پوری طرح سمجھنے کے لیے حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں : تفہیم القرآن جلد دوم،یونس حاشیہ 15،ہود حاشیہ 10،بنی اسرائیل حاشیہ 102۔جلد سوم،الروم حواشی 52تا56 جلد چہارم، الزمر، آیات 8۔9۔49۔

69. اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ محض اس خطرے کی بنا پر ایمان لے آؤ کہ اگر کہیں یہ قرآن خدا ہی طرف سے ہوا تو انکار کر کے ہماری شامت نہ آ جائے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح سر سری طور پر بے سوچے سمجھے تم انکار کر رہے ہو، اور بات کو سننے اور سمجھنے کی کوشش کرنے کے بجائے کانوں میں انگلیاں ٹھونسے لیتے ہو، اور خواہ مخواہ کی ضد میں آ کر مخالفت پر تل گئے ہو، یہ کو ئی دانشمندی کی بات نہیں ہے۔ تم یہ دعویٰ تو نہیں کر سکتے کہ تمہیں اس قرآن کے خدا کی طرف سے نہ ہونے کا علم ہو گیا ہے اور تم یقین کے ساتھ یہ جان چکے ہو کہ خدا نے اسے نہیں بھیجا ہے۔ ظاہر ہے کہ اسے کلام الہٰی ماننے سے تمہارا انکار علم کی بنا پر نہیں بلکہ گمان کی بنا پر ہے۔ جس کا صحیح ہونا اگر بادی النظر میں ممکن ہے تو غلط ہونا بھی ممکن ہے۔ اب ذرا ان دونوں قسم کے امکانات کا جائزہ لے کر دیکھ لو۔ تمہارا گمان فرض کرو کہ صحیح نکلا تو تمہارے اپنے خیال کے مطابق زیادہ بس یہی ہو گا کہ ماننے والے اور نہ ماننے والے دونوں یکساں رہیں گے، کیونکہ دونوں ہی کو مر کر مٹی میں مل جانا ہے، اور آگے کوئی زندگی نہیں ہے جس میں کفر و ایمان کے کچھ نتائج نکلنے والے ہوں ۔ لیکن اگر فی الواقع یہ قرآن خدا ہی کی طرف سے ہوا اور وہ سب کچھ پیش آ گیا جس کی یہ خبر دے رہا ہے، پھر بتاؤ کہ اس کا انکار کر کے اور اس کی مخالفت میں اتنی دور جا کر تم کس انجام سے دوچار ہو گے۔ اس لیے تمہارا اپنا مفاد یہ تقاضا کرتا ہے کہ ضد اور ہٹ دھرمی چھوڑ کر سنجیدگی کے ساتھ اس قرآن پر غور کرو۔ اور غور کرنے کے بعد بھی تم ایمان نہ لانے ہی کا فیصلہ کرتے ہو تو نہ لاؤ، مگر مخالفت پر کمر بستہ ہو کر اس حد تک آگے تو نہ بڑھ جاؤ کہ جھوٹ اور مکر و تلبیس اور ظلم و ستم کے ہتھیار اس دعوت کا راستہ روکنے کے لیے استعمال کرنے لگو، اور خود ایمان نہ لانے پر اکتفا نہ کر کے دوسروں کو بھی ایمان لانے سے روکتے پھرو۔

70. اس آیت کے دو مفہوم ہیں اور دونوں ہی اکابر مفسرین نے بیان کیے ہیں :

ایک مفہوم یہ ہے کہ عنقریب یہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ اس قرآن کی دعوت تمام گرد و پیش کے ممالک پر چھا گئی ہے اور یہ خود اس کے آگے سرنگوں ہیں ۔ اس وقت انہیں پتہ چل جائے گا کہ جو کچھ آج ان سے کہا جا رہا ہے اور یہ مان کر نہیں دے رہے ہیں ، وہ سراسر حق تھا۔ بعض لوگوں نے اس مفہوم پر یہ اعتراض کیا ہے کہ محض کسی دعوت کا غالب آ جانا اور بڑے بڑے علاقے فتح کر لینا تو اس کے حق ہونے کی دلیل نہیں ہے، باطل دعوتیں بھی چھا جاتی ہیں اور ان کے پیرو بھی ملک پر ملک فتح کرتے چلے جاتے ہیں ۔ لیکن یہ ایک سطحی اعتراض ہے جو پورے معاملے پر غور کیے بغیر کر دیا گیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور خلفائے راشدین کے دور میں جو حیرت انگیز فتوحات اسلام کو نصیب ہوئیں وہ محض اس معنی میں اللہ کی نشانیاں نہ تھیں کہ اہل ایمان ملک پر ملک فتح کرتے چلے گئے،بلکہ اس معنی میں تھیں کہ یہ فتح ممالک دنیا کی دوسری فتوحات کی طرح نہیں تھی جو ا یک شخص یا ایک خاندان یا ایک قوم کو دوسروں کی جان و مال کا مالک بنا دیتی ہیں اور خدا کی زمین ظلم سے بھر جاتی ہے۔ اس کے بر عکس یہ فتح اپنے جِلَو میں ایک عظیم الشان مذہبی، اخلاقی، ذہنی و فکری، تہذیبی و سیاسی اور تمدنی و معاشی انقلاب لے کر آئی تھی جس کے اثرات جہاں جہاں بھی پہنچے، انسان کے بہترین جوہر کھلتے چلے گئے اور بد ترین اوصاف دبتے چلے گئے۔ دنیا جن فضائل کو صرف تارک الدنیا درویشوں اور گوشے میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنے والوں کے اندر ہی دیکھنے کی امید رکھتی تھی اور کبھی یہ سوچ بھی نہ سکتے تھی کہ کاروبار دنیا چلانے والوں میں بھی وہ پائے جا سکتے ہیں ، اس انقلاب نے وہ فضائل اخلاق فرمانرواؤں کی سیاست میں ، انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والوں کی عدالت میں ، فوجوں کی قیادت کرنے والے سپہ سالاروں کی جنگ اور فتوحات میں ،ٹیکس وصول کرنے والوں کی تحصیلداری میں اور بڑے بڑے کاروبار چلانے والوں کی تجارت میں جلوہ گر کر کے دکھا دیے۔ اس نے اپنے پیدا کروہ معاشرے میں عام انسانوں کو اخلاق اور کردار اور طہارت و نظافت کے اعتبار سے اتنا اونچا اٹھایا کہ دوسرے معاشروں کے چیدہ لوگ بھی ان کی سطح سے فروتر نظر آنے لگے۔ اس نے اوہام و خرافات کے چکر سے نکال کر انسان کو علمی تحقیق اور معقول طرز فکر و عمل کی صاف شاہراہ پر ڈال دیا۔ اس نے اجتماعی زندگی کے ان امراض کا علاج کیا جن کے علاج کی فکر تک سے دوسرے نظام خالی تھے، یا اگر انہوں نے اس کی فکر کی بھی تو ان امراض کے علاج میں کامیاب نہ ہو سکے، مثلاً رنگ و نسل اور وطن و زبان کی بنیاد پر انسانوں کی تفریق، ایک ہی معاشرے میں طبقات کی تقسیم اور ان کے درمیان اونچ نیچ کا امتیاز اور چھوت چھات، قانونی حقوق اور عملی معاشرت میں مساوات کا فقدان، عورتوں کی پستی اور بنیادی حقوق تک سے محرومی، جرائم کی کثرت، شراب اور نشہ آور چیزوں کا عام رواج، حکومت کا تنقید و محاسبے سے بالا تر رہنا، عوام کا بنیادی انسانی حقوق تک سے محروم ہونا، بین الاقوامی تعلقات میں معاہدات کی بے احترامی، جنگ میں وحشیانہ حرکات، اور ایسے ہی دوسرے امراض۔ سب سے بڑھ کر خود عرب کی سر زمین میں اس انقلاب نے دیکھتے دیکھتے طوائف الملوکی کی جگہ نظم، خونریزی و بد امنی کی جگہ امن، فسق و فجور کی جگہ تقویٰ و طہارت، ظلم و بے انصافی کی جگہ عدل، گندگی و نا شائستگی کی جگہ پاکیزگی اور تہذیب، جہالت کی جگہ علم، اور نسل در نسل چلنے والی عداوتوں کی جگہ اخوت و محبت پیدا کر دی، اور جس قوم کے لو گ اپنے قبیلے کی سرداری سے بڑھ کر کسی چیز کا خواب تک نہ دیکھ سکتے تھے انہیں دنیا کا امام بنا دیا۔ یہ تھیں وہ نشانیاں جو اسی نسل نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں جسے مخاطب کر کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلی مرتبہ یہ آیت سنائی تھی۔ اور اس کے بعد سے آج تک اللہ تعالیٰ ان نشانیوں کو برابر دکھائے جا رہا ہے۔ مسلمانوں نے اپنے زوال کے دور میں بھی اخلاق کی جس بلندی کا مظاہرہ کیا ہے اس کی گرد کو بھی وہ لوگ کبھی نہ پہنچ سکے جو تہذیب و شائستگی کے علمبردار بنے پھرتے ہیں ۔ یورپ کی قوموں نے افریقہ، امریکہ، ایشیا اور خود یورپ میں مغلوب قوموں کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک کیا ہے، مسلمانوں کی تاریخ کے کسی دور میں بھی اس کی کوئی نظیر نہیں پیش کی جا سکتی۔ یہ قرآن ہی کی برکت ہے جس نے مسلمانوں میں اتنی انسانیت پیدا کر دی ہے کہ وہ کبھی غلبہ پا کر اتنے ظالم نہ بن سکے جتنے غیر مسلم تاریخ کے ہر دور میں ظالم پائے گئے ہیں اور آج تک پائے جا رہے ہیں ۔ کوئی آنکھیں رکھتا ہو تو خود دیکھ لے کہ اسپین میں جب مسلمان صدیوں حکمراں رہے اس وقت عیسائیوں کے ساتھ کیا سلوک تھا اور جب عیسائی وہاں غالب آئے تو انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ ہندوستان میں آٹھ سو برس کے طویل زمانہ حکومت میں مسلمانوں نے ہندوؤں کے ساتھ کیا برتاؤ کیا اور اب ہندو غالب آ جانے کے بعد کیا برتاؤ کر رہے ہیں ۔ یہودیوں کے ساتھ پچھلے تیرہ سو برس میں مسلمانوں کا رویہ کیا رہا اور اب فلسطین میں مسلمانوں کے ساتھ ان کا کیا رویہ ہے۔

دوسرا مفہوم اس آیت کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آفاق ارض و سماء میں بھی اور انسانوں کے اپنے وجود میں بھی لوگوں کو وہ نشانیاں دکھائے گا جن سے ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن جو تعلیم دے رہا ہے وہی برحق ہے۔ بعض لوگوں نے اس مفہوم پر یہ اعتراض کیا ہے کہ آفاق ارض و سماء اور خود اپنے وجود کو تو لوگ اس وقت بھی دیکھ رہے تھے۔ پھر زمانہ مستقبل میں ان چیزوں کے اندر نشانیاں دکھانے کے کیا معنی۔ لیکن یہ اعتراض بھی ویسا ہی سطحی ہے جیسا اوپر کے مفہوم پر اعتراض سطحی تھا۔ آفاق ارض و سماء تو بے شک وہی ہیں جنہیں انسان ہمیشہ سے دیکھتا رہا ہے، اور انسان کا اپنا وجود بھی اسی طرح کا ہے جیسا ہر زمانے میں دیکھا جاتا رہا ہے، مگر ان چیزوں کے اندر خدا کی نشانیاں اس قدر بے شمار ہیں کہ انسان کبھی ان احاطہ نہیں کر سکا ہے،نہ کبھی کر سکے گا۔ ہر دور میں انسان کے سامنے نئی نئی نشانیاں آتی چلی گئی ہیں اور قیامت تک آتی چلی جائیں گی۔

71. یعنی کیا لوگوں کو انجام بد سے ڈرانے کے لیے یہ بات کافی نہیں ہے کہ اس دعوت حق کو جھٹلانے اور زک پہنچانے کے لیے جو جو کچھ وہ کر رہے ہیں اللہ ان کی ایک ایک حرکت دیکھ رہا ہے۔

72. یعنی ان کے اس رویہ کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہیں اس بات کا یقین نہیں ہے کہ کبھی ان کو اپنے رب کے سامنے جانا ہے اورا پنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے۔

73. یعنی اس کی گرفت سے بچ کر یہ کہیں جا نہیں سکتے اور اس کے ریکارڈ سے ان کی کوئی حرکت چھوٹ نہیں سکتی۔