Tafheem ul Quran

Surah 41 Fussilat, Ayat 9-18

قُلۡ اَـئِنَّكُمۡ لَتَكۡفُرُوۡنَ بِالَّذِىۡ خَلَقَ الۡاَرۡضَ فِىۡ يَوۡمَيۡنِ وَتَجۡعَلُوۡنَ لَهٗۤ اَنۡدَادًا​ؕ ذٰلِكَ رَبُّ الۡعٰلَمِيۡنَ​ۚ‏ ﴿41:9﴾ وَجَعَلَ فِيۡهَا رَوَاسِىَ مِنۡ فَوۡقِهَا وَبٰرَكَ فِيۡهَا وَقَدَّرَ فِيۡهَاۤ اَقۡوَاتَهَا فِىۡۤ اَرۡبَعَةِ اَيَّامٍؕ سَوَآءً لِّلسَّآئِلِيۡنَ‏ ﴿41:10﴾ ثُمَّ اسۡتَـوٰۤى اِلَى السَّمَآءِ وَهِىَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلۡاَرۡضِ ائۡتِيَا طَوۡعًا اَوۡ كَرۡهًا ؕ قَالَتَاۤ اَتَيۡنَا طَآئِعِيۡنَ‏ ﴿41:11﴾ فَقَضٰٮهُنَّ سَبۡعَ سَمٰوَاتٍ فِىۡ يَوۡمَيۡنِ وَاَوۡحٰى فِىۡ كُلِّ سَمَآءٍ اَمۡرَهَا​ ؕ وَزَ يَّـنَّـا السَّمَآءَ الدُّنۡيَا بِمَصَابِيۡحَ ​ۖ  وَحِفۡظًا ​ؕ ذٰ لِكَ تَقۡدِيۡرُ الۡعَزِيۡزِ الۡعَلِيۡمِ‏ ﴿41:12﴾ فَاِنۡ اَعۡرَضُوۡا فَقُلۡ اَنۡذَرۡتُكُمۡ صٰعِقَةً مِّثۡلَ صٰعِقَةِ عَادٍ وَّثَمُوۡدَ ؕ‏ ﴿41:13﴾ اِذۡ جَآءَتۡهُمُ الرُّسُلُ مِنۡۢ بَيۡنِ اَيۡدِيۡهِمۡ وَمِنۡ خَلۡفِهِمۡ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّا اللّٰهَ​ؕ قَالُوۡا لَوۡ شَآءَ رَبُّنَا لَاَنۡزَلَ مَلٰٓـئِكَةً فَاِنَّا بِمَاۤ اُرۡسِلۡتُمۡ بِهٖ كٰفِرُوۡنَ‏ ﴿41:14﴾ فَاَمَّا عَادٌ فَاسۡتَكۡبَرُوۡا فِى الۡاَرۡضِ بِغَيۡرِ الۡحَقِّ وَقَالُوۡا مَنۡ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً  ​ؕ اَوَلَمۡ يَرَوۡا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِىۡ خَلَقَهُمۡ هُوَ اَشَدُّ مِنۡهُمۡ قُوَّةً  ؕ وَكَانُوۡا بِاٰيٰتِنَا يَجۡحَدُوۡنَ‏ ﴿41:15﴾ فَاَرۡسَلۡنَا عَلَيۡهِمۡ رِيۡحًا صَرۡصَرًا فِىۡۤ اَيَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّـنُذِيۡقَهُمۡ عَذَابَ الۡخِزۡىِ فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا​ ؕ وَلَعَذَابُ الۡاٰخِرَةِ اَخۡزٰى​ وَهُمۡ لَا يُنۡصَرُوۡنَ‏ ﴿41:16﴾ وَاَمَّا ثَمُوۡدُ فَهَدَيۡنٰهُمۡ فَاسۡتَحَبُّوا الۡعَمٰى عَلَى الۡهُدٰى فَاَخَذَتۡهُمۡ صٰعِقَةُ الۡعَذَابِ الۡهُوۡنِ بِمَا كَانُوۡا يَكۡسِبُوۡنَ​ۚ‏ ﴿41:17﴾ وَ نَجَّيۡنَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَكَانُوۡا يَتَّقُوۡنَ‏ ﴿41:18﴾

9 - اے نبیؐ، اِن سے کہو، کیا تم اُس خدا سے کُفر کرتے ہو اور دُوسروں کو اُس کا ہمسر ٹھہراتے ہو جس نے زمین کو دو دنوں میں بنا دیا؟ وہی تو سارے جہان والوں کا ربّ ہے۔ 10 - اُس نے (زمین کو وجود میں لانے کے بعد)اوپر سے اس پر پہاڑ جمادیے اور اس میں برکتیں رکھ دیں 11 اور اس کے اندر سب مانگنے والوں کے لیے ہر ایک کی طلب و حاجت کے مطابق ٹھیک اندازے سے خوراک کا سامان مہیّا کر دیا۔ 12 یہ سب کام چار دن میں ہو گئے۔ 13 11 - پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اُس وقت دھواں تھا۔ 14 اُس نے آسمان اور زمین سے کہا” وجود میں آجاوٴ، خواہ تم چاہو یا نہ چاہو۔“ دونوں نے کہا” ہم آگئے فرمانبرداروں کی طرح۔“ 15 12 - تب اُس نے دو دن کے اندر سات آسمان بنا دیے، اور ہر آسمان میں اُس کا قانون وحی کردیا۔ اور آسمانِ دنیا کو ہم نے چراغوں سے آراستہ کیا اور اسے خوب محفوظ کر دیا۔ 16 یہ سب کچھ ایک زبردست علیم ہستی کا منصُوبہ ہے۔ 13 - اب اگر یہ لوگ منہ موڑتے ہیں 17 تو اِن سے کہہ دو کہ میں تم کو اُسی طرح کے ایک اچانک ٹوٹ پڑنے والے عذاب سے ڈراتا ہوں جیسا عاد اور ثمود پر نازل ہوا تھا۔ 14 - جب خدا کے رسُول اُن کے پاس آگے اور پیچھے ، ہر طرف سے آئے 18 اور انہیں سمجھایا کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو تو انہوں نے کہا” ہمارا ربّ چاہتا تو فرشتے بھیجتا، لہٰذا ہم اُس بات کو نہیں مانتے جس کے لیے تم بھیجے گئے ہو۔“ 19 15 - عاد کا حال یہ تھا کہ وہ زمین میں کسی حق کے بغیر بڑے بن بیٹھے اور کہنے لگے”کون ہے ہم سے زیادہ زور آور۔“ اُن کو یہ نہ سُوجھا کہ جس خدا نے ان کو پیدا کیا ہے وہ ان سے زیادہ زور آور ہے؟ وہ ہماری آیات کا انکار ہی کرتے رہے ، 16 - آخر کار ہم نے چند منحوس دنوں میں سخت طوفانی ہوا ان پر بھیج دی۔ 20 تاکہ انہیں دنیا ہی کی زندگی میں ذلّت و رسوائی کے عذاب کا مزا چکھا دیں، 21 اور آخرت کا عذاب تو اس سے بھی زیادہ رُسوا کُن ہے ، وہاں کوئی ان کی مدد کرنے والا نہ ہو گا۔ 17 -
رہے ثمود، تو ان کے سامنے ہم نے راہِ راست پیش کی مگر انہوں نے راستہ دیکھنے کے بجائے اندھا بنا رہنا پسند کیا۔ آخر اُن کے کرتُوتوں کی بدولت ذلّت کا عذاب اُن پر ٹوٹ پڑا
18 - اور ہم نے اُن لوگوں کو بچالیا جو ایمان لائے تھے اور گمراہی و بدعملی سے پرہیز کرتے تھے۔ 22 ؏۲


Notes

11. زمین کی برکتوں سے مراد وہ بے حد و حساب سر و سامان ہے جو کروڑ ہا کروڑ سال سے مسلسل اس کے پیٹ سے نکلتا چلا آ رہا ہے اور خورد بینی کیڑوں سے لے کر انسان کے بلند ترین تمدن تک کی روز افزوں ضروریات پوری کیے چلا جا رہا ہے۔ ان برکتوں میں سب سے بڑی برکتیں ہوا اور پانی ہیں جن کی دولت ہی زمین پر نباتی، حیوانی اور پھر انسانی زندگی ممکن ہوئی۔

12. اصل الفاظ ہیں : قَدَّ رَ فِیْحَآ اَقْوَ اتَھَا فِیْ اَرْبَعَۃِ اَیَّامٍ سَوَ آءً لِلسَّآئِلِیْنَ۔ اس فقرے کی تفسیر میں مفسرین کے متعدد اقوال ہیں :

بعض مفسرین اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ زمین میں اس کے ارزاق مانگنے والوں کے لیے ٹھیک حساب سے رکھ دیے پورے چار دنوں میں ’’۔ یعنی کم یا زیادہ نہیں بلکہ پورے چار دنوں میں ۔

ابن عباس، قَتَادہ اور سُدّی اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ’’ زمین میں اس کے ارزاق چار دنوں میں رکھ دیے۔ پوچھنے والوں کا جواب پورا ہوا ‘‘۔ یعنی جو کوئی یہ پوچھے کہ یہ کام کتنے دنوں میں ہوا، اس کا مکمل جواب یہ ہے کہ چار دنوں میں ہو گیا۔

ابن زید اس کے معنی یہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ زمین میں اس کے ارزاق مانگنے والوں کے لیے چار دنوں کے اندر رکھ دیے ٹھیک اندازے سے ہر ایک کی طلب و حاجت کے مطابق‘‘۔

جہاں تک قواعد زبان کا تعلق ہے، آیت کے الفاظ میں یہ تینوں معنی لینے کی گنجائش ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک پہلے دو معنوں میں کوئی خوبی نہیں ہے۔ موقع و محل کے لحاظ سے دیکھیے تو یہ بات آخر کیا اہمیت رکھتی ہے کہ یہ کام ایک گھنٹہ کم چار دن یا ایک گھنٹہ زیادہ چار دن میں نہیں بلکہ پورے چار دنوں میں ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت اور کمال ربوبیت اور کمال حکمت کے بیان میں کون سی کسر رہ جاتی ہے جسے پورا کرنے کے لیے اس تصریح کی حاجت ہو؟ اسی طرح یہ تفسیر بھی بڑی کمزور تفسیر ہے کہ ’’ پوچھنے والوں کا جواب پورا ہوا‘‘۔ آیت سے پہلے اور بعد کے مضمون میں کسی جگہ بھی کوئی قرینہ یہ نہیں بتاتا کہ اس وقت کسی سائل نے یہ دریافت کیا تھا کہ یہ سارے کام کتنے دنوں میں ہوئے، اور یہ آیت اس کے جواب میں نازل ہوئی۔ انہی وجوہ سے ہم نے ترجمے میں تیسرے معنی کو اختیار کیا ہے۔ ہمارے نزدیک آّیت کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ زمین میں ابتداٴئے آفرینش سے لے کر قیامت تک جس جس قسم کی جتنی مخلوق بھی اللہ تعالیٰ پیدا کرنے والا تھا، ہر ایک کی مانگ اور حاجت کے ٹھیک مطابق غذا کا پورا سامان حساب لگا کر اس نے زمین کے اندر رکھ دیا۔ نباتات کی بے شمار اقسام خشکی اور تری میں پائی جاتی ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی غذائی ضروریات دوسری اقسام سے مختلف ہیں ۔ جاندار مخلوقات کی بے شمار انواع ہوا اور خشکی اور تری میں اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں اور ہر نوع ایک الگ قسم کی غذا مانگتی ہے۔ پھر ان سب سے جدا، ایک اور مخلوق انسان ہے جس کو محض جسم کی پرورش ہی کے لیے نہیں بلکہ اپنے ذوق کی تسکین کے لیے بھی طرح طرح کی خوراکیں درکار ہیں ۔ اللہ کے سوا کون جان سکتا تھا کہ اس کرّہ خاکی پر زندگی کا آغاز ہونے سے لے کر اس کے اختتام تک کس کس قسم کی مخلوقات کے کتنے افراد کہاں کہاں اور کب کب وجود میں آئیں گے اور ان کو پالنے کے لیے کیسی اور کتنی غذا درکار ہو گی۔ اپنی تخلیقی اسکیم میں جس طرح اس نے غذا طلب کرنے والی ان مخلوقات کو پیدا کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اسی طرح اس نے ان کی طلب کو پورا کرنے کے لیے خوراک کا بھی مکمل انتظام کر دیا۔

موجودہ زمانے میں جن لوگوں نے مارکسی تصور اشتراکیت کا اسلامی ایڈیشن ’’قرآنی نظام ربوبیت ‘‘ کے نام سے نکالا ہے وہ سواءً للسّا ئِلین کا ترجمہ ’’ سب مانگنے والوں کے لیے برابر ‘‘ کرتے ہیں ، اور اس پر استدلال کی عمارت یوں اٹھاتے ہیں کہ اللہ نے زمین میں سب لوگوں کے لیے برابر خوراک رکھی ہے، لہٰذا آیت کے منشا کو پورا کرنے کے لیے ریاست کا ایک ایسا نظام درکار ہے جو سب کو غذا کا مساوی راشن دے، کیونکہ انفرادی ملکیت کے نظام میں وہ مساوات قائم نہیں ہو سکتی جس کا یہ ’’قرآنی قانون‘‘ تقاضا کر رہا ہے۔ لیکن یہ حضرات قرآن سے اپنے نظریات کی خدمت لینے کے جوش میں یہ بات بھول جاتے ہیں کہ سائلین، جن کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے،صرف انسان ہی نہیں ہیں بلکہ مختلف اقسام کی وہ سب مخلوقات ہیں جنہیں زندہ رہنے کے لیے غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیا واقعی ان سب کے درمیان، یا ایک ایک قسم کی مخلوقات کے تمام افراد کے درمیان خدا نے سامان پرورش میں مساوات رکھی ہے؟ کیا فطرت کے اس پورے نظام میں کہیں آپ کو غذا کے مساوی راشن کی تقسیم کا انتظام نظر آتا ہے؟ اگر واقعہ یہ نہیں ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ نباتات اور حیوانات کی دنیا میں ، جہاں انسانی ریاست نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ریاست براہ راست تقسیم رزق کا انتظام کر رہی ہے، اللہ میاں خود اپنے اس ’’قرآنی قانون‘‘ کی خلاف ورزی .................... بلکہ معاذ اللہ، بے انصافی............... فرما رہے ہیں ! پھر وہ یہ بات بھی بھول جاتے ہیں کہ ’’ سائلین ‘‘ میں وہ حیوانات بھی شامل ہیں جنہیں انسان پالتا ہے، اور جن کی خوراک کا انتظام انسان ہی کے ذمہ ہے۔ مثلاً بھیڑ بکری، گائے،بھینس، گھوڑے، گدھے، خچر، اور اونٹ وغیرہ۔اگر قرآنی قانون یہی ہے کہ سب سائلین کو برابر خوراک دی جائے، اور اسی قانون کو نافذ کرنے کے لیے نظام ربوبیت چلانے والی ایک ریاست مطلوب ہے، تو کیا وہ ریاست انسان اور ان حیوانات کے درمیان معاشی مساوات قائم کرے گی؟

13. اس مقام کی تفسیر میں مفسرین کو بالعموم یہ زحمت پیش آئی ہے کہ اگر زمین کی تخلیق کے دو دن، اور اس میں پہاڑ جمانے اور برکتیں رکھنے اور سامان خوراک پیدا کرنے کے چار دن تسلیم کیے جائیں ، تو آگے آسمانوں کی پیدائش دو دنوں میں ہونے کا جو ذکر کیا گیا ہے اس کے لحاظ سے مزید دو دن ملا کر آٹھ دن بن جاتے ہیں ، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر قرآن مجید میں تصریح فرمائی ہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق جملہ چھ دنوں میں ہوئی ہے (مثال کے طور پر ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، ص 36۔ 261۔324۔ جلد دوم ص 420)۔ اسی بنا پر قریب قریب تمام مفسرین یہ کہتے ہیں کہ یہ چار دن زمین کی تخلیق کے دو دن سمیت ہیں ، یعنی دو دن تخلیق زمین کے اور دو دن زمین کے اندر ان باقی چیزوں کی پیدائش کے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے، اس طرح جملہ چار دنوں میں زمین اپنے سرو سامان سمیت مکمل ہو گئی۔ لیکن یہ بات قرآن مجید کے ظاہر الفاظ کے بھی خلاف ہے، اور در حقیقت وہ زحمت بھی محض خیالی زحمت ہے جس سے بچنے کے لیے اس تاویل کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔ زمین کی تخلیق کے دو دن دراصل ان دو دنوں سے الگ نہیں ہیں جن میں بحیثیت مجموعی پوری کائنات بنی ہے۔ آگے کی آیات پر غور کیجیے۔ ان میں زمین اور آسمان دونوں کی تخلیق کا یکجا ذکر کیا گیا ہے اور پھر یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ نے دو دنوں میں سات آسمان بنا دیے۔ ان سات آسمانوں سے پوری کائنات مراد ہے جس کا یک جز ہماری یہ زمین بھی ہے۔ پھر جب کائنات کے دوسرے بے شمار تاروں اور سیاروں کی طرح یہ زمین بھی ان دو دنوں کے اندر مجرد ایک کُرے کی شکل اختیار کر چکی تو اللہ تعالیٰ نے اسکو ذی حیات مخلوقات کے لیے تیار کرنا شروع کیا اور چار دنوں کے اندر اس میں وہ سب کچھ سرو سامان پیدا کر دیا جس کا اوپر کی آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔ دوسرے تاروں اور سیاروں میں ان چار دنوں کے اندر کیا کچھ ترقیاتی کام کیے گئے، ان کا ذکر اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا ہے، کیونکہ نزول قرآن کے دور کا انسان تو در کنار، اس زمانے کا آدمی بھی ان معلومات کو ہضم کرنے کی استعداد نہیں رکھتا۔

14. اس مقام پر تین باتوں کی وضاحت ضروری ہے :

اول یہ کہ آسمان سے مراد یہاں پوری کائنات ہے، جیسا کہ بعد کے فقروں سے ظاہر ہے۔ دوسرے الفاظ میں آسمان کی طرف متوجہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تخلیق کائنات کی طرف متوجہ ہوا۔

دوم یہ کہ دھوئیں سے مراد مادے کی وہ ابتدائی حالت ہے جس میں وہ کائنات کی صورت گری سے پہلے ایک بے شکل منتشرالاجزاء غبار کی طرح فضا میں پھیلا ہوا تھا۔ موجودہ زمانہ کے سائنسداں اسی چیز کو سحابیے (Nebula)سے تعبیر کرتے ہیں اور آغاز کائنات کے متعلق ان کا تصور بھی یہی ہے کہ تخلیق سے پہلے وہ مادہ جس سے کائنات بنی ہے، اسی دُخانی یا سحابی شکل میں منتشر تھا۔

سوم یہ کہ ’’پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا‘‘ سے یہ سمجھنا صحیح نہیں ہے کہ پہلے اس نے زمین بنائی، پھر اس میں پہاڑ جمانے، برکتیں رکھنے اور سامان خوراک فراہم کرنے کا کام انجام دیا، پھر اس سے فارغ ہونے کے بعد وہ کائنات کی تخلیق کی طرف متوجہ ہوا۔ اس غلط فہمی کو بعد کا یہ فقرہ رفع کر دیتا ہے کہ ’’ اس نے آسمان اور زمین سے کہا وجود میں آجاؤ اور انہوں نے کہا ہم آ گئے فرماں برداروں کی طرح‘‘۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس آیت اور بعد کی آیات میں ذکر اُس وقت کا ہو رہا ہے جب نہ زمین تھی نہ آسمان تھا بلکہ تخلیق کائنات کی ابتدا کی جا رہی تھی۔ محض لفظ ثُمَّ (پھر) کو اس بات کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا کہ زمین کی پیدائش آسمان سے پہلے ہو چکی تھی۔ قرآن مجید میں اس امر کی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ ثُمَّ کا لفظ لازماً ترتیب زمانی ہی کے لیے نہیں ہوتا، بلکہ ترتیب بیان کے طور پر بھی اسے استعمال کیا جاتا ہے (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم، سورہ زمر، حاشیہ نمبر 12)

قدیم زمانے کے مفسرین میں یہ بحث مدت ہائے دراز تک چلتی رہی ہے کہ قرآن مجید کی رو سے زمین پہلے بنی ہے یا آسمان۔ ایک گروہ اس آیت اور سورہ بقرہ کی آیت 29 سے یہ استدلال کرتا ہے کہ زمین پہلے بنی ہے۔ دوسرا گروہ سورہ نازعات کی آیات 27 تا 33 سے دلیل لاتا ہے کہ آسمان پہلے بنا ہے، کیونکہ وہاں اس امر کی تصریح ہے کہ زمین کی تخلیق آسمان کے بعد ہوئی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید میں کسی جگہ بھی تخلیق کائنات کا ذکر طبیعیات یا ہیئت کے علوم سکھانے کے لیے نہیں کیا گیا ہے بلکہ توحید و آخرت کے عقائد پر ایمان لانے کی دعوت دیتے ہوئے بے شمار دوسرے آثار کی طرح زمین و آسمان کی پیدائش کو بھی غور و فکر کے لیے پیش فرمایا گیا ہے۔ اس غرض کے لیے یہ بات سرے سے غیر ضروری تھی کہ تخلیق آسمان و زمین کی زمانی ترتیب بیان کی جاتی اور بتایا جاتا کہ زمین پہلے بنی ہے یا آسمان۔دونوں میں سے خواہ یہ پہلے بنی ہو یا وہ، بہر حال دونوں ہی اللہ تعالیٰ کے اِلٰہِ واحد ہونے پر گواہ ہیں اور اس امر پر شاہد ہیں کہ ان کے پیدا کرنے والے نے یہ سارا کارخانہ کسی کھلنڈرے کے کھلونے کے طور پر نہیں بنایا ہے۔ اسی لیے قرآن کسی جگہ زمین کی پیدائش کا ذکر پہلے کرتا ہے اور کسی جگہ آسمان کی پیدائش کا۔ جہاں انسان کو خدا کی نعمتوں کا احساس دلانا مقصود ہوتا ہے وہاں بالعموم وہ زمین کا ذکر پہلے کرتا ہے، کیونکہ وہ انسان سے قریب تر ہے۔ اور جہاں خدا کی عظمت اور اس کے کمال قدرت کا تصور دلانا مقصود ہوتا ہے وہاں بالعموم وہ آسمانوں کا ذکر پہلے کرتا ہے، کیونکہ چرخ گردوں کا منظر ہمیشہ سے انسان کے دل پر ہیبت طاری کرتا رہا ہے۔

15. ان الفاظ میں الہ تعالیٰ نے اپنے طریق تخلیق کی کیفیت ایسے انداز سے بیان فرمائی ہے جس سے خدائی تخلیق اور انسانی صنّاعی کا فرق بالکل واضح ہو جاتا ہے۔ انسان جب کوئی چیز بنانا چاہتا ہے تو پہلے اس کا نقشہ اپنے ذہن میں جماتا ہے، پھر اس کے لیے مطلوبہ مواد جمع کرتا ہے، پھر اس مواد کو اپنے نقشے کے مطابق صورت دینے کے لیے پیہم محنت اور کوشش کرتا ہے، اور اس کوشش کے دوران میں وہ مواد، جسے وہ اپنے ذہنی نقشے پر ڈھالنا چاہتا ہے، مسلسل اس کی مزاحمت کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ کبھی مواد کی مزاحمت کامیاب ہو جاتی ہے اور چیز مطلوبہ نقشے کے مطابق ٹھیک نہیں بنتی اور کبھی آدمی کی کوشش غالب آ جاتی ہے اور وہ اسے اپنی مطلوبہ شکل دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک درزی قمیص بنانا چاہتا ہے۔ اس کے لیے پہلے وہ قمیص کی صورت کا تصور اپنے ذہن میں حاضر کرتا ہے، پھر کپڑا فراہم کر کے اسے اپنے تصور قمیص کے مطابق تراشنے اور سینے کی کوشش کرتا ہے، اور اس کوشش کے دوران میں اسے کپڑے کی اس مزاحمت کا مسلسل مقابلہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ درزی کے تصور پر ڈھلنے کے لیے آسانی سے تیار نہیں ہوتا، حتیٰ کہ کبھی کپڑے کی مزاحمت غالب آ جاتی ہے اور قمیص ٹھیک نہیں بنتا اور کبھی درزی کی کوشش غالب آ جاتی ہے اور وہ کپڑے کو ٹھیک اپنے تصور کے مطابق شکل دے دیتا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ کا طرز تخلیق دیکھیے۔ کائنات کا مادہ دھوئیں کی شکل میں پھیلا ہوا تھا۔ اللہ نے چاہا کہ اسے وہ شکل دے جو اب کائنات کی ہے۔ اس غرض کے لیے اُسے کسی انسان کاریگر کی طرح بیٹھ کر زمین اور چاند اور سورج اور دوسرے تارے اور سیارے گھڑنے نہیں پڑے، بلکہ اُس نے کائنات کے اُس نقشے کو جو اس کے ذہن میں تھا بس یہ حکم دے دیا کہ وہ وجود میں آ جائے، یعنی دھوئیں کی طرح پھیلا ہوا مواد ان کہکشانوں اور تاروں اور سیاروں کی شکل میں ڈھل جائے جنہیں وہ پیدا کرنا چاہتا تھا۔ اس مواد میں یہ طاقت نہ تھی کہ وہ اللہ کے حکم کی مزاحمت کرتا۔اللہ کو اسے کائنات کی صورت میں ڈھالنے کے لیے کوئی محنت اور کوشش نہیں کرنی پڑی۔ادھر حکم ہوا اور ادھر وہ مواد سکڑ اور سمٹ کر فرمانبرداروں کی طرح اپنے مالک کے نقشے پر ڈھلتا چلا گیا، یہاں تک کہ 48 گھنٹوں میں زمین سمیت ساری کائنات بن کر تیار ہو گئی۔

اللہ تعالیٰ کے طریق تخلیق کی اسی کیفیت کو قرآن مجید میں دوسرے متعدد مقامات پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ اللہ جب کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے تو بس اسے حکم دیتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے۔ (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، البقرۃ، حاشیہ، 115،آل عمران، حواشی، 44-53،۔ جلد دوم، النحل حواشی، 35،36۔ جلد سوم، مریم حاشیہ،22۔جلد چہارم، یٰس، آیت 82۔ المومن، آیت 68)۔

16. ان آیات کو سمجھنے کے لیے تفہیم القرآن کے حسب ذیل مقامات کا مطالعہ مفید ہو گا۔ جلد اول،البقرۃ حاشیہ،34۔ جلد دوم الرعد،حاشیہ ،2،الحجر حواشی،8تا12،۔ جلد سوم، الانبیاء حواشی،34،35،المؤمنون، حاشیہ 15۔جلد چہارم، یٰس، حاشیہ نمبر 37۔ الصافّات، حواشی نمبر 5۔6)

17. یعنی اس بات کو نہیں مانتے کہ خدا اور معبود بس وہی ایک ہے جس نے یہ زمین اور ساری کائنات بنائی ہے، اور اپنی اس جہالت پر اصرار ہی کیے چلے جاتے ہیں کہ اُس خدا کے ساتھ دوسروں کو بھی، جو حقیقت میں اس کے مخلوق و مملوک ہیں ، معبود بنائیں گے اور اس کی ذات و صفات اور حقوق و اختیارات میں انہیں اس کا شریک ٹھیرائیں گے۔

18. اس فقرے کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ ان کے پاس رسول آتے رہے۔ دوسرے یہ کہ رسولوں نے ہر پہلو سے انہیں سمجھانے کی کوشش کی اور ان کو راہ راست پر لانے کے لیے کوئی تدبیر اختیار کرنے میں کسر نہ اٹھا رکھی۔ تیسرے یہ کہ ان کے پاس ان کے اپنے ملک میں بھی رسول آئے اور گرد و پیش کے ملکوں بھی آتے رہے۔

19. یعنی اگر اللہ کو ہمارا یہ مذہب پسند نہ ہوتا اور وہ اس سے باز رکھنے کے لیے ہمارے پاس کوئی رسول بھیجنا چاہتا تو فرشتوں کو بھیجتا۔ تم چونکہ فرشتے نہیں ہو بلکہ ہم جیسے انسان ہی ہو اس لیے ہم یہ نہیں مانتے کہ تم کو خدا نے بھیجا ہے اور اس غرض کے لیے بھیجا ہے کہ ہم اپنا مذہب چھوڑ کر وہ دین اختیار کر لیں جسے تم پیش کر رہے ہو۔ کفار کا یہ کہنا کہ جس چیز کے لیے تم ’’ بھیجے گئے ہو‘‘ اسے ہم نہیں مانتے، محض طنز کے طور پر تھا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ انکو خدا کا بھیجا ہوا مانتے تھے اور پھر ان کی بات ماننے سے انکار کرتے تھے۔ بلکہ یہ اسی طرح کا طنزیہ انداز بیان ہے جیسے فرعون نے حضرت موسیٰ کے متعلق اپنے درباریوں سے کہا تھا کہ : اِنَّ رَسُوْلَکُمْ الَّذِیْٓ اُرْسِلَ اِلَیْکُمْ لَمَجْنُوْن (الشعراء: آیت 27)۔’’ یہ رسول صاحب جو تمہارے پاس بھیجے گئے ہیں بالکل ہی پاگل معلوم ہوتے ہیں ۔‘‘(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، سورہ یٰس حاشیہ نمبر 11)

20. ’’ منحوس دنوں ‘‘ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ دن بجائے خود منحوس تھے اور عذاب اس لیے آیا کہ یہ منحوس دن قوم عاد پر آگئے تھے۔ یہ مطلب اگر ہوتا اور بجائے خود ان دنوں ہی میں کوئی نحوست ہوتی تو عذاب دور و نزدیک کی ساری ہی قوموں پر آ جاتا۔ اس لیے صحیح مطلب یہ ہے کہ ان ایام میں چونکہ اس قوم پر خدا کا عذاب نازل ہوا اس بنا پر وہ دن قوم عاد کے لیے منحوس تھے۔ اس آیت سے دنوں کے سعد و نحس پر استدلال کرنا درست نہیں ہے۔

طوفانی ہوا کے لیے ’’ریح صر صر‘‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔ اس کے معنی میں اہل لغت کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد سخت لُو ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد سخت ٹھنڈی ہوا ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد ایسی ہوا ہے جس کے چلنے سے سخت شور برپا ہوتا ہو۔ بہر حال اس معنی پر سب کا اتفاق ہے کہ یہ لفظ بہت تیز طوفانی ہوا کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر اس عذاب کی جو تفصیل آئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ ہوا مسلسل سات رات اور آٹھ دن تک چلتی رہی۔ اس کے زور سے لوگ اس طرح گر گر کر مرگئے اور مر مر کر گر پڑے جیسے کھجور کے کھو کھلے تنے گرے پڑے ہوں (الحاقہ آیت 7) جس چیز پر سے بھی یہ ہوا گزر گئی، اس کو بوسیدہ کر کے رکھ دیا (الزاریات، 42 ) جس وقت یہ ہوا آ رہی تھی اس وقت عاد کے لوگ خوشیاں منا رہے تھے کہ خوب گھٹا گھر کر آئی ہے، بارش ہو گی اور سوکھے دھانوں میں پانی پڑ جائے گا۔ مگر وہ آئی تو اس طرح آئی کہ اس نے ان کے پورے علاقے کو تباہ کر کے رکھ دیا (الا حقاف، 24۔25)

21. یہ ذلت و رسوائی کا عذاب ان کے کبر و غرور کا جواب تھا جس کی بنا پر وہ زمین میں کسی حق کے بغیر بڑے بن بیٹھے تھے اور خم ٹھونک ٹھونک کر کہتے تھے کہ ہم سے زیادہ زور آور کون ہے۔ اللہ نے ان کو اس طرح ذلیل کیا کہ ان کی آبادی کے بڑے حصے کو ہلاک کر دیا، ان کے تمدن کو ملیامیٹ کر کے رکھ دیا، اور اس کا قلیل حصہ جو باقی رہ گیا وہ دنیا کی انہی قوموں کے آگے ذلیل و خوار ہوا جن پر کبھی یہ لوگ اپنا زور جتاتے تھے۔ (عاد کے قصے کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الاعراف حواشی، 51تا53،ہود،حواشی 54تا66،۔ جلد سوم، المؤمنون،حواشی 34تا37،الشعراء،حواشی،88تا94،العنبکوت،حاشیہ 65)

22. ثمود کے قصے کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم،الاعراف،حواشی57تا59،ہود،حواشی 69تا74،الحجر،حواشی، 42تا46،بنی اسرائیل حاشیہ،68،جلد سوم الشعراء حواشی 95تا 106،النمل حواشی،58تا،66)