Tafheem ul Quran

Surah 42 Ash-Shuraa, Ayat 1-9

حٰمٓ‏ ﴿42:1﴾ عٓسٓقٓ‏ ﴿42:2﴾ كَذٰلِكَ يُوۡحِىۡۤ اِلَيۡكَ وَاِلَى الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِكَۙ اللّٰهُ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ‏ ﴿42:3﴾ لَهٗ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الۡاَرۡضِ​ؕ وَهُوَ الۡعَلِىُّ الۡعَظِيۡمُ‏  ﴿42:4﴾ تَـكَادُ السَّمٰوٰتُ يَتَفَطَّرۡنَ مِنۡ فَوۡقِهِنَّ​ وَالۡمَلٰٓـئِكَةُ يُسَبِّحُوۡنَ بِحَمۡدِ رَبِّهِمۡ وَيَسۡتَغۡفِرُوۡنَ لِمَنۡ فِى الۡاَرۡضِ​ؕ اَلَاۤ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِيۡمُ‏ ﴿42:5﴾ وَالَّذِيۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِهٖۤ اَوۡلِيَآءَ اللّٰهُ حَفِيۡظٌ عَلَيۡهِمۡ​ۖ وَمَاۤ اَنۡتَ عَلَيۡهِمۡ بِوَكِيۡلٍ‏ ﴿42:6﴾ وَكَذٰلِكَ اَوۡحَيۡنَاۤ اِلَيۡكَ قُرۡاٰنًا عَرَبِيًّا لِّـتُـنۡذِرَ اُمَّ الۡقُرٰى وَمَنۡ حَوۡلَهَا وَتُنۡذِرَ يَوۡمَ الۡجَمۡعِ لَا رَيۡبَ فِيۡهِ​ؕ فَرِيۡقٌ فِى الۡجَنَّةِ وَفَرِيۡقٌ فِى السَّعِيۡرِ‏ ﴿42:7﴾ وَلَوۡ شَآءَ اللّٰهُ لَجَعَلَهُمۡ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلٰـكِنۡ يُّدۡخِلُ مَنۡ يَّشَآءُ فِىۡ رَحۡمَتِهٖ​ؕ وَالظّٰلِمُوۡنَ مَا لَهُمۡ مِّنۡ وَّلِىٍّ وَّلَا نَصِيۡرٍ‏ ﴿42:8﴾ اَمِ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِهٖۤ اَوۡلِيَآءَ​ۚ فَاللّٰهُ هُوَ الۡوَلِىُّ وَهُوَ يُحۡىِ الۡمَوۡتٰى وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ‏ ﴿42:9﴾

1 - ح م، 2 - ع س ق۔ 3 - اِسی طرح اللہ غالب و حکیم تمہاری طرف اور تم سے پہلے گزرے ہوئے (رسُولوں)کی طرف وحی کرتا رہا ہے۔ 1 4 - آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے اُسی کا ہے، وہ برتر اور عظیم ہے۔ 2 5 - قریب ہے کہ آسمان اُوپر سے پھٹ پڑیں۔ 3 فرشتے اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کر رہے ہیں اور زمین والوں کے حق میں در گزر کی درخواستیں کیے جاتے ہیں۔ 4 آگاہ رہو، حقیقت میں اللہ غفور و رحیم ہی ہے۔ 5 6 - جن لوگوں نے اُس کو چھوڑ کر اپنے کچھ دُوسرے سرپرست 6 بنا رکھے ہیں، اللہ ہی اُن پر نگراں ہے، تم ان کے حوالہ دار نہیں ہو۔ 7 - ہاں، اِسی طرح اے نبیؐ ، یہ قرآنِ عربی ہم نے تمہاری طرف وحی کیا ہے 8 تاکہ تم بستیوں کے مرکز (شہرِ مکّہ)اور اُس کے گرد و پیش رہنے والوں کو خبر دار کردو، 9 اور جمع ہونے کے دن سے ڈرا دو 10 جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ۔ ایک گروہ کو جنّت میں جانا ہے اور دوسرے گروہ کو دوزخ میں۔ 8 - اگر اللہ چاہتا تو اِن سب کو ایک ہی اُمّت بنا دیتا، مگر وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے، اور ظالموں کا نہ کوئی ولی ہے اور نہ مددگار۔ 11 9 - کیا یہ (ایسے نادان ہیں کہ)اِنہوں نے اُسے چھوڑ کر دُوسرے ولی بنا رکھے ہیں؟ ولی تو اللہ ہی ہے، وہی مُردوں کو زندہ کرتا ہے ، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ 12 ؏ا


Notes

1. افتتاح کلام کا یہ انداز خود بتا رہا ہے کہ پس منظر میں وہ چہ میگوئیاں ہیں جو مکہ معظمہ کی ہر محفل ، ہر چوپال، ہر کوچہ و بازار، اور ہر مکان اور دُکان میں اس وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت اور قرآن کے مضامین پر ہو رہی تھیں۔ لوگ کہتے تھے کہ نہ معلوم یہ شخص کہاں سے یہ نرالی باتیں نکال نکال کر لا رہا ہے۔ ہم نے تو ایسی باتیں نہ کبھی سنیں نہ ہوتے دیکھیں۔ وہ کہتے تھے ، یہ عجیب ماجرا ہے کہ باپ دادا سے جو دین چلا آ رہا ہے ، ساری قوم جس دین کی پیروی کر رہی ہے ، سارے ملک میں جو طریقے صدیوں سے رائج ہیں ، یہ شخص ان سب کو غلط قرار دیتا ہے اور کہتا ہے جو دین میں پیش کر رہا ہوں وہ صحیح ہے۔ وہ کہتے تھے ، اس دین کو بھی اگر یہ اس حیثیت سے پیش کرتا کہ دین آبائی اور رائج الوقت طریقوں میں اسے کچھ قباحت نظر آتی ہے اور ان کی جگہ اس نے خود کچھ نئی باتیں سوچ کر نکالی ہیں ، تو اس پر کچھ گفتگو بھی کی جا سکتی تھی، مگر وہ تو کہتا ہے کہ یہ خد ا کا کلام ہے جو میں تمھیں سنا رہا ہوں۔ یہ بات آخر کیسے مان لی جائے؟ کیا خدا اس کے پاس آتا ہے؟ یا یہ خدا کے پاس جاتا ہے؟ یا اس کی اور خدا کی بات چیت ہوتی ہے؟ انہی چرچوں اور چہ میگوئیوں پر بظاہر رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو خطاب کرتے ہوئے، مگر در اصل کفار کو سناتے ہوئے ارشاد ہوا ہے کہ ہاں ، یہی باتیں اللہ عزیز و حکیم وحی فرما رہا ہے اور یہی مضامین لیے ہوئے اس کی وحی پچھلے تمام انبیاء پر نازل ہوتی رہی ہے۔

وحی کے لغوی معنی ہیں ’’ اشارہ سریع‘‘ اور ’’ اشارہ خفی‘‘ ، یعنی ایسا اشارہ جو سرعت کے ساتھ اس طرح کیا جائے کہ بس اشارہ کرنے والا جانے یا وہ شخص جسے اشارہ کیا گیا ہے ، باقی کسی اور شخص کو اس کا پتہ نہ چلنے پائے۔ اس لفظ کو اصطلاحاً اس ہدایت کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو بجلی کی کوند کی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے کسی بندے کے د ل میں ڈالی جائے۔ ارشاد الہٰی کا مدعا یہ ہے کہ اللہ کے کسی کے پاس آنے یا اس کے پاس کسی کے جانے اور رو برو گفتگو کرنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہو تا۔ وہ غالب اور حکیم ہے۔ انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے جب بھی وہ کسی بندے سے رابطہ قائم کرنا چاہے ، کوئی دشواری اس کے ارادے کی راہ میں مزاحم نہیں ہو سکتی۔اور وہ اپنی حکمت سے اس کام کے لیے وحی کا طریقہ اختیار فرما لیتا ہے۔ اسی مضمون کا اعادہ سورۃ کی آخری آیات میں کیا گیا ہے۔ اور وہاں اسے زیادہ کھول کر بیان فرمایا گیا ہے۔

پھر یہ جو ان لوگوں کا خیال تھا کہ یہ نرالی باتیں ہیں ، اس پر ارشاد ہوا ہے کہ یہ نرالی باتیں نہیں ہیں بلکہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے جتنے انبیاء آئے ہیں ان سب کو بھی خدا کی طرف سے یہی کچھ ہدایات دی جاتی رہی ہیں۔

2. یہ تمہیدی فقرے محض اللہ تعالیٰ کی تعریف میں ارشاد نہیں ہو رہے ہیں ، بلکہ ان کا ہر لفظ اس پس منظر سے گہرا ربط رکھتا ہے جس میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور قرآن کے خلاف جو لوگ چہ میگوئیاں کر رہے تھے ، ان کے اعتراضات کی اولین بنیاد یہ تھی کہ حضورؐ ان کو توحید کی دعوت دے رہے تھے اور وہ اس پر کان کھڑے کر کر کے کہتے تھے کہ اگر اکیلا ایک اللہ ہی معبود، حاجت روا اور شارع ہے تو پھر ہمارے بزرگ کیا ہوئے؟ اس پر فرمایا گیا ہے کہ یہ پوری کائنات اللہ تعالیٰ کی ملک ہے۔ مالک کے ساتھ اس کی ملکیت میں کسی اور کی خداوندی آخر کس طرح چل سکتی ہے؟ خصوصاً جبکہ وہ دوسرے جن کی خداوندی مانی جاتی ہے ، یا جو اپنی خداوندی چلانا چاہتے ہیں ، خود بھی اس کے مملوک ہی ہیں۔ پھر فرمایا گیا کہ وہ بر تر اور عظیم ہے ، یعنی اس سے بالا تر اور بزرگ تر ہے کہ کوئی اس کا ہمسر ہو، اور اس کی ذات ، صفات، اختیارات اور حقوق میں سے کسی چیز میں بھی حصہ دار بن سکے۔

3. یعنی یہ کوئی معمولی بات تو نہیں ہے کہ کسی مخلوق کا نسب خدا سے جا ملایا گیا اور اسے خدا کا بیٹا یا بیٹی قرار دے دیا گیا۔ کسی کو حاجت روا اور فریاد رس ٹھیرا لیا گیا اور اس سے دعائیں مانگی جانے لگیں ، کسی بزرگ کو دنیا بھر کا کار ساز سمجھ لیا گیا اور علانیہ کہا جانے لگا کہ ہمارے حضرت ہر وقت ہر جگہ ہر شخص کی سنتے ہیں اور وہی ہر ایک کی مدد کو پہنچ کر اس کے کام بنایا کرتے ہیں کسی کو امر و نہی اور حلال و حرام کا مختار مان لیا گیا اور خدا کو چھوڑ کر لوگ اس کے احکام کی اطاعت اس طرح کرنے لگے کہ گویا وہ ان کا خدا ہے۔ خدا کے مقابلے میں یہ وہ جسارتیں ہیں جن پر اگر آسمان پھٹ پڑیں تو کچھ بعید نہیں ہے۔ (یعنی مضمون سورہ مریم، آیات 88۔91 میں بھی ارشاد ہوا ہے )

4. مطلب یہ ہے کہ فرشتے انسانوں کی یہ باتیں سن سن کر کانوں پر ہاتھ رکھتے ہیں کہ یہ کیا بکواس ہے جو ہمارے رب کی شان میں کی جا رہی ہے ، اور یہ کیسی بغاوت ہے جو زمین کی اس مخلوق نے برپا کر رکھی ہے۔ وہ کہتے ہیں ، سبحان اللہ ، کس کی یہ حیثیت ہو سکتی ہے کہ رب العالمین کے ساتھ الوہیت اور حکم میں شریک ہو سکے ، اور کون اس کے سوا ہمارا اور سب بندوں کا محسن ہے کہ اس کی حمد کے ترانے گائے جائیں اور اس کا شکر ادا کیا جائے۔ پھر وہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ ایسا جرم عظیم دنیا میں کیا جا رہا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہر وقت بھڑک سکتا ہے ، اس لیے وہ زمین پر بسنے والے ان خود فراموش و خدا فراموش بندوں کے حق میں بار بار رحم کی درخواست کرتے ہیں کہ ابھی ان پر عذاب نازل نہ کیا جائے اور انہیں سنبھلنے کا کچھ موقع دیا جائے۔

5. یعنی یہ اس کی حلیمی و رحیمی اور چشم پوشی و در گزر ہی تو ہے جس کی بدولت کفر اور شرک اور دہریت اور فسق و فجور اور ظلم و ستم کی انتہا کر دینے والے لوگ بھی سالہا سال تک ، بلکہ اس طرح کے پورے پورے معاشرے صدیوں تک مہلت پر مہلت پاتے چلے جاتے ہیں ، اور ان کو صرف رزق ہی نہیں ملے جاتا بلکہ دنیا میں ان کی بڑائی کے ڈنکے بجتے ہیں اور زینت حیات دنیا کے وہ سرو سامان انہیں ملتے ہیں جنہیں دیکھ دیکھ کر نادان لوگ اس غلط فہمی میں پڑ جاتے ہیں کہ شاید اس دنیا کا کوئی خدا نہیں ہے۔

6. اصل میں لفظ ’’ اولیا ء‘ ‘استعمال ہوا ہے جس کا مفہوم عربی زبان میں بہت وسیع ہے۔ معبود ان باطل کے متعلق گمراہ انسانوں کے مختلف عقائد اور بہت سے مختلف طرز عمل ہیں جن کو قرآن مجید میں ’’ اللہ کے سوا دوسروں کو اپنا ولی بنانے ‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قرآن پاک کا تتبّع کرنے سے لفظ ’’ولی‘‘ کے حسب ذیل مفہومات معلوم ہوتے ہیں :

1) جس کے کہنے پر آدمی چلے ، جس کی ہدایات پر عمل کرے ، اور جس کے مقرر کیے ہوئے طریقوں ، رسموں اور قوانین و ضوابط کی پیروی کرے (النساء، آیات 118 تا 120۔ الاعراف 3،27 تا 30)۔

2) جس کی رہنمائی (Guidance)پر آدمی اعتماد کرے اور یہ سمجھے کہ وہ اسے صحیح راستہ بتانے والا اور غلطی سے بچانے والا ہے (بقرہ 257۔ بنی اسرائیل 97۔ الکہف 17۔50۔الجاثیہ 19)۔

3) جس کے متعلق آدمی یہ سمجھے کہ میں دنیا میں خواہ کچھ کرتا رہوں ، وہ مجھے اس کے برے نتائج سے اور اگر خدا ہے اور آخرت بھی ہونے والی ہے ، تو اس کے عذاب سے بچا لے گا (انساء 123۔173۔الانعام 51۔ الرعد 37۔ العنکبوت 22۔ الاحزاب 65۔ الزمر 3)

4) جس کے متعلق آدمی یہ سمجھے کہ وہ دنیا میں فوق الفطری طریقے سے اس کی مدد کرتا ہے ، آفات و مصائب سے اس کی حفاظت کرتا ہے ، اسے روزگار دلواتا ہے ، اولاد دیتا ہے ، مرادیں بر لاتا ہے ، اور دوسری ہر طرح کی حاجتیں پوری کرتا ہے (ہود،20۔الرعد،16۔ العنکبوت، 41)

بعض مقامات پر قرآن میں ولی کا لفظ ان میں سے کسی ایک معنی میں استعمال کیا گیا ہے ، اور بعض مقامات پر جامعیت کے ساتھ اس کے سارے ہی مفہومات مراد ہیں۔ آیت زیر تشریح بھی انہی میں سے ایک ہے۔ یہاں اللہ کے سوا دوسروں کو ولی بنانے سے مراد مذکورہ بالا چاروں معنوں میں ان کو اپنا سرپرست بنانا اور حامی و مدد گار سمجھنا ہے۔

8. وہی بات پھر دہرا کر زیادہ زور دیتے ہوئے کہی گئی ہے جو آغاز کلام میں کہی گئی تھی۔ اور ’’قرآن عربی‘‘ کہہ کر سامعین کو متنبہ کیا گیا ہے کہ یہ کسی غیر زبان میں نہیں ہے ، تمہاری اپنی زبان میں ہے۔ تم براہ راست اسے خود سمجھ سکتے ہو، اس کے مضامین پر غور کر کے دیکھو کہ یہ پاک صاف اور بے غرض رہنمائی کیا خداوند عالم کے سوا کسی اور کی طرف سے بھی ہو سکتی ہے۔

9. یعنی انہیں غفلت سے چونکا دو اور متنبہ کر دو کہ افکار و عقائد کی جن گمراہیوں اور اخلاق و کردار کی جن خرابیوں میں تم لوگ مبتلا ہو، اور تمہاری انفرادی اور قومی زندگی جن فاسد اصولوں پر چل رہی ہے ان کا انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے۔

10. یعنی انہیں یہ بھی بتا دو کہ یہ تباہی و بربادی صرف دنیا ہی تک محدود نہیں ہے بلکہ آگے وہ دن بھی آنا ہے جب اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو جمع کر کے ان کا حساب لے گا۔ دنیا میں اگر کوئی شخص اپنی گمراہی و بد عملی کے برے نتائج سے بچ بھی نکلا تو اس دن بچاؤ کی کوئی صورت نہیں ہے۔ اور بڑا ہی بد قسمت ہے وہ جو یہاں بھی خراب ہو اور وہاں بھی اس کی شامت آئے۔

11. یہ مضمون اس سلسلہ کلام میں تین مقاصد کے لیے آیا ہے :

اولاً ، اس سے مقصود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو تعلیم اور تسلی دینا ہے۔ اس میں حضورؐ کو یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ آپ کفار مکہ کی جہالت و ضلالت اور اوپر سے ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کو دیکھ دیکھ کر اس قدر زیادہ نہ کُڑھیں ، اللہ کی مرضی یہی ہے کہ انسانوں کو اختیار و انتخاب کی آزادی عطا کی جائے ، پھر جو ہدایت چاہے اسے ہدایت ملے اور جو گمراہ ہی ہونا پسند کرے اسے جانے دیا جائے جدھر وہ جانا چاہتا ہے۔ اگر یہ اللہ کی مصلحت نہ ہوتی تو انبیاء اور کتابیں بھیجنے کی حاجت ہی کیا تھی، اس کے لیے تو اللہ جل شانہ کا ایک تخلیقی اشارہ کافی تھا، سارے انسان اسی طرح مطیع فرمان ہوتے جس طرح دریا، پہاڑ ، درخت ، مٹی، پتھر اور سب حیوانات ہیں (اس مقصد کے لیے یہ مضمون دوسرے مقامات پر بھی قرآن مجید میں بیان ہوا ہے۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول ، الانعام حواشی 23تا25،71)۔

ثانیاً، اس کے مخاطب وہ تمام لوگ ہیں جو اس ذہنی الجھن میں گرفتار تھے اور اب بھی ہیں کہ اگر اللہ فی الواقع انسانوں کی رہنمائی کرنا چاہتا تھا، اور اگر عقیدہ و عمل کے یہ اختلافات، جو لوگوں میں پھیلے ہوئے ہیں ، اسے پسند نہ تھے ، اور اگر اسے پسند یہی تھا کہ لوگ ایمان و اسلام کی راہ اختیار کریں ، تو اس کے لیے آخر وحی اور کتاب اور نبوت کی کیا ضرورت تھی؟ یہ کام تو وہ بآسانی اس طرح کر سکتا تھا کہ سب کو مومن و مسلم پیدا کر دیتا۔ اسی الجھن کا ایک شاخسانہ یہ استدلال بھی تھا کہ جب اللہ نے ایسا نہیں کیا ہے تو ضرور وہ مختلف طریقے جن پر ہم چل رہے ہیں ، اس کو پسند ہیں ، اور ہم جو کچھ کر رہے ہیں اسی کی مرضی سے کر رہے ہیں ، لہٰذا اس پر اعتراض کا کسی کو حق نہیں ہے (اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے بھی یہ مضمون قرآن میں متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ،الانعام حواشی،80،110،124،125،جلد دوم حاشیہ 101،ہود حاشیہ 116،النحل ،حواشی،10،31،32)

ثالثاً ، اس کا مقصد اہل ایمان کو ان مشکلات کی حقیقت سمجھانا ہے جو تبلیغ دین اور اصلاح خلق کی راہ میں اکثر پیش آتی ہیں جو لوگ اللہ کی دی ہوئی آزادی انتخاب و ارادہ، اور اس کی بنا پر طبائع اور طریقوں کے اختلاف کی حقیقت کو نہیں سمجھتے ، وہ کبھی تو کار اصلاح کی سست رفتاری دیکھ کر مایوس ہونے لگتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ کرامتیں اور معجزات رو نما ہوں تا کہ انہیں دیکھتے ہی لوگوں کے دل بدل جائیں ، اور کبھی وہ ضرورت سے زیادہ جوش سے کام لے کر اصلاح کے بے جا طریقے اختیار کرنے کی طرف مائل ہو جاتے ہیں (اس مقصد کے لیے بھی یہ مضمون بعض مقامات پر قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم،الرعد حواشی،47تا49، النحل حواشی،89تا97)۔

ان مقاصد کے لیے ایک بڑا اہم مضمون ان مختصر سے فقروں میں بیان فرمایا گیا ہے۔ دنیا میں اللہ کی حقیقی خلافت اور آخرت میں اسکی جنت کوئی معمولی رحمت نہیں ہے جو مٹی اور پتھر اور گدھوں اور گھوڑوں کے مرتبے کی مخلوق پر ایک رحمت عام کی طرح بانٹ دی جائے۔ یہ تو ایک خاص رحمت اور بہت اونچے درجے کی رحمت ہے جس کے لیے فرشتوں تک کو موزوں نہ سمجھا گیا۔ اسی لیے انسان کو ایک ذی اختیار مخلوق کی حیثیت سے پیدا کر کے اللہ نے اپنی زمین کے یہ وسیع ذرائع اس کے تصرف میں دیے اور یہ ہنگامہ خیز طاقتیں اس کو بخشیں تاکہ یہ اس امتحان سے گزر سکے جس میں کامیاب ہو کر ہی کوئی بندہ اس کی یہ رحمت خاص پانے کے قابل ہو سکتا ہے۔ یہ رحمت اس کی اپنی چیز ہے۔ اس پر کسی کا اجارہ نہیں ہے۔ نہ کوئی اسے اپنے ذاتی استحقاق کی بنا پر دعوے سے لے سکتا ہے ، نہ کسی میں یہ طاقت ہے کہ اسے بزور حاصل کر سکے۔ اسے وہی لے سکتا ہے جو اللہ کے حضور بندگی پیش کرے ، اس کو اپنا ولی بنائے اور اس کا دامن تھامے۔ تب اللہ اس کی مدد اور رہنمائی کرتا ہے ، اور اسے اس امتحان سے بخیریت گزرنے کی توفیق عطا فرماتا ہے تاکہ وہ اس کی رحمت میں داخل ہو سکے۔ لیکن جو ظالم اللہ ہی سے منہ موڑ لے اور اس کے بجائے دوسروں کو اپنا ولی بنا بیٹھے ، اللہ کو کچھ ضرورت نہیں پڑی ہے کہ خواہ مخواہ زبردستی اس کا ولی بنے ، اور دوسرے جن کو وہ ولی بناتا ہے ، سرے سے کوئی علم، کوئی طاقت اور کسی قسم کے اختیارات ہی نہیں رکھتے کہ اس کی ولایت کا حق ادا کر کے اسے کامیاب کرا دیں۔

12. یعنی ولایت کوئی من سمجھوتے کی چیز نہیں ہے کہ آپ جسے چاہیں اپنا ولی بنا بیٹھیں اور وہ حقیقت میں بھی آپ کا سچا اور اصلی ولی بن جائے اور ولایت کا حق ادا کر دے۔ یہ تو ایک امر واقعی ہے جو لوگوں کی خواہشات کے ساتھ بنتا اور بدلتا نہیں چلا جاتا ، بلکہ جو حقیقت میں ولی ہے وہی ولی ہے ، خواہ آپ اسے ولی نہ سمجھیں اور نہ مانیں ، اور جو حقیقت میں ولی نہیں ہے وہ ولی نہیں ہے ، خواہ آپ مرتے دم تک اسے ولی سمجھتے اور مانتے چلے جائیں۔ اب رہا یہ سوال کہ صرف اللہ ہی کے ولی حقیقی ہونے اور دوسرے کسی کے نہ ہونے کی دلیل کیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کا حقیقی ولی وہی ہو سکتا ہے جو موت کو حیات میں تبدیل کرتا ہے ، جس نے بے جان مادوں میں جان ڈال کر جیتا جاگتا انسان پیدا کیا ہے ، اور جو حق ولایت ادا کرنے کی قدرت اور اختیارات بھی رکھتا ہے۔ وہ اگر اللہ کے سوا کوئی اور ہو تو اسے ولی بناؤ، اور اگر وہ صرف اللہ ہی ہے ، تو پھر اس کے سوا کسی اور کو اپنا ولی بنا لینا جہالت و حماقت اور خود کشی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔