Tafheem ul Quran

Surah 42 Ash-Shuraa, Ayat 20-29

مَنۡ كَانَ يُرِيۡدُ حَرۡثَ الۡاٰخِرَةِ نَزِدۡ لَهٗ فِىۡ حَرۡثِهٖ​ۚ وَمَنۡ كَانَ يُرِيۡدُ حَرۡثَ الدُّنۡيَا نُؤۡتِهٖ مِنۡهَا وَمَا لَهٗ فِى الۡاٰخِرَةِ مِنۡ نَّصِيۡبٍ‏ ﴿42:20﴾ اَمۡ لَهُمۡ شُرَكٰٓؤُا شَرَعُوۡا لَهُمۡ مِّنَ الدِّيۡنِ مَا لَمۡ يَاۡذَنۡۢ بِهِ اللّٰهُ​ؕ وَلَوۡلَا كَلِمَةُ الۡفَصۡلِ لَقُضِىَ بَيۡنَهُمۡ​ؕ وَاِنَّ الظّٰلِمِيۡنَ لَهُمۡ عَذَابٌ اَلِيۡمٌ‏ ﴿42:21﴾ تَرَى الظّٰلِمِيۡنَ مُشۡفِقِيۡنَ مِمَّا كَسَبُوۡا وَهُوَ وَاقِعٌۢ بِهِمۡ​ؕ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فِىۡ رَوۡضَاتِ الۡجَـنّٰتِ​ۚ لَهُمۡ مَّا يَشَآءُوۡنَ عِنۡدَ رَبِّهِمۡ​ؕ ذٰلِكَ هُوَ الۡفَضۡلُ الۡكَبِيۡرُ‏ ﴿42:22﴾ ذٰ لِكَ الَّذِىۡ يُبَشِّرُ اللّٰهُ عِبَادَهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ​ؕ قُلْ لَّاۤ اَسۡـئَـلُـكُمۡ عَلَيۡهِ اَجۡرًا اِلَّا الۡمَوَدَّةَ فِى الۡقُرۡبٰى​ؕ وَمَنۡ يَّقۡتَرِفۡ حَسَنَةً نَّزِدۡ لَهٗ فِيۡهَا حُسۡنًا​ ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ شَكُوۡرٌ‏ ﴿42:23﴾ اَمۡ يَقُوۡلُوۡنَ افۡتَـرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا​ ۚ فَاِنۡ يَّشَاِ اللّٰهُ يَخۡتِمۡ عَلٰى قَلۡبِكَ​ ؕ وَيَمۡحُ اللّٰهُ الۡبَاطِلَ وَيُحِقُّ الۡحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖۤ​ ؕ اِنَّهٗ عَلِيۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ‏ ﴿42:24﴾ وَهُوَ الَّذِىۡ يَقۡبَلُ التَّوۡبَةَ عَنۡ عِبَادِهٖ وَيَعۡفُوۡا عَنِ السَّيِّاٰتِ وَيَعۡلَمُ مَا تَفۡعَلُوۡنَ ۙ‏ ﴿42:25﴾ وَيَسۡتَجِيۡبُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَيَزِيۡدُهُمۡ مِّنۡ فَضۡلِهٖ​ؕ وَالۡكٰفِرُوۡنَ لَهُمۡ عَذَابٌ شَدِيۡدٌ‏ ﴿42:26﴾ وَلَوۡ بَسَطَ اللّٰهُ الرِّزۡقَ لِعِبَادِهٖ لَبَغَوۡا فِى الۡاَرۡضِ وَلٰكِنۡ يُّنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا يَشَآءُ ​ؕ اِنَّهٗ بِعِبَادِهٖ خَبِيۡرٌۢ بَصِيۡرٌ‏ ﴿42:27﴾ وَهُوَ الَّذِىۡ يُنَزِّلُ الۡغَيۡثَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا قَنَطُوۡا وَيَنۡشُرُ رَحۡمَتَهٗ​ ؕ وَهُوَ الۡوَلِىُّ الۡحَمِيۡدُ‏ ﴿42:28﴾ وَ مِنۡ اٰيٰتِهٖ خَلۡقُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَمَا بَثَّ فِيۡهِمَا مِنۡ دَآبَّةٍ​ ؕ وَهُوَ عَلٰى جَمۡعِهِمۡ اِذَا يَشَآءُ قَدِيۡرٌ‏ ﴿42:29﴾

20 - جو کوئی آخرت کی کھیتی چاہتا ہے اُس کی کھیتی کو ہم بڑھاتے ہیں ، اور جو دنیا کی کھیتی چاہتا ہے اُسے دنیا ہی میں سے دیتے ہیں مگر آخرت میں اُس کا کوئی حصّہ نہیں ہے۔ 37 21 - کیا یہ لوگ کچھ ایسے شریکِ خدا رکھتے ہیں جنہوں نے اِن کے لیے دین کی نوعیّت رکھنے والا ایک ایسا طریقہ مقرر کر دیا ہے جس کا اللہ نے اِذن نہیں دیا؟ 38 اگر فیصلے کی بات پہلے طے نہ ہوگئی ہوتی تو ان کا قضّیہ چکا دیا گیا ہوتا۔ 39 یقیناً اِن ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے۔ 22 - تم دیکھو گے کہ یہ ظالم اُس وقت اپنے کیے کے انجام سے ڈر رہے ہوں گے اور وہ اِن پر آکر رہے گا۔ بخلاف اِس کے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں وہ جنّت کے گلستانوں میں ہوں گے، جو کچھ وہ چاہیں گے اپنے ربّ کے ہاں پائیں گے، یہی بڑا فضل ہے۔ 23 - یہ ہے وہ چیز جس کی خوشخبری اللہ اپنے اُن بندوں کو دیتا ہے جنہوں نے مان لیا اور نیک عمل کیے۔ اے نبیؐ ، اِن لوگوں سے کہہ دو کہ میں اِس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں، 40 البتہ قرابت کی محبّت ضرور چاہتا ہوں۔ 41 جو کوئی بھلائی کمائے گا ہم اس کے لیے اس بھلائی میں خوبی کا اضافہ کر دیں گے۔ بے شک اللہ بڑا درگزر کرنے والا اور قدر دان ہے۔ 42 24 - کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اِس شخص نے اللہ پر جھُوٹا بُہتان گھڑ لیا ہے؟ 43 اگر اللہ چاہے تو تمہارے دل پر مُہر کر دے ۔ 44 وہ باطل کر مٹا دیتا ہے اور حق کو اپنے فرمانوں سے حق کر دکھاتا ہے۔ 45 وہ سینوں کے چھُپے ہوئے راز جانتا ہے۔ 46 25 - وہی ہے جو اپنے بندوں سے توبہ قبول کرتا ہے اور بُرائیوں سے درگزر کرتا ہے، حالانکہ تم لوگوں کے سب افعال کا اُسے علم ہے۔ 47 26 - وہ ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کی دُعا قبول کرتا ہے اور اپنے فضل سے ان کو اور زیادہ دیتا ہے۔ رہے انکار کرنے والے تو ان کے لیے دردناک سزا ہے۔ 27 - اگر اللہ اپنے سب بندوں کو کھُلا رزق دے دیتا تو وہ زمین میں سرکشی کا طوفان برپا کر دیتے، مگر وہ ایک حساب سے جتنا چاہتا ہے نازل کرتا ہے، یقیناً وہ اپنے بندوں سے باخبر ہے اور اُن پر نگاہ رکھتا ہے۔ 48 28 - وہی ہے جو لوگوں کے مایوس ہو جانے کے بعد مینّہ برساتا ہے اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے، اور وہی قابلِ تعریف ولی ہے۔ 49 29 - اُس کی نشانیوں میں سے ہے یہ زمین اور آسمانوں کی پیدائش ، اور یہ جاندار مخلوقات جو اُس نے دونوں جگہ پھیلا رکھی ہیں۔ 50 وہ جب چاہے انہیں اکٹھا کر سکتا ہے۔ 51 ؏۳


Notes

37. گذشتہ آیتوں میں دو حقیقتیں بیان کی گئی تھیں، جن کا مشاہدہ ہم ہر وقت ہر طرف کررہے ہیں۔ایک یہ کہ تمام بندوں پر اللہ کا لطف عام ہے۔دوسرے یہ کہ اس کی عطا و بخشش و رزق رسانی میں جزوی تفاوت تو بے شمار ہیں،مگر ایک بہت بڑا اصولی تفاوت بھی ہے، اور وہ یہ ہے کہ آخرت کے طالب کے لیے ایک طرح کا رزق ہےاور دنیا کے طالب کے لیے دوسری طرح کا رزق۔

یہ ایک بڑی اہم حقیقت ہے جسے ان مختصر الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے۔ضرورت ہے کہ اسے پوری تفصیل کے ساتھ سمجھ لیا جائے، کیونکہ یہ ہر انسان کواپنا رویہ متعین کرنے میں مدد دیتی ہے۔

آخرت اور دنیادونوں کے لیے سعی اور عمل کرنے والوں کواس آیت میں کسان سے تشبیہ دی گئی ہےجو زمین تیار کرنے سے لے کرفصل کے تیار ہونے تک مسلسل عرق ریزی اور جان فشانی کرتا ہے اور یہ ساری محنتیں اس غرض کے لیے کرتا ہے کہ اپنی کھیتی میں جو بیج وہ بو رہا ہے اس کی فصل کاٹے اور اس کی فصل سے متمتّع ہو۔لیکن نیت اور مقصد کے فرق، اور بڑی حد تک طرز عمل کے فرق سے بھی،آخرت کی کھیتی بونے والے کسان اور دنیا کی کھیتی بونے والے کسان کے درمیان فرق عظیم واقع ہوجاتا ہے، اس لیے دونوں کی محنتوں کے نتائج و ثمرات بھی اللہ تعالی نے مختلف رکھے ہیں، حالانکہ دونوں کے کام کرنے کی جگہ یہی زمین ہے۔

آخرت کی کھیتی بونے والے کے متعلق اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ اسے دنیا نہیں ملے گی۔ دنیا تو کم یا زیادہ بہرحال اس کو ملنی ہی ہے، کیونکہ یہاں اللہ جل شانہ کے لطف عام میں اس کا بھی حصہ ہے اور رزق نیک و بد سبھی کو یہاں مل رہا ہے۔لیکن اللہ نے اسے خوشخبری دنیا ملنے کی نہیں بلکہ اس بات کی سنائی ہے کہ اس کی آخرت کی کھیتی بڑھائی جائے گی، کیونکہ اسی کا وہ طالب ہے اور اسی کے انجام کی فکر اسے لاحق ہے۔اس کھیتی کے بڑھائے جانے کی بہت سی صورتیں ہیں۔ مثلاً جس قدر زیادہ نیک نیتی کے ساتھ وہ آخرت کے لئے عمل صالح کرتا جائے گا اسے اور زیادہ نیک عمل کی توفیق عطا کی جائے گی اور اس کا سینہ نیکیوں کے لئے کھول دیا جائے گا۔ پاک مقصد کے لیے پاک ذرائع اختیار کرنے کا جب وہ تہیہ کرلے گاتو اس کے لیے پاک ذرائع ہی میں برکت دی جائے گی اور اللہ اس کی نوبت نہ آنے دے گاکہ اس کے لیے خیر سارے دروازے بند ہوکرصرف شر ہی کے دروازے کھلے رہ جائیں۔سب سے زیادہ یہ کہ دنیا میں اس کی تھوڑی نیکی بھی آخرت میں کم از کم دس گنی تو بڑھائی ہی جائیگی، اور زیادہ کی کوئی حد نہیں ہے۔ ہزاروں لاکھوں گنی بھی اللہ جس کے لئے چاہے گا بڑھادے گا۔

رہا دنیا کی کھیتی بونے والا، یعنی وہ شخص جو آخرت نہیں چاہتا، اور سب کچھ دنیا ہی کے لئے کرتا ہے۔ اسے اللہ تعالی نے اس کی محنت کےدو نتائج صاف صاف سنادیے ہیں۔ایک یہ کہ خواہ وہ کتنا ہی سر مارے،جس قدر دنیا حاصل کرنا چاہتا ہے وہ پوری کی پوری اسے نہیں مل جائے گی۔بلکہ اس کا ایک حصہ ہی ملے گا۔جتنا اللہ نے اس کے لیے مقرر کردیا ہے۔دوسرے یہ کہ اسے جو کچھ ملنا ہے بس دنیا ہی میں مل جائے گا،آخرت کی بھلائیوں میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔

38. اس آیت میں شُرَکَا ء سے مراد ، ظاہر بات ہے کہ وہ شریک نہیں ہیں جن سے لوگ دعائیں مانگتے ہیں ، یا جن کی نذر و نیا ز چڑھاتے ہیں ، یا جن کے آگ پوجا پاٹ کے مراسم ادا کرتے ہیں۔ بلکہ لامحالہ ان سے مراد وہ انسان ہیں جن کو لوگوں نے شریک فی الحکم ٹھیرا لیا ہے ، جن کے سکھائے ہوئے افکار و عقائد اور نظریات اور ان فلسفوں پر لوگ ایمان لاتے ہیں ، جن کی دی ہوئی قدروں کو مانتے ہیں ، جن کے پیش کیے ہوئے اخلاقی اصولوں اور تہذیب و ثقافت کے معیاروں کو قبول کرتے ہیں ، جن کے مقرر کیے ہوئے قوانین اور طریقوں اور ضابطوں کو اپنے مذہبی مراسم اور عبادات میں ، اپنی شخصی زندگی میں ، اپنی معاشرت میں ، اپنے تمدن میں ، اپنے کاروبار اور لین دین میں ، اپنی عدالتوں میں ، اور اپنی سیاست اور حکومت میں ، اس طرح اختیار کرتے ہیں کہ گویا یہی وہ شریعت ہے جس کی پیروی ان کو کرنی چاہیے۔ یہ ایک پورا کا پورا دین ہے جو اللہ رب العالمین کی تشریع کے خلاف، اور اس کے اذن (Sanction) کے بغیر ایجاد کرنے والوں نے ایجاد کیا اور ماننے والوں نے مان لیا۔ اور یہ ویسا ہی شرک ہے جیسا غیر اللہ کو سجدہ کرنا اور غیر اللہ سے دعائیں مانگنا شرک ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ،جلد اول ،البقرۃ حواشی، 170،286،آل عمران حاشیہ، 57،النساء، حاشیہ، 90،المائدہ، حواشی، 1تا 5،104،105،الانعام، حواشی، 86،87،106،107،جلد دوم، التوبۃ، حاشیہ،31،یونس حواشی، 60،61،الابراہیم، حواشی، 30تا32،النحل، حواشی، 114تا 116،جلد سوم، الکہف، حواشی 49،50،مریم، حاشیہ، 27، القصص، حاشیہ،86 جلد چہارم ، سبا ، آیت 41، حاشیہ 63۔ یٰسٓ، آیت 60 حاشیہ 53)۔

39. یعنی اللہ کے مقابلہ میں یہ ایسی سخت جسارت ہے کہ اگر فیصلہ قیامت پر نہ اٹھا رکھا گیا ہوتا تو دنیا ہی میں ہر اس شخص پر عذاب نازل کر دیا جاتا جس نے اللہ کا بندہ ہوتے ہوئے، اللہ کی زمین پر خود اپنا دین جاری کیا، اور وہ سب لوگ بھی تباہ کر دیے جاتے جنہوں نے اللہ کے دین کو چھوڑ کر دوسروں کے بنائے ہوئے دین کو قبول کیا۔

40. اس کام سے مراد وہ کوشش ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو خدا کے عذاب سے بچانے اور جنت کی بشارت کا مستحق بنانے کے لیےکررہے تھے۔

41. اصل الفاظ ہیں : اِلَّا الْمَوَدَّ ۃَ فِی الْقُرْبٰی۔ یعنی میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا مگر ’’قربٰی ‘‘ کی محبت ضرور چاہتا ہوں۔ اس لفظ ’’قربٰی‘‘ کی تفسیر میں مفسرین کے درمیان بڑا اختلاف واقع ہو گیا ہے۔

ایک گروہ نے اس کو قرابت (رشتہ داری) کے معنی میں لیا ہے اور آیت کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ’’ میں تم سے اس کام پر کوئی اجر نہیں چاہتا ، مگر یہ ضرور چاہتا ہوں کہ تم لوگ (یعنی اہل قریش) کم از کم اس رشتہ داری کا تو لحاظ کرو جو میرے اور تمہارے درمیان ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ تم میری بات مان لیتے۔ لیکن اگر تم نہیں مانتے تو یہ ستم تو نہ کرو کہ سارے عرب میں سب سے بڑھ کر تم ہی میری دشمنی پر تُل گئے ہو‘‘۔ یہ حضرت عبداللہ بن عباس کی تفسیر ہے جسے بکثرت راویوں کے حوالہ سے امام احمد، بخاری ، مسلم ، ترمذی، ابن جریر، طبرانی، بیہقی ، اور ابن سعد و غیر ہم نے نقل کیا ہے ، اور یہی تفسیر مجاہد، عکرمہ ، قتادہ، سدی، ابو مالک، عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم ، ضحاک، عطاء بن دینار اور دوسرے اکابر مفسرین نے بھی بیان کی ہے۔

دوسرا گروہ’’ قربٰی ‘‘ کو قرب اور تقرب کے معنی میں لیتا ہے ، اور آیت کا مطلب یہ بیان کرتا ہے کہ ’’ میں تم سے اس کام پر کوئی اجر اس کے سوا نہیں چاہتا کہ تمہارے اندر اللہ کے قرب کی چاہت پیدا ہو جائے‘‘ یعنی تم ٹھیک ہو جاؤ، بس یہی میرا اجر ہے۔ یہ تفسیر حضرت حسن بصری سے منقول ہے ، اور ایک قول قتادہ سے بھی اس کی تائید میں نقل ہوا ہے بلکہ طبرانی کی ایک روایت میں اب عباس کی طرف بھی یہ قول منسوب کیا گیا ہے۔ خود قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پر یہی مضمون ان الفاظ میں ارشاد ہوا ہے : قُلْ مَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِلَّا مَنْ شَآ ءَ اَنْ یَّتََّخِذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیْلاً (الفرقان۔57)۔ ’’ ان سے کہہ دو کہ میں اس کام پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا ، میری اجرت بس یہی ہے کہ جس کا جی چاہے وہ اپنے رب کا راستہ اختیار کر لے۔‘‘

تیسرا گروہ ’’ قربٰی ‘‘ کو اقرب (رشتہ داروں ) کے معنی میں لیتا ہے ، اور آیت کا مطلب یہ بیان کرتا ہے کہ ’’ میں تم سے اس کام پر کوئی اجر اس کے سوا نہیں چاہتا کہ تم میرے اقارب سے محبت کرو‘‘۔ پھر اس گروہ کے بعض حضرات اقارب سے تمام بنی عبدالمطلب مراد لیتے ہیں ، اور بعض اسے صرف حضرت علی و فاطمہ اور ان کی اولاد تک محدود رکھتے ہیں۔ یہ تفسیر سعید بن جُبیر اور عمرو بن شعیب سے منقول ہے ، اور بعض روایات میں یہی تفسیر ابن عباس اور حضرت علی بن حسین (زین العابدین) کی طرف منسوب کی گئی ہے۔ لیکن متعدد وجوہ سے یہ تفسیر کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ اول تو جس وقت مکہ معظمہ میں سورہ شوریٰ نازل ہوئی ہے اس وقت حضرت علی و فاطمہ کی شادی تک نہیں ہوئی تھی، اولاد کا کیا سوال۔ اور بنی عبدالمطلب میں سب کے سب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ساتھ نہیں دے رہے تھے ، بلکہ ان میں سے بعض کھلم کھلا دشمنوں کے ساتھی تھے۔ اور ابو لہب کی عداوت کو تو ساری دنیا جانتی ہے۔ دوسرے ، نبی صلی کے رشتہ دار صرف بنی عبدالمطلب ہی نہ تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ ، آپ کے والد ماجد اور آپ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ کے واسطے سے قریش کے تمام گھرانوں میں آپ کی رشتہ داریاں تھیں اور ان سب گھرانوں میں آپؐ کے بہترین صحابی بھی تھے اور بدترین دشمن بھی۔ آخر حضور کے لیے یہ کس طرح ممکن تھا کہ ان سب اقرباء میں سے آپ صرف بنی عبد المطلب کو اپنا رشتہ دار قرار دے کر اس مطالبہ محبت کو انہی کے لیے مخصوص رکھتے۔ تیسری بات ، جو ان سب سے زیادہ اہم ہے ، وہ یہ ہے کہ ایک نبی جس بلند مقام پر کھڑا ہو کر دعوت اِلی اللہ کی پکار بلند کرتا ہے ، اس مقام سے اس کار عظیم پر یہ اجر مانگنا کہ تم میرے رشتہ داروں سے محبت کرو ، اتنی گری ہوئی بات ہے کہ کوئی صاحب ذوق سلیم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ اللہ نے نبی کو یہ بات سکھائی ہو گی اور نبی نے قریش کے لوگوں میں کھڑے ہو کر یہ بات کہی ہو گی۔ قرآن مجید میں انبیاء علیہم السلام کے جو قصے آئے ہیں ان میں ہم دیکھتے ہیں کہ نبی اٹھ کر اپنی قوم سے کہتا ہے کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا ، میرا اجر تو اللہ رب العالمین کے ذمہ ہے۔ (یونس 72۔ ہود 29۔51۔ الشعراء 109۔127۔145۔164۔180)۔ سورہ یٰسٓ میں نبی کی صداقت جانچنے کا معیار یہ بتایا گیا ہے کہ وہ اپنی دعوت میں بے غرض ہوتا ہے (آیت 21)۔ خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے قرآن پاک میں بار بار یہ کہلوایا گیا ہے کہ میں تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں(الانعام 90۔یوسف 104۔المؤمنون 72۔الفرقان 57۔ سبا 47۔ ص 82۔ الطور 40۔ القلم 46)۔ اس کے بعد یہ کہنے کا آخر کیا موقع ہے کہ میں اللہ کی طرف بلانے کا جو کام کر رہا ہوں اس کے عوض تم میرے رشتہ داروں سے محبت کرو۔ پھر یہ بات اور بھی زیادہ بے موقع نظر آتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ اس تقریر کے مخاطب اہل ایمان نہیں بلکہ کفار ہیں۔ اوپر سے ساری تقریر ان ہی سے خطاب کرتے ہوئے ہوتی چلی آ رہی ہے ، اور آگے بھی روئے سخن ان ہی کی طرف ہے۔ اس سلسلہ کلام میں مخالفین سے کسی نوعیت کا اجر طلب کرنے کا آخر سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے۔ اجر تو ان لوگوں سے مانگا جاتا ہے جن کی نگاہ میں اس کام کی کوئی قدر ہو جو کسی شخص نے ان کے لیے انجام دیا ہو۔ کفار حضورؐ کے اس کام کی کون سی قدر کر رہے تھے کہ آپ ان سے یہ بات فرماتے کہ یہ خدمت جو میں نے تمہاری انجام دی ہے اس پر تم میرے رشتہ داروں سے محبت کرنا۔ وہ تو الٹا اسے جرم سمجھ رہے تھے اور اس کی بنا پر آپ کی جان کے درپے تھے۔

42. یعنی جان بوجھ کر نافرمانی کرنے والے مجرمین کے برعکس ، نیکی کی کوشش کرنے والے بندوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ یہ ہے کہ (1)جتنی کچھ اپنی طرف سے وہ نیک بننے کی سعی کرتے ہیں ، اللہ ان کو اس سے زیادہ نیک بنا دیتا ہے (2)ان کے کام میں جو کوتاہیاں رہ جاتی ہیں ، یا نیک عمل کی پونجی وہ لے کر آتے ہیں اللہ اس پر ان کی قدر افزائی کرتا ہے اور انہیں زیادہ اجر عطا فرماتا ہے۔

43. اس سوالیہ فقرے میں سخت ملامت کا انداز پایا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اے نبی ، کیا یہ لوگ اس قدر جری اور بے باک ہیں کہ تم جیسے شخص پر افترا، اور وہ بھی افتراء علی اللہ جیسے گھناؤنے فعل کا الزام رکھتے ہوئے انہیں ذرا شرم نہیں آتی؟ یہ تم پر تہمت لگا تے ہیں کہ تم اس قرآن کو خود تصنیف کر کے جھوٹ موٹ اللہ کی طرف منسوب کرتے ہو؟

44. یعنی اتنے بڑے جھوٹ صرف وہی لوگ بولا کرتے ہیں جن کے دلوں پر مہر لگی ہوئی ہے۔ اگر اللہ چاہے تو تمہیں بھی ان میں شامل کر دے۔ مگر اس کا یہ فضل ہے کہ اس نے تمہیں اس گروہ سے الگ رکھا ہے۔ اس جواب میں ان لوگوں پر شدید طنز ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر یہ الزام رکھ رہے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ اے نبی، ان لوگوں نے تمہیں بھی اپنی قماش کا آدمی سمجھ لیا ہے۔ جس طرح یہ خود اپنی اغراض کے لیے ہر بڑے سے بڑا جھوٹ بول جاتے ہیں ، انہوں نے خیال کیا کہ تم بھی اسی طرح اپنی دُکان چمکانے کے لیے ایک جھوٹ گھڑ لائے ہو۔ لیکن یہ اللہ کی عنایت ہے کہ اس نے تمہارے دل پر وہ مہر نہیں لگائی ہے جو ان کے دلوں پر لگا رکھی ہے۔

45. یعنی یہ اللہ کی عادت ہے کہ وہ باطل کو کبھی پائیداری نہیں بخشتا اور آخر کار حق کو حق ہی کر کے دکھا دیتا ہے۔ اس لیے اے نبی، تم ان جھوٹے الزامات کی ذرہ برابر پروا نہ کرو، اور اپنا کام کیے جاؤ۔ ایک وقت آئے گا کہ یہ سارا جھوٹ غبار کی طرح اڑ جائے گا اور جس چیز کو تم پیش کر رہے ہو اس کا حق ہونا عیاں ہو جائے گا۔

46. یعنی اس کو معلوم ہے کہ یہ الزامات تم پر کیوں لگائے جا رہے ہیں اور یہ ساری تگ و دو جو تمہیں زک دینے کے لیے کی جا رہی ہے اس کے پیچھے در حقیقت کیا اغراض اور کیا نیتیں کام کر رہی ہیں۔

47. پچھلی آیت کے معاً بعد توبہ کی ترغیب دینے سے خود بخود یہ مضمون نکلتا ہے کہ ظالمو، سچے نبی پر یہ جھوٹے الزامات رکھ کر کیوں اپنے آپ کو اور زیادہ خدا کے عذاب کا مستحق بناتے ہو، اب بھی اپنی ان حرکتوں سے باز آ جاؤ اور توبہ کر لو تو اللہ معاف فرما دے گا۔ توبہ کے ایک معنی یہ ہیں کہ آدمی اپنے کیے پر نادم ہو، جس برائی کا وہ مرتکب ہوا ہے یا ہوتا رہا ہے اس سے باز آ جائے، اور آئندہ اس کا ارتکاب نہ کرے۔ نیز یہ بھی سچی توبہ کا لازمی تقاضا ہے کہ جو برائی کسی شخص نے پہلے کی ہے اس کی تلافی کرنے کی وہ اپنی حد تک پوری کوشش کرے ، اور جہاں تلافی کی کوئی صورت ممکن نہ ہو، وہاں اللہ سے معافی مانگے اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں کر کے اس دھبے کو دھوتا رہے جو اس نے اپنے دامن پر لگا لیا ہے۔ لیکن کوئی توبہ اس وقت تک حقیقی توبہ نہیں ہے جب تک کہ وہ اللہ کو راضی کرنے کی نیت سے نہ ہو۔ کسی دوسری وجہ یا غرض سے کسی برے فعل کو چھوڑ دینا سرے سے توبہ کی تعریف ہی میں نہیں آتا۔

48. جس سلسلہ کلام میں یہ بات ارشاد ہوئی ہے اسے نظر میں رکھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں دراصل اللہ تعالیٰ اس بنیادی سبب کی طرف اشارہ فرما رہا ہے جو کفار مکہ کی سرکشی میں کام کر رہا تھا۔ اگرچہ روم و ایران کے مقابلہ میں ان کی کوئی ہستی نہ تھی اور گرد و پیش کی قوموں میں وہ ایک پس ماندہ قوم کے ایک تجارت پیشہ قبیلے ، یا بالفاظ دیگر، بنجاروں سے زیادہ حیثیت نہ رکھتے تھے ، مگر اپنی اس ذرا سی دنیا میں ان کو دوسرے عربوں کی بہ نسبت جو خوشحالی اور بڑائی نصیب تھی اس نے ان کو اتنا مغرور و متکبر بنا دیا تھا کہ وہ اللہ کے نبی کی بات پر کان دھرنے کے لیے کسی طرح تیار نہ تھے ، اور ان کے سرداران قبائل اس کو اپنی کسر شان سمجھتے تھے کہ محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ و سلم ) ان کے پیشوا ہوں اور وہ ان کی پیروی کریں ،۔ اسی پر فرمایا جا رہا ہے کہ اگر کہیں ہم ان چھوٹے ظرف کے لوگوں پر واقعی رزق کے دروازے کھول دیتے تو یہ بالکل ہی پھٹ پڑتے ، مگر ہم نے انہیں دیکھ کر ہی رکھا ہے ، اور ناپ تول کر ہم انہیں بس اتنا ہی دے رہے ہیں جو ان کو آپے سے باہر نہ ہونے دے۔ اس معنی کے لحاظ سے یہ آیت دوسرے الفاظ میں وہی مضمون ادا کر رہی ہے جو سورہ توبہ، آیت 68۔ 70، الکہف، آیات 32۔42۔القصص، آیات 75۔ 82۔الروم، آیت 9۔ سبا، آیت 34۔36۔ اور المومن آیات 82۔85 میں بیان ہوا ہے۔

49. یہاں ولی سے مراد وہ ہستی ہے جو اپنی پیدا کردہ ساری مخلوق کے معاملات کی متولی ہے ، جس نے بندوں کی حاجات و ضروریات پوری کرنے کا ذمہ لے رکھا ہے۔

50. یعنی زمین میں بھی اور آسمانوں میں بھی۔ یہ کھلا اشارہ ہے اس طرف کہ زندگی صرف زمین پر ہی نہیں پائی جاتی، بلکہ دوسرے سیاروں میں بھی جاندار مخلوقات موجود ہیں۔

51. یعنی جس طرح وہ انہیں پھیلا دینے پر قادر ہے اسی طرح وہ انہیں جمع کر لینے پر بھی قادر ہے ، لہٰذا یہ خیال کرنا غلط ہے کہ قیامت نہیں آ سکتی اور تمام اولین و آخرین کو بیک وقت اٹھا کر اکٹھا نہیں کیا جا سکتا۔