52. واضح رہے کہ یہاں تمام انسانی مصائب کی وجہ بیان نہیں کی جا رہی ہے ، بلکہ روئے سخن ان لوگوں کی طرف ہے جو اس وقت مکہ معظمہ میں کفر و نافرمانی کا ارتکاب کر رہے تھے۔ ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ اگر اللہ تمہارے سارے قصوروں پر گرفت کرتا تو تمہیں جیتا ہی نہ چھوڑتا، لیکن یہ مصائب جو تم پر نازل ہوئے ہیں (غالباً اشارہ ہے مکہ کے قحط کی طرف) یہ محض بطور تنبیہ ہیں تا کہ تم ہوش میں آؤ ، اور اپنے اعمال کا جائزہ لے کر دیکھو کہ اپنے رب کے مقابلے میں تم نے کیا روش اختیار کر رکھی ہے اور یہ سمجھنے کی کوشش کرو کہ جس خدا سے تم بغاوت کر رہے ہو اس کے مقابلے میں تم کتنے بے بس ہو، اور یہ جانو کہ جنہیں تم اپنا ولی و کار ساز بنائے بیٹھے ہو، یا جن طاقتوں پر تم نے بھروسہ کر رکھا ہے ، وہ اللہ کی پکڑ سے بچانے میں تمہارے کسی کام نہیں آ سکتیں۔
مزید توضیح کے لیے یہ بیان کر دینا بھی ضروری ہے کہ جہاں تک مومن مخلص کا تعلق ہے اس کے لیے اللہ کا قانون اس سے مختلف ہے۔ اس پر جو تکلیفیں اور مصیبتیں بھی آتی ہیں وہ سب اس کے گناہوں اور خطاؤں اور کوتاہیوں کا کفارہ بنتی چلی جاتی ہیں۔ حدیث صحیح میں ہے کہ : مَا یُصیبُ المُسلمَ مِنْ فَصَبٍ ولا وَصَبٍ ولا ھمٍّ ولا حزن ولا اذً ولا غمٍّ حتی الشوکۃُ یُشا کھُا الا کفّر اللہ بھامن خطایاہ۔ (بخاری و مسلم)مسلمان کو جو رنج اور دکھ اور فکر اور غم اور تکلیف اور پریشانی بھی پیش آتی ہے ،حتیٰ کہ ایک کانٹا بھی اگر اس کو چبھتا ہے تو اللہ اس کو اس کی کسی نہ کسی خطا کا کفارہ بنا دیتا ہے۔ ‘‘ رہے وہ مصائب جو اللہ کی راہ میں اس کا کلمہ بلند کرنے کے لیے کوئی مومن برداشت کرتا ہے ، تو وہ محض کوتاہیوں کا کفارہ ہی نہیں ہوتے بلکہ اللہ کے ہاں ترقی درجات کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ تصور کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ وہ گناہوں کی سزا کے طور پر نازل ہوتے ہیں۔
53. ’’صبر کرنے والے ‘‘ سے مراد وہ شخص ہے جو اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور اچھے اور برے تمام حالات میں بندگی کے رویے پر ثابت قدم رہے۔ جس کا حال یہ نہ ہو کہ اچھا وقت آئے تو اپنی ہستی کو بھول کر خدا سے باغی اور بندوں کے حق میں ظالم بن جائے، اور برا وقت آ جائے تو دل چھوڑ بیٹھے اور ہر ذلیل سے ذلیل حرکت کرنے پر اتر آئے۔ ’’ شکر کرنے والے ‘‘ سے مراد وہ شخص ہے جسے تقدیر الہٰی خواہ کتنا ہی اونچا اٹھا لے جائے ، وہ اسے اپنا کمال نہیں بلکہ اللہ کا احسان ہی سمجھتا رہے ، اور وہ خواہ کتنا ہی نیچے گرا دیا جائے، اس کی نگاہ اپنی محرومیوں کے بجائے ان نعمتوں پر ہی مرکوز رہے جو برے سے برے حالات میں بھی آدمی کو حاصل رہتی ہیں ، اور خوشحالی و بد حالی، دونوں حالتوں میں اس کی زبان اور اس کے دل سے اپنے رب کا شکر ہی ادا ہوتا رہے۔
54. قریش کے لوگوں کو اپنے تجارتی کاروبار کے سلسلے میں حبش اور افریقہ کے ساحلی علاقوں کی طرف بھی جانا ہوتا تھا، اور ان سفروں میں وہ باد بانی جہازوں اور کشتیوں پر بحر احمر سے گزرتے تھے جو ایک بڑا خطرناک سمندر ہے۔ اس میں اکثر طوفان اٹھتے رہتے ہیں اور زیر آب چٹانیں کثرت سے ہیں جن سے طوفان کی حالت میں ٹکرا جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اس لیے جس کیفیت کا نقشہ اللہ تعالیٰ نے یہاں کھینچا ہے اسے قریش کے لوگ اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں پوری طرح محسوس کر سکتے تھے۔
55. یعنی یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر آدمی پھول جائے۔ بڑی سے بڑی دولت بھی جو دنیا میں کسی شخص کو ملی ہے ، ایک تھوڑی سی مدت ہی کے لیے ملی ہے۔ چند سال وہ اس کو برت لیتا ہے اور پھر سب کچھ چھوڑ کر دنیا سے خالی ہاتھ رخصت ہو جاتا ہے۔ پھر وہ دولت بھی چاہے بہی کھاتوں میں کتنی ہی بڑی ہو، عملاً اس کا ایک قلیل سا حصہ ہی آدمی کے اپنے استعمال میں آتا ہے۔ اس مال پر اترانا کسی ایسے انسان کا کام نہیں ہے جو اپنی اور اس مال و دولت کی، اور خود اس دنیا کی حقیقت کو سمجھتا ہو۔
56. یعنی وہ دولت اپنی نوعیت و کیفیت کے لحاظ سے بھی اعلیٰ درجے کی ہے ، اور پھر وقتی و عارضی بھی نہیں ہے بلکہ ابدی اور لازوال ہے۔
57. اللہ پر توکل کو یہاں ایمان لانے کا لازمی تقاضا، اور آخرت کی کامیابی کے لیے ایک ضروری وصف قرار دیا گیا ہے۔ توکل کے معنی یہ ہیں کہ : اولاً ،آدمی کو اللہ تعالیٰ کی رہنمائی پر کامل اعتماد ہو اور وہ یہ سمجھے کہ حقیقت کا جو علم، اخلاق کے جو اصول ،حلال و حرام کے جو حدود، اور دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لیے جو قواعد و ضوابط اللہ نے دیے ہیں وہی بر حق ہیں اور انہی کی پیروی میں انسان کی خیر ہے۔ ثانیاً ، آدمی کا بھروسہ اپنی طاقت ، قابلیت، اپنے ذرائع و وسائل ، اپنی تدابیر، اور اللہ کے سوا دوسروں کی امداد و اعانت پر نہ ہو، بلکہ وہ پوری طرح یہ بات ذہن نشین رکھے کہ دنیا اور آخرت کے ہر معاملے میں اس کی کامیابی کا اصل انحصار اللہ کی توفیق و تائید پر ہے ، اور اللہ کی توفیق و تائید کا وہ اسی صورت میں مستحق ہو سکتا ہے جبکہ وہ اس کی رضا کو مقصود بنا کر ، اس کے مقرر کئے ہوئے حدود کی پابندی کرتے ہوئے کام کرے۔ ثالثاً ، آدمی کو ان وعدوں پر پورا بھروسا ہو جو اللہ تعالیٰ نے ایمان و عمل صالح کا رویہ اختیار کرنے والے اور باطل کے بجائے حق کے لیے کام کرنے والے بندوں سے کیے ہیں ، اور ان ہی وعدوں پر اعتماد کرتے ہوئے وہ ان تمام فوائد اور منافع اور لذائذ کو لات مار دے جو باطل کی راہ پر جانے کی صورت میں اسے حاصل ہوتے نظر آتے ہوں ، اور ان سارے نقصانات اور تکلیفوں اور محرومیوں کو انگیز کر جائے جو حق پر استقامت کی وجہ سے اس کے نصیب میں آئیں۔ توکل کے معنی کی اس تشریح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ایمان کے ساتھ اس کا کتنا گہرا تعلق ہے ، اور اس کے بغیر جو ایمان محض خالی خولی اعتراف و اقرار کی حد تک ہو اس سے وہ شاندار نتائج کیوں نہیں حاصل ہو سکتے جن کا وعدہ ایمان لا کر توکل کرنے والوں سے کیا گیا ہے۔
58. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، النساء،حواشی،53،54،الانعام،حواشی،130،131،۔ جلد دوم ، النحل،حاشیہ،88۔ نیز سورہ نجم، آیت 32۔
59. یعنی وہ غصیل اور جھلّے نہیں ہوتے ، بلکہ نرم خو اور دھیمے مزاج کے لوگ ہوتے ہیں۔ ان کی سرشت انتقامی نہیں ہوتی بلکہ وہ بندگان خدا سے در گزر اور چشم پوشی کا معاملہ کرتے ہیں ، اور کسی بات پر غصہ آ بھی جاتا ہے تو اسے پی جاتے ہیں۔ یہ وصف انسان کی بہترین صفات میں سے ہے جسے قرآن مجید میں نہایت قابل تعریف قرار دیا گیا ہے (آل عمران ، آیت 134) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی کامیابی کے بڑے اسباب میں شمار کیا گیا ہے۔ (آل عمران، 159)۔ حدیث میں حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ : مآ انتقم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لنفسہٖ فی شئ قط الا ان تنتھک حرمَۃ اللہِ (بخاری و مسلم )۔ ‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی اپنی ذات کے لیے انتقام نہیں لیا۔ البتہ جب اللہ کی حرمتوں میں سے کسی حرمت کی ہتک کی جاتی تب آپ سزا دیتے تھے۔’’
60. لفظی ترجمہ ہو گا ’’ اپنے رب کی پکار پر لبیک کہتے ہیں ‘‘ یعنی جس کام کے لیے بھی اللہ بلاتا ہے اس کے لیے دوڑ پڑتے ہیں ، اور جس چیز کی بھی اللہ دعوت دیتا ہے اسے قبول کرتے ہیں۔
61. اس چیز کو یہاں اہل ایمان کی بہترین صفات میں شمار کیا گیا ہے ، اور سورہ آل عمران (آیت 159) میں اس کا حکم دیا گیا ہے۔ اس بنا پر مشاورت اسلامی طرز زندگی کا ایک اہم ستون ہے ، اور مشورے کے بغیر اجتماعی کام چلانا نہ صرف جاہلیت کا طریقہ ہے بلکہ اللہ کے مقرر کیے ہوئے ضابطے کی صریح خلاف ورزی ہے۔ مشاورت کو اسلام میں یہ اہمیت کیوں دی گئی ہے؟ اس کے وجوہ پر اگر غور کیا جائے تو تین باتیں واضح طور پر ہمارے سامنے آتی ہیں۔
ایک یہ کہ جس معاملے کا تعلق دو یا زائد آدمیوں کے مفاد سے ہو، اس میں کسی ایک شخص کا اپنی رائے سے فیصلہ کر ڈالنا اور دوسرے متعلق اشخاص کو نظر انداز کردینا زیادتی ہے۔ مشترک معاملات میں کسی کو اپنی من مانی چلانے کا حق نہیں ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ایک معاملہ جتنے لوگوں کے مفاد سے تعلق رکھتا ہو اس میں ان سب کی رائے لی جائے، اور اگر وہ کسی بہت بڑی تعداد سے متعلق ہو تو ان کے معتمد علیہ نمائندوں کو شریک مشورہ کیا جائے۔
دوسرے یہ کہ انسان مشترک معاملات میں اپنی من مانی چلانے کی کوشش یا تو اس وجہ سے کرتا ہے کہ وہ اپنی ذاتی اغراض کے لیے دوسروں کا حق مارنا چاہتا ہے ، یا پھر اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بڑی چیز اور دوسروں کی حقیر سمجھتا ہے۔ اخلاقی حیثیت سے یہ دونوں صفات یکساں قبیح ہیں ، اور مومن کے اندر ان میں سے کسی صفت کا شائبہ بھی نہیں پایا جا سکتا۔ مومن نہ خود غرض ہوتا ہے کہ دوسروں کے حقوق پر دست درازی کر کے خود ناجائز فائدہ اٹھانا چاہے ، اور نہ وہ متکبر اور خود پسند ہوتا ہے کہ اپنے آپ ہی عقل کل اور علیم و خبیر سمجھے۔
تیسرے یہ کہ جن معاملات کا تعلق دوسروں کے حقوق اور مفاد سے ہو ان میں فیصلہ کرنا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ کوئی شخص جو خدا سے ڈرتا ہو اور یہ جانتا ہو کہ اس کی کتنی سخت جواب دہی اسے اپنے رب کے سامنے کرنی پڑے گی، کبھی اس بھاری بوجھ کو تنہا اپنے سر لینے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ اس طرح کو جرأتیں صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو خدا سے بے خوف اور آخرت سے بے فکر ہوتے ہیں۔ خدا ترس اور آخرت کی باز پرس کا احساس رکھنے والا آدمی تو لازماً یہ کوشش کرے گا کہ ایک مشترک معاملہ جن جن سے بھی متعلق ہو ان سب کو، یا ان کے بھروسے کے نمائندوں کو اس کا فیصلہ کرنے میں شریک مشورہ کرے ، تاکہ زیادہ سے زیادہ صحیح اور بے لاگ اور مبنی بر انصاف فیصلہ کیا جا سکے ، اور اگر نا دانستہ کوئی غلطی ہو بھی جائے تو تنہا کسی ایک ہی شخص پر اس کی ذمہ داری نہ آ پڑے۔
یہ تین وجوہ ایسے ہیں جن پر اگر آدمی غور کرے تو اس کی سمجھ میں یہ بات اچھی طرح آ سکتی ہے کہ اسلام جس اخلاق کی انسان کو تعلیم دیتا ہے ، مشورہ اس کا لازمی تقاضا ہے اور اس سے انحراف ایک بہت بڑی بد اخلاقی ہے جس کی اسلام کبھی اجازت نہیں دے سکتا۔ اسلامی طرز زندگی یہ چاہتا ہے کہ مشاورت کا اصول ہر چھوٹے بڑے اجتماعی معاملے میں برتا جائے۔ گھر کے معاملات ہوں تو ان میں میاں اور بیوی باہم مشورے سے کام کریں اور بچے جب جوان ہو جائیں تو انہیں بھی شریک مشورہ کیا جائے۔ خاندان کے معاملات ہوں تو ان میں کنبے کے سب عاقل و بالغ افراد کی رائے لی جائے۔ ایک قبیلے یا برادری یا بستی کے معاملات ہوں اور سب لوگوں کا شریک مشورہ ہونا ممکن نہ ہو، ان کا فیصلہ کوئی ایسی پنچایت یا مجلس کرے جس میں کسی متفق علیہ طریقے کے مطابق تمام متعلق لوگوں کے معتمد علیہ نمائندے شریک ہوں۔ ایک پوری قوم کے معاملات ہوں تو ان کے چلانے کے لیے قوم کا سربراہ سب کی مرضی سے مقرر کیا جائے، اور وہ قومی معاملات کو ایسے صاحب رائے لوگوں کے مشورے سے چلائے جن کو قوم قابل اعتماد سمجھتی ہو، اور وہ اسی وقت تک سربراہ رہے جب تک قوم خود اسے اپنا سربراہ بنائے رکھنا چاہے۔ کوئی ایماندار آدمی زبردستی قسم کا سربراہ بننے اور بنے رہنے کی خواہش یا کوشش نہیں کر سکتا، نہ یہ فریب کاری کر سکتا ہے کہ پہلے بزور قوم کے سر پر مسلط ہو جائے اور پھر جبر کے تحت لوگوں کی رضامندی طلب کرے ، اور نہ اس طرح کی چالیں چل سکتا ہے کہ اس کو مشورہ دینے کے لیے لوگ اپنی آزاد مرضی سے اپنی پسند کے نمائندے نہیں بلکہ وہ نمائندے منتخب کریں جو اس کی مرضی کے مطابق رائے دینے والے ہوں۔ ایسی ہر خواہش صرف اس نفس میں پیدا ہوتی ہے جو نیت کی خرابی سے ملوّث ہو، اور اس خواہش کے ساتھ : اَمْرھُمْ شُوْریٰ بَینَھُمْ کی ظاہری شکل بنانے اور اس کی حقیقت غائب کر دینے کی کوششیں صرف وہی شخص کر سکتا ہے جسے خدا اور خلق دونوں کو دھوکا دینے میں کوئی باک نہ ہو، حالانکہ نہ خدا دھوکا کھا سکتا ہے ، اور نہ خلق ہی اتنی اندھی ہو سکتی ہے کہ کوئی شخص دن کی روشنی میں علانیہ ڈاکہ مار رہا ہو اور وہ سچے دل سے یہ سمجھتی رہے کہ وہ ڈاکہ نہیں مار رہا ہے بلکہ لوگوں کی خدمت کر رہا ہے۔
اَمْرھُمْ شُوْریٰ بَیْنَھُمْ کا قاعدہ خود اپنی نوعیت اور فطرت کے لحاظ سے پانچ باتوں کا تقاضا کرتا ہے :
اول یہ کہ اجتماعی معاملات جن لوگوں کے حقوق اور مفاد سے تعلق رکھتے ہیں انہیں اظہار رائے کی پوری آزادی حاصل ہو، اور وہ اس بات سے پوری طرح باخبر رکھے جائیں کہ انکے معاملات فی الواقع کس طرح چلا ئے جا رہے ہیں ، اور انہیں اس امر کا بھی پورا حق حاصل ہو کہ اگر وہ اپنے معاملات کی سربراہی میں کوئی غلطی یا خامی یا کوتاہی دیکھیں تو اس پر ٹوک سکیں ، احتجاج کر سکیں ، اور اصلاح ہوتی نہ دیکھیں تو سربراہ کاروں کو بدل سکیں۔ لوگوں کا منہ بند کر کے اور ان کے ہاتھ پاؤں کس کر اور ان کو بے خبر رکھ کر ان کے اجتماعی معاملات چلانا صریح بد دیانتی ہے جسے کوئی شخص بھی : اَمْرھُمْ شُوریٰ بَینَھُمْ کے اصول کی پیروی نہیں مان سکتا۔
دوم یہ کہ اجتماعی معاملات کو چلانے کی ذمہ داری جس شخص پر بھی ڈالنی ہو اسے لوگوں کی رضامندی سے مقرر کیا جائے ، اور یہ رضامندی ان کی آزادانہ رضامندی ہو۔ جبر اور تخویف سے حاصل کی ہوئی، یا تحریص و اطماع سے خریدی ہوئی، یا دھوکے اور فریب اور مکاریوں سے کھسوٹی ہوئی رضامندی در حقیقت رضامندی نہیں ہے۔ ایک قوم کا صحیح سربراہ وہ نہیں ہوتا جو ہر ممکن طریقہ سے کوشش کر کے اس کا سربراہ بنے ، بلکہ وہ ہوتا ہے جس کو لوگ اپنی خوشی اور پسند سے اپنا سربراہ بنائیں۔
سوم یہ کہ سربراہ کار کو مشورہ دینے کے لیے بھی وہ لوگ مقرر کیے جائیں جن کو قوم کا اعتماد حاصل ہو، اور ظاہر بات ہے کہ ایسے لوگ کبھی صحیح معنوں میں حقیقی اعتماد کے حامل قرار نہیں دیے جاسکتے جو دباؤ ڈال کر، یا مال سے خرید کر، یا جھوٹ اور مکر سے کام لے کر ، یا لوگوں کو گمراہ کر کے نمائندگی کا مقام حاصل کریں۔
چہارم یہ کہ مشورہ دینے والے اپنے علم اور ایمان و ضمیر کے مطابق رائے دیں ، اور اس طرح کے اظہار رائے کی انہیں پوری آزادی حاصل ہو۔ یہ بات جہاں نہ ہو، جہاں مشورہ دینے والے کسی لالچ یا خوف کی بنا پر، یا کسی جتھہ بندی میں کسے ہوئے ہونے کی وجہ سے خود اپنے علم اور ضمیر کے خلاف رائے دیں ، وہاں در حقیقت خیانت اور غداری ہو گی نہ کہ : اَمْرَھُمْ شُوْریٰ بَیْنَھُمْ کی پیروی۔
پنجم یہ کہ جو مشورہ اہل شوریٰ کے اجماع (اتفاق رائے) سے دیا جائے، یا جسے ان کے جمہور(اکثریت ) کی تائید حاصل ہو، اسے تسلیم کیا جائے۔ کیونکہ اگر ایک شخص یا ایک ٹولہ سب کی سننے کے بعد اپنی من مانی کرنے کا مختار ہو تو مشاورت بالکل بے معنی ہو جاتی ہے ، اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرما رہا ہے کہ ’’ ان کے معاملات میں ان سے مشورہ لیا جاتا ہے ‘‘ بلکہ یہ فرما رہا ہے کہ ’’ ان کے معاملات آپس کے مشورے سے چلتے ہیں۔‘‘ اس ارشاد کی تعمیل محض مشورہ لے لینے سے نہیں ہوجاتی، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ مشاورت میں اجماع یا اکثریت کے ساتھ جو بات طے ہو اسی کے مطابق معاملات چلیں۔
اسلام کے اصول شوریٰ کی اس توضیح کے ساتھ یہ بنیادی بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ یہ شوریٰ مسلمانوں کے معاملات چلانے میں مطلق العنان اور مختار کل نہیں ہے بلکہ لازماً اس دین کے حدود سے محدود ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود اپنی تشریع سے مقرر فرمایا ہے ، اور اس اصل الاصول کی پابند ہے کہ ’’ تمہارے درمیان جس معاملہ میں بھی اختلاف ہو اس کا فیصلہ کرنا اللہ کا کام ہے ‘‘ ، اور ’’تمہارے درمیان جو نزاع بھی ہو اس میں اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرو‘‘۔ اس قاعدہ کلیہ کے لحاظ سے مسلمان شرعی معاملات میں اس امر پر تو مشورہ کر سکتے ہیں کہ کسی نص کا صحیح مفہوم کیا ہے ، اور اس پر عمل در آمد کس طریقہ سے کیا جائے تاکہ اس کا منشا ٹھیک طور سے پورا ہو، لیکن اس غرض سے کوئی مشورہ نہیں کر سکتے کہ جس معاملہ کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسول نے کر دیا ہو اس میں وہ خود کوئی آزادانہ فیصلہ کریں۔
62. اس کے تین مطلب ہیں :
ایک یہ کہ جو رزق حلال ہم نے انہیں دیا ہے اسی میں سے خرچ کرتے ہیں ، اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے مال حرام پر ہاتھ نہیں مارتے۔
دوسرے یہ کہ ہمارے دیے ہوئے رزق کو سَینت کر نہیں رکھتے بلکہ اسے خرچ کرتے ہیں۔
تیسرے یہ کہ جو رزق انہیں دیا گیا ہے اس میں سے راہ خدا میں بھی خرچ کرتے ہیں ، سب کچھ اپنی ہی ذات کے لیے وقف نہیں کر دیتے۔
پہلے مطلب کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف رزق حلال و طیب ہی کو ’’ اپنے دیے ہوئے رزق ‘‘ سے تعبیر فرماتا ہے۔ نا پاک اور حرام طریقوں سے کمائے ہوئے رزق کو وہ اپنا رزق نہیں کہتا۔ دوسرے مطلب کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو رزق انسان کو دیتا ہے وہ خرچ کرنے کے لیے دیتا ہے ، سینت سَینت کر رکھنے اور اس پر مار زر بن کر بیٹھ جانے کے لیے نہیں دیتا۔ اور تیسرے مطلب کی بنیاد یہ ہے کہ خرچ کرنے سے مراد قرآن مجید میں محض اپنی ذات پر اور اپنی ضروریات پر ہی خرچ کر دینا نہیں ہے ، بلکہ اس کے مفہوم میں انفاق فی سبیل اللہ بھی شامل ہے۔ انہی تین وجوہ سے اللہ تعالیٰ خرچ کرنے کو یہاں اہل ایمان کی ان بہترین صفات میں شمار فرما رہا ہے جن کی بنا پر آخرت کی بھلائیاں انہی کے لیے مختص کی گئی ہیں۔
63. یہ بھی اہل ایمان کی بہترین صفات میں سے ہے۔ وہ ظالموں اور جباروں کے لیے نرم چارہ نہیں ہوتے۔ ان کی نرم خوئی او عفو و درگزر کی عادت کمزوری کی بنا پر نہیں ہوتی۔ انہیں بھکشوؤں اور راہبوں کی طرح مسکین بنکر رہنا نہیں سکھایا گیا ہے۔ ان کی شرافت کا تقاضا یہ ہے کہ جب غالب ہوں تو مغلوب کے قصور معاف کر دیں ، جب قادر ہوں تو بدلہ لینے سے در گزریں ، اور جب کسی زیر دست یا کمزور آدمی سے کوئی خطا سرزد ہو جائے تو اس سے چشم پوشی کر جائیں ، لیکن کوئی طاقت ور اپنی طاقت کے زعم میں ان پر دست درازی کرے تو ڈٹ کر کھڑے ہو جائیں اور اس کے دانت کھٹے کر دیں۔ مومن کبھی ظالم سے نہیں دبتا اور متکبر کے آگے نہیں جھکتا۔ اس قسم کے لوگوں کے لیے وہ لوہے کا چنا ہوتا ہے جسے چبانے کی کوشش کرنے والا اپنا ہی جبڑا توڑ لیتا ہے۔
64. یہاں سے آخر پیراگراف تک کی پوری عبارت آیت ما سبق کی تشریح کے طور پر ہے۔
65. یہ پہلا اصولی قاعدہ ہے جسے بدلہ لینے میں ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ بدلے کی جائز حد یہ ہے کہ جتنی برائی کسی کے ساتھ کی گئی ہو، اتنی ہی برائی وہ اس کے ساتھ کر لے ، اس سے زیادہ برائی کرنے کا وہ حق نہیں رکھتا۔
66. یہ دوسرا قاعدہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زیادتی کرنے والے سے بدلہ لے لینا اگر چہ جائز ہے ، لیکن جہاں معاف کر دینا اصلاح کا موجب ہو سکتا ہو وہاں اصلاح کی خاطر بدلہ لینے کے بجائے معاف کر دینا زیادہ بہتر ہے۔ اور چونکہ یہ معافی انسان اپنے نفس پر جبر کر کے دیتا ہے ، اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کا اجر ہمارے ذمہ ہے ، کیونکہ تم نے بگڑے ہوئے لوگوں کی اصلاح کی خاطر یہ کڑوا گھونٹ پیا ہے۔
67. اس تنبیہ میں بدلہ لینے کے متعلق ایک تیسرے قاعدے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ کسی شخص کو دوسرے کے ظلم کا انتقام لیتے لیتے خود ظالم نہیں بن جانا چاہیے۔ ایک برائی کے بدلے میں اس سے بڑھ کر برائی کر گزرنا جائز نہیں ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص کسی کو ایک تھپڑ مارے تو وہ اسے ایک تھپڑ مار سکتا ہے۔ لات گھونسوں کی اس پر بارش نہیں کر سکتا۔ اسی طرح گناہ کا بدلہ گناہ کی صورت میں لینا درست نہیں ہے۔ مثلاً کسی شخص کے بیٹے کو اگر کسی ظالم نے قتل کیا ہے تو اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ جا کر اس کے بیٹے کو قتل کر دے۔ یا کسی شخص کی بہن یا بیٹی کو اگر کسی کمینہ انسان نے خراب کیا ہے تو اس کے لیے حلال نہیں ہو جائے گا کہ وہ اس کی بیٹی یا بہن سے زنا کرے۔
68. واضح رہے کہ ان آیات میں اہل ایمان کی جو صفات بیان کی گئی ہیں وہ اس وقت عملاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے اصحاب کی زندگیوں میں موجود تھیں ، اور کفار مکہ اپنی آنکھوں سے ان کو دیکھ رہے تھے۔اس طرح اللہ تعالیٰ نے در اصل کفار کو یہ بتایا ہے کہ دنیا کی چند روزہ زندگی بسر کرنے کا جو سر و سامان پاکر تم آپے سے باہر ہوئے جاتے ہو، اصل دولت وہ نہیں ہے بلکہ اصل دولت یہ اخلاق اور اوصاف ہیں جو قرآن کی رہنمائی قبول کر کے تمہارے ہی معاشرے کے ان مومنوں نے اپنے اندر پیدا کیے ہیں۔
69. مطلب یہ ہے کہ اللہ نے قرآن جیسی بہترین کتاب ان لوگوں کی ہدایت کے لیے بھیجی جو نہایت معقول اور نہایت مؤثر و دل نشین طریقہ سے ان کو حقیقت کا علم دے رہی ہے اور زندگی کا صحیح راستہ بتا رہی ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جیسا نبی ان کی رہنمائی کے لیے بھیجا جس سے بہتر سیرت و کردار کا آدمی کبھی ان کی نگاہوں نے نہ دیکھا تھا۔ اور اس کتاب اور اس رسول کی تعلیم و تربیت کے نتائج بھی اللہ نے ایمان لانے والوں کی زندگیوں میں انہیں آنکھوں سے دکھا دیے۔ اب اگر کوئی شخص یہ سب کچھ دیکھ کر بھی ہدایت سے منہ موڑتا ہے تو اللہ پھر اسی گمراہی میں اسے پھینک دیتا ہے جس سے نکلنے کا وہ خواہش مند نہیں ہے۔ اور جب اللہ ہی نے اسے اپنے دروازے سے دھتکار دیا تو اب کون یہ ذمہ لے سکتا ہے کہ اسے راہ راست پر لے آئے گا۔
70. یعنی آج جب کہ پلٹ آنے کا موقع ہے ، یہ پلٹنے سے انکار کر رہے ہیں۔ کل جب ، فیصلہ ہو چکے گا اور سزا کا حکم نافذ ہو جائے گا اس وقت اپنی شامت دیکھ کر یہ چاہیں گے کہ اب انہیں پلٹنے کا موقع ملے۔
71. انسان کا قاعدہ ہے کہ جب کوئی ہولناک منظر اس کے سامنے ہوتا ہے اور وہ جان رہا ہوتا ہے کہ عنقریب وہ اس بلا کے چنگل میں آنے والا ہے جو سامنے نظر آ رہی ہے ، تو پہلے تو ڈر کے مارے وہ آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ پھر اس سے رہا نہیں جاتا۔دیکھنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ بلا کیسی ہے اور ابھی اس سے کتنی دور ہے۔ لیکن اس کی بھی ہمت نہیں پڑتی کہ سر اٹھا کر نگاہ بھر کر اسے دیکھے۔ اس لیے بار بار ذرا سی آنکھیں کھول کر اسے گوشۂ چشم سے دیکھتا ہے اور پھر ڈر کے مارے آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ جہنم کی طرف جانے والوں کی اسی کیفیت کا نقشہ اس آیت میں کھینچا گیا ہے۔
72. یعنی نہ اللہ خود اسے ٹالے گا اور نہ کسی دوسرے میں یہ طاقت ہے کہ ٹال سکے۔
73. اصل الفاظ ہیں : مَا لَکُمْ مِنْ نَّکِیْرٍ ۔ اس فقرے کے کئی مفہوم اور بھی ہیں۔ ایک یہ کہ تم اپنے کرتوتوں میں سے کسی کا انکار نہ کر سکو گے۔ دوسرے یہ کہ تم بھیس بدل کر کہیں چھپ نہ سکو گے۔ تیسرے یہ کہ تمہارے ساتھ جو کچھ بھی کیا جائے گا اس کا تم کوئی احتجاج اور اظہار ناراضی نہ کر سکو گے۔ چوتھے یہ کہ تمہارے بس میں نہ ہو گا کہ جس حالت میں تم مبتلا کیے گئے ہو اسے بدل سکو۔
74. یعنی تمہارے اوپر یہ ذمہ داری تو نہیں ڈالی گئی ہے کہ تم انہیں ضرور راہ راست ہی پر لاکے رہو اور نہ اس بات کی تم سے کوئی باز پرس ہونی ہے کہ یہ لوگ کیوں راہ راست پر نہ آئے۔
75. انسان سے مراد یہاں وہ چھچورے کم ظرف لوگ ہیں جن کا اوپر سے ذکر چلا آ رہا ہے۔ جنہیں دنیا کا کچھ رزق مل گیا ہے تو اس پر پھولے نہیں سماتے اور سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کی جاتی ہے تو سن کر نہیں دیتے لیکن اگر کسی وقت اپنے ہی کرتوتوں کی بدولت ان کی شامت آ جاتی ہے تو قسمت کو رونا شروع کر دیتے ہیں ، اور ان ساری نعمتوں کو بھول جاتے ہیں جو اللہ نے انہیں دی ہیں اور کبھی یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ جس حالت میں وہ مبتلا ہوئے ہیں اس میں انکا اپنا کیا قصور ہے۔ اس طرح نہ خوشحالی ان کی اصلاح میں مدد گار ہوتی ہے نہ بد حالی ہی انہیں سبق دے کر راہ راست پر لا سکتی ہے۔ سلسلہ کلام کو نگاہ میں رکھا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ در اصل یہ ان لوگوں کے رویئے پر طنز ہے جو اوپر کی تقریر کے مخاطب تھے۔ مگر ان کو خطاب کر کے یہ نہیں کہا گیا کہ تمہارا حال یہ ہے ، بلکہ بات یوں کہی گئی کہ انسان میں عام طور پر یہ کمزوری پائی جاتی ہے اور یہی اس کے بگاڑ کا اصل سبب ہے۔ اس سے حکمت تبلیغ کا یہ نکتہ ہاتھ آتا ہے کہ مخاطب کی کمزوریوں پر براہ راست چوٹ نہیں کرنی چاہیے ، بلکہ عمومی انداز میں ان کا ذکر کرنا چاہیے ، تاکہ وہ چڑ نہ جائے، اور اس کے ضمیر میں اگر کچھ بھی زندگی باقی ہے تو ٹھنڈے دل سے اپنے عیب کو سمجھنے کی کوشش کرے۔
76. یعنی کفر و شرک کی حماقت میں جو لوگ مبتلا ہیں وہ اگر سمجھانے سے نہیں مانتے تو نہ مانیں ، حقیقت اپنی جگہ حقیقت ہے۔ زمین و آسمان کی بادشاہی دنیا کے نام نہاد بادشاہوں اور جباروں اور سرداروں کے حوالے نہیں کر دی گئی ہے ، نہ کسی نبی یا ولی یا دیوی اور دیوتا کا اس میں کوئی حصہ ہے ، بلکہ اس کا مالک اکیلا اللہ تعالیٰ ہے۔ اس سے بغاوت کرنے والا نہ اپنے بل بوتے پر جیت سکتا ہے ، نہ ان ہستیوں میں سے کوئی آ کر اسے بچا سکتی ہے جنہیں لوگوں نے اپنی حماقت سے خدائی اختیارات کا مالک سمجھ رکھا ہے۔
77. یہ اللہ کی بادشاہی کے مطلق (Absolute) ہونے کا ایک کھلا ہوا ثبوت ہے۔ کوئی انسان ، خواہ وہ بڑے سے بڑے دنیوی اقتدار کا مالک بنا پھرتا ہو،یا روحانی اقتدار کا مالک سمجھا جاتا ہو، کبھی اس پر قادر نہیں ہو سکا ہے کہ دوسروں کو دلوانا تو در کنار، خود اپنے ہاں اپنی خواہش کے مطابق اولاد پیدا کر سکے۔ جسے خدا نے بانجھ کر دیا وہ کسی دوا اور کسی علاج اور کسی تعویذ گنڈے سے اولاد والا نہ بن سکا، جسے خدا نے لڑکیاں ہی لڑ کیاں دیں وہ ایک بیٹا بھی کسی تدبیر سے حاصل نہ کر سکا، اور جسے خدا نے لڑکے ہی لڑکے دیے وہ ایک بیٹی بھی کسی طرح نہ پاسکا۔ اس معاملہ میں ہر ایک قطعی بے بس رہا ہے ، بلکہ بچے کی پیدائش سے پہلے کوئی یہ تک نہ معلوم کر سکا کہ رحم مادر میں لڑکا پرورش پا رہا ہے یا لڑکی۔ یہ سب کچھ دیکھ کر بھی اگر کوئی خدا کی خدائی میں مختار کُل ہونے کا زعم کرے ، یا کسی دوسری ہستی کو اختیارات میں دخیل سمجھے تو یہ اس کی اپنی ہی بے بصیرتی ہے جس کا خمیازہ وہ خود بھگتے گا۔ کسی کے اپنی جگہ کچھ سمجھ بیٹھنے سے حقیقت میں ذرہ برابر بھی تغیر واقع نہیں ہوتا۔
78. تقریر ختم کرتے ہوئے اسی مضمون کو پھر لیا گیا ہے جو آغاز کلام میں ارشاد ہوا تھا۔ بات کو پوری طرح سمجھنے کے لیے اس سورہ کی پہلے آیت اور اس کے حاشیے پر دوبارہ ایک نگاہ ڈال لیجیے۔
79. یہاں وحی سے مراد ہے القاء، الہام، دل میں کوئی بات ڈال دینا، یا خواب میں کچھ دکھا دینا، جیسے حضرت ابراہیم اور حضرت یوسفؑ کو دکھایا گیا (یوسف ، آیات 4۔100۔ الصافات 102)۔
80. مراد یہ ہے کہ بندہ ایک آواز سنے ، مگر بولنے والا اسے نظر نہ آئے ، جس طرح حضرت موسیٰؑ کے ساتھ ہوا کہ طور کے دامن میں ایک درخت سے یکایک انہیں آواز آنی شروع ہوئی مگر بولنے والا ان کی نگاہ سے اوجھل تھا (طٰہٰ، آیات 11 تا 48۔ النمل ، آیات 8 تا 12۔ القصص، آیات 30 تا 35)
81. یہ وحی آنے کی وہ صورت ہے جس کے ذریعہ سے تمام کتب آسمانی انبیاء علیہم السلام تک پہنچی ہیں۔ بعض لوگوں نے اس فقرے کی غلط تاویل کر کے اس کو یہ معنی پہنائے ہیں کہ ’’ اللہ کوئی رسول بھیجتا ہے جو اس کے حکم سے عام لوگوں تک اس کا پیغام پہنچاتا ہے ‘‘۔ لیکن قرآن کے الفاظ : فَیُوْحِیَ بِاِذْنِہٖ مَا یَشَآ ءُ (پھر وہ وحی کرتا ہے اس کے حکم سے جو کچھ وہ چاہتا ہے ) ان کی اس تاویل کا غلط ہونا بالکل عیاں کر دیتے ہیں۔ عام انسانوں کے سامنے انبیاء کی تبلیغ کو ’’ وحی کرنے ‘‘ سے نہ قرآن میں کہیں تعبیر کیا گیا ہے اور نہ عربی زبان میں انسان کی انسان سے علانیہ گفتگو کو ’’ وحی ‘‘ کے لفظ سے تعبیر کرنے کی کوئی گنجائش ہے۔ لغت میں وحی کے معنی ہی خفیہ اور سریع اشارے کے ہیں۔ انبیاء کی تبلیغ پر اس لفظ کا اطلاق صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو عربی زبان سے بالکل نا بلد ہو۔
82. یعنی وہ اس سے بہت بالا و بر تر ہے کہ کسی بشر سے رو در رو کلام کرے ،اور اس کی حکمت اس سے عاجز نہیں ہے کہ اپنے کسی بندے تک اپنی ہدایات پہنچانے کے لیے رو برو بات چیت کرنے کے سوا کوئی اور تدبیر نکال لے۔
83. ’’ اسی طرح‘‘سے مراد محض آخری طریقہ نہیں ہے بلکہ وہ تینوں طریقے ہیں جو اوپر کی آیات میں مذکور ہوئے ہیں۔ اور ’’ روح‘‘سے مراد وحی ، یا وہ تعلیم ہے جو وحی کے ذریعہ سے حضورؐ کو دی گئی۔ یہ بات قرآن اور حدیث دونوں سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ان تینوں طریقوں سے ہدایات دی گئی ہیں:
1)۔ حدیث میں حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی آنے کی ابتداء ہی سچے خوابوں سے ہوئی تھی (بخاری و مسلم)۔ یہ سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا ہے ، چنانچہ احادیث میں آپ کے بہت سے خوابوں کا ذکر ملتا ہے جن میں آپ کو کوئی تعلیم دی گئی ہے یا کسی بات پر مطلع کیا گیا ہے ، اور قرآن مجید میں بھی آپ کے ایک خواب کا صراحت کے ساتھ ذکر آیا ہے (الفتح، آیت 27)۔ اس کے علاوہ متعدد احادیث میں یہ ذکر بھی آیا ہے کہ حضورؐ نے فرمایا، فلاں بات میرے دل میں ڈالی گئی ہے ، یا مجھے یہ بتایا گیا ہے ، یا مجھے یہ حکم دیا گیا ہے ، یا مجھے اس سے منع کیا گیا ہے۔ ایسی تمام چیزیں وحی کی پہلی قسم سے تعلق رکھتی ہیں ، اور احادیث قدسیہ بھی زیادہ تر اسی قبیل سے ہیں۔
2) ۔ معراج کے موقع پر حضورؐ کو وحی کی دوسری قسم سے بھی مشرف فرمایا گیا۔ متعدد صحیح احادیث میں حضورؐ کو پنج وقتہ نماز کو حکم دیے جانے ، اور حضورؐ کے اُس پر بار بار عرض معروض کرنے کا ذکر جس طرح آیا ہے اُس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت اللہ اور اُس کے بندے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے درمیان ویسا ہی مکالمہ ہو تھا جیسا دامن طور میں حضرت موسیٰؑ اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہوا۔
3) ۔ رہی تیسری قسم، تو اُس کے متعلق قرآن خود ہی شہادت دیتا ہے کہ اسے جبریل امین کے ذریعہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچایا گیا ہے (البقرہ ، 97۔ الشعراء، 192 تا 195) ۔
84. یعنی نبوت پر سرفراز ہونے سے پہلے کبھی حضورﷺ کے ذہن میں یہ تصور تک نہ آیا تھا کہ آپ کو کوئی کتاب ملنے والی ہے، یا ملنی چاہیے، بلکہ آپ سرے سے کتبِ آسمانی اور ان کے مضامین کے متعلق کچھ جانتے ہی نہ تھے۔ اسی طرح آپ کو اللہ پر ایمان تو ضرور حاصل تھا، مگر آپ نہ شعوری طور پر اس تفصیل سےواقف تھے کہ انسان کو اللہ کے متعلق کیا کیا باتیں ماننی چاہییں، اور نہ آپ کو یہ معلوم تھا کہ اس کے ساتھ ملائکہ اور نبوت اور کتب ِ الٰہی اور آخرت کے متعلق بھی بہت سی باتوں کا ماننا ضروری ہے۔ یہ دونوں باتیں ایسی تھیں جو خود کفارِ مکہ سے بھی چھپی ہوئی نہ تھیں۔ مکہ ٔمعظمہ کا کوئی شخص یہ شہادت نہ دے سکتا تھا کہ اس نے نبوت کے اچانک اعلان سے پہلے کبھی حضورﷺ کی زبان سے کتابِ الٰہی کا کوئی ذکر سنا ہو، یا آپ سے اس طرح کی کوئی بات سنی ہو کہ لوگوں کو فلاں فلاں چیزوں پر ایمان لانا چاہیے۔ ظاہر بات ہے کہ اگر کوئی شخص پہلے سے خود نبی بن بیٹھنے کی تیاری کر رہا ہو تو اس کی یہ حالت تو کبھی نہیں ہو سکتی کہ چالیس سال تک اس کے ساتھ شب و روز کا میل جول رکھنے والے اس کی زبان سے کتاب اور ایمان کا لفظ تک نہ سنیں، اور چالیس سال کے بعد یکایک وہ انہی موضوعات پر دھواں دھار تقریریں کرنے لگے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد ۳، حاشیہ 109
85. یہ آخری تنبیہ ہے جو کفار کو دی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی نے کہا اور تم نے سن کر رد کر دیا، اس پر بات ختم نہیں ہو جانی ہے ۔ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب اللہ کے حضور پیش ہونا ہے اور آخر کار اسی کے دربار سے یہ فیصلہ ہونا ہے کہ کس کا کیا انجام ہونا چاہیے۔