نام: آیت 35 کے لفظ : وَزُخْرُ فاً سے ماخوذ ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ سورہ جس میں لفظ زُخْرُفْ آیا ہے ۔
زمانۂ نزول: کسی معتبر روایت سے معلوم نہیں ہوسکا ہے ۔ لیکن اس کے مضامین پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ سورہ بھی اسی زمانے میں نزول ہوئی ہے جس میں المومن ،حٰم السجدہ اور الشوریٰ نازل ہوئیں۔ یہ ایک ہی سلسلے کی سورتیں معلوم ہوتی ہیں جن کا نزول اس وقت سے شروع ہوا جب کفار مکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی جان کے درپے ہوگئے تھے ۔ شب و روز اپنی محفلوں میں بیٹھ بیٹھ کر مشورے کر رہے تھے کہ آپ کو کس طرح ختم کیا جائے، اور ایک حملہ آپ کی جان پر ہو بھی چکا تھا۔ اس صورت حال کی طرف آیات 79۔80۔ میں صاف اشارہ موجود ہے ۔
موضوع اور مباحث: اس سورے میں پورے زور کے ساتھ قریش اور اہل عرب کے ان جاہلانہ عقائد و اوہام پر تنقید کی گئی ہے جن پر وہ اصرار کیے چلے جا رہے تھے ، اور نہایت محکم و دل نشین طریقے سے ان کی نا معقولیت کا پردہ فاش کیا گیا ہے ، تا کہ معاشرے کا ہر فرد، جس کے اندر کچھ بھی معقولیت موجود ہو، یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ آخر یہ کیسی جہالتیں ہیں جن سے ہماری قوم بری طرح چمٹی ہوئی ہے ، اور جو شخص ہمیں ان کے چکر سے نکالنے کی کوشش کر رہا ہے اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئی ہے ۔
کلام کا آغاز اس طرح کیا گیا ہے کہ تم لوگ اپنی شرارتوں کے بل پر یہ چاہتے ہو کہ اس کتاب کا نزول روک دیا جائے، مگر اللہ نے کبھی اشرار کی وجہ سے انبیاء کی بعثت اور کتابوں کی تنزیل نہیں روکی ہے ، بلکہ ان ظالموں کو ہلاک کر دیا ہے جو اس کی ہدایت کا راستہ روک کر کھڑے ہوئے تھے ۔ یہی کچھ وہ اب بھی کرے گا۔ آگے چل کر آیات 41۔43۔ اور 79۔80 میں یہ مضمون پھر دہرایا گیا ہے ۔ جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی جان کے درپے تھے ان کو سناتے ہوئے حضور سے فرمایا گیا ہے کہ تم خواہ زندہ رہو یا نہ رہو، ان ظالموں کو ہم سزا دے کر رہیں گے ۔ اور خود ان لوگوں کو صاف صاف متنبہ کر دیا گیا ہے کہ اگر تم نے ہمارے نبی کے خلاف ایک اقدام کا فیصلہ کر لیا ہے تو ہم بھی پھر ایک فیصلہ کن قدم اٹھائیں گے ۔
اس کے بعد بتایا گیا ہے کہ وہ مذہب کیا ہے جسے یہ لوگ سینے سے لگائے ہوئے ہیں، اور وہ دلائل کیا ہیں جن کے بل بوتے پر یہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
خود مانتے ہیں کہ زمین و آسمان کا، اور ان کا اپنا اور ان کے معبودوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ یہ بھی جانتے اور مانتے ہیں کہ جن نعمتوں سے یہ فائدہ اٹھا رہے ہیں وہ سب اللہ کی دی ہوئی ہیں۔ پھر بھی دوسروں کو اللہ کے ساتھ خدائی میں شریک کرنے پر اصرار کیے چلے جاتے ہیں۔
بندوں کو اللہ کی اولاد قرار دیتے ہیں ۔اور اولاد بھی بیٹیاں جنہیں خود اپنے لیے ننگ و عار سمجھتے ہیں۔
فرشتوں کو انہوں نے دیویاں قرار دے رکھا ہے ۔ ان کے بت عورتوں کی شکل کے بنا رکھے ہیں۔ انہیں زنانہ کپڑے اور زیور پہناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ ان کی عبادت کرتے ہیں اور ان ہی سے منتیں اور مرادیں مانگتے ہیں۔ آخر انہیں کیسے معلوم ہوا کہ فرشتے عورتیں ہیں ؟
ان جہالتوں پر ٹوکا جاتا ہے تو تقدیر کا بہانہ پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر اللہ ہمارے اس کام کو پسند نہ کرتا تو ہم کیسے ان بتوں کی پرستش کر سکتے تھے ۔ حالانکہ اللہ کی پسند اور نا پسند معلوم ہونے کا ذریعہ اس کی کتابیں ہیں نہ کہ وہ کام جو دنیا میں اس کی مشیت کے تحت ہو رہے ہیں۔ مشیت کے تحت تو ایک بت پرستی ہی نہیں ، چوری ، زنا، ڈاکہ، قتل، سب ہی کچھ ہو رہا ہے ۔ کیا اس دلیل سے ہر اس برائی کو جائز و برحق قرار دیا جائے گا جو دنیا میں ہو رہی ہے ؟
پوچھا جاتا ہے کہ اپنے اس شرک کے لیے تمہارے پاس اس غلط دلیل کے سوا کوئی اور سند بھی ہے ، تو جواب دیتے ہیں کہ باپ دادا سے یہ کام یوں ہی ہوتا چلا آ رہا ہے ۔ گویا ان کے نزدیک کسی مذہب کے حق ہونے کے لیے یہ کافی دلیل ہے ۔ حالانکہ ابراہیم علیہ السلام ، جن کی اولاد ہونے پر ہی ان کے سارے فخر و امتیاز کا مدار ہے ، باپ دادا کے مذہب کو لات مار کر گھر سے نکل گئے تھے اور انہوں نے اسلاف کی ایسی اندھی تقلید کو رد کر دیا تھا جس کا ساتھ کوئی دلیل معقول نہ دیتی ہو۔ پھر اگر ان لوگوں کو اسلاف کی تقلید ہی کرنی تھی تو اس کے لیے بھی اپنے بزرگ ترین اسلاف، ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کو چھوڑ کر انہوں نے اپنے جاہل ترین اسلاف کا انتخاب کیا !
ان سے کہا جاتا ہے کہ کیا کبھی کسی نبی نے اور خدا کی طرف سے آئی ہوئی کسی کتاب نے بھی یہ تعلیم دی ہے کہ اللہ کے ساتھ دوسرے بھی عبادت کے مستحق ہیں، تو یہ عیسائیوں کے اس فعل کو دلیل میں پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے عیسیٰ ابن مریم کو ابنُ اللہ مانا اور ان کے پرستش کی ۔ حالانکہ سوال یہ نہ تھا کہ کسی نبی کی امت نے شرک کیا ہے یا نہیں،بلکہ یہ تھا کہ خود کسی نبی نے شرک کی تعلیم دی ہے ۔ ؟ عیسیٰ ابن مریمؑ نے کب کہا تھا کہ میں خدا کا بیٹا ہوں اور تم میری عبادت کرو۔ ان کی اپنی تعلیم تو وہی تھی جو دنیا کے ہر نبی نے دی ہے کہ میرا رب بھی اللہ ہے اور تمہارا رب بھی ، اسی کی تم عبادت کرو۔
محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت تسلیم کرنے میں انہیں تامل ہے تو اس بنا پر کہ ان پاس مال و دولت اور ریاست وجاہت تو ہے ہی نہیں۔ کہتے ہیں کہا اگر خدا ہمارے ہاں کسی کو نبی بنانا چاہتا تو ہمارے دونوں شہروں (مکہ و طائف ) کے بڑے آدمیوں میں سے کسی کو بناتا ۔ اسی بنا پر فرعون نے بھی حضرت موسیٰ کو حقیر جانا تھا اور کہا تھا کہ آسمان کا بادشاہ اگر مجھ زمین کے بادشاہ کے پاس کوئی ایلچی بھیجتا تو اسے سونے کے کنگن پہنا کر، فرشتوں کی ایک فوج اس کی اردلی میں دے کر بھیجتا۔ یہ فقیر کہاں سے آ کھڑا ہوا ؟ فضیلت مجھے حاصل ہے کہ مصر کی بادشاہی میری ہے اور دریائے نیل کی نہریں میری ماتحتی میں چل رہی ہیں۔ یہ شخص میرے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتا ہے کہ نہ مال رکھتا ہے نہ اقتدار۔
اس طرح کفار کی ایک ایک جاہلانہ بات پر تنقید کرنے اور اس کے نہایت معقول و مد لل جوابات دینے کے بعد آخر میں صاف صاف کہا گیا ہے کہ نہ خدا کی کوئی اولاد ہے ، نہ آسمان و زمین کے خدا الگ الگ ہیں، نہ اللہ کے ہاں کوئی ایسا شفیع ہے جو جان بوجھ کر گمراہی اختیار کرنے والوں کو اس کی سزا سے بچا سکے اللہ کی ذات اس سے منزّہ ہے کہ کوئی اسکی اولاد ہو۔ وہی اکیلا ساری کائنات کا خدا ہے ، باقی سب اس کے بندے ہیں نہ کہ اس کے ساتھ خدائی صفات و اختیارات میں شریک۔ اور شفاعت اس کے ہاں صرف وہی کر سکتے ہیں جو خود حق پرست ہوں، اور ان ہی کے لیے کر سکتے ہیں جنہوں نے دنیا میں حق پرستی اختیار کی ہو۔
.1قرآن مجید کی قسم جس بات پر کھائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اس کتاب کے مصنف ’’ہم‘‘ ہیں نہ کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم۔ اور قسم کھانے کے لیے قرآن کی جس صفت کا انتخاب کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ ’’کتاب مبین‘‘ ہے ۔ اس صفت کے ساتھ قرآن کے کلام الٰہی ہونے پر خود قرآن کی قسم کھانا آپ سے آپ یہ معنی دے رہا ہے کہ لوگو، یہ کھلی کتاب تمہارے سامنے موجود ہے ، اسے آنکھیں کھول کر دیکھو، اس کے صاف صاف غیر مبہم مضامین، اس کی زبان ، اس کا ادب ، اس کی حق و باطل کے درمیان ایک واضح خط امتیاز کھینچ دینے والی تعلیم، یہ ساری چیزیں اس حقیقت کی صریح شہادت دے رہی ہیں کہ اس کا مصنف خداوند عالم کے سوا کوئی دوسرا ہو نہیں سکتا ۔
پھر یہ جو فرمایا کہ ’’ ہم نے اسے عربی زبان کا قرآن بنایا ہے تاکہ تم اسے سمجھو،‘‘ اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ یہ کسی غیر زبان میں نہیں ہے ، بلکہ تمہاری اپنی زبان میں ہے ، اس لیے اسے جانچنے پرکھنے اور اس کی قدر و قیمت کا اندازہ کرنے میں تمہیں کوئی دقت پیش نہیں آ سکتی ۔ یہ کسی عجمی زبان میں ہوتا تو تم یہ عذر کر سکتے تھے کہ ہم اس کے کلام الٰہی ہونے یا نہ ہونے کی جانچ کیسے کریں جب کہ ہماری سمجھ ہی میں یہ نہیں آ رہا ہے ۔ لیکن اس عربی قرآن کے متعلق تم یہ عذر کیسے کر سکتے ہو۔ اس کا ایک ایک لفظ تمہارے لیے واضح ہے ۔ اس کی ہر عبارت اپنی زبان اور اپنے مضمون ، دونوں کے لحاظ سے تم پر روشن ہے ۔ خود دیکھ لو کہ کیا یہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا یا کسی دوسرے عرب کا کلام ہو سکتا ہے ۔ دوسرا مطلب اس ارشاد کا یہ ہے کہ اس کتاب کی زبان ہم نے عربی اس لیے رکھی ہے کہ ہم عرب قوم کو مخاطب کر رہے ہیں اور وہ عربی زبان کے قرآن ہی کو سمجھ سکتی ہے ۔ عربی میں قرآن نازل کرنے کی اس صریح وجہ کو نظر انداز کر کے جو شخص صرف اس بنا پر اسے کلام الٰہی کے بجائے کلام محمدؐ قرار دیتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی مادری زبان بھی عربی ہے تو وہ بڑی زیادتی کرتا ہے ۔ (ان دوسرے مطلب کو سمجھنے کے لیے تفہیم القرآن ، جلد چہارم، سورہ حٰم السجدہ، آیت 44 مع حاشیہ نمبر 54 ملاحظہ فرمائیں)
2. ’’ امّ الکتاب ‘‘ سے مراد ہے ’’ اصل الکتاب‘‘ یعنی وہ کتاب جس سے تمام انبیاء علیہم السلام پر نازل ہونے والی کتابیں ماخوذ ہیں۔ اسی کو سورہ واقعہ میں : کِتَابٌ مَّکْنُوْنٌ (پوشیدہ اور محفوظ کتاب) کہا گیا ہے ، اور سورہ بُروج میں اس کے لیے لوح محفوظ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، یعنی ایسی لوح جس کا لکھا مِٹ نہیں سکتا اور جو ہر قسم کی در اندازی سے محفوظ ہے ۔ قرآن کے متعلق یہ فرما کر کہ یہ ’’ امّ الکتاب‘‘ میں ہے ایک اہم حقیقت پر متنبہ فرمایا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف زمانوں میں مختلف ملکوں اور قوموں کی ہدایت کے لیے مختلف انبیاء پر مختلف زبانوں میں کتابیں نازل ہوتی رہی ہیں، مگر ان میں دعوت ایک ہی عقیدے کی طرف دی گئی ہے ، حق ایک ہی سچائی کو قرار دیا گیا ہے ، خیر و شر کا ایک ہی معیار پیش کیا گیا ہے ، اخلاق و تہذیب کے یکساں اصول بیان کیے گئے ہیں اور فی ا لجملہ ایک ہی دین ہے جسے یہ سب کتابیں لے کر آئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سب کی اصل ایک ہے اور صرف عبارتیں مختلف ہیں۔ ایک ہی معنی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک بنیادی کتاب میں ثبت ہیں اور جب کبھی ضرورت پیش آئی ہے ، اس نے کسی نبی کو مبعوث کر کے وہ معنی حال اور موقع کی مناسبت سے ایک خاص عبارت اور خاص زبان میں نازل فرما دیے ہیں ۔ اگر بالفرض اللہ تعالیٰ کا فیصلہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو عرب کے بجائے کسی اور قوم میں پیدا کرنے کا ہوتا تو یہی قرآن وہ حضورؐ پر اسی قوم کی زبان میں نازل کرتا۔ اس میں بات اسی قوم اور ملک کے حالات کے لحاظ سے کی جاتی، عبارتیں کچھ اور ہوتیں، زبان بھی دوسری ہوتی، لیکن بنیادی طور پر تعلیم و ہدایت یہی ہوتی، اور وہ یہی قرآن ہوتا (اگرچہ قرآن عربی نہ ہوتا اسی مضمون کو سورہ شعراء میں یوں ادا کیا گیا ہے : وَ اِنَّہٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ............ بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ وَّ اِ نَّہٗ لَفِیْ زُبُرِ الْاَ وَّ لِیْنَ (192۔ 196)۔ ’’ یہ رب العٰلمین کی نازل کردہ کتاب ہے ............. صاف صاف عربی زبان میں ، اور یہ اگلے لوگوں کی کتابوں میں بھی موجود ہے ۔‘‘(تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، الشعراء، حواشی،119تا121)
3. اس فقرے کا تعلق کتاب مبین سے بھی ہے اور امّ الکتاب سے بھی ۔ یعنی یہ تعریف قرآن کی بھی ہے اور اس اصل کتاب کی بھی جس سے قرآن منقول یا ماخوذ ہے ۔ اس تعریف سے یہ بات ذہن نشین کرنی مقصود ہے کہ کوئی شخص اپنی نادانی سے اس کتاب کی قدر و منزلت نہ پہچانے اور اس کی حکیمانہ تعلیم سے فائدہ نہ اٹھائے تو یہ اسکی اپنی بد قسمتی ہے ۔ کوئی اگر اس کی حیثیت کو گرانے کی کوشش کرے اور اس کی باتوں میں کیڑے ڈالے تو یہ اس کی اپنی رذالت ہے ۔ کسی کی ناقدری سے یہ بے قدر نہیں ہو سکتی، اور کسی کے خاک ڈالنے سے اس کی حکمت چھپ نہیں سکتی۔ یہ تو بجائے خود ایک بلند مرتبہ کتاب ہے جسے اس کی بے نظیر تعلیم ، اس کی معجزانہ بلاغت ، اس کی بے عیب حکمت اور اس کے عالی شان مصنف کی شخصیت نے بلند کیا ہے ۔ یہ کسی کے گرائے کیسے گرجائے گی۔ آگے چل کر آیت 44 میں قریش کو خاص طور پر اور اہل عرب کو بالعموم یہ بتایا گیا ہے کہ جس کتاب کی تم اس طرح نا قدری کر رہے ہو اس کے نزول نے تم کو ایک بہت بڑے شرف کا موقع عطا کیا ہے جسے اگر تم نے کھو دیا تو خدا کے سامنے تمہیں سخت جوابدہی کرنی ہو گی۔ (ملاحظہ ہو حاشیہ 39)
4. اس ایک فقرے میں وہ پوری داستان سمیٹ دی گئی ہے جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے اعلان نبوت کے وقت سے لے کر ان آیات کے نزول تک پچھلے چند برس میں ہو گزری تھی۔ یہ فقرہ ہمارے سامنے یہ تصویر کھینچتا ہے کہ ایک قوم صدیوں سے سخت جہالت ، پستی اور بد حالی میں مبتلا ہے ۔ یکایک اللہ تعالیٰ کی نظر عنایت اس پر ہوتی ہے ۔ وہ اس کے اندر ایک بہترین رہنما اٹھاتا ہے اور اسے جہالت کی تاریکیوں سے نکالنے کے لیے خود اپنا کلام نازل کرتا ہے ، تاکہ وہ غفلت سے بیدار ہو، جاہلانہ اوہام کے چکر سے نکلے اور حقیقت سے آگاہ ہو کر زندگی کا صحیح راستہ اختیار کر لے ۔ مگر اس قوم کے نادان لوگ اور اس کے خود غرض قبائلی سردار اس رہنما کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتے ہیں اور اسے ناکام کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں۔ جوں جوں سال پر سال گزرتے جاتے ہیں، ان کی عداوت اور شرارت بڑھتی چلی جاتی ہے ، یہاں تک کہ وہ اسے قتل کر دینے کی ٹھان لیتے ہیں۔ اس حالت میں ارشاد ہو رہا ہے کہ کیا تمہاری اس نالائقی کی وجہ سے ہم تمہاری اصلاح کی کوشش چھوڑ دیں ؟ اس درس نصیحت کا سلسلہ روک دیں ؟ اور تمہیں اسی پستی میں پڑا رہنے دیں جس میں تم صدیوں سے گرے ہوئے ہو ؟ کیا تمہارے نزدیک واقعی ہماری رحمت کا تقاضا یہی ہونا چاہیے ؟ تم نے کچھ سوچا بھی خدا کے فضل کو ٹھکرانا اور حق سامنے آ جانے کے بعد باطل پر اصرار کرنا تمہیں کس انجام سے دوچار کرے گا۔؟
5. ۔ یعنی یہ بیہودگی اگر نبی اور کتاب کے بھیجنے میں مانع ہوتی تو کسی قوم میں بھی کوئی نبی نہ آتا ، نہ کوئی کتاب بھیجی جاتی۔
6. یعنی خاص لوگوں کی بیہودگی کا نتیجہ یہ کبھی نہیں ہوا کہ پوری نوع انسانی کو نبوت اور کتاب کی رہنمائی سے محروم کر دیا جاتا ، بلکہ اس کا نتیجہ ہمیشہ یہی ہوا ہے کہ جو لوگ باطل پرستی کے نشے اور اپنی قوت کے گھمنڈ میں بد مست ہو کر انبیاء کا مذاق اڑانے سے باز نہ آئے انہیں آخر کار تباہ کر دیا گیا۔ پھر جب اللہ کا قہر ٹوٹ پڑا تو جس قوت کے بل پر یہ قریش کے چھوٹے چھوٹے سردار اکڑ رہے ہیں اس سے ہزاروں گُنی زیادہ طاقت رکھنے والے بھی مچھر اور پسّو کی طرح مسل کر رکھ دیئے گئے۔
7. دوسرے مقامات پر تو زمین کو فرش سے تعبیر کیا گیا ہے مگر یہاں اس کے لیے گہوارے کا لفظ استعمال فرمایا گیا ہے ۔ یعنی جس طرح ایک بچہ اپنے پنگھوڑے میں آرام سے لیٹا ہوتا ہے ، ایسے آرام کی جگہ تمہارے لیے اس عظیم الشان کُرے کو بنا دیا جو فضا میں معلق ہے ۔ جو ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنے محور پر گھوم رہا ہے ۔ جو 66600 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے رواں دواں ہے ۔ جسکے پیٹ میں وہ آگ بھری ہے کہ پتھروں کو پگھلا دیتی ہے اور آتش فشانوں کی شکل میں لاوا اُگل کر کبھی کبھی تمہیں بھی اپنی شان دکھا دیتی ہے ۔ مگر اس کے باوجود تمہارے خالق نے اسے اتنا پر سکون بنا دیا ہے کہ تم آرام سے اس پر سوتے ہو اور تمہیں ذرا جھٹکا تک نہیں لگتا۔ تم اس پر رہتے ہو اور تمہیں یہ محسوس تک نہیں ہوتا کہ یہ کرہ معلق ہے اور تم اس پر سر کے بل لٹکے ہوئے ہو ۔ تم اطمینان سے اس پر چلتے پھرتے ہو اور تمہیں یہ خیال تک نہیں آ تا کہ تم بندوق کی گولی سے بھی زیادہ تیز رفتار گاڑی پر سوار ہو، حالانکہ اس کی ایک معمولی سی جھر جھری کبھی زلزلے کی شکل میں آ کر تمہیں خبر دے دیتی ہے کہ یہ کس بلا کا خوفناک دیو ہے جسے اللہ نے تمہارے لیے مسخر کر رکھا ہے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم،النمل،حواشی،74،75)
8. ۔ پہاڑوں کے بیچ بیچ میں درّے ،اور پھر کوہستانی اور میدانی علاقوں میں دریا وہ قدرتی راستے ہیں جو اللہ نے زمین کی پشت پر بنا دیے ہیں۔ انسان ان ہی کی مدد سے کرہ زمین پر پھیلا ہے ۔ اگر پہاڑی سلسلوں کو کسی شگاف کے بغیر بالکل ٹھوس دیوار کی شکل میں کھڑا کر دیا جاتا اور زمین میں کہیں دریا، ندیاں، نالے نہ ہوتے تو آدمی جہاں پیدا ہوا تھا اسی علاقے میں مقید ہو کر رہ جاتا۔ پھر اللہ مزید فضل یہ فرمایا کہ تمام روئے زمین کو یکساں بنا کر نہیں رکھ دیا، بلکہ اس میں قسم قسم کے ایسے امتیازی نشانات (Land marks) قائم کر دیے جن کی مدد سے انسان مختلف علاقوں کو پہچانتا ہے اور ایک علاقے اور دوسرے علاقے کا فرق محسوس کرتا ہے ۔ یہ دوسرا اہم ذریعہ ہے جس کی بدولت انسان کے لیے زمین میں نقل و حرکت آسان ہوئی ۔ اس نعمت کی قدر آدمی کو اس وقت معلوم ہوتی ہے جب اسے کسی لق و دق صحرا میں جانے کا اتفاق ہوتا ہے ، جہاں سینکڑوں میل تک زمین ہر قسم کے امتیازی نشانات سے خالی ہوتی ہے اور آدمی کو کچھ پتہ نہیں چلتا کہ وہ کہاں سے کہاں پہنچا ہے اور آگے کدھر جائے۔
9. یہ فقرہ بیک وقت دو معنی دے رہا ہے ۔ ایک معنی یہ کہ تم ان قدرتی راستوں اور ان نشانات راہ کی مدد سے اپنا راستہ معلوم کر سکو اور اس جگہ تک پہنچ سکو جہاں جانا چاہتے ہو۔ دوسرے معنی یہ کہ اللہ جل شانہ کی اس کاری گری کو دیکھ کر تم ہدایت حاصل کر سکو، حقیقت نفس الامری کو پاسکو ، اور یہ سمجھ سکو کہ زمین میں یہ انتظام اَلل ٹپ نہیں ہو گیا ہے ، نہ بہت سے خداؤں نے مل کر یہ تدبیر کی ہے بلکہ ایک رب حکیم ہے جس نے اپنی مخلوق کی ضروریات کو ملحوظ رکھ کر پہاڑوں اور میدانوں میں یہ راستے بنائے ہیں اور زمین کے ایک ایک خطے کو بے شمار طریقوں سے ایک الگ شکل دی ہے جس کی بدولت انسان ہر خطے کو دوسرے سے ممیز کر سکتا ہے ۔
10. یعنی ہر علاقے کے لیے بارش کی ایک اوسط مقدار مقرر کی جو مدت ہائے دراز تک سال بہ سال ایک ہی ہموار طریقے سے چلتی رہتی ہے ۔ اس میں ایسی بے قاعدگی نہیں رکھی کہ کبھی سال میں دو انچ بارش ہو اور کبھی دو سو انچ ہو جائے ۔ پھر وہ اس کو مختلف زمانوں میں اور مختلف اوقات میں جگہ جگہ پھیلا کر اس طرح برساتا ہے کہ بالعموم وہ وسیع پیمانے پر زمین کی بار آوری کے لیے نافع ہوتی ہے ۔ اور یہ بھی اسکی حکمت ہی ہے کہ زمین کے بعض حصوں کو اس نے بارش سے قریب قریب بالکل محروم کر کے بے آب و گیاہ صحرا بنا دیے ہیں ، اور بعض دوسرے حصوں میں وہ کبھی قحط ڈال دیتا ہے اور کبھی طوفانی بارش کر دیتا ہے تاکہ آدمی یہ جان سکے کہ زمین کے آباد علاقوں میں بارش اور اس کے عام باقاعدگی کتنی بڑی نعمت ہے ، اور یہ بھی اس کو یاد رہے کہ اس نظام پر کوئی دوسری طاقت حکمراں ہے جس کے فیصلوں کے آگے کسی کی کچھ پیش نہیں جاتی ۔ کسی میں یہ طاقت نہیں ہے کہ ایک ملک میں بارش کے عام اوسط کو بدل سکے ، یا زمین کے وسیع علاقوں پر اس کی تقسیم میں فرق ڈال سکے ، یا کسی آتے ہوئے طوفان کو روک سکے ، یا روٹھے ہوئے بادلوں کو منا کر اپنے ملک کی طرف کھینچ لائے اور انہیں برسنے پر مجبور کر دے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ،جلد دوم، صفحات 502۔503۔ جلد سوم ،المؤمنون،حواشی،17،18)۔
11. ۔ یہاں پانی کے ذریعہ سے زمین کے اندر روئیدگی کی پیدائش کو بیک وقت دو چیزوں کی دلیل قرار دیا گیا ہے ۔ ایک یہ کہ یہ کام خدائے واحد کی قدرت و حکمت سے ہو رہے ہیں، کوئی دوسرا اس کار خدائی میں اس کا شریک نہیں ہے ۔ دوسرے یہ کہ موت کے بعد دوبارہ زندگی ہو سکتی ہے اور ہو گی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم، النحل،حاشیہ،53الف۔جلد سوم،الحج،حاشیہ،79،النمل،حاشیہ،73،الروم،حواشی،25،34،35، جلد چہارم، سورہ فاطر، حاشیہ 19، سورہ یٰسٓ ، حاشیہ 29)۔
12. جوڑوں سے مراد صرف نوع انسانی کے زن و مرد ، اور حیوانات و نباتات کے نر و مادہ ہی نہیں ہیں، بلکہ دوسری بے شمار چیزیں بھی ہیں جن کو خالق نے ایک دوسرے کا جوڑ بنایا ہے اور جن کے اختلاط یا امتزاج سے دنیا میں نئی نئی چیزیں وجود میں آتی ہیں۔ مثلاً عناصر میں بعض کا بعض سے جوڑ لگتا ہے اور بعض کا بعض سے نہیں لگتا ۔جن کا جوڑ ایک دوسرے سے لگتا ہے ، ان ہی کے ملنے سے طرح طرح کی ترکیبیں واقع ہو رہی ہیں۔ یا مثلاً بجلی میں منفی اور مثبت بجلیاں ایک دوسرے کا جوڑ ہیں اور ان کی باہمی کشش ہی دنیا میں عجیب عجیب کرشموں کی موجب بن رہی ہے ۔ یہ اور دوسرے ان گنت جوڑ ے جو قسم قسم کی مخلوقات کے اندر اللہ تعالیٰ نے پیدا کیے ہیں ، ان کی ساخت ، اور انکی باہمی مناسبتوں ، اور ان کے تعامل کی گوناگوں شکلوں، اور ان کے ملنے سے پیدا ہونے والے نتائج پر اگر انسان غور کرے تو اس کا دل یہ گواہی دیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ سارا کارخانہ عالم کسی ایک ہی زبردست صانع حکیم کا بنا یا ہوا ہے ، اور اسی کی تدبیر سے یہ چل رہا ہے ۔ صرف ایک عقل کا اندھا ہی یہ فرض کر سکتا ہے کہ یہ سب کچھ کسی حکیم کے بغیر ہوا اور ہو رہا ہے ، یا اس میں ایک سے زیادہ خداؤں کی دخیل کاری کا کوئی امکان ہے ۔
13. یعنی زمین کی تمام مخلوقات میں سے تنہا انسان کو کشتیاں اور جہاز چلانے اور سواری کے لیے جانور استعمال کرنے کی یہ مقدرت اللہ تعالیٰ نے اس لیے تو نہیں دی تھی کہ وہ غلے کی بوریوں کی طرح ان پر لد جائے اور کبھی نہ سوچے کہ آخر وہ کون ہے جس نے ہمارے لیے بحر ذخّار میں کشتیاں دوڑانے کے امکانات پیدا کیے ، اور جس نے جانوروں کی بے شمار اقسام میں سے بعض کو اس طرح پیدا کیا کہ وہ ہم سے بدر جہا زیادہ طاقتور ہونے کے باوجود ہمارے تابع فرمان بن جاتے ہیں اور ہم ان پر سوار ہو کر جدھر چاہتے ہیں انہیں لیے پھرتے ہیں ۔ ان نعمتوں سے فائدہ اٹھانا اور نعمت دینے والے کو فراموش کر دینا ، دل کے مردہ اور عقل و ضمیر کے بے حس ہونے کی علامت ہے ۔ ایک زندہ اور حساس قلب و ضمیر رکھنے والا انسان تو ان سواریوں پر جب بیٹھے گا تو اس کا سر احساس نعمت اور شکر نعمت کے جذبے سے لبریز ہو جائے گا۔ وہ پکار اٹھے گا کہ پاک ہے وہ ذات جس نے میرے لیے ان چیزوں کو مسخر کیا۔ پاک ہے اس سے کہ اس کی ذات و صفات اور اختیارات میں کوئی اس کا شریک ہو۔ پاک ہے اس کمزوری سے کہ اپنی خدائی کا کام خود چلانے سے وہ عاجز ہو اور دوسرے مدد گار خداؤں کی اسے حاجت پیش آئے ۔ پاک ہے اس سے کہ میں ان نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے میں اس کے ساتھ کسی اور کو شریک کروں۔
اس آیت کے منشا کی بہترین عملی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے وہ اذکار ہیں جو سواریوں پر بیٹھتے وقت آپؐ کی زبان مبارک پر جاری ہوتے تھے ۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ حضورؐ جب سفر پر جانے کے لیے سواری پر بیٹھتے تو تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے ، پھر یہ آیت پڑھتے ، اور اس کے بعد یہ دعا مانگا کرتے تھے ۔ : اللھم انی اسأ لُکَ فی سفری ھٰذا لابرَّ و التقویٰ ، ومن العمل ماترضیٰ ، اللھم ھون لناالسفر، واطْو،لَنا البعید ، اللھم انت الصاحب فی السفر ، الخلیفۃُ فی الاھل، اللھم اَصْحِبْا فی سفر نا واخْلُفْنَا فی اھلنا (مسند احمد ، مسلم، ابوداؤد نسائی ، دارمی، ترمذی) ۔ ’’ خدایا میں تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ میرے اس سفر میں مجھے نیکی اور تقویٰ اور ایسے عمل کی توفیق دے جو تجھے پسند ہو۔ خدایا ہمارے لیے سفر کو آسان کر دے اور لمبی مسافت کو لپیٹ دے ، خدایا تو ہی سفر کا ساتھی اور ہمارے پیچھے ہمارے اہل و عیال کا نگہبان ہے ، خدایا ہمارے سفر میں ہمارے ساتھ اور پیچھے ہمارے گھر والوں کی خبر گیری فرما۔‘‘
حضرت علی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بسم اللہ کہہ کر رکاب میں پاؤں رکھا ، پھر سوار ہونے کے بعد فرمایا : الحمد للہ ، سبحان الذی سخر لنا ھٰذا .......... ، پھر تین مرتبہ الحمد للہ اور تین دفعہ اللہ اکبر کہا ، پھر فرمایا سبحانک، لا اِلٰہ الا انت ، قد ظلمتُ نفسی فاغفرلی۔ اس کے بعد آپ ہنس دیے ۔ میں نے پوچھا یا رسول اللہ آپ ہنسے کس بات پر ؟ فرمایا ، بندہ جب ربِّ اغْفِرْ لِیْ کہتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ کو اس کی یہ بات بڑی پسند آتی ہے ، وہ فرماتا ہے کہ میرا بندہ جانتا ہے کہ میرے سوا مغفرت کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔ (احمد، ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی وغیرہ) ۔
ایک صاحب ابو مجلز بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں جانور پر سوار ہوا اور میں نے آیت سُبحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَلَنَا ھٰذَا پڑھی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا اس طرح کرنے کا تمہیں حکم دیا گیا ہے ؟میں نے عرض کیا پھر کیا کہوں ؟ فرمایا کہو کہ شکر ہے اس خدا کا جس نے ہمیں اسلام کی ہدایت دی، شکر ہے اس کا کہ اس نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو بھیج کر ہم پر احسان فرمایا ، شکر ہے اس کا کہ اس نے ہمیں اس بہترین امت میں داخل کیا جو خلق خدا کے لیے نکالی گئی ہے ، اس کے بعد یہ آیت پڑھو(ابن جریر ۔ احکام القرآن للجصّاص)۔
14. مطلب یہ ہے کہ ہر سفر پر جاتے ہوئے یاد کر لو کہ آگے ایک بڑا اور آخری سفر بھی درپیش ہے ۔ اس کے علاوہ چونکہ ہر سواری کو استعمال کرنے میں یہ امکان بھی ہوتا ہے کہ شاید کوئی حادثہ اسی سفر کو آدمی کا آخری سفر بنا دے ، اس لیے بہتر ہے کہ ہر مرتبہ وہ اپنے رب کی طرف واپسی کو یاد کر کے چلے تاکہ اگر مرنا ہی ہے تو بے خبر نہ مرے ۔
یہاں تھوڑی دیر ٹھیر کر ذرا اس تعلیم کے اخلاقی نتائج کا بھی اندازہ کر لیجیے ۔ کیا آپ یہ تصور کر سکتے ہیں کہ جو شخص کسی سواری پر بیٹھتے وقت سمجھ بوجھ کر پورے شعور کے ساتھ اس طرح اللہ کو اور اس کے حضور اپنی واپسی اور جواب دہی کو یاد کر کے چلا ہو وہ آگے جا کر کسی فسق و فجور یا کسی ظلم ستم کا مرتکب ہوگا ؟ کیا کسی فاحشہ سے ملاقات کے لیے ، یا کسی کلب میں شراب خوری اور قمار بازی کے لیے جاتے وقت بھی کوئی شخص یہ کلمات زبان سے نکال سکتا ہے یا ان کا خیال کر سکتا ہے ؟ کیا کوئی حاکم یا سرکاری افسر، یا تاجر، جو یہ کچھ سوچ کر اور اپنے منہ سے کہہ کر گھر سے چلا ہو، اپنی جائے عمل پر پہنچ کر لوگوں کے حق مار سکتا ہے ؟ کیا کوئی سپاہی بے گناہوں کا خون بہانے اور کمزوروں کی آزادی پر ڈاکہ مارنے کے لیے جاتے وقت بھی اپنے ہوائی جہاز یا ٹینک پر قدم رکھتے ہوئے یہ الفاظ زبان پر لا سکتا ہے ؟ اگر نہیں، تو یہی ایک چیز ہراس نقل و حرکت پر بند باندھ دینے کے لیے کافی ہے جو معصیت کے لیے ہو۔
15. جُزء بنا دینے سے مراد یہ ہے کہ اللہ کے کسی بندے کو اس کی اولاد قرار دیا جائے، کیونکہ اولاد لامحالہ باپ کی ہم جنس اور اس کے وجود کا یک جزء ہوتی ہے ، اور کسی شخص کو اللہ کا بیٹا یا بیٹی کہنے کے معنی ہی یہ ہیں کہ اسے اللہ کی ذات میں شریک کیا جا رہا ہے ۔ اس کے علاوہ کسی مخلوق کو اللہ کا جزء بنانے کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ اسے ان صفات اور اختیارات کا حامل قرار دیا جائے جو اللہ ہی کے ساتھ مخصوص ہیں ، اور اسی تصور کے تحت اس سے دعائیں مانگی جائیں، یا اس کے آگے عبودیت کے مراسم ادا کیے جائیں ، یا اس کی تحریم و تحلیل کو شریعت واجب الاتباع ٹھیرا لیا جائے ۔ کیونکہ اس صورت میں آدمی اُلوہیت و ربوبیت کو اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان بانٹتا ہے اور اس کا ایک جز بندوں کے حوالے کر دیتا ہے ۔