16. یہاں مشرکین عرب کی نا معقولیت کو پوری طرح بے نقاب کر کے رکھ دیا گیا ہے ۔ وہ کہتے تھے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ ان کے بت انہوں نے عورتوں کی شکل کے بنا رکھے تھے ، اور یہی ان کی وہ دیویاں تھیں جن کی پرستش کی جاتی تھی ۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اول تو تم نے یہ جاننے اور ماننے کے باوجود کہ زمین و آسمان کا خالق اللہ ہے اور اس زمین کو اسی نے تمہارے لیے گہوراہ بنایا ہے ، اور وہی آسمان سے پانی برساتا ہے ، اور اسی نے یہ جانور تمہاری خدمت کے لیے پیدا کیے ہیں، اس کے ساتھ دوسروں کو معبود بنایا ۔ حالانکہ جنہیں تم معبود بنا رہے ہو وہ خدا نہیں بلکہ بندے ہیں۔ پھر مزید غضب یہ کیا کہ بعض بندوں کو صفات ہی میں نہیں بلکہ اللہ کی ذات میں بھی اس کا شریک بنا ڈالا اور یہ عقیدہ ایجاد کیا کہ وہ اللہ کی اولاد ہیں۔ اس پر بھی تم نے بس نہ کیا اور اللہ کے لیے وہ اولاد تجویز کی جسے تم خود اپنے لیے ننگ و عار سمجھتے ہو۔ بیٹی گھر میں پیدا ہو جائے تو تمہارا منہ کالا ہو جاتا ہے ، خون کا سا گھونٹ پی کر رہ جاتے ہو، بلکہ بعض اوقات زندہ بچی کو دفن کر دیتے ہو۔ یہ اولاد تو آئی اللہ کے حصے میں۔ اور بیٹے ، جو تمہارے نزدیک فخر کے قابل اولاد ہیں، مخصوص ہو گئے تمہارے لیے ؟ اس پر تمہارا دعویٰ یہ ہے کہ ہم اللہ کے ماننے والے ہیں۔
17. بالفاظ دیگر جو نرم و نازک اور ضعیف و کمزور اولاد ہے وہ تم نے اللہ کے حصے میں ڈالی، اور خم ٹھونک کر میدان میں اترنے والی اولاد خود لے اڑے ۔
اس آیت سے عورتوں کے زیور کے جواز کا پہلو نکلتا ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے زیور کو ایک فطری چیز قرار دیا ہے ۔ یہی بات احادیث سے بھی ثابت ہے ۔ امام احمد، ابو داؤد اور نسائی حضرت علیؓ سے روایت کرتے ہیں کہ بنی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ہاتھ میں ریشم اور دوسرے ہاتھ میں سونا لے کر فرمایا یہ دونوں چیزیں لباس میں استعمال کرنا میری امت کے مردوں پر حرام ہے ۔ ترمذی اور نسائی نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت نقل کی ہے کہ حضور نے فرمایا کہ ریشم اور سونا میری امت کی عورتوں کے لیے حلال اور مردوں پر حرام کیا گیا ۔ علامہ ابو بکر جصاص نے احکام القرآن میں اس مسئلے پر بحث کرتے ہوئے حسب ذیل روایات نقل کی ہیں :
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت زید بن حارثہ کے صاحبزادے اسامہ بن زید کو چوٹ لگ گئی اور خون بہنے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ان سے اپنی اولاد جیسی محبت تھی ۔آپ ان کا خون چوس کر تھوکتے جاتے اور ان کو یہ کہہ کہہ کر بہلاتے جاتے کہ اسامہ اگر بیٹی ہوتا تو ہم اسے زیور پہنا تے ، اسامہ اگر بیٹی ہوتا تو ہم اسے اچھے اچھے کپڑے پہناتے ۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا :لبس الحریر والذھب حرام علی ذکور امتی و حلال لا نا ثھا، ’’ ریشمی کپڑے اور سونے کے زیور پہننا میری امت کے مردوں پر حرام اور عورتوں کے لیے حلال ہے ۔‘‘حضرت عمرو بن عاص کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ دو عورتیں حضور کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور وہ سونے کے کنگن پہنے ہوئے تھیں۔ آپ نے فرمایا کیا تم پسند کرتی ہو کہ اللہ تمہیں ان کے بدلے آگ کے کنگن پہنائے ؟ انہوں نے عرض کیا نہیں۔ آپ نے فرمایا تو ان کا حق ادا کرو، یعنی ان کی زکوٰۃ نکالو۔
حضرت عائشہ کا قول ہے کہ زیور پہننے میں مضائقہ نہیں بشرطیکہ اس کی زکوٰۃ ادا کی جائے۔
حضرت عمرؓ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کو لکھا کہ تمہاری عملداری میں جو مسلمان عورتیں رہتی ہیں ان کو حکم دو کہ اپنے زیوروں کی زکوٰۃ نکالیں۔
امام ابو حنیفہ نے عمرو بن دینار کے حوالہ سے یہ روایات نقل کی ہیں کہ حضرت عائشہ نے اپنی بہنوں کو اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اپنی بیٹیوں کو سونے کے زیور پہنائے تھے ۔
ان تمام روایات کو نقل کرنے کے بعد علامہ جصاص لکھتے ہیں کہ ’’ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ سے جو روایات عورتوں کے لیے سونے اور ریشم کے حلال ہونے کے متعلق وارد ہوئی ہیں وہ عدم جواز کی روایات سے زیادہ مشہور اور نمایاں ہیں۔ اور آیت مذکورہ بالا بھی اس کے جواز پر دلالت کر رہی ہے ۔ پھر امت کا عمل بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کے زمانے سے ہمارے زمانے (یعنی چوتھی صدی کے آخری دور) تک یہی رہا ہے ، بغیر اس کے کہ کسی نے اس پر اعتراض کیا ہو۔ اس طرح کے مسائل میں اخبار آحاد کی بنا پر کوئی اعتراض تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
18. یعنی مذکر یا مونث ہونے سے مبرا ہیں۔ یہ مفہوم فحوائے کلام سے خود بخود مترشح ہو رہا ہے ۔
19. دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ کیا ان کی پیدائش کے وقت یہ موجود تھے ‘‘؟
20. یہ اپنی گمراہی پر تقدیر سے ان کا استدلال تھا جو ہمیشہ سے غلط کار لوگوں کا شیوہ رہا ہے ۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ ہمارا فرشتوں کی عبادت کرنا اسی لیے تو ممکن ہوا کہ اللہ نے ہمیں یہ کام کرنے دیا ۔ اگر وہ نہ چاہتا کہ ہم یہ فعل کریں تو ہم کیسے کر سکتے تھے پھر مدت ہائے دراز سے ہمارے ہاں یہ کام ہو رہا ہے اور اللہ کی طرف سے اس پر کوئی عذاب نازل نہ ہوا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کو ہمارا یہ کام نا پسند نہیں ہے ۔
21. مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی جہالت سے یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے وہ چونکہ اللہ کی مشیت کے تحت ہو رہا ہے ، اس لیے ضرور اس کو اللہ کی رضا بھی حاصل ہے ۔ حالانکہ اگر یہ استدلال صحیح ہو تو دنیا میں صرف ایک شرک ہی تو نہیں ہو رہا ہے ۔ چوری ، ڈاکہ ، قتل ، زنا ، رشوت ، بد عہدی، اور ایسے ہی دوسرے بے شمار جرائم بھی ہو رہے ہیں جنہیں کوئی شخص بھی نیکی اور بھلائی نہیں سمجھتا ۔ پھر کیا اسی طرز استدلال کی بنا پر یہ بھی کہا جائے گا کہ یہ تمام افعال حلال و طیب ہیں ، کیونکہ اللہ اپنی دنیا میں انہیں ہونے دے رہا ہے ، اور جب وہ انہیں ہونے دے رہا ہے ، تو ضرور وہ ان کو پسند بھی کرتا ہے ؟ اللہ کی پسند اور نا پسند معلوم ہونے کا ذریعہ وہ واقعات نہیں ہیں جو دنیا میں ہو رہے ہیں ، بلکہ اللہ کی کتاب ہے جو اس کے رسول کے ذریعہ سے آتی ہے اور جس میں اللہ خود بتاتا ہے کہ اسے کونسے عقائد ، کون سے اعمال ، اور کون سے اخلاق پسند ہیں اور کون سے نا پسند ۔ پس اگر قرآن سے پہلے آئی ہوئی کوئی کتاب ان لوگوں کے پاس ایسی موجود ہو جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہو کہ فرشتے بھی میرے ساتھ تمہارے معبود ہیں اور تم کو ان کی عبادت بھی کرنی چاہیے ، تو یہ لوگ اس کا حوالہ دیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ،الانعام،حواشی،71،79،80،110،124،125، جلد دوم،الاعراف،حاشیہ،16،یونس،حاشیہ،101،ہود،حاشیہ،116،الرعد،حاشیہ،49،النحل،حواشی،10،31،94 ۔ جلد چہارم، الزمر، حاشیہ 20۔ الشوریٰ، حاشیہ 11) ۔
22. ۔ یعنی ان کے پاس کسی کتاب الہیٰ کی کوئی سند نہیں ہے بلکہ سند صرف یہ ہے کہ باپ دادا سے یونہی ہوتا چلا آ رہا ہے ، لہٰذا ہم بھی انہی کی تقلید میں فرشتوں کو دیویاں بنائے بیٹھے ہیں۔
23. ۔ یہ بات قابل غور ہے کہ انبیاء کے مقابلے میں اٹھ کر باپ دادا کی تقلید کا جھنڈا بلند کرنے والے ہر زمانے میں اپنی قوم کے کھاتے پیتے لوگ ہی کیوں رہے ہیں ؟ آخر کیا وجہ ہے کہ وہی حق کی مخالفت میں پیش پیش اور قائم شدہ جاہلیت کو برقرار رکھنے کی کوشش میں سرگرم رہے ،اور وہی عوام کو بہکا اور بھڑکا کر انبیاء علیہم السلام کے خلاف فتنے اٹھاتے رہے ؟ اس کے بنیادی وجوہ دو تھے ۔ ایک یہ کہ کھاتے پیتے اور خوشحال طبقے اپنی دنیا بنانے اور اس سے لطف اندوز ہونے میں اس قدر منہمک ہوتے ہیں کہ حق اور باطل کی، بزعم خویش ، دُور از کار بحث میں سر کھپانے کے لیے تیار نہیں ہوتے ۔ ان کی تن آسانی اور ذہنی کاہلی انہیں دین کے معاملے میں انتہائی بے فکر ، اور اس کے ساتھ عملاً قدامت پسند (Conservative ) بنا دیتی ہے تاکہ جو حالت پہلے سے قائم چلی آ رہی ہے وہی، قطع نظر اس سے کہ وہ حق ہے یا باطل ، جوں کی توں قائم رہے اور کسی نئے نظام کے متعلق سوچنے کی زحمت نہ اٹھانی پڑے ۔ دوسرے یہ کہ قائم شدہ نظام سے ان کے مفاد پوری طرح وابستہ ہو چکے ہوتے ہیں، اور انبیاء علیہم السلام کے پیش کردہ نظام کو دیکھ کر پہلی ہی نظر میں وہ بھانپ جاتے ہیں کہ یہ آئے گا تو ان کی چودھراہٹ کی بساط بھی لپیٹ کر رکھ دی جائے گی اور ان کے لیے اکل حرام اور فعل حرام کی بھی کوئی آزادی باقی نہ رہے گی۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،جلد اول،الانعام،حاشیہ،91،جلد دوم،الاعراف،46،53،58،74،88،92،ہود،حواشی،31،32،41،بنی اسرائیل،حاشیہ،18،جلد سوم، المؤمنون،26،27،35،59، ۔ جلد چہارم، سبا آیت 34، حاشیہ 54) ۔