Tafheem ul Quran

Surah 43 Az-Zukhruf, Ayat 26-35

وَاِذۡ قَالَ اِبۡرٰهِيۡمُ لِاَبِيۡهِ وَقَوۡمِهٖۤ اِنَّنِىۡ بَرَآءٌ مِّمَّا تَعۡبُدُوۡنَۙ‏ ﴿43:26﴾ اِلَّا الَّذِىۡ فَطَرَنِىۡ فَاِنَّهٗ سَيَهۡدِيۡنِ‏ ﴿43:27﴾ وَ جَعَلَهَا كَلِمَةًۢ بَاقِيَةً فِىۡ عَقِبِهٖ لَعَلَّهُمۡ يَرۡجِعُوۡنَ‏ ﴿43:28﴾ بَلۡ مَتَّعۡتُ هٰٓؤُلَاۤءِ وَاٰبَآءَهُمۡ حَتّٰى جَآءَهُمُ الۡحَقُّ وَرَسُوۡلٌ مُّبِيۡنٌ‏ ﴿43:29﴾ وَلَمَّا جَآءَهُمُ الۡحَقُّ قَالُوۡا هٰذَا سِحۡرٌ وَّاِنَّا بِهٖ كٰفِرُوۡنَ‏  ﴿43:30﴾ وَقَالُوۡا لَوۡلَا نُزِّلَ هٰذَا الۡقُرۡاٰنُ عَلٰى رَجُلٍ مِّنَ الۡقَرۡيَتَيۡنِ عَظِيۡمٍ‏ ﴿43:31﴾ اَهُمۡ يَقۡسِمُوۡنَ رَحۡمَتَ رَبِّكَ​ ؕ نَحۡنُ قَسَمۡنَا بَيۡنَهُمۡ مَّعِيۡشَتَهُمۡ فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا وَرَفَعۡنَا بَعۡضَهُمۡ فَوۡقَ بَعۡضٍ دَرَجٰتٍ لِّيَـتَّخِذَ بَعۡضُهُمۡ بَعۡضًا سُخۡرِيًّا​ ؕ وَرَحۡمَتُ رَبِّكَ خَيۡرٌ مِّمَّا يَجۡمَعُوۡنَ‏  ﴿43:32﴾ وَلَوۡلَاۤ اَنۡ يَّكُوۡنَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً لَّجَـعَلۡنَا لِمَنۡ يَّكۡفُرُ بِالرَّحۡمٰنِ لِبُيُوۡتِهِمۡ سُقُفًا مِّنۡ فِضَّةٍ وَّمَعَارِجَ عَلَيۡهَا يَظۡهَرُوۡنَۙ‏ ﴿43:33﴾ وَلِبُيُوۡتِهِمۡ اَبۡوَابًا وَّسُرُرًا عَلَيۡهَا يَتَّكِـُٔوۡنَۙ‏ ﴿43:34﴾ وَزُخۡرُفًا​ ؕ وَاِنۡ كُلُّ ذٰ لِكَ لَمَّا مَتَاعُ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا​ ؕ وَالۡاٰخِرَةُ عِنۡدَ رَبِّكَ لِلۡمُتَّقِيۡنَ‏ ﴿43:35﴾

26 - یاد کرو وہ وقت جب ابراہیمؑ نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا24 کہ” تم جن کی بندگی کرتے ہو میرا اُن سے کوئی تعلق نہیں۔ 27 - میرا تعلق صرف اُس سے ہے جس نے مجھے پیدا کیا، وہی میری رہنمائی کرے گا۔“25 28 - اور ابراہیمؑ یہی کلمہ26 اپنے پیچھے اپنی اولاد میں چھوڑ گیا تاکہ وہ اِس کی طرف رجوع کریں۔27 29 - (اس کے باوجود جب یہ لوگ دوسروں کی بندگی کرنے لگے تو میں نے ان کو مٹا نہیں دیا)بلکہ میں اِنہیں اور اِن کو باپ دادا کو متاعِ حیات دیتا رہا یہاں تک کہ اِن کے پاس حق، اور کھول کھول کر بیان کرنے والا رسُول آگیا۔28 30 - مگر جب وہ حق اِن کے پاس آیا تو اِنہوں نے کہہ دیا کہ یہ تو جادُو ہے29 اور ہم اس کو ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ 31 - کہتے ہیں، یہ قرآن دونوں شہروں کے بڑے آدمیوں میں سے کسی پر کیوں نازل نہ کیا گیا؟ 30 32 - کیا تیرے ربّ کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں؟ دنیا کی زندگی میں اِن کی گزر بسر کے ذرائع تو ہم نے اِن کے درمیان تقسیم کیے ہیں، اور اِن میں سے کچھ لوگوں کو کچھ دُوسرے لوگوں پر ہم نے درجہا فوقیت دی ہے تاکہ یہ ایک دُوسرے سے خدمت لیں۔31 اور تیرے ربّ کی رحمت اُس دولت سے زیادہ قیمتی ہے جو (اِن کے رئیس)سمیٹ رہے ہیں۔32 33 - اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ سارے لوگ ایک ہی طریقے کے ہوجائیں گے تو ہم خدائے رحمٰن سے کفر کرنے والوں کے گھروں کی چھتیں ، اور اُن کی سیڑھیاں جن سے وہ اپنے بالاخانوں پر چڑھتے ہیں، سب چاندی کے بنوا دیتے۔ 34 - اور اُن کے دروازے، اور ان کے تخت جن پر وہ تکیے لگا کر بیٹھتے ہیں، 35 - اور سونے کے 33 یہ تو محض حیاتِ دنیا کی متاع ہے، اور آخرت تیرے ربّ کے ہاں صرف متّقین کے لیے ہے۔ ؏۳


Notes

24. تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، البقرۃ،124تا133،الانعام،حواشی،50تا55،جلد دوم،ابراہیم،حواشی،46تا53،جلد سوم،مریم،حواشی،26،27الانبیاء،حواشی،54تا66،العراء،حواشی،50تا62، العنکبوت،حواشی،26تا46۔ جلد چہارم الصافات، آیات 83 تا 100، حواشی 44 تا 55 ۔

25. ان الفاظ میں حضرت ابراہیمؑ نے محض اپنا عقیدہ ہی بیان نہیں کیا بلکہ اس کی دلیل بھی دے دی ۔ دوسرے معبودوں سے تعلق نہ رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ نہ انہوں نے پیدا کیا ہے ، نہ وہ کسی معاملہ میں صحیح رہنمائی کرتے ہیں، نہ کر سکتے ہیں۔ اور صرف اللہ وحدہٗ لاشریک سے تعلق جوڑنے کی وجہ یہ ہے کہ وہی پیدا کرنے والا ہے اور وہی انسان کی صحیح رہنمائی کرتا ہے اور کر سکتا ہے ۔

26. یعنی یہ بات کہ خالق کے سوا کوئی معبود ہونے کا مستحق نہیں ہے ۔

27. یعنی جب بھی راہ راست سے ذرا قدم ہٹے تو یہ کلمہ ان کی رہنمائی کے لیے موجود رہے اور وہ اسی کی طرف پلٹ آئیں۔ اس واقعہ کو جس غرض کے لیے یہاں بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ کفار قریش کی نا معقولیت کو پوری طرح بے نقاب کر دیا جائے اور انہیں اس بات پر شرم دلائی جائے کہ تم نے اسلاف کی تقلید اختیار کی بھی تو اس کے لیے اپنے بہترین اسلاف کو چھوڑ کر اپنے بد ترین اسلاف کا انتخاب کیا ۔ عرب میں قریش کی مشیخت جس بنا پر چل رہی تھی وہ تو یہ تھی کہ وہ حضرت ابراہیم و اسماعیل کی اولاد تھے اور ان کے بنائے ہوئے کعبے کی مجاوری کر رہے تھے ۔ اس لیے انہیں پیروی ان کی کرنی چاہیے تھی نہ کہ اپنے ان جاہل اسلاف کی جنہوں نے حضرت ابراہیم و اسماعیل کے طریقے کو چھوڑ کر گرد و پیش کی بت پرست قوموں سے شرک سیکھ لیا ، پھر اس واقعہ کو بیان کر کے ایک اور پہلو سے بھی ان گمراہ لوگوں کی غلطی واضح کی گئی ہے ۔ وہ یہ ہے کہ حق و باطل کی تمیز کیے بغیر اگر آنکھیں بند کر کے باپ دادا کی تقلید کرنا درست ہوتا تو سب سے پہلے حضرت ابراہیمؑ یہ کام کرتے ۔ مگر انہوں نے صاف صاف اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہہ دیا کہ میں تمہارے اس جاہلانہ مذہب کی پیروی نہیں کر سکتا جس میں تم نے اپنے خالق کو چھوڑ کر ان ہستیوں کو معبود بنا رکھا ہے جو خالق نہیں ہیں۔ اس سے معلوم ہو کہ حضرت ابراہیمؑ تقلید آبائی کے قائل نہ تھے ، بلکہ ان کا مسلک یہ تھا کہ باپ دادا کی پیروی کرنے سے پہلے آدمی کو آنکھیں کھول کر دیکھنا چاہیے کہ وہ صحیح راستے پر ہیں بھی یا نہیں، اور اگر دلیل معقول سے یہ ظاہر ہو کہ وہ غلط راستے پر جا رہے ہیں تو ان کی پیروی چھوڑ کر وہ طریقہ اختیار کرنا چاہیے جو دلیل کی رو سے حق ہو۔

28. اصل میں رَسُولٌ مُّبِیْن کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن کا دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایسا رسول آگیا جس کا رسول ہونا بالکل ظاہر و باہر تھا۔ جس کی نبوت سے پہلے کی زندگی اور بعد کی زندگی صاف شہادت دے رہی تھی کہ وہ یقیناً خدا کا رسول ہے ۔

29. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم ،الانبیاء،حاشیہ،5۔جلد چہارم، تفسیر سورہ ص ، حاشیہ 5۔

30. دونوں شہروں سے مراد مکہ اور طائف ہیں۔ کفار کا یہ کہنا تھا کہ واقعی خدا کو کوئی رسول بھیجنا ہوتا اور وہ اس پر اپنی کتاب نازل کرنے کا ارادہ کرتا تو ہمارے ان مرکزی شہروں میں سے کسی بڑے آدمی کو اس غرض کے لیے منتخب کرتا ۔ رسول بنانے کے لیے اللہ میاں کو ملا بھی تو وہ شخص جو یتیم پیدا ہوا، جس کے حصے میں کوئی میراث نہ آئی ، اس نے بکریاں چرا کر جوانی گزار دی ، جواب گزر اوقات بھی کرتا ہے تو بیوی کے مال سے تجارت کر کے ،اور جو کسی قبیلے کا شیخ یا کسی خانوادے کا سربراہ نہیں ہے ۔ کیا مکہ میں ولید بن مغیرہ اور عتبہ بن ربیعہ جیسے نامی گرامی سردار موجود نہ تھے ؟ کیا طائف میں عروہ بن مسعود،حبیب بن عمرو، کنانہ بن عبد عمرو ، اور ابن عبد یالیل جیسے رئیس موجود نہ تھے ؟ یہ تھا ان لوگوں کا استدلال ۔ پہلے تو وہ یہی ماننے کے لیے تیار نہ تھے کہ کوئی بشر بھی رسول ہو سکتا ہے۔ مگر جب قرآن مجید میں پے در پے دلائل دے کر ان کے اس خیال کا پوری طرح ابطال کر دیا گیا، اور ان سے کہا گیا کہ اس سے پہلے ہمیشہ بشر ہی رسول ہو کر آتے رہے ہیں ، اور انسانوں کی ہدایت کے لیے بشر ہی رسول ہو سکتا ہے نہ کہ غیر بشر ، اور جو رسول بھی دنیا میں آئے ہیں وہ یکایک آسمان سے نہیں اتر آئے تھے بلکہ انہی انسانی بستیوں میں پیدا ہوئے تھے ، بازاروں میں چلتے پھرتے تھے ، بال بچوں والے تھے اور کھانے پینے سے مبرا نہ تھے (ملاحظہ ہو النحل، آیت ، 43۔ بنی اسرائیل ، 94۔95۔ یوسف ، 109۔ الفرقان، 7۔20۔الانبیا، 7۔8۔الرعد، 38)، تو انہوں نے یہ دوسرا پیترا بدلا کہ اچھا ، بشر ہی رسول سہی، مگر وہ کوئی بڑا آدمی ہونا چاہیے ۔ مالدار ہو، با اثر ہو، بڑے جتھے والا ہو، لوگوں میں اس کی شخصیت کی دھاک بیٹھی ہوئی ہو۔ محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) اس مرتبے کے لیے کیسے موزوں ہو سکتے ہیں ؟

31. یہ ان کے اعتراض کا جواب ہے جس کے اندر چند مختصر الفاظ میں بہت سی اہم باتیں ارشاد ہوئی ہیں:

پہلی بات یہ کہ تیرے رب کی رحمت تقسیم کرنا ان کے سپرد کب سے ہو گیا ؟ کیا یہ طے کرنا ان کا کام ہے کہ اللہ اپنی رحمت سے کس کو نوازے اور کس کو نہ نوازے ؟ (یہاں رب کی رحمت سے مراد اس کی رحمت عام ہے جس میں سے ہر ایک کو کچھ نہ کچھ ملتا رہتا ہے )۔

دوسری بات یہ کہ نبوت تو خیر بہت بڑی چیز ہے ، دنیا میں زندگی بسر کرنے کے جو عام ذرائع ہیں ، ان کی تقسیم بھی ہم نے اپنے ہی ہاتھ میں رکھی ہے۔ کسی اور کے حوالے نہیں کر دی ۔ ہم کسی کو حسین اور کسی کو بدصورت، کسی کو خوش آواز اور کسی کو بد آواز، کسی کو قوی ہیکل اور کسی کو کمزور کسی کو ذہین اور کسی کو کند ذہن ، کسی کو قوی الحافظہ اور کسی کو نسیان میں مبتلا، کسی کو سلیم الاعضاء اور کسی کو اپاہج یا اندھا یا گونگا بہرا، کسی کو امیر زادہ اور کسی کو فقیر زادہ، کسی کو ترقی یافتہ قوم کا فرد اور کسی کو غلام یا پس ماندہ قوم کا فرد پیدا کرتے ہیں۔ اس پیدائشی قسمت میں کوئی ذرہ برابر بھی دخل نہیں دے سکتا ۔ جس کو جو کچھ ہم نے بنا دیا ہے وہی کچھ بننے پر وہ مجبور ہے ۔ اور ان مختلف پیدائشی حالتوں کا جو اثر بھی کسی کی تقدیر پر پڑتا ہے اسے بدل دینا کسی کے بس میں نہیں ہے ۔ پھر انسانوں کے درمیان رزق ، طاقت ، عزت ، شہرت ، دولت، حکومت وغیرہ کی تقسیم بھی ہم ہی کر رہے ہیں ۔ جس کو ہماری طرف سے اقبال نصیب ہوتا ہے اسے کوئی گرا نہیں سکتا، اور جس پر ہماری طرف سے اِدبار آ جاتا ہے اسے گرنے سے کوئی بچا نہیں سکتا ۔ ہمارے فیصلوں کے مقابلے میں انسانوں کی ساری تدبیریں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ اس عالمگیر خدائی انتظام میں یہ لوگ کہاں فیصلہ کرنے چلے ہیں کہ کائنات کا مالک کسے اپنا نبی بنائے اور کسے نہ بنائے۔

تیسری بات یہ کہ اس خدائی انتظام میں یہ مستقل قاعدہ ملحوظ رکھا گیا ہے کہ سب کچھ ایک ہی کو، یا سب کچھ سب کو نہ دے دیا جائے۔ آنکھیں کھول کر دیکھو۔ ہر طرف تمہیں بندوں کے درمیان ہر پہلو میں تفاوت ہی تفاوت نظر آئے گا ۔ کسی کو ہم نے کوئی چیز دی ہے تو دوسری کسی چیز سے اس کو محروم کر دیا ہے ، اور وہ کسی اور کو عطا کردی ہے ، یہ اس حکمت کی بنا پر کیا گیا ہے کہ کوئی انسان دوسروں سے بے نیاز نہ ہو، بلکہ ہر ایک کسی نہ کسی معاملہ میں دوسرے کا محتاج رہے ۔ اب یہ کیسا احمقانہ خیال تمہارے دماغ میں سمایا ہے کہ جسے ہم نے ریاست اور وجاہت دی ہے اسی کو نبوت بھی دے دی جائے ؟ کیا اسی طرح تم یہ بھی کہو گے کہ عقل، علم، دولت ، حسن ، طاقت ، اقتدار، اور دوسرے تمام کمالات ایک ہی میں جمع کر دیے جائیں، اور جس کو ایک چیز نہیں ملی ہے اسے دوسری بھی کوئی چیز نہ دی جائے ؟

32. یہاں رب کی رحمت سے مراد اس کی رحمت خاص ، یعنی نبوت ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ تم اپنے جن رئیسوں کو ان کی دولت و وجاہت اور مشیخت کی وجہ سے بڑی چیز سمجھ رہے ہو، وہ اس دولت کے قابل نہیں ہیں جو محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) کو دی گئی ہے ۔ یہ دولت اس دولت سے بدرجہا زیادہ اعلیٰ درجے کی ہے اور اس کے لیے موزونیت کا معیار کچھ اور ہے ۔ تم نے اگر یہ سمجھ رکھا ہے کہ تمہارا ہر چودھری اور سیٹھ نبی بننے کا اہل ہے تو یہ تمہارے اپنے ہی ذہن کی پستی ہے ۔ اللہ سے اس نادانی کی توقع کیوں رکھتے ہو ؟

33. یعنی یہ سیم و زر، جس کا کسی کو مل جانا تمہاری نگاہ میں نعمت کی انتہا اور قدر و قیمت کی معراج ہے ، اللہ کی نگاہ میں اتنی حقیر چیز ہے کہ اگر تمام انسانوں کے کفر کی طرف ڈھلک پڑنے کا خطرہ نہ ہوتا تو وہ ہر کافر کا گھر سونے چاندی کا بنا دیتا۔ اس جنس فرومایہ کی فراوانی آخر کب سے انسان کی شرافت اور پاکیزگی نفس اور طہارت روح کی دلیل بن گئی ؟ یہ مال تو ان خبیث ترین انسانوں کے پاس بھی پایا جاتا ہے جن کے گھناؤنے کردار کی سڑاند سے سارا معاشرہ متعفن ہو کر رہ جاتا ہے ۔ اسے تم نے آدمی کی بڑائی کا معیار بنا رکھا ہے ۔