34. وسیع المعنیٰ لفظ ہے ۔ رحمان کے ذکر سے مراد اس کی یاد بھی ہے ، اس کی طرف سے آئی ہوئی نصیحت بھی ،اور یہ قرآن بھی۔
35. یعنی اس امر میں تمہارے لیے تسلی کا کوئی پہلو نہیں ہے کہ تمہیں غلط راہ پر ڈالنے والے کو سزا مل رہی ہے ، کیونکہ وہی سزا گمراہی قبول کرنے کی پاداش میں تم بھی پا رہے ہو۔
36. مطلب یہ ہے کہ جو سننے کے لیے تیار ہوں اور جنہوں نے حقائق کی طرف سے آنکھیں بند نہ کر لی ہوں ، ان کی طرف توجہ کرو، اور اندھوں کو دکھانے اور بہروں کو سنانے کی کوشش میں اپنی جان نہ کھپاؤ ، نہ اس غم میں اپنے آپ کو گھلاتے رہو کہ تمہارے یہ بھائی بند کیوں راہ راست پر نہیں آتے اور کیوں اپنے آپ کو خدا کے عذاب کا مستحق بنا رہے ہیں۔
37. اس ارشاد کا مطلب اس ماحول کو نگاہ میں رکھنے سے ہی اچھی طرح سمجھ میں آ سکتا ہے جس میں یہ بات فرمائی گئی ہے ۔ کفار مکہ یہ سمجھ رہے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات ہی ان کے لیے مصیبت بنی ہوئی ہے ، یہ کانٹا درمیان سے نکل جائے تو پھر سب اچھا ہو جائے گا۔ اسی گمان فاسد کی بنا پر وہ شب و روز بیٹھ بیٹھ کر مشورے کرتے تھے کہ آپ کو کسی نہ کسی طرح ختم کر دیا جائے۔ اس پر اللہ تعالیٰ ان کی طرف سے رخ پھیر کر اپنے نبی کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ تمہارے رہنے یا نہ رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تم زندہ رہو گے تو تمہاری آنکھوں کے سامنے ان کی شامت آئے گی، اٹھا لیے جاؤ گے تو تمہارے پیچھے ان کی خبر لی جائے گی۔ شامت اعمال اب ان کی دامنگیر ہو چکی ہے جس سے یہ بچ نہیں سکتے ۔
38. یعنی تم اس فکر میں نہ پڑو کہ ظلم اور بے ایمانی کے ساتھ حق کی مخالفت کرنے والے اپنے کیے کی کیا اور کب سزا پاتے ہیں، نہ اس بات کی فکر کرو کہ اسلام کو تمہاری زندگی میں فروغ حاصل ہوتا ہے یا نہیں ۔ تمہارے لیے بس یہ اطمینان کافی ہے کہ تم حق پر ہو۔ لہٰذا نتائج کی فکر کیے بغیر اپنا فرض انجام دیتے چلے جاؤ اور یہ اللہ پر چھوڑ دو کہ وہ باطل کا سر تمہارے سامنے نیچا کرتا ہے یا تمہارے پیچھے ۔
39. یعنی اس سے بڑھ کر کسی شخص کی کوئی خوش قسمتی نہیں ہو سکتی کہ تمام انسانوں میں سے اس کو اللہ اپنی کتاب نازل کرنے کے لیے منتخب کرے اور کسی قوم کے حق میں بھی اس سے بڑی کسی خوش قسمتی کا تصور نہیں کیا جا سکتا کہ دنیا کی دوسری سب قوموں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ اس کے ہاں اپنا نبی پیدا کرے اور ان کی زبان میں اپنی کتاب نازل کرے اور اسے دنیا میں پیغام خداوندی کی حامل بن کر اٹھنے کا موقع دے ۔ اس شرف عظیم کا احساس اگر قریش اور اہل عرب کو نہیں ہے اور وہ اس کی ناقدری کرنا چاہتے ہیں تو ایک وقت آئے گا جب انہیں اس کی جواب دہی کرنی ہو گی۔
40. رسولوں سے پوچھنے کا مطلب ان کی لائی ہوئی کتابوں سے معلوم کرنا ہے ۔ جس طرح : فَاِنْتَنَا زَعْتُمْ فِیْ شَیْ ءٍ فَرُدُّ وْ ہُ اِلَی اللہِ وَ ا لرَّ سُوْلِ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی معاملہ میں اگر تمہارے درمیان نزاع ہو تو اسے اللہ اور رسول کے پاس لے جاؤ ، بلکہ یہ ہے کہ اس میں اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کی طرف رجوع کرو، اسی طرح رسولوں سے پوچھنے کا مطلب بھی یہ نہیں ہے کہ جو رسول دنیا سے تشریف لے جا چکے ہیں ان سب کے پاس جا کر دریافت کرو، بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ خدا کے رسول دنیا میں جو تعلیمات چھوڑ گئے ہیں ان سب میں تلاش کر کے دیکھ لو، آخر کس نے یہ بات سکھائی تھی کہ اللہ جل شانہ کے سوا بھی کوئی عبادت کا مستحق ہے ؟