Tafheem ul Quran

Surah 43 Az-Zukhruf, Ayat 46-56

وَلَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مُوۡسٰى بِاٰيٰتِنَاۤ اِلٰى فِرۡعَوۡنَ وَمَلَا۫ـئِه فَقَالَ اِنِّىۡ رَسُوۡلُ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَ‏ ﴿43:46﴾ فَلَمَّا جَآءَهُمۡ بِاٰيٰتِنَاۤ اِذَا هُمۡ مِّنۡهَا يَضۡحَكُوۡنَ‏ ﴿43:47﴾ وَمَا نُرِيۡهِمۡ مِّنۡ اٰيَةٍ اِلَّا هِىَ اَكۡبَرُ مِنۡ اُخۡتِهَا​ وَ اَخَذۡنٰهُمۡ بِالۡعَذَابِ لَعَلَّهُمۡ يَرۡجِعُوۡنَ‏ ﴿43:48﴾ وَقَالُوۡا يٰۤاَيُّهَ السَّاحِرُ ادۡعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِنۡدَكَ​ۚ اِنَّنَا لَمُهۡتَدُوۡنَ‏ ﴿43:49﴾ فَلَمَّا كَشَفۡنَا عَنۡهُمُ الۡعَذَابَ اِذَا هُمۡ يَنۡكُثُوۡنَ‏ ﴿43:50﴾ وَنَادٰى فِرۡعَوۡنُ فِىۡ قَوۡمِهٖ قَالَ يٰقَوۡمِ اَلَيۡسَ لِىۡ مُلۡكُ مِصۡرَ وَهٰذِهِ الۡاَنۡهٰرُ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِىۡ​ۚ اَفَلَا تُبۡصِرُوۡنَؕ‏ ﴿43:51﴾ اَمۡ اَنَا خَيۡرٌ مِّنۡ هٰذَا الَّذِىۡ هُوَ مَهِيۡنٌ ۙ وَّلَا يَكَادُ يُبِيۡنُ‏  ﴿43:52﴾ فَلَوۡلَاۤ اُلۡقِىَ عَلَيۡهِ اَسۡوِرَةٌ مِّنۡ ذَهَبٍ اَوۡ جَآءَ مَعَهُ الۡمَلٰٓـئِكَةُ مُقۡتَرِنِيۡنَ‏ ﴿43:53﴾ فَاسۡتَخَفَّ قَوۡمَهٗ فَاَطَاعُوۡهُ​ؕ اِنَّهُمۡ كَانُوۡا قَوۡمًا فٰسِقِيۡنَ‏  ﴿43:54﴾ فَلَمَّاۤ اٰسَفُوۡنَا انْتَقَمۡنَا مِنۡهُمۡ فَاَغۡرَقۡنٰهُمۡ اَجۡمَعِيۡنَۙ‏  ﴿43:55﴾ فَجَعَلۡنٰهُمۡ سَلَفًا وَّمَثَلًا لِّلۡاٰخِرِيۡنَ‏ ﴿43:56﴾

46 - 41ہم نے موسیٰؑ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ42 فرعون اور اُس کے اعیانِ سلطنت کے پاس بھیجا، اور اس نے جاکر کہا کہ میں ربّ العالمین کا رسُول ہوں۔ 47 - پھر جب اُس نے ہماری نشانیاں ان کے سامنے پیش کیں تو وہ ٹھٹھے مارنے لگے۔ 48 - ہم ایک پر ایک ایسی نشانی اُن کو دکھاتے چلے گئے جو پہلی سے بڑھ چڑھ کر تھی، اور ہم نے اُن کو عذاب میں دھر لیا تاکہ وہ اپنی روش سے باز آئیں۔43 49 - ہر عذاب کے موقع پر وہ کہتے، اے ساحر، اپنے ربّ کی طرف سے جو منصب تجھے حاصل ہے اُس کی بنا پر ہمارے لیے اُس سے دعا کر، ہم ضرور راہِ راست پر آجائیں گے۔ 50 - مگر جُوں ہی کہ ہم ان پر سے عذاب ہٹا دیتے وہ اپنی بات سے پھر جاتے تھے۔44 51 - ایک روز فرعون نے اپنی قوم کی درمیان پُکار کر کہا”45 لوگو، کیا مصر کی بادشاہی میری نہیں ہے، اور یہ نہریں میرے نیچے نہیں بہہ رہی ہیں؟ کیا تم لوگوں کو نظر نہیں آتا ؟46 52 - میں بہتر ہوں یا یہ شخص جو ذلیل و حقیر ہے47 اور اپنی بات بھی کھول کر بیان نہیں کر سکتا؟48 53 - کیوں نہ اس پر سونے کے کنگن اُتارے گئے؟ یا فرشتوں کا ایک دستہ اس کی اردلی میں نہ آیا؟“49 54 - اُس نے اپنی قوم کو ہلکا سمجھا اور انہوں نے اس کی اطاعت کی، درحقیقت وہ تھے ہی فاسق لوگ۔50 55 - آخر کار جب انہوں نے ہمیں غضب ناک کر دیا تو ہم نے ان سے انتقام لیا اور ان کو اکٹھا غرق کر دیا 56 - اور بعد والوں کے لیے پیش رو اور نمونہٴ عبرت بنا کر رکھ دیا۔51 ؏۵


Notes

41. یہ قصہ یہاں تین مقاصد کے لیے بیان کیا گیا ہے ۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ جب کسی ملک اور کسی قوم میں اپنا نبی بھیج کر اسے وہ موقع عطا فرماتا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے اب اہل عرب کو اس نے عطا فرمایا ہے ، اور وہ اس کی قدر کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اس حماقت کا ارتکاب کرتی ہے جس کا ارتکاب فرعون اور اس کی قوم نے کیا تھا تو پھر اس کا وہ انجام ہوتا ہے جو تاریخ میں نمونہ عبرت بن چکا ہے ۔ دوسرے یہ کہ فرعون نے بھی اپنی بادشاہی اور اپنی شوکت و حشمت اور دولت و ثروت پر فخر کر کے موسیٰ علیہ السلام کو اسی طرح حقیر سمجھا تھا جس طرح اب کفار قریش اپنے سرداروں کے مقابلے میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو حقیر سمجھ رہے ہیں۔ مگر خدا کا فیصلہ کچھ اور تھا جس نے آخر بتا دیا کہ اصل میں حقیر و ذلیل کون تھا۔ تیسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ مذاق اور اس کی تنبیہات کے مقابلے میں ہیکڑی دکھانا کوئی سستا سودا نہیں ہے بلکہ یہ سودا بہت مہنگا پڑتا ہے ۔ اس کا خمیازہ جو بھگت چکے ہیں ان کی مثال سے سبق نہ لو گے تو خود بھی ایک روز وہی خمیازہ بھگت کر رہو گے ۔

42. ان سے مراد وہ ابتدائی نشانیاں ہیں جنہیں لے کر حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے دربار میں گئے تھے ، یعنی عصا اور ید بیضا (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم، الاعراف، حواشی،87تا89، جلد سوم ،طہ،حواشی،12،13،29،30،الشعراء، حواشی،26تا29،النمل،حاشیہ،16،القصص،حواشی،44،45) ۔

43. ان نشانیوں سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو بعد میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کے ذریعہ سے ان کو دکھائیں ، اور وہ یہ تھیں:

(1)جادوگروں سے اللہ کے نبی کا بر سر عام مقابلہ ہوا اور وہ شکست کھا کر ایمان لے آئے تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الاعراف،حواشی،88تا92،جلد دوم،طہ،حواشی،30تا50،الشعراء، حواشی،29تا40)۔

(2) حضرت موسیٰ کے پیشگی اعلان کے مطابق مصر کی سر زمین میں شدید قحط برپا ہو گیا اور وہ انکی دعا پر ہی دور ہوا۔

(3) ان کے پیشگی اعلان کے بعد سارے ملک میں ہولناک بارشوں اور ژالہ باری اور گرج اور کڑک کے طوفان آ ئے جنہوں نے بستیوں اور کھیتوں کو تباہ کر ڈالا ، اور یہ بلا بھی ان کی دعا سے ہی دفع ہوئی۔

(4) پورے ملک پر ان کے اعلان کے مطابق ٹڈی دَلوں کا خوفناک حملہ ہوا اور یہ آفت بھی اس وقت تک نہ ٹلی جب تک انہوں نے اسے ٹالنے کے لیے اللہ سے دعا نہ کی۔

(5) ملک بھر میں ان کے اعلان کے مطابق جُوئیں اور سُر سریاں پھیل گئیں جن سے ایک طرف آدمی اور جانور سخت مبتلا ئے عذاب ہوئے اور دوسرے طرف غلوں کی گودام تباہ ہو گئے ۔ یہ عذاب بھی اس وقت ٹلا جب حضرت موسیٰ سے درخواست کر کے دعا کرائی گئی ۔

(6) ملک کے گوشے گوشے میں ان کی قبل از وقت تنبیہ کے مطابق مینڈکوں کا سیلاب امنڈ آیا جس نے پوری آبادی کا ناطقہ تنگ کر دیا ۔ اللہ کی یہ فوج بھی حضرت موسیٰ کی دعا کے بغیر واپس نہ گئی۔

(7) ٹھیک ان کے اعلان کے مطابق خون کا عذاب رونما ہوا ، جس سے تمام نہروں، کنوؤں ، تالابوں اور حوضوں کا پانی خون میں تبدیل ہو گیا ، مچھلیاں مرگئیں، ہر جگہ پانی کے ذخیروں میں عفونت پیدا ہو گئی، اور پورے ایک ہفتے تک مصر کے لوگ صاف پانی کو ترس گئے ۔ یہ آفت بھی اس وقت ٹلی جب اس سے نجات پا نے کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کرائی گئی ۔ تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ،الاعراف،حواشی،94تا96۔ جلد سوم، النمل،حواشی،16،17۔ جلد چہارم ، المومن ، حاشیہ 37۔

بائیبل کی کتاب خروج، باب 7۔8۔9۔ 10 اور 12 میں بھی ان عذابوں کی مفصل رو داد درج ہے ، مگر وہ گپ اور حقیقت کا مجموعہ ہے ۔ اس میں کہا گیا ہے کہ جب خون کا عذاب آیا تو جادوگروں نے بھی ویسا ہی لا کر دکھایا ۔ مگر جب جوؤں کا عذاب آیا تو جادوگر جواب میں جوئیں پیدا نہ کر سکے اور انہوں نے کہا کہ یہ خدا کا کام ہے ۔ پھر اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب مینڈکوں کا سیلاب اٹھا تو جادوگر بھی جواب میں مینڈک چڑھا لائے ، لیکن اس کے باوجود فرعون نے حضرت موسیٰ ہی سے یہ درخواست کی کہ اللہ سے دعا کر کے اس عذاب کو دفع کرایئے ۔ سوال یہ ہے کہ جب جادوگر مینڈک چڑھا لانے پر قادر تھے تو فرعون نے ان ہی کے ذریعہ سے یہ عذاب کیوں نہ دور کرا لیا ؟ اور آخر یہ معلوم کیسے ہوا کہ مینڈکوں کی اس فوج میں اللہ کے مینڈک کون سے ہیں اور جادو گروں کے مینڈک کون سے ؟ یہی سوال خون کے بارے میں بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب حضرت موسیٰ کی تنبیہ کے مطابق ہر طرف پانی کے ذخیرے خون میں تبدیل ہو چکے تھے تو جادوگروں نے کس پانی کو خون بنایا اور کیسے معلوم ہوا کہ فلاں جگہ کا پانی جادوگروں کے کرتب سے خون بنا ہے ؟ ایسی ہی باتوں سے صاف معلوم ہو جا تا ہے کہ بائیبل خالص کلام الٰہی پر مشتمل نہیں ہے بلکہ اس کو جن لوگوں نے تصنیف کیا ہے انہوں نے اس کے اندر اپنی طرف سے بھی بہت کچھ ملا دیا ہے ۔ اور غضب یہ ہے کہ یہ مصنفین کچھ تھے بھی واجبی سی عقل کے لوگ جنہیں بات گھڑنے کا سلیقہ بھی نصیب نہ تھا ۔

44. فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کی ہٹ دھرمی کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ جب وہ خدا کے عذاب سے تنگ آ کر حضرت موسیٰ سے اس کے ٹلنے کی دعا کرانا چاہتے تھے اس وقت بھی وہ آپ کو پیغمبر کہنے کے بجائے جادوگر ہی کہہ کر خطاب کرتے تھے ۔ حالانکہ وہ جادو کی حقیقت سے نا واقف نہ تھے ، اور ان سے یہ بات چھپی ہوئی نہ تھی کہ یہ کرشمے کسی جادو سے رونما نہیں ہو سکتے ۔ ایک جادوگر زیادہ سے زیادہ جو کچھ کر سکتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک محدود رقبے میں جو لوگ اس کے سامنے موجود ہوں ان کے ذہن پر ایسا اثر ڈالے جس سے وہ یہ محسوس کرنے لگیں کہ پانی خون بن گیا ہے ، یا مینڈک اُبلے پڑ رہے ہیں، یا ٹڈی دل چڑھے چلے آ رہے ہیں۔ اور اس محدود رقبے کے اندر بھی کوئی پانی حقیقت میں خون نہ بن جائے گا بلکہ اس دائرے سے نکلتے ہی پانی کا پانی رہ جائے گا۔ کوئی مینڈک فی الواقع پیدا نہ ہو گا بلکہ اسے پکڑ کر آپ اس دائرے سے باہر لے جائیں گے تو آپ کے ہاتھ میں مینڈک کے بجائے صرف ہوا ہو گی ۔ ٹڈی دَل بھی محض خیالی دل ہو گا ، کسی کھیت کو وہ نہ چاٹ سکے گا ۔ رہی یہ بات کہ ایک پورے ملک میں قحط بر پا ہو جائے ، یا تمام ملک کی نہریں اور چشمے اور کنوئیں خون سے بھر جائیں ، یا ہزار ہا میل کے رقبے پر ٹدی دل ٹوٹ پڑیں اور وہ لاکھوں ایکڑ کے کھیت صاف کر جائیں، یہ کام نہ آج تک کبھی کوئی جادوگر کر سکا ہے ، نہ جادو کے زور سے کبھی یہ ہو سکتا ہے ۔ ایسے جادو گر کسی بادشاہ کے پاس ہوتے تو اسے فوج رکھنے اور جنگ کی مصیبتیں جھیلنے کی کیا ضرورت تھی، جادو کے زور سے وہ ساری دنیا کو مسخر کر سکتا تھا۔ بلکہ جادو گروں کے پاس یہ طاقت ہوتی تو وہ بادشاہوں کی ملازمت ہی کیوں کرتے ؟ خود بادشاہ نہ بن بیٹھتے ؟

مفسرین کو بالعموم یہ پریشانی پیش آئی ہے کہ جب عذاب سے نجات پانے کے لیے فرعون اور اس کے درباری حضرت موسیٰ سے دعا کی درخواست کرتے تھے اس وقت وہ ان کو ’’ اے ساحر ‘‘ کہہ کر کیسے خطاب کرتے تھے ۔ مصیبت کے وقت مدد کی التجا کرنے والا تو خوشامد کرتا ہے نہ کہ مذمت ۔ اسی وجہ سے انہوں نے یہ تاویل کی ہے کہ جادو اس زمانے کے اہل مصر کے نزدیک بڑا با وقعت علم تھا اور ’’ اے ساحر ‘‘ کہہ کر در اصل وہ حضرت موسیٰ کی مذمت نہ کرتے تھے بلکہ اپنے نزدیک عزت کے ساتھ وہ گویا ان کو ’’ اے عالم ‘‘ کہہ کر پکارتے تھے ۔ لیکن یہ تاویل اس بنا پر بالکل غلط ہے کہ قرآن میں دوسرے مقامات پر جہاں جہاں بھی فرعون کے وہ اقوال نقل کیے گئے ہیں جن میں اس نے حضرت موسیٰ کو جادو گر اور ان کے پیش کردہ معجزات کو جادو کہا ہے ، وہاں مذمت اور تحقیر کا انداز صاف ظاہر ہوتا ہے ، اور صریحاً یہ نظر آتا ہے کہ اس کے نزدیک جادو ایک جھوٹی چیز تھی جس کا الزام حضرت موسیٰ پر رکھ کر وہ آپ کو جھوٹا مدعی نبوت قرار دیتا تھا ۔ اس لیے یہ ماننے کے قابل بات نہیں ہے کہ یکایک اس مقام پر اس کی نگاہ میں ’’ ساحر‘‘ ایک با عزت عالم کا لقب بن گیا ہو۔ رہا یہ سوال کہ جب دعا کی درخواست کرتے وقت بھی وہ علانیہ حضرت موسیٰ کی توہین کرتا تھا تو آپ اس کی درخواست قبول ہی کیوں کرتے تھے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آنجناب کے پیش نظر اللہ کے حکم سے ان لوگوں پر حجت تمام کرنا تھا ۔ عذاب ٹالنے کے لیے ان کا آپ سے دعا کی درخواست کرنا خود یہ ثابت کر رہا تھا کہ اپنے دلوں میں وہ جان چکے ہیں کہ یہ عذاب کیوں آ رہے ہیں،کہاں سے آ رہے ہیں، اور کون انہیں ٹال سکتا ہے ۔ اس کے باوجود جب وہ ہٹ دھرمی کے ساتھ آپ کو ساحر کہتے تھے ، اور عذاب ٹل جانے کے بعد راہ راست قبول کرنے کے وعدے سے پھر جاتے تھے ، تو در حقیقت وہ اللہ کے نبی کا کچھ نہ بگاڑتے تھے بلکہ اپنے خلاف اس مقدمے کو اور زیادہ مضبوط کرتے چلے جاتے تھے جس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے ان کے کلی استیصال کی شکل میں آخر کر دیا ۔ان کا آپ کو ساحر کہنا یہ معنی نہیں رکھتا کہ وہ در حقیقت اپنے دل میں بھی یہ سمجھتے تھے کہ یہ عذاب ان پر جادو کے زور سے آ رہے ہیں۔بلکہ اپنے دلوں میں وہ خوب سمجھتے تھے کہ یہ اللہ رب العالمین کی نشانیاں ہیں ، اور پھر جان بوجھ کر ان کا انکار کرتے تھے ۔ یہی بات ہے جو سورہ نمل میں فرمائی گئی ہے کہ : وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا (آیت 14)۔ ‘‘ ان کے دل اندر سے قائل ہو چکے تھے مگر انہوں نے ظلم اور تکبر کی بنا پر ان نشانیوں کا انکار کیا ۔‘‘

45. غالباً پوری قوم میں پکارنے کی عملی صورت یہ رہی ہو گی کہ فرعون نے جو بات اپنے دربار میں سلطنت کے اعیان و اکابر اور قوم کے بڑے بڑے سرداروں کو مخاطب کر کے کہی تھی، اسی کو منادیوں کے ذریعہ سے پورے ملک کے شہروں اور قریوں میں نشر کرایا گیا ہو گا۔ بے چارے کے پاس اس زمانہ میں یہ ذرائع نہ تھے کہ خوشامدی پریس ، خانہ ساز خبر رساں ایجنسیوں اور سرکاری ریڈیو سے منادی کراتا۔

46. منادی کا یہ مضمون ہی صاف بتا رہا ہے کہ ہز میجسٹی کے پاؤں تلے زمین نکلی جا رہی تھی ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پے در پے معجزات نے ملک کے عوام کا عقیدہ اپنے دیوتاؤں پر سے متزلزل کر دیا تھا ۔ اور فراعنہ کا باندھا ہوا وہ سارا طلسم ٹوٹ گیا تھا جس کے ذریعہ سے خداؤں کا اوتار بن کر یہ خاندان مصر پراپنی خداوندی چلا رہا تھا۔ اسی صورت حال کو دیکھ کر فرعون چیخ اٹھا کہ کم بختو، تمہیں آنکھوں سے نظر نہیں آتا کہ اس ملک میں بادشاہی کس کی ہے اور دریائے نیل سے نکلی ہوئی یہ نہریں جن پر تمہاری ساری معیشت کا انحصار ہے ، کس کے حکم سے جاری ہیں؟ یہ ترقیات (Developments) کے کام تو میرے اور میرے خاندان کے کئے ہوئے ہیں، اور تم گرویدہ ہو رہے ہو اس فقیر کے ۔

47. یعنی جس کے پاس نہ مال و دولت ہے نہ اختیار و اقتدار۔ وہی اعتراض جو کفار قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر کیا تھا ۔

48. بعض مفسرین نے یہ خیال کیا ہے کہ فرعون کا اعتراض اس لُکنت پر تھا جو حضرت موسیٰ کی زبان میں بچپن سے تھی۔ لیکن یہ خیال صحیح نہیں ہے ۔ سورہ طٰہٰ میں گزر چکا ہے کہ حضرت موسیٰ کو جب نبوت کے منصب پر سرفراز کیا جا رہا تھا اس وقت انہوں نے حق تعالیٰ سے درخواست کی تھی کہ میری زبان کی گرہ کھول دیجیے تاکہ لوگ میری بات اچھی طرح سمجھ لیں، اور اسی وقت ان کی دوسری درخواستوں کے ساتھ یہ درخواست بھی قبول کر لی گئی تھی (آیات 27 تا 36 )۔ پھر قرآن مجید میں مختلف مقامات پر حضرت موسیٰ کی جو تقریریں نقل کی گئی ہیں وہ کمال درجے کی طاقت لسانی پر دلالت کرتی ہیں ۔ لہٰذا فرعون کے اعتراض کی بنا کوئی لکنت نہ تھی جو آنحضرت کی زبان میں ہو، بلکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ شخص نہ معلوم کیا الجھی الجھی باتیں کرتا ہے ، مابدولت کی سمجھ میں تو کبھی اس کا مدعا آیا نہیں۔

49. قدیم زمانے میں جب کسی شخص کو کسی علاقے کی گورنری، یا کسی غیر ملک کی سفارت کے منصب پر مقرر کیا جاتا تو بادشاہ کی طرف سے اس کو خلعت عطا ہوتا تھا جس میں سونے کے کڑے یا کنگن بھی شامل ہوتے تھے ، اور اس کے ساتھ سپاہیوں، چوبداروں اور خدام کا ا یک دستہ بھی ہوتا تھا تاکہ اس کا رعب اور دبدبہ قائم ہو اور اس بادشاہ کی شان و شوکت کا اظہار ہو جس کی طرف سے وہ مامور ہو کر آ رہا ہے ۔ فرعون کا مطلب یہ تھا کہ اگر واقعی موسیٰ (علیہ السلام ) کو آسمان کے بادشاہ نے ایں جانب کے پاس اپنا سفیر بنا کر بھیجا تھا تو اسے خلعت شاہی ملا ہوتا اور فرشتوں کے پرے کے پرے اس کے ساتھ آئے ہوتے ۔ یہ کیا بات ہوئی کہ ایک ملنگ ہاتھ میں لاٹھی لیے آ کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ میں رب العالمین کا رسول ہوں۔

50. اس مختصر سے فقرے میں ایک بہت بڑی حقیقت بیان کی گئی ہے ۔ جب کوئی شخص کسی ملک میں اپنی مطلق العنانی چلانے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے لیے کھلم کھلا ہر طرح کی چالیں چلتا ہے ، ہر فریب اور مکر و دغا سے کام لیتا ہے ، کھلے بازار میں ضمیروں کی خرید و فرو خت کا کاروبار چلاتا ہے ، اور جو بکتے نہیں انہیں بے دریغ کچلتا اور روندتا ہے ، تو خواہ زبان سے وہ یہ بات نہ کہے مگر اپنے عمل سے صاف ظاہر کر دیتا ہے کہ وہ در حقیقت اس ملک کے باشندوں کو عقل اور اخلاق اور مردانگی کے لحاظ سے ہلکا سمجھتا ہے ، اور اس نے ان کے متعلق یہ رائے قائم کی ہے کہ میں ان بے وقوف ، بے ضمیر اور بزدل لوگوں کو جدھر چاہوں ہانک کر لے جا سکتا ہوں۔ پھر جب اس کی یہ تدبیریں کامیاب ہو جاتی ہیں اور ملک کے باشندے اس کے دست بستہ غلام بن جاتے ہیں تو وہ اپنے عمل سے ثابت کر دیتے ہیں کہ اس خبیث نے جو کچھ انہیں سمجھا تھا، واقعی وہ وہی کچھ ہیں۔ اور ان کے اس ذلیل حالت میں مبتلا ہونے کی اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ بنیادی طور پر ’’ فاسق‘‘ ہوتے ہیں۔ ان کو اس سے کچھ بحث نہیں ہوتی کہ حق کیا ہے اور باطل کیا۔ انصاف کیا ہے اور ظلم کیا۔ سچائی اور دیانت اور شرافت قدر کے لائق ہے یا جھوٹ اور بے ایمانی اور رذالت ۔ ان مسائل کے بجائے ان کے لیے اصل اہمیت صرف اپنے ذاتی مفاد کی ہوتی ہے جس کے لیے وہ ہر ظالم کا ساتھ دینے ، ہر جبار کے آگے رہنے ، ہر باطل کو قبول کرنے ، اور ہر صدائے حق کو دبانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں ۔

51. یعنی جو اِن کے انجام سے سبق نہ لیں اور انہی کی روش پر چلیں اُن کے لیے وہ پیش رو ہیں، اور جو سبق لینے والے ہیں ان کے لیے نمونہ عبرت ۔