52. اس سے پہلے آیت 45 میں یہ بات گزر چکی ہے کہ ’’ تم سے پہلے جو رسول، ہو گزرے ہیں ان سب سے پوچھ دیکھو کیا ہم نے خدائے رحمٰن کے سوا کچھ دوسرے معبود بھی ،مقرر کیے تھے کہ ان کی بندگی کی جائے‘‘؟ یہ تقریر جب اہل مکہ کے سامنے ہو رہی تھی تو ایک شخص نے ، جس کا نام روایت میں عبداللہ ابن الز بعریٰ آیا ہے ، اعتراض جڑ دیا کہ کیوں صاحب ، عیسائی مریمؑ کے بیٹے کو خدا کا بیٹا قرار دے کر اس کی عبادت کرتے ہیں یا نہیں ؟ پھر ہمارے معبود کیا برے ہیں ؟ اس پر کفار کے مجمع سے ایک زور کا قہقہہ بلند ہوا اور نعرے لگنے شروع ہو گئے کہ وہ مارا، پکڑے گئے ، اب بولو اس کا کیا جواب ہے ۔ لیکن ان کی اس بیہودگی پر سلسلہ کلام توڑا نہیں گیا، بلکہ جو مضمون چلا آ رہا تھا، پہلے اسے مکمل کیا گیا، اور پھر اس سوال کی طرف توجہ کی گئی جو معترض نے اٹھایا تھا۔ (واضح رہے کہ اس واقعہ کو تفسیر کی کتابوں میں مختلف طریقوں سے روایت کیا گیا ہے جن میں بہت کچھ اختلاف ہے ۔ لیکن آیت کے سیاق و سباق اور ان روایات پر غور کرنے کے بعد ہمارے نزدیک واقعہ کی صحیح صورت وہی ہے جو ابھی ہم نے بیان کی ہے ) ۔
53. قدرت کا نمونہ بنانے سے مراد حضرت عیسیٰ کو بے باپ کے پیدا کرنا ، اور پھر ان کو وہ معجزے عطا کرنا ہے جو نہ ان سے پہلے کسی کو دیے گئے تھے نہ ان کے بعد ۔ وہ مٹی کا پرندہ بناتے اور اس میں پھونک مارتے تو وہ جیتا جاگتا پرندہ بن جاتا۔ وہ مادر زاد اندھے کو بینا کر دیتے ۔ وہ کوڑھ کے مریض کو تندرست کر دیتے ۔ حتیٰ کہ وہ مردے جِلا دیتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا منشا یہ ہے کہ محض اس غیر معمولی پیدائش اور ان عظیم معجزات کی وجہ سے ان کو بندگی سے بالا تر سمجھنا اور خدا کا بیٹا قرار دے کر ان کی عبادت کرنا غلط ہے ۔ ان کی حیثیت ایک بندے سے زیادہ کچھ نہ تھی جسے ہم نے اپنے انعامات سے نواز کر اپنی قدرت کا نمونہ بنا دیا تھا۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، آل عمران،حواشی،42تا44،النساء،190،المآئدہ،حواشی،40-46-127،جلد سوم،مریم، حواشی،15تا22،الانبیاء،حواشی،88تا90،المؤمنون،حاشیہ،43)
54. دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم میں سے بعض کو فرشتہ بنا دیں۔
55. اس فقرے کا یہ ترجمہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ قیامت کے علم کا ایک ذریعہ ہے ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’ وہ ‘’‘ سے کیا چیز مراد ہے ؟ حضرت حسن بصری اور سعید بن جبیر کے نزدیک اس سے مراد قرآن ہے ، یعنی قرآن سے آدمی یہ علم حاصل کر سکتا ہے کہ قیامت آئے گی ۔ لیکن یہ تفسیر سیاق و سباق سے بالکل غیر متعلق ہے ۔ سلسلہ کلام میں کوئی قرینہ ایسا موجود نہیں ہے جس کی بنا پر یہ کہا جا سکے کہ اشارہ قرآن کی طرف ہے ۔ دوسرے مفسرین قریب قریب بالاتفاق یہ رائے رکھتے ہیں کہ اس سے مراد حضرت عیسیٰ ابن مریم ہیں اور یہی سیاق سباق کے لحاظ سے درست ہے ۔ اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آنجناب کو قیامت کی نشانی یا قیامت کے علم کا ذریعہ کس معنی میں فرمایا گیا ہے ؟ ابن عباس، مجاہد ، عکرمہ، قتادہ، سدی ، ضحاک، ابوالعالیہ اور ابو مالک کہتے ہیں کہ اس سے مراد حضرت عیسیٰ کا نزول ثانی ہے جس کی خبر بکثرت احادیث میں وارد ہوئی ہے ، اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ جب دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے تو معلوم ہو جائے گا کہ قیامت اب قریب ہے ۔ لیکن ان بزرگوں کی جلالت قدر کے باوجود یہ ماننا مشکل ہے کہ اس آیت میں حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کو قیامت کی نشانی یا اس کے علم کا ذریعہ کہا گیا ہے ۔ اس لیے کہ بعد کی عبارت یہ معنی لینے میں مانع ہے ۔ ان کا دوبارہ آنا تو قیامت کے علم کا ذریعہ صرف ان لوگوں کے لیے بن سکتا ہے جو اس زمانہ میں موجود ہوں یا اس کے بعد پیدا ہوں۔ کفار مکہ کے لیے آخر وہ کیسے ذریعہ علم قرار پا سکتا تھا کہ ان کو خطاب کر کے یہ کہنا صحیح ہوتا کہ ’’ پس تم اس میں شک نہ کرو‘‘۔ لہٰذا ہمارے نزدیک صحیح تفسیر وہی ہے جو بعض دوسرے مفسرین نے کی ہے کہ یہاں حضرت عیسیٰ کے بے باپ پیدا ہونے اور ان کے مٹی سے پرندہ بنانے اور مردے جِلانے کو قیامت کے امکان کی ایک دلیل قرار دیا گیا ہے ، اور ارشاد خداوندی کا منشا یہ ہے کہ جو خدا باپ کے بغیر بچہ پیدا کر سکتا ہے ، اور جس خدا کا ایک بندہ مٹی کے پُتلے میں جان ڈال سکتا اور مردوں کو زندہ کر سکتا ہے اس کے لیے آخر تم اس بات کو کیوں ناممکن سمجھتے ہو کہ وہ تمہیں اور تمام انسانوں کو مرنے بعد دوبارہ زندہ کر دے ۔
56. یعنی قیامت پر ایمان لانے سے روک دے ۔
57. یعنی عیسیٰ علیہ السلام نے کبھی یہ نہیں کہا تھا کہ میں خدا ہوں یا خدا کا بیٹا ہوں اور تم میری عبادت کرو، بلکہ ان کی دعوت وہی تھی جو دوسرے تمام انبیاء کی دعوت تھی اور اب جس کی طرف محمد صلی اللہ علیہ و سلم تم کو بلا رہے ہیں ۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول،آل عمران،حواشی،45تا48،النساء،حواشی،213،217،218،المائدہ،حواشی،100،130، جلد سوم مریم،حواشی،21تا23،) ۔
58. یعنی ایک گروہ نے ان کا انکار کیا تو مخالفت میں اس حد تک پہنچ گیا کہ ان پر ناجائز ولادت کی تہمت لگائی اور ان کو اپنے نزدیک سولی پر چڑھوا کر چھوڑا۔ دوسرے گروہ نے ان کا اقرار کیا تو عقیدت میں بے تحاشا غلو کر کے ان کو خدا بنا بیٹھا اور پھر ایک انسان کے خدا ہونے کا مسئلہ اس کے لیے ایسی گتھی بنا جسے سلجھاتے سلجھاتے اس میں بے شمار فرقے بن گئے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول، النساء،حواشی،211تا216،المائدہ،حواشی،39،40،101،130،)۔
59. دوسرے الفاظ میں صرف وہ دوستیاں باقی رہ جائیں گی جو دنیا میں نیکی اور خدا ترسی پر قائم ہیں۔ دوسرے تمام دوستیاں دشمنی میں تبدیل ہو جائیں گی، اور آج گمراہی ، ظلم و ستم اور معصیت میں جو لوگ ایک دوسرے کے یار و مدد گار بنے ہوئے ہیں ، کل قیامت کے روز وہی ایک دوسرے پر الزام ڈالنے اور اپنی جان چھڑانے کی کوشش کر رہے ہوں گے ۔ یہ مضمون قرآن مجید میں بار بار جگہ جگہ بیان کیا گیا ہے تاکہ ہر شخص اسی دنیا میں اچھی طرح سوچ لے کہ کن لوگوں کا ساتھ دینا اس کے لیے مفید ہے اور کن کا ساتھ تباہ کن ۔