60. اصل میں ازواج کا لفظ استعمال ہوا ہے جو بیویوں کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے اور ایسے لوگوں کے لیے بھی جو کسی شخص کے ہم مشرب ، ہم جولی ، اور ہم جماعت ہوں ۔ یہ وسیع المعنی لفظ اسی لیے استعمال کیا گیا ہے تاکہ اس کے مفہوم میں دونوں داخل ہو جائیں ۔ اہل ایمان کی مومن بیویاں بھی ان کے ساتھ ہوں گی اور ان کے مومن دوست بھی جنت میں ان کے رفیق ہوں گے ۔
61. مالک سے مراد ہے جہنم کا داروغہ جیسا کہ فحوائے کلام سے خود ظاہر ہو رہا ہے ۔
62. یعنی ہم نے حقیقت تمہارے سامنے کھول کر رکھ دی، مگر تم حقیقت کے بجائے افسانوں کے دلدادہ تھے اور سچائی تمہیں سخت ناگوار تھی ۔ اب اپنے اس احمقانہ انتخاب کا انجام دیکھ کر بلبلاتے کیوں ہو ؟ ہو سکتا ہے کہ یہ داروغہ جہنم ہی کے جواب کا ایک حصہ ہو، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کا جواب ’’ تم یوں ہی پڑے رہو گے ‘‘ پر ختم ہو گیا ہو اور یہ دوسرا فقرہ اللہ تعالیٰ کا اپنا ارشاد ہو۔ پہلی صورت میں داروغہ جہنم کا یہ قول کہ ’’ ہم تمہارے پاس حق لے کر آئے تھے ‘‘ ایسا ہی ہے جیسے حکومت نے یہ کام کیا یا یہ حکم دیا ۔
63. اشارہ ہے ان باتوں کی طرف جو سرداران قریش اپنی خفیہ مجلسوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف کوئی فیصلہ کن قدم اٹھانے کے لیے کر رہے تھے ۔
64. مطلب یہ ہے کہ میرا کسی کو خدا کی اولاد نہ ماننا ، اور جنہیں تم اس کی اولاد قرار دے رہے ہو ان کی عبادت سے انکار کر نا کسی ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر نہیں ہے ۔ میں جس بنا پر اس سے انکار کرتا ہوں وہ صرف یہ ہے کہ کوئی خدا کا بیٹا یا بیٹی نہیں ہے اور تمہارے یہ عقائد حقیقت کے خلاف ہیں۔ ورنہ میں تو خدا کا ایسا وفادار بندہ ہوں کہ اگر بالفرض حقیقت یہی ہوتی تو تم سے پہلے میں بندگی میں سر جھکا دیتا۔
65. یعنی آسمان اور زمین کے خدا الگ الگ نہیں ہیں، بلکہ ساری کائنات کا ایک ہی خدا ہے ۔ اسی کی حکمت اس پورے نظام کائنات میں کار فرما ہے ، اور وہی تمام حقائق کا علم رکھتا ہے ۔
66. یعنی اس کی ہستی اس سے بدر جہا بلند و بر تر ہے کہ کوئی خدائی میں اس کا شریک ہو اور اس عظیم کائنات کی فرماں روائی میں کچھ بھی دخل رکھتا ہو ۔ زمین و آسمان میں جو بھی ہیں ، خواہ وہ انبیاء ہو یا اولیا ، فرشتے ہوں یا جن یا ارواح، ستارے ہوں یا سیارے ، سب اس کے بندے اور غلام اور تابع فرمان ہیں۔ ان کا کسی خدائی صفت سے متصف یا خدائی اختیار کا حامل ہونا قطعی نا ممکن ہے ۔
67. یعنی دنیا میں تم خواہ کسی کو اپنی حامی و سرپرست بناتے پھرو، مگر مرنے کے بعد تمہارا سابقہ اسی ایک خدا سے پڑنا ہے اور اسی کی عدالت میں تم کو اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے ۔
68. اس فقرے کے کئی مفہوم ہیں :
ایک یہ کہ لوگوں نے جن جن کو دنیا میں معبود بنا رکھا ہے وہ سب اللہ کے حضور شفاعت کرنے والے نہیں ہیں۔ ان میں سے جو گمراہ و بد راہ تھے وہ تو خود وہاں مجرم کی حیثیت سے پیش ہوں گے ۔ البتہ وہ لوگ ضرور دوسروں کی شفاعت کرنے کے قابل ہوں گے جنہوں نے علم کے ساتھ (نہ کہ بے جا نے بوجھے ) حق کی شہادت دی تھی۔
دوسرے یہ کہ جنہیں شفاعت کرنے کا اختیار حاصل ہو گا وہ بھی صرف ان لوگوں کی شفاعت کر سکیں گے جنہوں نے دنیا میں جان بوجھ کر (نہ کہ غفلت و بے خبری کے ساتھ) حق کی شہادت دی ہو ۔ کسی ایسے شخص کی شفاعت نہ وہ خود کریں گے نہ کرنے کے مجاز ہوں گے جو دنیا میں حق سے برگشتہ رہا تھا ، یا بے سمجھے بوجھے : اشھد ان لا ا لٰہ الا اللہ بھی کہتا رہا اور دوسرے الہٰوں کی بندگی بھی کرتا رہا۔
تیسرے یہ کہ کوئی شخص اگر یہ کہتا ہے کہ اس نے جن کو معبود بنا رکھا ہے وہ لازماً شفاعت کے اختیارات رکھتے ہیں، اور انہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں ایسا زور حاصل ہے کہ جسے چاہیں بخشوا لیں قطع نظر اس سے کہ اس کے اعمال و عقائد کیسے ہی ہوں، تو وہ غلط کہتا ہے ۔ یہ حیثیت اللہ کے ہاں کسی کو بھی حاصل نہیں ہے ۔ جو شخص کسی کے لیے ایسی شفاعت کے اختیارات کا دعویٰ کرتا ہے وہ اگر علم کی بنا پر اس بات کی مبنی بر حقیقت شہادت دے سکتا ہو تو ہمت کر کے آگے آئے ۔ لیکن اگر وہ ایسی شہادت دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے ، اور یقیناً نہیں ہے ، تو خواہ مخواہ سنی سنائی باتوں پر، یا محض قیاس و وہم و گمان کی بنیاد پر ایسا ایک عقیدہ گھڑ لینا سراسر لغو ، اور اس خیالی بھروسے پر اپنی عاقبت کو خطرے میں ڈال لینا قطعی حماقت ہے ۔
اس آیت سے ضمناً دو بڑے اہم اصول بھی مستنبط ہوتے ہیں۔ اولاً اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علم کے بغیر حق کی شہادت دینا چاہے دنیا میں معتبر ہو، مگر اللہ کے ہاں معتبر نہیں ہے ۔ دنیا میں تو جو شخص کلمہ شہادت زبان سے ادا کرے گا ، ہم اس کو مسلمان مان لیں گے اور اس کے ساتھ مسلمانوں کا سا معاملہ کرتے رہیں گے جب تک وہ کھلم کھلا کفر صریح کا ارتکاب نہ کرے ۔ لیکن اللہ کے ہاں صرف وہی شخص اہل ایمان میں شمار ہو گا جس نے اپنی بساط علم و عقل کی حد تک یہ جانتے اور سمجھتے ہوئے لا الٰہ الا اللہ کہا ہو کہ وہ کس چیز کا انکار اور کس چیز کا اقرار کر رہا ہے ۔
ثانیاً ، اس سے قانون شہادت کا یہ قاعدہ نکلتا ہے کہ گواہی کے لیے علم شرط ہے ۔ گواہ جس واقعہ کی گواہی دے رہا ہو اس کا اگر اسے علم نہیں ہے تو اس کی گواہی بے معنی ہے ۔ یہی بات نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک فیصلے سے بھی معلوم ہوتی ہے ۔ آپ نے ایک گواہ سے فرمایا کہ : اِذارأیت مثل الشمس فاشہد و لّا فدع (احکام القرآن للجصّاص) ’’ اگر تو نے واقعہ کو خود اپنی آنکھوں سے اس طرح دیکھا ہے جیسے تو سورج کو دیکھ رہا ہے تو گواہی دے ورنہ رہنے دے ۔‘‘
69. اس کے دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ اگر تم ان سے پوچھو کہ خود ان کو کس نے پیدا کیا ہے تو کہیں گے کہ اللہ نے ۔ دوسرے یہ کہ اگر تم ان سے پوچھو کہ ان کے معبودوں کا خالق کون ہے تو یہ کہیں گے کہ اللہ ۔
70. یہ قرآن مجید کی نہایت مشکل آیات میں سے ہے جس میں نحو کا یہ نہایت پیچیدہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ : وَقِیْلِہٖ میں واؤ کیسا ہے اور اس لفظ کا تعلق اوپر سلسلہ کلام میں کس چیز کے ساتھ ہے ۔ مفسرین نے اس پر بہت کچھ کلام کیا ہے مگر کوئی تشفی بخش بات مجھے ان کے ہاں نہیں ملی ۔ میرے نزدیک سب سے زیادہ صحیح بات وہی ہے جو شاہ عبدالقادر صاحبؒ کے ترجمے سے مترشح ہوتی ہے ، یعنی اس میں واؤ عطف کا نہیں بلکہ قسمیہ ہے ، اور اس کا تعل : فَاَ نّیٰ یُؤْ فَکُوْنَ سے ہے ، اور قِیْلِہٖ کی ضمیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف پھرتی ہے جس پر : یَا رَبِّ اِنَّ ھٰٓؤُ لَآ ءِ قَوْمٌ لَّا یُؤْ مِنُوْنَ کا فقرہ صریح دلالت کر رہا ہے ۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ :
قسم ہے رسول کے اس قول کی کہ ’’ اے رب یہ وہ لوگ ہیں جو مان کر نہیں دیتے ‘‘ ، کیسی عجیب ہے ان لوگوں کی فریب خوردگی کہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا اور ان کے معبودوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے اور پھر بھی خالق کو چھوڑ کر مخلوق ہی کی عبادت پر اصرار کیے جاتے ہیں۔
رسول کے اس قول کی قسم کھانے کا مدعا یہ ہے کہ ان لوگوں کی یہ روش صاف ثابت کیے دے رہی ہے کہ فی الواقع یہ ہٹ دھرم ہیں، کیونکہ ان کے رویے کا غیر معقول ہونا ان کے اپنے اعتراف سے ظاہر ہے ، اور ایسا غیر معقول رویہ صرف وہی شخص اختیار کر سکتا ہے جو نہ ماننے کا فیصلہ کیے بیٹھا ہو۔ بالفاظ دیگر یہ قسم اس معنی میں ہے کہ بالکل ٹھیک کہا رسول نے ، فی الواقع یہ مان کر دینے والے لوگ نہیں ہیں ۔
71. یعنی ان کی سخت باتوں اور تضحیک و استہزاء پر نہ ان کے لیے بد دعا کرو اور نہ ان کے جواب میں کوئی سخت بات کہو، بس سلام کر کے ان سے الگ ہو جاؤ ۔