Tafheem ul Quran

Surah 44 Ad-Dukhan, Ayat 1-29

حٰمٓ ​ ۛ​ۚ‏ ﴿44:1﴾ وَالۡكِتٰبِ الۡمُبِيۡنِ ​ ۛ​ۙ‏ ﴿44:2﴾ اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰهُ فِىۡ لَيۡلَةٍ مُّبٰـرَكَةٍ​ اِنَّا كُنَّا مُنۡذِرِيۡنَ‏  ﴿44:3﴾ فِيۡهَا يُفۡرَقُ كُلُّ اَمۡرٍ حَكِيۡمٍۙ‏ ﴿44:4﴾ اَمۡرًا مِّنۡ عِنۡدِنَا​ؕ اِنَّا كُنَّا مُرۡسِلِيۡنَ​ۚ‏ ﴿44:5﴾ رَحۡمَةً مِّنۡ رَّبِّكَ​ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيۡعُ الۡعَلِيۡمُۙ‏ ﴿44:6﴾ رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَمَا بَيۡنَهُمَا​ۘ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّوۡقِنِيۡنَ‏  ﴿44:7﴾ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ يُحۡىٖ وَيُمِيۡتُ​ؕ رَبُّكُمۡ وَرَبُّ اٰبَآئِكُمُ الۡاَوَّلِيۡنَ‏ ﴿44:8﴾ بَلۡ هُمۡ فِىۡ شَكٍّ يَّلۡعَبُوۡنَ‏ ﴿44:9﴾ فَارۡتَقِبۡ يَوۡمَ تَاۡتِى السَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِيۡنٍۙ‏ ﴿44:10﴾ يَغۡشَى النَّاسَ​ؕ هٰذَا عَذَابٌ اَلِيۡمٌ‏ ﴿44:11﴾ رَبَّنَا اكۡشِفۡ عَنَّا الۡعَذَابَ اِنَّا مُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿44:12﴾ اَنّٰى لَهُمُ الذِّكۡرٰى وَقَدۡ جَآءَهُمۡ رَسُوۡلٌ مُّبِيۡنٌۙ‏ ﴿44:13﴾ ثُمَّ تَوَلَّوۡا عَنۡهُ وَقَالُوۡا مُعَلَّمٌ مَّجۡنُوۡنٌ​ۘ‏ ﴿44:14﴾ اِنَّا كَاشِفُوا الۡعَذَابِ قَلِيۡلًا اِنَّكُمۡ عَآئِدُوۡنَ​ۘ‏ ﴿44:15﴾ يَوۡمَ نَبۡطِشُ الۡبَطۡشَةَ الۡكُبۡـرٰى​ۚ اِنَّا مُنۡتَقِمُوۡنَ‏ ﴿44:16﴾ وَلَقَدۡ فَتَنَّا قَبۡلَهُمۡ قَوۡمَ فِرۡعَوۡنَ وَ جَآءَهُمۡ رَسُوۡلٌ كَرِيۡمٌۙ‏  ﴿44:17﴾ اَنۡ اَدُّوۡۤا اِلَىَّ عِبَادَ اللّٰهِ​ؕ اِنِّىۡ لَـكُمۡ رَسُوۡلٌ اَمِيۡنٌۙ‏  ﴿44:18﴾ وَّاَنۡ لَّا تَعۡلُوۡا عَلَى اللّٰهِ​ۚ اِنِّىۡۤ اٰتِيۡكُمۡ بِسُلۡطٰنٍ مُّبِيۡنٍ​ۚ‏  ﴿44:19﴾ وَاِنِّىۡ عُذۡتُ بِرَبِّىۡ وَرَبِّكُمۡ اَنۡ تَرۡجُمُوۡنِ ۚ‏ ﴿44:20﴾ وَاِنۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا لِىۡ فَاعۡتَزِلُوۡنِ‏ ﴿44:21﴾ فَدَعَا رَبَّهٗۤ اَنَّ هٰٓؤُلَاۤءِ قَوۡمٌ مُّجۡرِمُوۡنَ‏ ﴿44:22﴾ فَاَسۡرِ بِعِبَادِىۡ لَيۡلًا اِنَّكُمۡ مُّتَّبَعُوۡنَۙ‏ ﴿44:23﴾ وَاتۡرُكِ الۡبَحۡرَ رَهۡوًا​ؕ اِنَّهُمۡ جُنۡدٌ مُّغۡرَقُوۡنَ‏ ﴿44:24﴾ كَمۡ تَرَكُوۡا مِنۡ جَنّٰتٍ وَّعُيُوۡنٍۙ‏ ﴿44:25﴾ وَّزُرُوۡعٍ وَّمَقَامٍ كَرِيۡمٍۙ‏ ﴿44:26﴾ وَّنَعۡمَةٍ كَانُوۡا فِيۡهَا فٰكِهِيۡنَۙ‏ ﴿44:27﴾ كَذٰلِكَ​ وَاَوۡرَثۡنٰهَا قَوۡمًا اٰخَرِيۡنَ‏ ﴿44:28﴾ فَمَا بَكَتۡ عَلَيۡهِمُ السَّمَآءُ وَالۡاَرۡضُ وَمَا كَانُوۡا مُنۡظَرِيۡنَ‏  ﴿44:29﴾

1 - ح۔م۔ 2 - قسم ہے اِس کتابِ مُبین کی 3 - کہ ہم نے اِسے ایک بڑی خیر و برکت والی رات میں نازل کیا ہے، کیونکہ ہم لوگوں کو متنبّہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔1 4 - یہ وہ رات تھی جس میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ 2صادر کیا جاتا ہے۔ 5 - ہمارے حکم سے 3 ہم ایک رسُول بھیجنے والے تھے، 6 - تیرے ربّ کی رحمت کے طو ر پر ۔4 یقیناً وہی سب کچھ سُننے اور جاننے والا ہے،5 7 - آسمانوں اور زمین کا ربّ اور ہر اُس چیز کا ربّ جو آسمان و زمین کے درمیان ہے اگر تم لوگ واقعی یقین رکھنے والے ہو۔6 8 - کوئی معبُود اُس کے سوا نہیں ہے۔7 وہی زندگی عطا کرتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔8 تمہارا ربّ اور تمہارے اُن اسلاف کا ربّ جو پہلے گزر چکے ہیں۔9 9 - (مگر فی الواقع اِن لوگوں کو یقین نہیں ہے)بلکہ یہ اپنے شک میں پڑے کھیل رہے ہیں۔10 10 - اچھا، انتظار کرو اُس دن کا جب آسمان صریح دُھواں لیے ہوئے آئے گا 11 - اور وہ لوگوں پر چھا جائے گا ، یہ ہے دردناک سزا۔ 12 - ( اب کہتے ہیں کہ)” پروردگار، ہم پر سے یہ عذاب ٹال دے، ہم ایمان لاتے ہیں۔“ 13 - اِن کی غفلت کہاں دُور ہوتی ہے؟ اِن کا حال تو یہ ہے کہ اِن کے پاس رسُولِ مُبین آگیا11 14 - پھر بھی یہ اُس کی طرف مُلتفت نہ ہوئے اور کہا کہ ”یہ تو سکھایا پڑھایا باولا ہے۔“12 15 - ہم ذرا عذاب ہٹائے دیتے ہیں، تم لوگ پھر وہی کچھ کرو گے جو پہلے کر رہے تھے۔ 16 - جس روز ہم بڑی ضرب لگائیں گے وہ دن ہوگا جب ہم تم سے انتقام لیں گے۔13 17 - ہم اِن سے پہلے فرعون کی قوم کو اِسی آزمائش میں ڈال چکے ہیں۔ اُن کے پاس ایک نہایت شریف رسُول14 آیا 18 - اور اس نے کہا”15اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کرو،16 میں تمہارے لیے ایک امانتدار رسُول ہوں۔17 19 - اللہ کے مقابلے میں سرکشی نہ کرو۔ میں تمہارے سامنے (اپنی مامُوریّت کی )صریح سَنَد پیش کرتا ہوں۔18 20 - اور میں اپنے ربّ اور تمہارے ربّ کی پناہ لے چکا ہوں اِس سے کہ تم مجھ پر حملہ آور ہو۔ 21 - اگر تم میری بات نہیں مانتے تو مجھ پر ہاتھ ڈالنے سے باز رہو۔“19 22 - آخر کار اس نے اپنے رب کو پکارا کہ یہ لوگ مجرم ہیں۔20 23 - (جواب دیا گیا )”اچھا تُو راتوں رات میرے بندوں کو لے کر چل پڑ۔21 تم لوگوں کا پیچھا کیا جائے گا۔ 22 24 - سمندر کو اس حال پر کھلا چھوڑ دے ۔ یہ سارا لشکر غرق ہونے والا ہے۔“23 25 - کتنے ہی باغ اور چشمے جو وہ چھوڑ گئے تھے۔ 26 - اور کھیت اور شاندار محل تھے 27 - کتنے ہی عیش کے سروسامان، جن میں وہ مزے کر رہے تھے اُن کے پیچھے دھرے رہ گئے۔ 28 - یہ ہُوا اُن کا انجام، اور ہم نے دُوسروں کو اِن چیزوں کا وارث بنا دیا۔24 29 - پھر نہ آسمان اُن پر رویا نہ زمین ،25 اور ذرا سی مہلت بھی اُن کو نہ دی گئی۔ ؏۱


Notes

1. کتاب مبین کی قسم کھانے کا مطلب سورہ زخرف حاشیہ نمبر 1 میں بیان کیا جا چکا ہے ۔ یہاں بھی قسم جس بات پر کھائی ہے وہ یہ ہے کہ اس کتاب کے مصنف محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہیں بلکہ ’’ ہم ‘‘ ہیں، اور اس کا ثبوت کہیں اور ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں، خود یہ کتاب ہی اس کے ثبوت کے لیے کافی ہے ۔ اس کے بعد مزید بات یہ فرمائی گئی کہ وہ بڑی خیر و برکت والی رات تھی جس میں اسے نازل کیا گیا۔ یعنی نادان لوگ ، جنہیں اپنی بھلائی برائی کا شعور نہیں ہے، اس کتاب کی آمد کو اپنے لیے بلائے ناگہانی سمجھ رہے ہیں اور اس سے پیچھا چھڑانے کی فکر میں غلطاں و پیچاں ہیں۔ لیکن در حقیقت ان کے لیے اور تمام نوع انسانی کے لیے وہ ساعت بڑی سعید تھی جب ’’ ہم ‘‘ نے غفلت میں پڑے ہوۓ لوگوں کو چونکا نے کے لیے یہ کتاب نازل کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس رات میں قرآن نازل کرنے کا مطلب بعض مفسرین نے یہ لیا ہے کہ نزول قرآن کا سلسلہ اس رات شروع ہوا۔ اور بعض مفسرین اس کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ اس میں پورا قرآن امّ الکتاب سے منتقل کر کے حامل وحی فرشتوں کے حوالہ کر دیا گیا اور پھر وہ حالات و وقائع کے مطابق جسب ضرورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر 23 سال تک نازل کیا جاتا رہا ۔ صحیح صورت معاملہ کیا ہے، اسے اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

اس رات سے مراد وہی رات ہے جسے سورہ قدر میں لیلۃ القدر کہا گیا ہے۔ وہاں فرمایا گیا کہ : اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیلَۃِ الْقَدْرِ ، اور یہاں فرمایا کہ : اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبَا رَکَۃٍ ۔ پھر یہ بات بھی قرآن مجید ہی میں بتادی گئی ہے کہ وہ ماہ رمضان کی ایک رات تھی : شَھْرُ رَمَضَا نَ الْذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُراٰن (البقرہ ، 185) ۔

2. اصل میں لفظ ’’ اَمْرٍ حَکِیْم ‘‘ استعمال ہوا ہے جس کے دو معنی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ حکم سراسر حکمت پر مبنی ہوتا ہے، کسی غلطی یا خامی کا اس میں کوئی امکان نہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ ایک پختہ اور محکم فیصلہ ہوتا ہے، اسے بدل دینا کسی کے بس میں نہیں۔

3. سورہ قدر میں یہی مضمون اس طرح بیان کیا گیا ہے : تَنَزَّل ُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّ وْ حُ فِیْھَا بِاِ ذْ نِ رَبِّھِمْ مِنْ کُلِّ اَمْرٍ ، ’’ اس رات ملائکہ اور جبریل اپنے رب کے اِذن سے ہر طرح کا حکم لے کر اترتے ہیں۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے شاہی نظم و نسق میں یہ ایک ایسی رات ہے جس میں وہ افراد اور قوموں اور ملکوں کی قسمتوں کے فیصلے کر کے اپنے فرشتوں کے حوالے کر دیتا ہے۔ اور پھر وہ انہی فیصلوں کے مطابق عملدرآمد کرتے رہتے ہیں ۔بعض مفسرین کو جن میں حضرت عکرمہ سب سے زیادہ نمایاں ہیں، یہ شبہ لاحق ہوا ہے کہ یہ نصف شعبان کی رات ہے، کیوں کہ بعض احادیث میں اسی رات کے متعلق یہ بات منقول ہوئی ہے کہ اس میں قسمتوں کے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ لیکن ابن عباس، ابن عمر، مجاہد ، قتادہ، حسن بصری ، سعید بن جبیر، ابن زید ، ابو مالک ، ضحاک اور دوسرے بہت سے مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ رمضان کی وہی رات ہے جسے لیلۃ القدر کہا گیا ہے، اس لیے کہ قرآن مجید خود اس کی تصریح کر رہا ہے ، اور جہاں قرآن کی صراحت موجود ہو وہاں اخبار آحاد کی بنا پر کوئی دوسرے رائے نہیں قائم کی جا سکتی۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ ’’ عثمان بن محمد کی جو روایت امام زہری نے شعبان سے شعبان تک قسمتوں کے فیصلے ہونے کے متعلق نقل کی ہے وہ ایک مرسل روایت ہے ، اور ایسی روایات نصوص کے مقابلے میں نہیں لائی جا سکتیں ۔‘‘ قاضی ابوبکر ابن العربی کہتے ہیں کہ ’’ نصف شعبان کی رات کے متعلق کوئی حدیث قابل اعتماد نہیں ہے، نہ اس کی فضیلت کے بارے میں اور نہ اس امر میں کہ اس رات قسمتوں کے فیصلے ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان کی طرف التفات نہیں کرنا چاہیے ‘‘۔ (احکام القرآن)

4. یعنی یہ کتاب دے کر ایک رسول کو بھیجنا نہ صرف حکمت کا تقاضا تھا، بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا تقاضا بھی تھا، کیونکہ وہ رب ہے اور ربوبیت صرف اسی بات کی متقاضی نہیں ہے کہ بندوں کے جسم کی پرورش کا سامان کیا جائے بلکہ اس بات کی بھی متقاضی ہے کہ علم صحیح سے ان کی رہنمائی کی جائے، حق و باطل کے فرق سے ان کو آگاہ کیا جائے اور انہیں تاریکی میں بھٹکتا نہ چھوڑ دیا جائے۔

5. اس سیاق و سباق میں اللہ تعالیٰ کی ان دو صفات کو بیان کرنے سے مقصود لوگوں کو اس حقیقت پر متنبہ کرنا ہے کہ صحیح علم صرف وہی دے سکتا ہے، کیونکہ تمام حقائق کو وہی جانتا ہے۔ ایک انسان تو کیا ، سارے انسان مل کر بھی اپنے لئے راہ حیات متعین کریں تواس کے حق ہونے کی کوئی ضمانت نہیں، کیونکہ پوری انسانیت یکجا ہوکر بھی ایک سمیع و علیم نہیں بنتی۔ اس کے بس میں یہ ہے ہی نہیں کہ ان تمام حقائق کا احاطہ کرے جن کا جاننا ایک صحیح راہ حیات متعین کرنے کے لیے ضروری ہے۔ یہ علم صرف اللہ کے پاس ہے ۔وہی سمیع و علیم ہے، اس لیے وہی یہ بتا سکتا ہے کہ انسان کے لیے ہدایت کیا ہے اور ضلالت کیا ، حق کیا ہے اور باطل کیا ، خیر کیا ہے اور شر کیا۔

6. اہل عرب خود اقرار کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہی کائنات اور اس کی ہر چیز کا رب (مالک و پروردگار ) ہے۔ اس لیے ان سے فرمایا گیا کہ اگر تم بے سوچے سمجھے محض زبان ہی سے یہ اقرار نہیں کر رہے ہو، بلکہ تمہیں واقعی اس کی پروردگاری کا شعور اور اس کے مالک ہونے کا یقین ہے، تو تمہیں تسلیم کرنا چاہیے کہ (1) انسان کی رہنمائی کے لیے کتاب اور رسول کا بھیجنا اس کی شان رحمت و پروردگاری کا عین تقاضا ہے، اور (2) مالک ہونے کی حیثیت سے یہ اس کا حق اور مملوک ہونے کی حیثیت سے یہ تمہارا فرض ہے کہ اس کی طرف سے جو ہدایت آئے اسے مانو اور جو حکم آئے اس کے آگے سر اطاعت جھکا دو ۔

7. معبود سےمراد ہے حقیقی معبود جس کا حق یہ ہے کہ اس کی عبادت (بندگی و پرستش ) جائے۔

8. یہ دلیل ہے اس امر کی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور نہیں ہوسکتا ۔ اس لیے کہ یہ بات سراسر عقل کے خلاف ہے کہ جس نے بے جان مادوں میں جان ڈال کر تم کو جیتا جاگتا انسان بنایا، اور جو اس امر کے کلی اختیارات رکھتا ہے کہ جب تک چاہے تمہاری اس زندگی کو باقی رکھے اور جب چاہے اسے ختم کر دے، اس کی تم بندگی نہ کرو ، یا اس کے سوا کسی اور کی بندگی کرو، یا اس کے ساتھ دوسروں کی بندگی بھی کرنے لگو۔

9. اس میں ایک لطیف اشارہ ہےاس امر کی طرف کہ تمہارے جن اسلاف نے اس کو چھوڑ کر دوسرے معبود بنائے ، ان کا رب بھی حقیقت میں وہی تھا ۔انہوں نے اپنے اصلی رب کے سوا دوسروں کی بندگی کر کے کوئی صحیح کام نہ کیا تھا کہ ان کی تقلید کرنے میں تم حق بجانب ہو اور ان کے فعل کو اپنے مذہب کے درست ہونے کی دلیل ٹھیرا سکو۔ ان کو لازم تھا کہ وہ صرف اسی کی بندگی کرتے کیونکہ وہی ان کا رب تھا ۔ لیکن اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو تمہیں لازم ہے کہ سب کی بندگی چھوڑ کر اسی ایک کی بندگی اختیار کرو کیونکہ وہی تمہارا رب ہے۔

10. اس مختصر سے فقرے میں ایک بڑی اہم حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ دہریے ہوں یا مشرکین ، ان سب پر وقتاً فوقتاً ایسی ساعتیں آتی رہتی ہیں جب ان کا دل اندر سے کہتا ہے کہ جو کچھ تم سمجھے بیٹھے ہو اس میں کہیں نہ کہیں جھول موجود ہے۔ دہریہ اپنے انکار خدا میں بظاہر خواہ کتنا ہی سخت ہو، کسی نہ کسی وقت اس کا دل یہ شہادت دے گزرتا ہے کہ خاک کے ایک ذرے سے لے کر کہکشانوں تک اور گھاس کی ایک پتی سے لے کر انسان کی تخلیق تک یہ حیرت انگیز، حکمت سے لبریز نظام کسی صانع حکیم کے بغیر وجود میں نہیں آ سکتا ۔ اسی طرح ایک مشرک اپنے شرک میں خواہ کتنا ہی گہرا ڈوبا ہوا ہو، کبھی نہ کبھی اس کا دل بھی یہ پکار اٹھتا ہے کہ جنہیں میں معبود بنائے بیٹھا ہوں یہ خدا نہیں ہو سکتے ۔ لیکن اس قلبی شہادت کا نتیجہ نہ تو یہ ہوتا ہے کہ انہیں خدا کے وجود اور اس کی توحید کا یقین حاصل ہو جائے ، نہ یہی ہوتا ہے کہ انہیں اپنے شرک اور اپنی دہریت میں کامل یقین و اطمینان حاصل رہے ۔ اس کے بجائے ان کا دین در حقیقت شک پر قائم ہوتا ہے خواہ اس میں یقین کی کتنی ہی شدت وہ دکھا رہے ہوں ۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ شک ان کے اندر بے چینی کیوں نہیں پیدا کرتا ، اور وہ سنجیدگی کے ساتھ حقیقت کی جستجو کیوں نہیں کرتے کہ یقین کی اطمینان بخش بنیاد انہیں مل سکے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دین کے معاملے میں سنجیدگی ہی سے تو وہ محروم ہوتے ہیں۔ ان کی نگاہ میں اصل اہمیت صرف دنیا کی کمائی اور اس کے عیش کی ہوتی ہے جس کی فکر میں وہ اپنے دل اور دماغ اور جسم کی ساری طاقتیں خرچ کر ڈالتے ہیں۔ رہے دین کے مسائل ،تو وہ حقیقت میں ان کے لیے ایک کھیل ، ایک تفریح، ایک ذہنی عیاشی کے سوا کچھ نہیں ہوتے جن پر سنجیدگی کے ساتھ چند لمحے بھی وہ غور و فکر میں صرف نہیں کر سکتے ۔ مذہبی مراسم ہیں تو تفریح کے طور پر ادا کیے جا رہے ہیں۔ انکار و دہریت کی بحثیں ہیں تفریح کے طور پر کی جا رہی ہیں ۔ دنیا کے مشاغل سے اتنی فرصت کسے ہے کہ بیٹھ کر یہ سوچے کہ کہیں ہم حق سے منحرف تو نہیں ہیں اور اگر حق سے منحرف ہیں تو اس کا انجام کیا ہے۔

11. رسولِ مُبین کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ اس کا رسول ہونا اس کی سیرت، اس کے خلاق و کردار اور اس کے کارناموں سے بالکل عیاں ہے۔ دوسرے یہ کہ اس نے حقیقت کو کھول، کھول کر بیان کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔

12. ۔ ان کا مطلب یہ تھا یہ بے چارہ تو سیدھا آدمی تھا، کچھ دوسرے لوگوں نے اسے بَھروں پر چڑھا لیا ، وہ در پر وہ قرآن کی آیتیں گھڑ گھڑ کر اسے پڑھا دیتے ہیں، یہ آ کر عام لوگوں کے سامنے انہیں پیش کر دیتا ہے، وہ مزے سے بیٹھے رہتے ہیں، اور یہ گالیاں اور پتھر کھاتا ہے۔ اس طرح ایک چلتا ہو فقرہ کہہ کر وہ ان ساری دلیلوں اور نصیحتوں اور سنجیدہ تعلیمات کو اڑا دیتے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برسوں سے ان کے سامنے پیش کر کر کے تھکے جا رہے تھے۔ وہ نہ ان معقول باتوں پر کوئی توجہ کرتے تھے جو قرآن مجید میں بیان کی جا رہی تھیں۔ نہ یہ دیکھتے تھے کہ جو شخص یہ باتیں پیش کر رہا ہے وہ کس پائے کا آدمی ہے۔ اور نہ یہ الزام رکھتے وقت ہی وہ کچھ سوچنے کی زحمت گوارا کرتے تھے کہ ہم یہ کیا بکواس کر رہے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ اگر کوئی دوسرے شخص در پردہ بیٹھ کر سکھانے پڑھانے والا ہوتا تو وہ حضرت خدیجہؓ اور ابوبکرؓ اور علیؓ اور زیدؓ بن حارثہ اور دوسرے ابتدائی مسلمانوں سے آخر کیسے چھپ جاتا جن سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب اور ہر وقت کا ساتھی کوئی نہ تھا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ یہی لوگ سب سے بڑھ کر حضورؐ کے گرویدہ اور عقیدت مند تھے، حالانکہ درپردہ کسی دوسرے شخص کے سکھانے پڑھانے سے نبوت کا کاروبار چلایا گیا ہوتا تو یہی لوگ آپ کی مخالفت میں سب سے پیش پیش ہوتے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ،النحل، حاشیہ،107،۔ جلد سوم ،الفرقان،حاشیہ،12)۔

13. ان آیات کے مفہوم میں مفسرین کے درمیان بڑا اختلاف واقع ہوا ہے اور یہ اختلاف صحابہ کرام کے زمانے میں بھی پایا جاتا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے مشہور شاگرد مسروق کہتے ہیں کہ ایک روز ہم کو فے کی مسجد میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک واعظ لوگوں کے سامنے تقریر کر رہا ہے۔ اس نے آیت : یَوْمَ تَأ تِی السَّمَآءُ بِدُ خَانٍ مُّبِیْنٍ پڑھی ، پھر کہنے لگا ، جانتے ہو یہ کیسا دھواں ہے ؟ یہ دھواں قیامت کے روز آئے گا اور کفار و منافقین کو اندھا بہرا کر دے گا، مگر اہل ایمان پر اس کا اثر بس اس قدر ہوگا کہ جیسے زکام لاحق ہوگیا ہو ۔ اس کی یہ بات سن کر ہم حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس گئے اور ان سے واعظ کی یہ تفسیر بیان کی ۔ حضرت عبداللہ لیٹے ہوئے تھے۔ یہ تفسیر سن کر گھبرا کے اٹھ بیٹھے اور کہنے لگے کہ آدمی کو علم نہ ہو تو اسے جاننے والوں سے پوچھ لینا چاہیے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب قریش کے لوگ اسلام قبول کرنے سے انکار اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہی چلے گئے تو حضور نے دعا کی کہ خدایا یوسف علیہ السلام کے قحط جیسے قحط سے میری مدد فرما ۔چنانچہ ایسا شدید کال پڑا کہ لوگ ہڈیاں اور چمڑا اور مردار تک کھا گئے ۔ اس زمانے میں حالت یہ تھی کہ جو شخص آسمان کی طرف دیکھتا تھا اسے بھوک کی شدت میں بس دھواں ہی دھواں نظر آتا تھا ۔ آخر کار ابو سفیان نے آ کر حضور سے کہا کہ آپ تو صلہ رحمی کی دعوت دیتے ہیں۔ آپ کی قوم بھوکوں مر رہی ہے ۔ اللہ سے دعا کیجیے کہ اس مصیبت کو دور کر دے ۔ یہی زمانہ تھا جب قریش کے لوگ کہتے لگے تھے کہ خدایا ہم پر سے یہ عذاب دور کر دے تو ہم ایمان لے آئیں گے ۔ اسی واقعہ کا ذکر ان آیات میں کیا گیا ہے۔ اور بڑی ضرب سے مراد وہ ضرب ہے جو آخر کار جنگ بدر کے روز قریش کو لگائی گئی ۔ یہ روایت امام احمد، بخاری، ترمذی ، نسائی، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے متعدد سندوں کے ساتھ مسروق سے نقل کی ہے۔ اور مسروق کے علاوہ ابراہیم نخعی ،قتادہ، عاصم اور عامر کا بھی یہی بیان ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اس آیت کی یہ تفسیر ارشاد فرمائی تھی۔ اس لیے اس امر میں کوئی شک نہیں رہتا کہ حضرت موصوف کی رائے فی الواقع یہی تھی ۔ تابعین میں سے مجاہد ، قتادہ، ابو العالیہ ، مقاتل، ابراہیم النّخعی،ضحّاک اور عطیۃ الغوفی وغیرہ حضرات نے بھی اس تفسیر میں حضرت عبداللہ بن مسعود سے اتفاق کیا ہے۔

دوسری طرف حضرت علی، ابن عمر ، ابن عباس ، ابو سعید خدری ، زید بن علی اور حسن بصری جیسے اکابر کہتے ہیں کہ ان آیات میں سارا ذکر قیامت کے قریب زمانے کا کیا گیا ہے اور وہ دھواں جس کی خبر دی گئی ہے ، اسی زمانے میں زمین پر چھائے گا۔ مزید تقویت اس تفسیر کو ان روایات ملتی ہے جو خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں۔ حذیفہ بن اَسید الغفاری کہتے ہیں کہ ایک روز ہم قیامت کے متعلق آپس میں گفتگو کر رہے تھے۔ اتنے میں حضور برآمد ہوئے اور فرمایا قیامت قائم نہ ہو گی جب تک دس علامات یکے بعد دیگرے ظاہر نہ ہو لیں گی : سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ۔ دھواں۔ دابّہ ۔ یاجوج و ماجوج کا خروج، عیسی ابن مریم کا نزول۔ زمین کا دھنسنا مشرق میں ، مغرب میں اور جزیرۃالعرب میں۔ اور عدن سے آگ کا نکلنا جو لوگوں کو ہانکتی ہوئی لے جائے گی (مسلم) ۔ اسی کی تائید ابو مالک اشعری کی وہ روایت کرتی ہے جسے ابن جریر اور طبرانی نے نقل کیا ہے، اور ابو سعید خدری کی روایت جسے ابن ابی حاتم نے نقل کیا ہے ۔ ان دونوں روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دھوئیں کو علامات قیامت میں شمار کیا ہے، اور یہ بھی حضورؐ نے فرمایا ہے کہ وہ دھواں جب چھائے گا تو مومن پر اس کا اثر صرف زکام جیسا ہوگا ، اور کافر کی نس نس میں وہ بھر جائے گا اور اس کے ہر منفذ سے نکلے گا۔

ان دونوں تفسیروں کا تعارض اوپر کی آیات پر غور کرنے سے بآسانی رفع ہوسکتا ہے۔ جہاں تک حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی تفسیر کا تعلق ہے، یہ امر واقعہ ہے کہ مکہ معظمہ میں حضورؐ کی دعا سے سخت قحط رونما ہوا تھا جس سے کفار کے خنّے بہت کچھ ڈھیلے پڑ گئے تھے ، اور انہوں نے اسے رفع کرانے کے لیے حضورؐ سے دعا کی درخواست کی تھی۔ اس واقعہ کی طرف قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اشارے کیے گئے ہیں (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول،الانعام،حاشیہ،29۔ جلد دوم،الاعراف، حاشیہ ، 77،یونس،حواشی،14،15،29،۔ جلد سوم،المؤمنون،حاشیہ،72)۔ ان آیات میں بھی صاف محسوس ہوتا ہے کہ اشارہ اسی صورت حال کی طرف ہے۔ کفار کا یہ کہنا کہ ’’ پروردگار، ہم پر سے یہ عذاب ٹال دے، ہم ایمان لاتے ہیں‘‘۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ ’’ ان کی غفلت کہاں دور ہوتی ہے جب کہ رسول مبین آ گیا ، پھر بھی یہ اس کی طرف ملتفت نہ ہوئے اور کہا کہ یہ تو سکھایا پڑھایا باؤلا ہے۔‘‘ پھر یہ فرمانا کہ ’’ ہم ذرا عذاب ہٹائے دیتے ہیں ، تم لوگ پھر وہی کچھ کرو گے جو پہلے کر رہے تھے۔‘‘ یہ ساری باتیں اسی صورت میں راست ٍآ سکتی ہیں جب کہ واقعہ حضورؐ ہی کے زمانے کا ہو۔ قیامت کے قریب ہونے والے واقعات پر ان کا اطلاق بعید از فہم ہے۔ اس لیے اس حد تک تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی تفسیر ہی صحیح معلوم ہوتی ہے ۔ لیکن اس کا یہ حصہ صحیح نہیں معلوم ہوتا کہ ’’ دھواں‘‘ بھی اسی زمانے میں ظاہر ہوا تھا، اور اس شکل میں ظاہر ہوا تھا کہ بھوک کی شدت میں جب لوگ آسمان کی طرف دیکھتے تھے تو دھواں ہی دھواں نظر آتا تھا، یہ بات قرآن مجید کے ظاہر الفاظ سے بھی مطابقت نہیں رکھتی ، اور احادیث کے بھی خلاف ہے۔ قرآن میں یہ کہاں کہا گیا ہے کہ آسمان دھواں لیے ہوئے آگیا اور لوگوں پر چھا گیا ۔وہاں تو کہا گیا ہے کہ ’’ اچھا تو اس دن کا انتظار کرو جب آسمان صریح دھواں لیے ہوئے آئے گا اور وہ لوگوں پر چھا جائے گا ۔‘‘ بعد کی آیات کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو اس ارشاد کا صاف مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب تم نہ رسول کے سمجھانے سے مانتے ہو، نہ قحط کی شکل میں جو تنبیہ تمہیں کی گئی ہے اس سے ہی ہوش میں آتے ہو، تو پھر قیامت کا انتظار کرو، اس وقت جب پوری طرح شامت آئے گی تب تمہیں پتہ چل جائے گا کہ حق کیا تھا ۔ پس جہاں تک دھوئیں کا تعلق ہے ، اس کے بارے میں صحیح بات یہی ہے کہ وہ قحط کے زمانے کی چیز نہیں ہے بلکہ علامات قیامت میں سے ہے، اور یہی بات احادیث سے بھی معلوم ہوتی ہے ۔ تعجب ہے کہ مفسرین کبار میں سے جنہوں نے حضرت ابن مسعود کی تائید کی انہوں نے پوری بات کی تائید کر دی ، اور جنہوں نے ان کی تردید کی انہوں نے پوری بات کی تردید کر دی ، حالانکہ آیات اور احادیث پر غور کرنے سے یہ صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کا کونسا حصہ صحیح ہے اور کون سا غلط ۔

14. اصل میں ’’رَسُوْلٌ کَرِیْمٌ ‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ کریم کا لفظ جب انسان کے لیے بولا جاتا ہے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ بہترین شریفانہ خصائل اور نہایت قابل تعریف صفات سے متصف ہے ۔ معمولی خوبیوں کے لیے یہ لفظ نہیں بولا جاتا ۔

15. یہ بات ابتدا ہی میں سمجھ لینی چاہیے کہ یہاں موسیٰ کے جو اقوال نقل کیے جا رہے ہیں وہ ایک وقت میں ایک ہی مسلسل تقریر کے اجزا نہیں ہیں، بلکہ سالہا سال کے دوران میں مختلف مواقع پر جو باتیں انہوں نے فرعون اور اس کے اہل دربار سے کہی تھیں ان کا خلاصہ چند فقروں میں بیان کیا جا رہا ہے ۔ (تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم،الاعراف،حواشی، 83تا97 ،جلد سوم،طہ، حواشی،18الف تا52،الشعراء،حواشی7تا49،النمل،حواشی،8تا17،القصص،حواشی46تا56،۔ جلد چہارم ، المومن، آیات 23 ت 46۔ الزخرف 46 تا 56 مع حواشی)

16. اصل میں اَدُّ وْ ا اِلَیَّ عِبَا دَ ا للہِ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ان کا ایک ترجمہ تو وہ ہے جو اوپر ہم نے کیا ہے اور اس کے لحاظ سے یہ اس مطالبے کا ہم معنی ہے جو سورہ اَ عراف(آیت 105) ، سورہ طٰہٰ (47) اور الشعراء (17) میں گزر چکا ہے کہ ’’ نبی اسرائیل کو میرے ساتھ جانے کے لیے چھوڑ دو‘‘ دوسری تر جمہ ، جو حضرت عبداللہ بن عباس سے منقول ہے، یہ ہے کہ ’’ اللہ کے بندو میرا حق ادا کرو‘‘ یعنی میری بات مانو ، مجھ پر ایمان لاؤ ، اور میری ہدایت کی پیروی کرو، یہ خدا کی طرف سے تمہارے اوپر میرا حق ہے۔ بعد کا یہ فقرہ کہ ’’ میں تمہارے لیے ایک مانت دار رسول ہوں ‘‘ اس دوسرے مفہوم کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔

17. یعنی بھروسے کے قابل رسول ہوں۔ اپنی طرف سے کوئی بات ملا کر کہنے والا نہیں ہوں۔ نہ اپنی کسی ذاتی خواہش یا غرض کے لیے خود ایک حکم یا قانون گھڑ کر خدا کے نام سے پیش کرنے والا ہوں ۔ مجھ پر تم یہ اعتماد کرسکتے ہو کہ جو کچھ میرے بھیجنے والے نے کہا ہے وہی بے کم و کاست تم تک پہنچاؤں گا ۔ (واضح رہے کہ یہ دو فقرے اس وقت کے ہیں جب حضرت موسیٰ نے سب سے پہلے اپنی دعوت پیش فرمائی تھی)۔

18. دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے مقابلے میں جو سرکشی تم کر رہے ہو یہ در اصل اللہ کے مقابلے میں سرکشی ہے ، کیونکہ میری جن باتوں پر تم بگڑ رہے ہو وہ میری نہیں بلکہ اللہ کی باتیں ہیں اور میں اسی کے رسول کی حیثیت سے انہیں بیان کر رہا ہوں۔ اگر تمہیں اس میں شک ہے کہ میں اللہ کا بھیجا ہوا ہوں یا نہیں ، تو میں تمہارے سامنے اپنے مامور من اللہ ہونے کی صریح سند پیش کرتا ہوں ۔ اس سند سے مراد کوئی ایک معجزہ نہیں ہے بلکہ معجزات کا وہ طویل سلسلہ ہے جو فرعون کے دربار میں پہلی مرتبہ پہنچنے کے بعد سے آخر زمانہ قیام تک حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون اور اس کی قوم کو سالہا سال تک دکھاتے رہے ۔ جس سند کو بھی اُن لوگوں نے جھٹلایا اس سے بڑھ کر صریح سند آپ پیش کرتے چلے گئے ۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، الزخرف حواشی نمبر 42۔43)۔

19. یہ اس زمانے کی بات ہے جب حضرت موسٰی کی پیش کردہ ساری نشانیوں کے مقابلے میں فرعون اپنی ہٹ پر اڑا ہوا تھا مگر یہ دیکھ کر کہ ان نشانیوں سے مصر کے عوام اور خواص روز بروز متاثر ہوتے چلے جا رہے ہیں، اس کے ہوش اُڑے جا رہے تھے۔ اس زمانے میں پہلے تو اس نے بھرے دربار میں وہ تقریر کی جو سورہ زخرف ، آیات 51۔ 53 میں گزر چکی ہے (ملاحظہ ہو حواشی سورہ زخرف 45 تا 49) پھر زمین پاؤں تلے سے نکلتی دیکھ کر آخر کار وہ اللہ کے رسول کو قتل کردینے پر آمادہ ہو گیا۔ اس وقت آنجناب نے وہ بات کہی جو سورہ مومن، آیت27 میں گزر چکی ہے کہ اِنِّىْ عُذْتُ بِرَبِّيْ وَرَبِّكُمْ مِّنْ كُلِّ مُتَكَبِّرٍ لَّا يُؤْمِنُ بِيَوْمِ الْحِسَابِ ۔ ’’ میں نے پناہ لی اپنے رب کی ہر اس متکبر سے جو روز حساب پر ایمان نہیں رکھتا"۔ یہاں حضرت موسیٰ اپنی اسی بات کا حوالہ دیکھ کر فرعون اور اس کے اعیان سلطان سے فرما رہے ہیں کہ دیکھو، میں تمہارے سارے حملوں کے مقابلہ میں اللہ رب العالمین پناہ مانگ چکا ہوں۔ اب تم میرا تو کچھ بگاڑ نہیں سکتے لیکن اگر تم خود اپنی خیر چاہتے ہو تو مجھ پر حملہ آور ہونے سے باز رہو ، میری بات نہیں مانتے تو نہ مانو۔ مجھ پر ہاتھ ہرگز نہ ڈالنا ، ورنہ اس کا بہت برا انجام دیکھو گے۔

20. یہ حضرت موسیٰ کی آخری رپورٹ ہے جو انہوں نے اپنے رب کے سامنے پیش کی۔ "یہ لوگ مجرم ہیں" یعنی ان کا مجرم ہونا اب قطعی طور پر ثابت ہو چکا ہے۔ کوئی گنجائش ان کے ساتھ رعایت برتنے اور ان کو اصلاح حال کا مزید موقع دینے کی باقی نہیں رہی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ حضور آخری فیصلہ فرمائیں۔

21. یعنی ان سب لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں ان میں بنی اسرائیل بھی تھے اور مصر کے وہ قبطی باشندے بھی جو حضرت یوسفؑ کے زمانے سے حضرت موسیٰ ؑ کی آمد تک مسلمانوں میں شامل ہو چکے تھے، اور وہ لوگ بھی جنہوں نے حضرت موسیٰؑ کی نشانیاں دیکھ کر اور آپ کی دعوت و تبلیغ سے متاثر ہو کر اہل مصر میں سے اسلام قبول کیا تھا۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ تفہیم القرآن جلد دوم،یوسف،حاشیہ،68)

22. یہ ابتدائی حکم ہے جو حضرت موسیٰؑ کو ہجرت کے لیے دیا گیا تھا (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم،طہ،حاشیہ،53،الشعراء، حاشیہ،39تا47)

23. ۔ یہ حکم اس وقت دیا گیا جب حضرت موسیٰؑ اپنے قافلہ کو لے کر سمندر پار کر چکے تھے اور چاہتے تھے کہ سمندر پر عصا مار کر اسے پھر ویسا ہی کر دیں جیسا وہ پھٹنے سے پہلے تھا ، تاکہ فرعون اور اس کا لشکر اس راستے سے گذر کر نہ آ جائے جو معجزہ سے بنا تھا۔ اس وقت فرمایا گیا کہ ایسا نہ کرو۔ اس کو اسی طرح پھٹا کا پھٹا رہنے دو تاکہ فرعون اپنے لشکر سمیت اس راستے میں اتر آئے، پھر سمندر کو چھوڑ دیا جائے گا اور یہ پوری فوج غرق کر دی جائے گی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم،طہ،حاشیہ،53،54،الشعراء، حاشیہ،47)

24. ۔ حضرت حسن بصری کہتے ہیں کہ اس سے مراد بنی اسرائیل ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے قوم فرعون کے بعد مصر کی سرزمین کا وارث بنا دیا۔ اور قتادہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد دوسرے لوگ ہیں جو آل فرعون کے بعد مصر کے وارث ہوئے، کیونکہ تاریخوں میں کہیں بھی یہ ذکر نہیں ملتا کہ مصر سے نکلنے کے بعد بنی اسرائیل کبھی وہاں واپس گئے ہوں اور وہاں اس زمین کے وارث ہوئے ہوں یہی اختلاف بعد کے مفسرین میں بھی پایا جاتا ہے۔ (تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم ،الشعراء،حاشیہ،45)

25. یعنی جب وہ حکمراں تھے تو ان کی عظمت کے ڈنکے بج رہے تھے۔ ان کی حمد و ثناء کے ترانوں سے دنیا گونج رہی تھی۔ خوش آمدیوں کے جم گھٹے انکے آگے اور پیچھے لگے رہتے تھے۔ ان کی وہ ہوا باندھی جاتی تھی کہ گویا ایک عالم ان کے کمالات کا گرویدہ اور ان کے احسانات کا زیر بار ہے۔ اور ان سے بڑھ کر دنیا میں کوئی مقبول نہیں ،مگر جب وہ گرے تو کوئی آنکھ ان کے لیے رونے والی نہیں تھی، بلکہ دنیا نے ایسا اطمینان کا سانس لیا کہ گویا ایک کانٹا تھا جو اس کے پہلو سے نکل گیا۔ ظاہر ہے کہ انہوں نے نہ خلق خدا کے ساتھ کوئی بھلائی کی تھی کہ زمین والے ان کے لیے روتے، نہ خدا کی خوشنودی کا کوئی کام کیا تھا کہ آسمان والوں کو ان کی ہلاکت پر افسوس ہوتا۔ جب تک مشیت الٰہی سے اس کی رسی دراز ہوتی رہی ، وہ زمین کے سینے پر مونگ دلتے رہے۔ جب ان کے جرائم حد سے گذر گئے تو اس طرح اٹھا کر پھینک دیئے جیسے کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا ہے۔