Tafheem ul Quran

Surah 44 Ad-Dukhan, Ayat 30-42

وَلَقَدۡ نَجَّيۡنَا بَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَ مِنَ الۡعَذَابِ الۡمُهِيۡنِۙ‏ ﴿44:30﴾ مِنۡ فِرۡعَوۡنَ​ؕ اِنَّهٗ كَانَ عَالِيًا مِّنَ الۡمُسۡرِفِيۡنَ‏ ﴿44:31﴾ وَلَقَدِ اخۡتَرۡنٰهُمۡ عَلٰى عِلۡمٍ عَلَى الۡعٰلَمِيۡنَ​ۚ‏ ﴿44:32﴾ وَاٰتَيۡنٰهُمۡ مِّنَ الۡاٰيٰتِ مَا فِيۡهِ بَلٰٓؤٌا مُّبِيۡنٌ‏ ﴿44:33﴾ اِنَّ هٰٓؤُلَاۤءِ لَيَقُوۡلُوۡنَۙ‏ ﴿44:34﴾ اِنۡ هِىَ اِلَّا مَوۡتَتُنَا الۡاُوۡلٰى وَمَا نَحۡنُ بِمُنۡشَرِيۡنَ‏ ﴿44:35﴾ فَاۡتُوۡا بِاٰبَآئِنَاۤ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ‏ ﴿44:36﴾ اَهُمۡ خَيۡرٌ اَمۡ قَوۡمُ تُبَّعٍۙ وَّ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ​ؕ اَهۡلَكۡنٰهُمۡ​ اِنَّهُمۡ كَانُوۡا مُجۡرِمِيۡنَ‏ ﴿44:37﴾ وَمَا خَلَقۡنَا السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ وَمَا بَيۡنَهُمَا لٰعِبِيۡنَ‏ ﴿44:38﴾ مَا خَلَقۡنٰهُمَاۤ اِلَّا بِالۡحَقِّ وَلٰكِنَّ اَكۡثَرَهُمۡ لَا يَعۡلَمُوۡنَ‏  ﴿44:39﴾ اِنَّ يَوۡمَ الۡفَصۡلِ مِيۡقَاتُهُمۡ اَجۡمَعِيۡنَۙ‏ ﴿44:40﴾ يَوۡمَ لَا يُغۡنِىۡ مَوۡلًى عَنۡ مَّوۡلًى شَيۡـئًا وَّلَا هُمۡ يُنۡصَرُوۡنَۙ‏  ﴿44:41﴾ اِلَّا مَنۡ رَّحِمَ اللّٰهُ​ؕ اِنَّهٗ هُوَ الۡعَزِيۡزُ الرَّحِيۡمُ‏ ﴿44:42﴾

30 - اِس طرح بنی اسرائیل کو ہم نے نجات دی سخت ذلّت کے عذاب،26 31 - فرعون سے جو حد سے گزر جانے والوں میں فی الواقع بڑے اُونچے درجے کا آدمی تھا،27 32 - اور اُن کی حالت جانتے ہوئے اُن کو دنیا کی دُوسری قوموں پر ترجیح دی،28 33 - اور اُنہیں ایسی نشانیاں دکھائیں جن میں صریح آزمائش تھی۔29 34 - یہ لوگ کہتے ہیں 35 - ”ہماری پہلی موت کے سوا اور کچھ نہیں، اُس کے بعد ہم دوبارہ اُٹھائے جانے والے نہیں ہیں۔30 36 - اگر تم سچے ہو تو اُٹھا لاوٴ ہمارے باپ دادا کو۔“31 37 - یہ بہتر ہیں یا تُبع کی قوم32 اور اُس سے پہلے کے لوگ؟ ہم نے ان کو اِسی بنا پر تباہ کیا کہ وہ مُجرم ہوگئے تھے۔33 38 - یہ آسمان و زمین اور اِن کے درمیان کی چیزیں ہم نے کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنا دی ہیں۔ 39 - اِن کو ہم نے برحق پیدا کیا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔34 40 - اِن سب کے اُٹھائے جانے کے لیے طے شدہ وقت فیصلے کا دن ہے،35 41 - وہ دن جب کوئی عزیزِ قریب اپنے کسی عزیزِ قریب36 کے کچھ بھی کام نہ آئے گا اور نہ کہیں سے انہیں کوئٰ مدد پہنچے گی 42 - سوائے اِس کے کہ اللہ ہی کسی پر رحم کرے، وہ زبردست اور رحیم ہے۔37 ؏۲


Notes

26. یعنی فرعون بجائے خود ان کے لیے ذلت کا عذاب تھا اور دوسرے تمام عذاب اسی ایک عذاب ِ مجسم کے شاخسانے تھے۔

27. اس میں ایک لطیف طنز ہے کفار قریش کے سرداروں پر۔ مطلب یہ ہے کہ حد بندگی سے تجاوز کرنے والوں میں تمہارا مرتبہ اور مقام ہی کیا ہے۔ بڑے اونچے درجے کا سرکش تو وہ تھا جو اس وقت دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کے تخت پر خدائی کا روپ دھارے بیٹھا تھا۔ اسے جب خس و خاشاک کی طرح بہا دیا گیا تو تمہاری کیا ہستی ہے کہ قہر الٰہی کے آگے ٹھہر سکے۔

28. یعنی بنی اسرائیل کی خوبیاں اور کمزوریاں دونوں اللہ پر عیاں تھیں اس نے بے دیکھے بھالے اس کا انتخاب اندھا دھند نہیں کر لیا تھا۔ اس وقت دنیا میں جتنی قومیں موجود تھیں ان میں سے اس قوم کو جب اس نے اپنے پیغام کا حامل اور اپنی توحید کی دعوت کا علمبردار بنانے کے لیے چنا تو اس بنا پر چنا کہ اس کے علم میں وقت کی موجود قوموں میں سے یہی اس کے لیے موزوں تر تھی۔

29. (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ،البقرۃ،حواشی، 64تا86،النساء،حواشی ،182تا199،المائدہ،حواشی، 42تا47،جلد دوم، الاعراف،حواشی،97تا132،جلد سوم، طہ، حواشی،56تا74)

30. ۔ یعنی پہلی دفعہ ہم مریں گے تو بس فنا ہو جائیں گے۔ اس کے بعد پھر کوئی زندگی نہیں ہے۔ "پہلی موت" اس کے الفاظ سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کے بعد کوئی دوسری موت بھی ہو۔ ہم جب یہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص کے ہاں پہلا بچہ پیدا ہوا تو اس قول کے صادق ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ اس کے بعد لازم دوسرا بچہ پیدا ہو، بلکہ صرف یہ کافی ہوتا ہے کہ اس سے پہلے کوئی بچہ نہ ہوا ہو۔

31. ۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ ہم نے کبھی مرنے کے بعد کسی کو دوبارہ جی اٹھتے نہیں دیکھا ہے، اس لیے ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ مرنے کے دوسری کوئی زندگی نہیں ہوگی۔ تم لوگ اگر یہ دعویٰ کرتے ہو کہ دوسری زندگی ہوگی تو ہمارے اجداد کو قبروں سے اٹھا لاؤ تاکہ ہمیں زندگی بعد موت کا یقین آ جائے۔ یہ کام تم نے نہ کیا تو ہم سمجھیں گے کہ تمہارا دعویٰ بے بنیاد ہے۔ یہ گویا ان کے نزدیک حیات بعد الموت کی تردید میں بڑی پختہ دلیل تھی۔ حالاں کہ سراسر مہمل تھی ۔ آخر ان سے یہ کہا کس نے تھا کہ مرنے والے دوبارہ زندہ ہو کر اسی دنیا میں واپس آئیں گے؟ اور نبی ﷺ یا کسی مسلمان نے یہ دعویٰ کب کیا تھا کہ ہم مردوں کو زندہ کرنے والے ہیں؟

32. تُبّع قبیلہ حِمْیَر کے بادشاہوں کا لقب تھا، جیسے کسریٰ ، قیصر، فرعون وغیرہ القاب مختلف ممالک کے بادشاہوں کے لیے مخصوص رہے ہیں۔ یہ لوگ قوم سبا کی ایک شاخ سے تعلق رکھتے تھے 115 قبل مسیح میں ان کو سبا کے ملک پر غلبہ حاصل ہوا اور 300 عیسوی تک یہ حکمراں رہے۔ عرب میں صدیوں تک ان کی عظمت کے افسانے زبان زد خلائق رہے ہیں۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم، سورہ سبا، حاشیہ نمبر 37)

33. یہ کفار کے اعتراض کا پہلا جواب ہے۔ اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ انکار آخرت وہ چیز ہے جو کسی شخص، گروہ یا قوم کو مجرم بنائے بغیر نہیں رہتی۔ اخلاق کی خرابی اس کا لازمی نتیجہ ہے اور تاریخ انسانی شاہد ہے کہ زندگی کے اس نظریہ کو جس قوم نے بھی اختیار کیا ہے وہ آخر کار تباہ ہو کر رہی ہے۔ رہا یہ سوال کہ "یہ بہتر ہیں یا تبع کی قوم اور ا س سے پہلے کے لوگ"؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کفار مکہ تو اس خوش حالی و شوکت و حشمت کو پہنچ ہی نہیں سکے ہیں جو تبع کی قوم ، اور اس سے پہلے سبا اور قوم فرعون اور دوسری قوموں کو حاصل رہی ہے ۔ مگر یہ مادی خوشحالی اور دنیاوی شان شوکت اخلاقی زوال کے نتائج سے ان کو کب بچا سکتی تھی۔ یہ اپنی ذرا سی پونجی اور اپنے ذرائع و وسائل کے بل بوتے پر بچ جائیں گے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم ، سورہ سباء، حواشی نمبر 25۔36)

34. یہ ان کے اعتراض کا دوسرا جواب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص بھی حیات بعد الموت اور آخرت کی جزا و سزا کا منکر ہے وہ دراصل اس کارخانہ عالم کو کھلونا اور اس کے خالق کو نادان بچہ سمجھتا ہے، اسی بناء پر اس نے یہ رائے قائم کی ہے کہ انسان دنیا میں ہر طرح کے ہنگامے برپا کر کے ایک روز بس یوں ہی مٹی میں رل مل جائے گا اوراس کے کسی اچھے یا برے کام کا کوئی نتیجہ نہ نکلے گا۔ حالاں کہ یہ کائنات کسی کھلنڈرے کی نہیں بلکہ ایک خالق حکیم کی بنائی ہوئی ہے اور کسی حکیم سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی ہے کہ وہ فعل عبث کا ارتکاب کرے گا۔ انکار آخرت کے جواب میں یہ استدلال قرآن مجید میں متعدد مقامات پر کیا گیا ہے، ہم اس کی مفصل تشریح کر چکے ہیں۔(ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد، اول، الانعام،حاشیہ 46،جلد دوم، حاشیہ،10،11،جلد سوم، الانبیاء، حواشی،16،17،المؤمنون،حواشی،102،101،الروم،حواشی،4تا10)

35. یہ ان کے اس مطالبے کا جواب ہے کہ ’’ اٹھا لاؤ ہمارے باپ دادا کو اگر تم سچے ہو‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ زندگی بعد موت کوئی تماشا تو نہیں ہے کہ جہاں کوئی اس سے انکار کرے، فوراً ایک مردہ قبرستان سے اٹھا کر اس کے سامنے لا کھڑا کیا جائے اس کے لیے تو رب العالمین نے ایک وقت مقرر کر دیا ہے جب تمام اولین و آخرین کو وہ دوبارہ زندہ کر کے اپنی عدالت میں جمع کرے گا اور ان کے مقدمات کا فیصلہ صادر فرمائے گا۔ تم مانو چاہے نہ مانو، یہ کام بہر حال اپنے وقت مقرر پر ہی ہوگا۔ تم مانو گے تو اپنا ہی بھلا کرو گے، کیونکہ اس طرح قبل از وقت خبردار ہو کر اس عدالت سے کامیاب نکلنے کی تیاری کر سکو گے۔ نہ مانو گے تو اپنا ہی نقصان کرو گے، کیونکہ اپنی ساری عمر اس غلط فہمی میں کھپا دو گے کہ برائی اور بھلائی جو کچھ بھی ہے بس اسی دنیا کی زندگی تک ہے، مرنے کے بعد پھر کوئی عدالت نہیں ہونی ہے جس میں ہمارے اچھے یا برے اعمال کا کوئی مستقل نتیجہ نکلنا ہو۔

36. اصل میں لفظ’’ مولیٰ ‘‘ استعمال کیا گیا ہے جو عربی زبان میں ایسے شخص کے لیے بولا جاتا ہے جو کسی تعلق کی بنا پر دوسرے شخص کی حمایت کرے، قطع نظر اس سے کہ وہ رشتہ داری کا تعلق ہو یا دوستی کا یا کسی اور قسم کا۔

37. ان فقروں میں بتایا گیا ہے کہ فیصلے کے دن جو عدالت قائم ہو گی اس کا کیا رنگ ہو گا۔ کسی کی مدد یا حمایت وہاں کسی مجرم کو نہ چھڑا سکے گی، نہ اس کی سزا کم ہی کرا سکے گی۔ کلی اختیارات اس حاکم حقیقی کے ہاتھ میں ہوں گے جس کے فیصلے کو نافذ ہونے سے کوئی طاقت روک نہیں سکتی ، اور جس کے فیصلے پر اثر انداز ہونے کا بل بوتا کسی میں نہیں ہے ۔ یہ بالکل اس کے اپنے اختیار تمیزی پر موقوف ہو گا کہ کسی پر رحم فرما کر اس کو سزا نہ دے یا کم سزا دے، اور حقیقت میں اس کی شان یہی ہے کہ انصاف کرنے میں بے رحمی سے نہیں بلکہ رحم ہی سے کام لے۔ لیکن جس کے مقدمے میں جو فیصلہ بھی وہ کرے گا وہ بہر حال بے کم و کاست نافذ ہو گا۔ عدالت الٰہی کی یہ کیفیت بیان کرنے کے بعد آگے کے چند فقروں میں بتایا گیا ہے کہ اس عدالت میں جو لوگ مجرم ثابت ہوں گے ان کا انجام کیا ہو گا ، اور جن لوگوں کے بارے میں یہ ثابت ہو جائے گا کہ وہ دنیا میں خدا سے ڈر کر نافرمانیوں سے پرہیز کرتے رہے تھے، ان کو کن انعامات سے سرفراز کیا جائے گا۔