Tafheem ul Quran

Surah 44 Ad-Dukhan, Ayat 43-59

اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوۡمِۙ‏ ﴿44:43﴾ طَعَامُ الۡاَثِيۡمِ ۛۚ   ۖ‏ ﴿44:44﴾ كَالۡمُهۡلِ ۛۚ يَغۡلِىۡ فِى الۡبُطُوۡنِۙ‏ ﴿44:45﴾ كَغَلۡىِ الۡحَمِيۡمِ‏ ﴿44:46﴾ خُذُوۡهُ فَاعۡتِلُوۡهُ اِلٰى سَوَآءِ الۡجَحِيۡمِ   ۖ‏ ﴿44:47﴾ ثُمَّ صُبُّوۡا فَوۡقَ رَاۡسِهٖ مِنۡ عَذَابِ الۡحَمِيۡمِؕ‏ ﴿44:48﴾ ذُقۡ ۖۚ اِنَّكَ اَنۡتَ الۡعَزِيۡزُ الۡكَرِيۡمُ‏ ﴿44:49﴾ اِنَّ هٰذَا مَا كُنۡتُمۡ بِهٖ تَمۡتَرُوۡنَ‏ ﴿44:50﴾ اِنَّ الۡمُتَّقِيۡنَ فِىۡ مَقَامٍ اَمِيۡنٍۙ‏ ﴿44:51﴾ فِىۡ جَنّٰتٍ وَّعُيُوۡنٍ ۙ ۚ‏ ﴿44:52﴾ يَّلۡبَسُوۡنَ مِنۡ سُنۡدُسٍ وَّاِسۡتَبۡرَقٍ مُّتَقٰبِلِيۡنَۚ ۙ‏ ﴿44:53﴾ كَذٰلِكَ وَزَوَّجۡنٰهُمۡ بِحُوۡرٍ عِيۡنٍؕ‏ ﴿44:54﴾ يَدۡعُوۡنَ فِيۡهَا بِكُلِّ فَاكِهَةٍ اٰمِنِيۡنَۙ‏ ﴿44:55﴾ لَا يَذُوۡقُوۡنَ فِيۡهَا الۡمَوۡتَ اِلَّا الۡمَوۡتَةَ الۡاُوۡلٰى​ ۚ وَوَقٰٮهُمۡ عَذَابَ الۡجَحِيۡمِۙ‏ ﴿44:56﴾ فَضۡلًا مِّنۡ رَّبِّكَ ​ؕ ذٰ لِكَ هُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ‏ ﴿44:57﴾ فَاِنَّمَا يَسَّرۡنٰهُ بِلِسَانِكَ لَعَلَّهُمۡ يَتَذَكَّرُوۡنَ‏ ﴿44:58﴾ فَارۡتَقِبۡ اِنَّهُمۡ مُّرۡتَقِبُوۡنَ‏ ﴿44:59﴾

43 - زَقّوم کا درخت38 44 - گناہ گار کا کھاجا ہوگا، 45 - تیل کی تلچھٹ39 جیسا، پیٹ میں اِس طرح جوش کھائے گا 46 - جیسے کھولتا ہوا پانی جوش کھاتا ہے۔ 47 - ”پکڑواِسے اور رگیدتے ہوئے لے جاوٴ اِس کو جہنّم کے بیچوں بیچ 48 - اور اُنڈیل دو اِس کے سر پر کھولتے پانی کا عذاب ۔ 49 - چکھ اس کا مزا، بڑا زبردست عزّت دار آدمی ہے تُو۔ 50 - یہ وہی چیز ہے جس کے آنے میں تم لوگ شک رکھتے تھے۔“ 51 - خدا ترس لوگ امن کی جگہ میں ہوں گے۔40 52 - باغوں اور چشموں میں، 53 - حریر و دیبا41 کے لباس پہنے، آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔ 54 - یہ ہوگی ان کی شان۔ اور ہم گوری گوری آہو چشم عورتیں42 ان سے بیاہ دیں گے۔ 55 - وہاں وہ اطمینان سے ہر طرح کی لذیذ چیزیں طلب کریں گے۔43 56 - وہاں موت کا مزہ وہ کبھی نہ چکھیں گے، بس دنیا میں جو موت آچکی سو آچکی۔ اور ان کو جہنّم کے عذاب سے بچا دے گا،44 57 - اللہ اپنے فضل سے، یہی بڑی کامیابی ہے۔ 58 - اے نبیؐ، ہم نے اِس کتاب کو تمہاری زبان میں سہل بنا دیا ہے تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ 59 - اب تم بھی انتظارکرو، یہ بھی منتظر ہیں۔45 ؏۳


Notes

38. زقوم کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم ، سورہ صافات، حاشیہ 34۔

39. اصل میں لفظ ’’ المُھل‘‘ استعمال ہوا ہے جس کے کئی معنی ہیں: پگھلی ہوئی دھات۔ پیپ لہو۔ پگھلا ہوا تارکول۔ لاوا تیل کی تلچھٹ۔ یہ مختلف معنی اہل لغت اور مفسرین نے بیان کیے ہیں۔ لیکن اگر زقوم سے مراد وہی چیز ہے جسے ہمارے ہاں تھوہر کہتے ہیں، تواس کو چبانے سے جو رس نکلے گا، اغلب یہی ہے کہ وہ تیل کی تلچھٹ سے مشابہ ہوگا۔

40. امن کی جگہ سے مراد ایسی جگہ ہے جہاں کسی قسم کا کھٹکا نہ ہو ۔ کوئی پریشانی ، کوئی خطرہ اور اندیشہ ، کوئی مشقت اور تکلیف لاحق نہ ہو۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’ اہل جنت سے کہہ دیا جائے گا کہ یہاں تم ہمیشہ تندرست رہوگے کبھی بیمار نہ ہوگے، ہمیشہ زندہ رہوگے کبھی نہ مروگے ، ہمیشہ خوشحال رہو گے کبھی خستہ حال نہ ہوگے، ہمیشہ جوان رہوگے کبھی بوڑھے نہ ہوگے‘‘ (مسلم بروایت ابوہریرہ و ابو سعید خدری )۔

41. اصل میں سُنْدُس اور اِسْتَبْرَق کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ سُندس عربی زبان میں باریک ریشمی کپڑے کو کہتے ہیں ۔ اور استبرَق فارسی لفظ ستبر کا معرب ہے، اور یہ دبیز ریشمی کپڑے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

42. اصل الفاظ ہیں حُوْرٌ عِیْن ۔ حور جمع ہے حوراءکی اور حوراء عربی زبان میں گوری عورت کو کہتے ہیں۔اور عِین جمع ہے عَیناء کی ، اور یہ لفظ بڑی بڑی آنکھوں والی عورت کےلیے بولا جاتا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد چہارم ، الصافات، حاشیہ 26 و 29 )

43. ’’ اطمینان سے ‘‘ طلب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز جتنی چاہیں گے بے فکری کے ساتھ جنت کے خادموں کو اس کے لانے کا حکم دیں گے اور وہ حاضر کر دی جائے گی۔ دنیا میں کوئی شخص ہوٹل تو درکنار، خود اپنے گھر میں اپنی چیز بھی اس اطمینان سے طلب نہیں کرسکتا جس طرح وہ جنت میں طلب کرے گا۔ کیونکہ یہاں کسی چیز کے بھی اتھاہ ذخیرے کسی کے پاس نہیں ہوتے ، اور جو چیز بھی آدمی استعمال کرتا ہے اس کی قیمت بہر حال اس کی اپنی جیب ہی سے جاتی ہے ۔ جنت میں مال اللہ کا ہوگا اور بندے کو اس کے استعمال کی کھلی اجازت ہوگی ۔ نہ کسی چیز کے ذخیرے ختم ہو جانے کا خطرہ ہوگا نہ بعد میں بل پیش ہونے کا کوئی سوال۔

44. اس آیت میں دو باتیں قابل توجہ ہیں:

ایک یہ کہ جنت کی نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد جہنم سے بچائے جانے کا ذکر خاص طور پر الگ فرمایا گیا ہے، حالاں کہ کسی شخص کا جنت میں پہنچ جانا آپ سے آپ اس امر کو مستلزم ہے کہ وہ جہنم میں جانےسے بچ گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فرمانبرداری کے انعام کی قدر انسان کو پوری طرح اسی وقت محسوس ہوسکتی ہے جبکہ اس کے سامنے یہ بات بھی ہو کہ نافرمانی کرنے والے کہاں پہنچے ہیں، اور وہ کس برے انجام سے بچ گیا ہے۔

دوسری قابل توجہ بات اس میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے جہنم سے بچنے اور جنت میں پہنچنے کو اپنے فضل کا نتیجہ قرار دے رہا ہے ۔ اس سے انسان کو اس حقیقت پر متنبہ کرنا مقصود ہے کہ یہ کامیابی کسی شخص کو نصیب نہیں ہو سکتی جب تک اللہ کا فضل شامل حال نہ ہو۔اگرچہ آدمی کو انعام اس کے اپنے حسن عمل کےہی پر ملے گالکن اول تو حسن عمل ہی کی توفیق آدمی کو اللہ کے فضل کے بغیر کیسے نصیب ہوسکتی ہے۔ پھر جو بہتر سے بہتر عمل بھی آدمی سے بن ٍآ سکتا ہے وہ کبھی کامل و اکمل نہیں ہوسکتا جس کے متعلق دعوے سے یہ کہا جا سکے کہ اس میں نقص کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ یہ اللہ ہی کا فضل ہے کہ وہ بندے کی کمزوریوں اور اس کے عمل کی خامیوں کو نظر انداز کر کے اس کی خدمات کو قبول فرمالے اور اسے انعام سے سرفراز فرمائے ۔ ورنہ باریک بینی کے ساتھ حساب کرنے پر وہ اتر آئے تو کس کی یہ ہمت ہے کہ اپنی قوت بازو سے جنت جیت لینے کا دعویٰ کرسکے۔ یہی بات ہے جوحدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےمنقول ہوئی ہے۔ آپ نے فرمایا: اعملو ا و سد دو اوقار بوا و اعلموا انّ احداً لن یُّد خلہُ عملہ الجنۃ۔ ’’ عمل کرو اور اپنی حداستطاعت تک زیادہ سے زیادہ ٹھیک کام کرنے کی کوشش کرو، مگر یہ جان لو کہ کسی شخص کو محض اس کا عمل ہی جنت میں نہ داخل کر دے گا۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا ’’ یا رسول اللہ ، کیا آپ کا عمل بھی‘‘؟ فرمایا وَلَا اَنَا اِلَّا اَنْ یتغمّد نی اللہ بِرَحْمَتِہٖ ، ’’ ہاں میں بھی محض اپنے عمل کے زور سے جنت میں نہ پہنچ جاؤں گا الّا یہ کہ مجھے میرا رب اپنی رحمت سے ڈھانک لے ‘‘۔

45. یعنی اب اگر یہ لوگ نصیحت قبول نہیں کرتے تو دیکھتے رہو کہ ان کی کس طرح شامت آتی ہے، اور یہ بھی منتظر ہیں کہ دیکھیں تمہاری اس دعوت کا کیا انجام ہوتا ہے۔