Tafheem ul Quran

Surah 45 Al-Jathiyah, Ayat 1-11

حٰمٓ​​ ۚ‏ ﴿45:1﴾ تَنۡزِيۡلُ الۡكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ الۡعَزِيۡزِ الۡحَكِيۡمِ‏ ﴿45:2﴾ اِنَّ فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ لَاٰيٰتٍ لِّلۡمُؤۡمِنِيۡنَؕ‏ ﴿45:3﴾ وَفِىۡ خَلۡقِكُمۡ وَمَا يَبُثُّ مِنۡ دَآبَّةٍ اٰيٰتٌ لِّقَوۡمٍ يُّوۡقِنُوۡنَۙ‏  ﴿45:4﴾ وَاخۡتِلَافِ الَّيۡلِ وَالنَّهَارِ وَمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَآءِ مِنۡ رِّزۡقٍ فَاَحۡيَا بِهِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِهَا وَ تَصۡرِيۡفِ الرِّيٰحِ اٰيٰتٌ لِّقَوۡمٍ يَّعۡقِلُوۡنَ‏ ﴿45:5﴾ تِلۡكَ اٰيٰتُ اللّٰهِ نَـتۡلُوۡهَا عَلَيۡكَ بِالۡحَقِّ​ ​ۚ فَبِاَىِّ حَدِيۡثٍۢ بَعۡدَ اللّٰهِ وَاٰيٰتِهٖ يُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿45:6﴾ وَيۡلٌ لِّـكُلِّ اَفَّاكٍ اَثِيۡمٍۙ‏ ﴿45:7﴾ يَّسۡمَعُ اٰيٰتِ اللّٰهِ تُتۡلٰى عَلَيۡهِ ثُمَّ يُصِرُّ مُسۡتَكۡبِرًا كَاَنۡ لَّمۡ يَسۡمَعۡهَا​ ۚ فَبَشِّرۡهُ بِعَذَابٍ اَ لِيۡمٍ‏ ﴿45:8﴾ وَاِذَا عَلِمَ مِنۡ اٰيٰتِنَا شَيۡـئًـا اۨتَّخَذَهَا هُزُوًا​ ؕ اُولٰٓـئِكَ لَهُمۡ عَذَابٌ مُّهِيۡنٌ ؕ‏ ﴿45:9﴾ مِنۡ وَّرَآئِهِمۡ جَهَنَّمُۚ وَلَا يُغۡنِىۡ عَنۡهُمۡ مَّا كَسَبُوۡا شَيۡـئًـا وَّلَا مَا اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ اَوۡلِيَآءَ​ ۚ وَلَهُمۡ عَذَابٌ عَظِيۡمٌؕ‏  ﴿45:10﴾ هٰذَا هُدًى​ ​ۚ وَالَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمۡ لَهُمۡ عَذَابٌ مِّنۡ رِّجۡزٍ اَلِيۡمٌ‏ ﴿45:11﴾

1 - ح۔ م۔ 2 - اِس کتاب کا نزول اللہ کی طرف سے ہے جو زبردست اور حکیم ہے۔1 3 - حقیقت یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین میں بے شمار نشانیاں ہیں ایمان لانے والوں کے لیے ۔2 4 - اور تمہاری اپنی پیدائش میں، اور اُن حیوانات میں جن کو اللہ (زمین میں)پھیلا رہا ہے، بڑی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو یقین لانے والے ہیں۔3 5 - اور شب و روز کے فرق و اختلاف میں ، 4 اور اُس رزق میں5 جسے اللہ آسمان سے نازل فرماتا ہے پھر اس کے ذریعہ سے مُردہ زمین کو جِلا اُٹھاتا ہے،6 اور ہواوٴں کی گردش میں 7 بہت نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ 6 - یہ اللہ کی نشانیاں ہیں جنہیں ہم تمہارے سامنے ٹھیک ٹھیک بیان کر رہے ہیں۔ اب آخر اللہ اور اس کی آیات کے بعد اور کون سی بات ہے جس پر یہ لوگ ایمان لائیں گے۔8 7 - تباہی ہے ہر اُس جھُوٹے اور بد اعمال شخص کے لیے 8 - جس کے سامنے اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں ، اور وہ اُن کو سُنتا ہے، پھر پُورے اِستکبار کے ساتھ اپنے کُفر پر اِس طرح اَڑا رہتا ہے کہ گویا اُس نے اُن کو سُنا ہی نہیں۔9 ایسے شخص کو دردناک عذاب کا مُژدہ سُنا دو۔ 9 - ہماری آیات میں سے کوئی بات جب اس کے علم میں آتی ہے تو وہ اُن کا مذاق بنا لیتا ہے۔10 ایسے سب لوگوں کے لیے ذلّت کا عذاب ہے۔ 10 - اُن کے آگے جہنّم ہے۔11 جو کچھ بھی انہوں نے دنیا میں کمایا ہے اس میں سے کوئی چیز اُن کے کسی کام نہ آئے گی، نہ اُن کے وہ سرپرست ہی اُن کے لیے کچھ کر سکیں گے جنہیں اللہ کو چھوڑ کر انہوں نے اپنا ولی بنا رکھا ہے۔12 اُن کے لیے بڑا عذاب ہے۔ 11 - یہ قرآن سراسر ہدایت ہے، اور اُن لوگوں کے لیے بلا کا دردناک عذاب ہے جنہوں نے اپنے ربّ کی آیات کو ماننے سے انکار کر دیا۔ ؏۱


Notes

1. یہ اس سورے کی مختصر تمہید ہے جس میں سامعین کو دو باتوں سے خبردار کیا گیا ہے۔ ایک یہ کہ یہ کتاب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی اپنی تصنیف نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر نازل ہو رہی ہے۔ دوسرے یہ کہ اسے وہ خدا نازل کر رہا ہے جو زبردست بھی ہے اور حکیم بھی۔ اس کا زبردست ہونا اس بات کا متقاضی ہے کہ انسان اس کے فرمان سے سرتابی کی جرأت نہ کرے، کیونکہ نافرمانی کر کے وہ اس کی سزا سے کسی طرح بچ نہیں سکتا۔ اور اس کا حکیم ہونا اس کا متقاضی ہے کہ انسان پورے اطمینان کے ساتھ برضا و رغبت اس کی ہدایات اور اس کے احکام کی پیروی کرے، کیونکہ اس کی کسی تعلیم کے غلط یا نا مناسب یا نقصان دہ ہونے کا کوئی امکان نہیں۔

2. تمہید کے بعد اصل تقریر کا آغاز اس طرح کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ پس منظر میں اہل مکہ کے وہ اعتراضات ہیں جو وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی پیش کردہ تعلیم پر کر رہے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ آخر محض ایک شخص کے کہنے سے ہم اتنی بڑی بات کیسے مان لیں کہ جن بزرگ ہستیوں کے آستانوں سے آج تک ہماری عقیدتیں وابستہ رہی ہیں وہ سب ہیچ ہیں اور خدائی بس ایک خدا کی ہے۔ اس پر فرمایا جارہا ہے کہ جس حقیقت کو ماننے کی دعوت تمہیں دی جا رہی ہے اس کی سچائی کے نشانات سے تو سارا عالم بھر پڑا ہے۔ آنکھیں کھول کر دیکھو۔ تمہارے اندر اور تمہارے باہر ہر طرف نشانیاں ہی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں جو شہادت دے رہی ہیں کہ یہ ساری کائنات ایک خدا اور ایک ہی خدا کی تخلیق ہے اور وہی اکیلا اس کا مالک، حاکم اور مدبر ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہ تھی کہ آسمان و زمین میں نشانیاں کس چیز کی ہیں۔ اس لیے کہ سارا جھگڑا ہی اس وقت اس بات پر چل رہا تھا کہ مشرکین اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے خداؤں اور معبودوں کو بھی ماننے پر اصرار کر رہے تھے، اور قرآن کی دعوت یہ تھی کہ ایک خدا کے سوا نہ کوئی خدا ہے نہ معبود۔ لہٰذا بے کہے یہ بات آپ ہی آپ موقع و محل سے ظاہر ہو رہی تھی کہ نشانیوں سے مراد توحید کی صداقت اور شرک کے بطلان کی نشانیاں ہیں۔

پھر یہ جو فرمایا کہ’’ یہ نشانیاں ایمان لانے والوں کے لیے ہیں ‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ بجائے خود تو یہ نشانیاں سارے ہی انسانوں کے لیے ہیں، لیکن انہیں دیکھ کر صحیح نتیجے پر وہی لوگ پہنچ سکتے ہیں جو ایمان لانے کے لیے تیار ہوں غفلت میں پڑے ہوئے لوگ، جو جانوروں کی طرح جیتے ہیں، اور ہٹ دھرم لوگ، جو نہ ماننے کا تہیہ کے بیٹھے ہیں، ان کے لیے ان نشانیوں کا ہونا اور نہ ہونا یکساں ہے۔ چمن کی رونق اور اس کا حسن و جمال تو آنکھوں والے کے لیے ہے۔ اندھا کسی رونق اور کسی حسن و جمال کا ادراک نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے چمن کا وجود ہی بے معنی ہے۔

3. یعنی جو لوگ انکار کا فیصلہ کر چکے ہیں، یا جنہوں نے شک ہی کی بھول بھلیوں میں بھٹکنا اپنے لیے پسند کر لیا ہے ان کا معاملہ تو دوسرا ہے، مگر جن لوگوں کے دل کے دروازے یقین کے لیے بند نہیں ہوئے ہیں وہ جب اپنی پیدائش پر، اور اپنے وجود کی ساخت پر، اور زمین میں پھیلے ہوئے انواع و اقسام کے حیوانات پر غور کی نگاہ ڈالیں گے تو انہیں بے شمار علامات ایسی نظر آئیں گی جنہیں دیکھ کر یہ شبہ کرنے کی ادنیٰ سی گنجائش بھی نہ رہے گی کہ شاید یہ سب کچھ کسی خدا کے بغیر بن گیا ہو، یا شاید اس کے بنانے میں ایک سے زیادہ خداؤں کا دخل ہو۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد اول، الانعام،حواشی،25تا27،جلد دوم، النحل، حواشی، 7تا9،جلد سوم، الحج،حواشی، 5تا9،المؤمنون،حواشی،12،13،الفرقان،حاشیہ،69،الشعراء،حواشی،57،58،النمل،حاشیہ،80،الروم،حواشی،25تا32،79۔۔جلد چہارم، السجدہ، حواشی 14 تا 18۔یٰس، آیات 71 تا 73۔ الزمر، آیت 6۔المومن، حواشی97۔ 98۔ 110)۔

4. رات اور دن کا یہ فرق و اختلاف اس اعتبار سے بھی نشانی ہے کہ دونوں پوری با قاعدگی کے ساتھ ایک دوسرے کے بعد آتے ہیں، اور اس اعتبار سے بھی کہ ایک روشن ہے اور دوسرا تاریک، اور اس اعتبار سے بھی کہ ایک مدت تک بڑی تدریج کے ساتھ دن بڑا اور رات چھوٹی ہوتی چلی جاتی ہے،پھر ایک وقت جا کر دونوں برابر ہو جاتے ہیں۔ یہ مختلف قسم کے فرق و اختلاف جو رات اور دن میں پائے جاتے ہیں اور ان سے جو عظیم حکمتیں وابستہ ہیں، وہ اس بات کی صریح علامت ہیں کہ سورج اور زمین اور موجودات زمین کا خالق ایک ہی ہے، اور ان دونوں کرّوں کو ایک ہی زبردست اقتدار نے قابو میں رکھا ہے، اور وہ کوئی اندھا بہرا بے حکمت اقتدار نہیں ہے بلکہ ایسا حکیمانہ اقتدار ہے جس نے یہ اٹل حساب قائم کر کے اپنی زمین کو زندگی کی ان بے شمار انواع کے لیے موزوں جگہ بنا دیا ہے جو نباتات، حیوانات اور انسان کی شکل میں اس نے یہاں پیدا کی ہیں۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد دوم، یونس،حاشیہ،65۔ ۔جلد سوم،النمل،حاشیہ،104،القصص،حاشیہ،92۔ جلد چہارم، لقمان، آیت 29، حاشیہ 50۔ یٰس، آیت 37، حاشیہ 32)

5. رزق سے مراد یہاں بارش ہے، جیسا کہ بعد کے فقرے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے۔

6. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد سوم، المؤمنون،حاشیہ،17،الفرقان،حواشی،62تا65،الشعراء،حاشیہ،5،النمل،حواشی،73،74،الروم،حواشی،35،73۔جلد چہارم، یٰس حواشی 26 تا 31۔

7. ہواؤں کی گردش سے مراد مختلف اوقات میں زمین کے مختلف حصوں پر اور مختلف بلندیوں پر مختلف ہوائیں چلنا ہے جن سے موسموں کی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ دیکھنے کی چیز صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ زمین کے اوپر ایک وسیع کرہ ہوائی پایا جاتا ہے جس کے اندر وہ تمام عناصر موجود ہیں جو زندہ مخلوقات کو سانس لینے کے لیے درکار ہیں، اور ہوا کے اسی لحاف نے زمین کی آبادی کو بہت سی آفات سماوی سے بچا رکھا ہے۔ اس کے ساتھ دیکھنے کی چیز یہ بھی ہے کہ یہ ہوا محض بالائی فضا میں بھر کر نہیں رہ گئی ہے بلکہ وقتاً فوقتاً مختلف طریقوں سے چلتی رہتی ہے۔ کبھی ٹھنڈی ہوا چلتی ہے اور کبھی گرم۔ کبھی بند ہو جاتی ہے اور کبھی چلنے لگتی ہے۔ کبھی ہلکی چلتی ہے تو کبھی تیز، اور کبھی آندھی اور طوفان کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ کبھی خشک ہوا چلتی ہے اور کبھی مرطوب۔ کبھی بارش لانے والی ہوا چلتی ہے اور کبھی اس کو اڑا لے جانے والی چل پڑتی ہے۔ یہ طرح طرح کی ہوائیں کچھ یوں ہی اندھا دھند نہیں چلتیں بلکہ ان کا ایک قانون اور ایک نظام ہے جو شہادت دیتا ہے کہ یہ انتظام کمال درجہ حکمت پر مبنی ہے اور اس سے بڑے اہم مقاصد پورے ہو رہے ہیں۔ پھر اس کا بڑا گہرا تعلق اس سردی اور گرمی سے ہے جو زمین اور سورج کے درمیان بدلتی ہوئی مناسبتوں کے مطابق گھٹتی اور بڑھتی رہتی ہے، اور مزید براں اس کا نہایت گہرا تعلق موسمی تغیرات اور بارشوں کی تقسیم سے بھی ہے۔ یہ ساری چیزیں پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ کسی اندھی فطرت نے اتفاقاً یہ انتظامات نہیں کر دیے ہیں، نہ سورج اور زمین اور ہوا اور پانی اور نباتات اور حیوانات کے الگ الگ مدبر ہیں، بلکہ لازماً ایک ہی خدا ان سب کا خالق ہے اور اسی کی حکمت نے ایک مقصد عظیم کے لیے یہ انتظام قائم کیا ہے، اور اسی کی قدرت سے یہ پوری باقاعدگی کے ساتھ ایک مقرر قانون پر چل رہا ہے۔

8. یعنی جب اللہ کی ہستی اور اس کی وحدانیت پر خود اللہ ہی کے بیان کیے ہوئے یہ دلائل سامنے آ جانے کے بعد بھی یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو اب کیا چیز ایسی آسکتی ہے جس سے انہیں دولت ایمان نصیب ہو جائے۔ اللہ کا کلام تو وہ آخری چیز ہے جس کے ذریعہ سے کوئی شخص یہ نعمت پا سکتا ہے۔ اور ایک ان دیکھی حقیقت کا یقین دلانے کے لیے زیادہ سے زیادہ جو معقول دلائل ممکن ہیں وہ اس کلام پاک میں پیش کریے گئے ہیں۔ اس کے بعد اگر کوئی نکار ہی کرنے پر تلا ہوا ہو تو انکار کرتا رہے۔ اسکے انکار سے حقیقت نہیں بدل جائے گی۔

9. با الفاظ دیگر فرق اور بہت بڑا فرق ہے اس شخص میں جو نیک نیتی کے ساتھ اللہ کی آیات کو کھلے دل سے سنتا اور سنجیدگی کے ساتھ ان پر غور کرتا ہے، اور اس شخص میں جو انکار کا پیشگی فیصلہ کر کے سنتا ہے اور کسی غور و فکر کے بغیر اپنے اسی فیصلے پر قائم رہتا ہے جو ان آیات کو سننے سے پہلے وہ کر چکا تھا۔ پہلی قسم کا آدمی اگر آج ان آیات کو سن کر ایمان نہیں لا رہا ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ کافر رہنا چاہتا ہے، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مزید اطمینان کا طالب ہے۔ اس لیے اگر اس کے ایمان لانے میں دیر بھی لگ رہی ہے تو یہ بات عین متوقع ہے کہ کل کوئی دوسری آیت اس کے دل میں اتر جائے اور وہ مطمئن ہو کر مان لے لیکن دوسری قسم کا آدمی کبھی کوئی آیت سن کر بھی ایمان نہیں لا سکتا۔ کیونکہ وہ پہلے ہی آیات الہٰی کے لیے اپنے دل کے دروازے بند کر چکا ہے۔ اس حالت میں بالعموم وہ لوگ مبتلا ہوتے ہیں جن کے اندر تین صفات موجود ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ جھوٹے ہوتے ہیں،اس لیے صداقت ان کو اپیل نہیں کرتی۔ دوسرے یہ کہ وہ بد عمل ہوتے ہیں، اس لیے کسی ایسی تعلیم و ہدایت کو مان لینا انہیں سخت ناگوار ہوتا ہے جو ان پر اخلاقی پابندیاں عائد کرتی ہو۔ تیسرے یہ کہ وہ اس گھمنڈ میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں ہمیں کوئی کیا سکھائے گا، اس لیے اللہ کی جو آیات انہیں سنائی جاتی ہیں ان کو وہ سرے سے کسی غور فکر کا مستحق ہی نہیں سمجھتے اور ان کے سننے کا حاصل بھی وہی کچھ ہوتا ہے جو نہ سننے کا تھا۔

10. یعنی اس ایک آیت کا مذاق اڑانے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ تمام آیات کا مذاق اڑانے لگتا ہے۔ مثلاً جب وہ سنتا ہے کہ قرآن میں فلاں بات بیان ہوئی ہے تو اسے سیدھے معنی میں لینے کے بجائے پہلے تو اسی میں کوئی ٹیڑھ تلاش کر کے نکال لاتا ہے تا کہ اسے مذاق کا موضوع بنائے، پھر اس کا مذاق اڑانے کے بعد کہتا ہے : اجی ان کے کیا کہنے ہیں، وہ تو روز ایک سے ایک نرالی بات سنا رہے ہیں، دیکھو فلاں آیت میں انہیں نے یہ دلچسپ بات کہی ہے، اور فلاں آیت کے لطائف کا تو جواب ہی نہیں ہے۔

11. اصل الفاظ ہیں مِنْ وَّ رَ آ ئِھِمْ جَھَنَّمُ۔ وراء کا لفظ عربی زبان میں ہر اس چیز کے لیے بولا جاتا ہے جو آدمی کی نظر سے اوجھل ہو، خواہ وہ آگے ہو یا پیچھے۔ اس لیے دوسرے ترجمہ ان الفاظ کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ ان کے پیچھے جہنم ہے۔ ‘‘ اگر پہلے معنی لیے جائیں تو مطلب یہ ہو گا کہ وہ بے خبر منہ اٹھائے اس راہ پر دوڑے جا رہے ہیں اور انہیں احساس نہیں ہے کہ آگے جہنم ہے جس میں وہ جا کر گرنے والے ہیں۔ دوسرے معنی لینے کی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ وہ آخرت سے بے فکر ہو کر اپنی اس شرارت میں مشغول ہیں اور انہیں پتہ نہیں ہے کہ جہنم ان کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔

12. یہاں ولی کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ایک وہ دیویاں اور دیوتا اور زندہ یا مردہ پیشوا جن کے متعلق مشرکین نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ جو شخص ان کا متوسل ہو وہ خواہ دنیا میں کچھ ہی کرتا ہے، خدا کے ہاںاس کی پکڑ نہ ہو سکے گی، کیونکہ ان کی مداخلت اسے خدا کے غضب سے بچا لے گی۔ دوسرے، وہ سردار اور لیڈر اور امراء و حکام جنہیں خدا سے بے نیاز ہو کر لوگ اپنا رہنما اور مطاع بناتے ہیں، اور آنکھیں بند کر کے ان کی پیروی کرتے ہیں، اور انہیں خوش کر نے کے لیے خدا کو نا خوش کرنے میں تامل نہیں کرتے یہ آیت ایسے لوگوں کو خبر دار کرتی ہے کہ جب اس روش کے نتیجے میں جہنم سے ان کو سابقہ پیش آئے گا تو ان دونوں قسم کے سر پرستوں میں سے کوئی بھی انہیں بچانے کے لیے آگے نہ بڑھے گا (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم تفسیر سورہ الشوریٰ، حاشیہ نمبر 6)