Tafheem ul Quran

Surah 45 Al-Jathiyah, Ayat 12-21

اَللّٰهُ الَّذِىۡ سَخَّرَ لَـكُمُ الۡبَحۡرَ لِتَجۡرِىَ الۡفُلۡكُ فِيۡهِ بِاَمۡرِهٖ وَلِتَبۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِهٖ وَلَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ​ۚ‏ ﴿45:12﴾ وَسَخَّرَ لَـكُمۡ مَّا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الۡاَرۡضِ جَمِيۡعًا مِّنۡهُ​ ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوۡمٍ يَّتَفَكَّرُوۡنَ‏ ﴿45:13﴾ قُلْ لِّلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا يَغۡفِرُوۡا لِلَّذِيۡنَ لَا يَرۡجُوۡنَ اَيَّامَ اللّٰهِ لِيَجۡزِىَ قَوۡمًۢا بِمَا كَانُوۡا يَكۡسِبُوۡنَ‏ ﴿45:14﴾ مَنۡ عَمِلَ صَالِحًـا فَلِنَفۡسِهٖ​ۚ وَمَنۡ اَسَآءَ فَعَلَيۡهَا​ ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمۡ تُرۡجَعُوۡنَ‏ ﴿45:15﴾ وَلَقَدۡ اٰتَيۡنَا بَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَ الۡكِتٰبَ وَالۡحُكۡمَ وَالنُّبُوَّةَ وَرَزَقۡنٰهُمۡ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَفَضَّلۡنٰهُمۡ عَلَى الۡعٰلَمِيۡنَ​ۚ‏ ﴿45:16﴾ وَاٰتَيۡنٰهُمۡ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الۡاَمۡرِ​ ۚ فَمَا اخۡتَلَفُوۡۤا اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَهُمُ الۡعِلۡمُ ۙ بَغۡيًاۢ بَيۡنَهُمۡ​ؕ اِنَّ رَبَّكَ يَقۡضِىۡ بَيۡنَهُمۡ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ فِيۡمَا كَانُوۡا فِيۡهِ يَخۡتَلِفُوۡنَ‏ ﴿45:17﴾ ثُمَّ جَعَلۡنٰكَ عَلٰى شَرِيۡعَةٍ مِّنَ الۡاَمۡرِ فَاتَّبِعۡهَا وَلَا تَتَّبِعۡ اَهۡوَآءَ الَّذِيۡنَ لَا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿45:18﴾ اِنَّهُمۡ لَنۡ يُّغۡنُوۡا عَنۡكَ مِنَ اللّٰهِ شَيۡـئًـا​ ؕ وَ اِنَّ الظّٰلِمِيۡنَ بَعۡضُهُمۡ اَوۡلِيَآءُ بَعۡضٍ​ ۚ وَاللّٰهُ وَلِىُّ الۡمُتَّقِيۡنَ‏ ﴿45:19﴾ هٰذَا بَصَاـئِرُ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَّرَحۡمَةٌ لِّقَوۡمٍ يُّوۡقِنُوۡنَ‏ ﴿45:20﴾ اَمۡ حَسِبَ الَّذِيۡنَ اجۡتَـرَحُوا السَّيِّاٰتِ اَنۡ نَّجۡعَلَهُمۡ كَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۙ سَوَآءً مَّحۡيَاهُمۡ وَمَمَاتُهُمۡ​ ؕ سَآءَ مَا يَحۡكُمُوۡنَ‏ ﴿45:21﴾

12 - وہ اللہ ہے تو ہے جس نے تمہارے لیے سمندر کو مسخّر کیاتاکہ اس کے حکم سے کشتیاں اُس میں چلیں13 اور تم اس کا فضل تلاش کرو14 اور شکر گزار رہو۔ 13 - اس نے زمین اور آسمانوں کی ساری ہی چیزوں کو تمہارے لیے مسخّر کر دیا ہے،15 سب کچھ اپنے پاس سے۔۔۔۔16 اِس میں بڑی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرنے والے ہیں۔17 14 - اے نبیؐ، ایمان لانے والوں سے کہہ دو کہ جو لوگ اللہ کی طرف سے بُرے دن آنے کا کوئی اندیشہ نہیں رکھتے ،18 اُں کی حرکتوں پر درگزر سے کام لیں تاکہ اللہ خود ایک گروہ کو اس کی کمائی کا بدلہ دے۔19 15 - جو کوئی نیک عمل کرے گا اپنے ہی لیے کرے گا، اور جو بُرائی کرے گا وہ آپ ہی اس کا خمیازہ بھگتے گا۔پھر جانا تو سب کو اپنے ربّ ہی کی طرف ہے۔ 16 - اِس سے پہلے بنی اسرائیل کو ہم نے کتاب اور حُکم20 اور نبوّت عطا کی تھی۔ اُن کو ہم نے عمدہ سامانِ زیست سے نوازا ، دنیا بھر کے لوگوں پر انہیں فضیلت عطا کی،21 17 - اور دین کے معاملہ میں اُنہیں واضح ہدیایت دے دیں۔ پھر جو اختلاف اُن کے درمیان رُونما ہوا وہ (ناواقفیت کی وجہ سے نہیں بلکہ)عِلم آجانے کے بعد ہوا اور اس بنا پر ہوا کہ وہ آپس میں ایک دُوسرے پر زیادتی کرنا چاہتے تھے۔22 اللہ قیامت کے روز اُن معاملات کا فیصلہ فرما دے گا جن میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں۔ 18 - اس کے بعد اب اے نبیؐ ، ہم نے تم کو دین کے معاملہ میں ایک صاف شاہراہ (شریعت)پر قائم کیا ہے۔23 لہٰذا تم اسی پر چلو اور اُن لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو جو علم نہیں رکھتے ۔ 19 - اللہ کے مقابلے میں وہ تمہارے کچھ بھی کام نہیں آسکتے۔24 ظالم لوگ ایک دُوسرے کے ساتھی ہیں ، اور متّقیوں کا ساتھی اللہ ہے۔ 20 - یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں سب لوگوں کے لیے اور ہدایت اور رحمت اُن لوگوں کے لیے جو یقین لائیں25 21 - کیا26 وہ لوگ جنہوں نے بُرائیوں کا ارتکاب کیا ہے یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم اُنہیں اور ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو ایک جیسا کر دیں گے کہ ان کا جینا اور مرنا یکساں ہو جائے؟ بہت بُرے حکم ہیں جو یہ لوگ لگاتے ہیں۔ 27 ؏۲


Notes

13. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہم القرآن، جلد دوم،بنی اسرائیل،حاشیہ،83،جلد سوم، الروم ،حاشیہ،69 ، جلد چہارم، لقمان، حاشیہ 55، المومن، حاشیہ۔11، الشوریٰ، حاشیہ 54۔

14. یعنی سمندر میں تجارت، ماہی گیری، غواصی، جہاز رانی اور دوسرے ذرائع سے رزق حلال کرنے کی کوشش کرو۔

15. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، ابراہیم،حاشیہ،44، جلد چہارم، لقمان، حاشیہ 35۔

16. اس فقرے کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ کا یہ عطیہ دنیا کے بادشاہوں کا سا عطیہ نہیں ہے جو رعیت سے حاصل کیا ہوا مال رعیت ہی میں سے کچھ لوگوں کو بخش دیتے ہیں، بلکہ کائنات کی ساری نعمتیں اللہ کی اپنی پیدا کردہ ہیں اور اس نے اپنی طرف سے یہ انسان کو عطا فرمائی ہیں۔ دوسرے یہ کہ نہ ان کی نعمتوں کے پیدا کرنے میں کوئی اللہ کا شریک، نہ انہیں انسان کے لیے مسخر کرنے میں کسی اور ہستی کا کوئی دخل، تنہا اللہ ہی ان کا خالق بھی ہے اور اسی نے اپنی طرف سے وہ انسان کو عطا کی ہیں۔

17. یعنی اس تسخیر میں اور ان چیزوں کو انسان کے لیے نافع بنانے میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔ یہ نشانیاں اس حقیقت کی طرف کھلا کھلا اشارہ کر رہی ہیں کہ زمین سے لے کر آسمانوں تک کائنات کی تمام اشیاء اور قوتوں کا خالق و مالک اور مدبر و منتظم ایک ہی خدا ہے جس نے ان کو ایک قانون کا تابع بنا رکھا ہے۔ اور وہی خدا انسان کا رب ہے جس نے اپنی قدرت اور حکمت اور رحمت سے ان تمام اشیاء اور قوتوں کو انسان کی زندگی،اس کی معیشت، اس کی آسائش، اس کی ترقی اور اس کی تہذیب و تمدن کے لیے ساز گار و مدد گار بنایا ہے۔ اور تنہا وہی خدا انسان کی عبودیت اور شکر گزاری اور نیاز مندی کا مستحق ہے نہ کہ کچھ دوسری ہستیاں جن کے نہ ان اشیاْ اور قوتوں کے پیدا کرنے میں کوئی حصہ، نہ انہیں انسان کے لیے مسخر کرنے اور نافع بنانے میں کوئی دخل۔

18. اصل لفاظ ہیں اَ لَّذِیْنَ لَا یَرْ جُوْنَ اَیَّا مَ اللہِ۔ لفظی ترجمہ یہ ہو گا کہ ’’ جو لوگ اللہ کے دنوں کی توقع نہیں رکھتے ‘‘۔ لیکن عربی محاورے میں ایسے مواقع پر ایام سے مراد محض دن نہیں بلکہ وہ یادگار دن ہوتے ہیں جن میں اہم تاریخی واقعات پیش آئے ہوں۔ مثلاً ایام العرب کا لفظ تاریخ عرب کے اہم واقعات اور قبائل عرب کی ان بڑی بڑی لڑائیوں کے لیے بولا جاتا ہے جنہیں بعد کی نسلیں صدیوں تک یاد کرتی رہی ہیں۔ یہاں ایام اللہ سے مراد کسی قوم کے وہ برے دن ہیں جب اللہ کا غضب اس پر ٹوٹ پڑے اور اپنے کرتوتوں کی پاداش میں وہ تباہ کر کے رکھ دی جائے۔ اسی معنی کے لحاظ سے ہم نے اس فقرے کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ ’’ جو لوگ اللہ کی طرف سے برے دن آنے کا کوئی اندیشہ نہیں رکھتے،‘‘ یعنی جن کو یہ خیال نہیں ہے کہ کبھی وہ دن بھی آئے گا جب ہمارے ان افعال پر ہماری شامت آئے گی، اور اسی غفلت نے ان کو ظلم و ستم پر دلیر کر دیا ہے۔

19. مفسرین نے اس آیت کے دو مطلب بیان کیے ہیں، اور آیت کے الفاظ میں دونوں معنوں کی گنجائش ہے۔ ایک یہ کہ اہل ایمان اس ظالم گروہ کی زیادتیوں پر در گزر سے کام لیں تاکہ اللہ ان کو اپنی طرف سے ان کے صبر و حلم اور ان کی شرافت کی جزا دے اور راہ خدا میں جو اذیتیں انہوں نے برداشت کی ہیں ان کا اجر عطا فرمائے۔

دوسرا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان اس گروہ سے درگزر کریں تاکہ اللہ خود اس کی زیادتیوں کا بدلہ اسے دے۔

بعض مفسرین نے اس آیت کو منسوخ قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ حکم اس وقت تک تھا جب تک مسلمانوں کو جنگ کی اجازت نہ دی گئی تھی۔ پھر جب اس کی اجازت آ گئی تو یہ حکم منسوخ ہو گیا۔ لیکن آیت کے الفاظ پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نسخ کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے۔ ’’ در گزر‘‘ کا لفظ اس معنی میں کبھی نہیں بولا جاتا کہ جب آدمی کسی کی زیادتیوں کا بدلہ لینے پر قادر نہ ہو تو اس سے درگزر کرے، بلکہ اس موقع پر صبر، تحمل اور برداشت کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان الفاظ کو چھوڑ کر جب یہاں در گزر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے تو اس سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اہل ایمان انتقام کی قدرت رکھنے کے باوجود ان لوگوں کی زیادتیوں کا جواب دینے سے پرہیز کریں جنہیں خدا سے بے خوفی نے اخلاق و آدمیت کی حدیں توڑ ڈالنے پر جری کر دیا ہے۔ اس حکم کا کوئی تعارض ان آیات سے نہیں ہے جن میں مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دی گئی ہے۔ جنگ کی اجازت کا تعلق اس حالت سے ہے جب مسلمانوں کی حکومت کسی کافر قوم کے خلاف باقاعدہ کار روائی کرنے کی کوئی معقول وجہ پائے۔ اور عفو و درگزر کا حکم ان عام حالات کے لیے ہے جن میں اہل ایمان کو خدا سے بے خوف لوگوں کے ساتھ کسی نہ کسی طرح سے سابقہ پیش آئے اور وہ انہیں اپنی زبان و قلم اور اپنے برتاؤ سے طرح طرح کی اذیتیں دیں۔ اس حکم کا مقصود یہ ہے کہ مسلمان اپنے مقام بلند سے نیچے اتر کر ان پست اخلاق لوگوں سے الجھنے اور جھگڑنے اور ان کی ہر بیہودگی کا جواب دینے پر نہ اتر آئیں۔جب تک شرافت اور معقولیت کے ساتھ کسی الزام یا اعتراض کا جواب دینا یا کسی زیادتی کی مدافعت کرنا ممکن ہو، اس سے پرہیز نہ کیا جائے۔ مگر جہاں بات ان حدود سے گزرتی نظر آئے وہاں چپ سادھ لی جائے اور معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا جائے۔ مسلمان ان سے خود الجھیں گے تو اللہ ان سے نمٹنے کے لیے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دے گا۔ در گزر سے کام لیں گے تو اللہ خود ظالموں سے نمٹے گا اور مظلوموں کو ان کے تحمل کا اجر عطا فرمائے گا۔

20. حکم سے مراد تین چیزیں ہیں۔ ایک، کتاب کا علم و فہم اور دین کی سمجھ۔ دوسرے، کتاب کے منشا کے مطابق کام کرنے کی حکمت۔ تیسرے، معاملات میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت۔

21. یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے انہیں تمام دنیا والوں پر فضیلت عطا کر دی، بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اس زمانے میں دنیا کی تمام قوموں میں سے بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے اس خدمت کے لیے چن لیا تھا کہ وہ کتاب اللہ کے حامل ہوں اور خدا پرستی کے علمبردار بن کر اٹھیں۔

22. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول،البقرۃ،حاشیہ،230،آل عمران،حواشی،17،180 ۔ جلد چہارم، الشوریٰ، حواشی نمبر 22۔23۔

23. مطلب یہ ہے کہ جو کام پہلے بنی اسرائیل کے سپرد کیا گیا تھا وہ اب تمہارے سپرد کیا گیا ہے۔ انہوں نے علم پا نے کے باوجود اپنی نفسا نفسی سے دین میں ایسے اختلافات بر پا کیے، اور آپس میں ایسی گروہ بندیاں کر ڈالیں جن سے وہ اس قابل نہ رہے کہ دنیا کو خدا کے راستے پر بلا سکیں۔ اب اسی دین کی صاف شاہراہ پر تمہیں کھڑا کیا گیا ہے تا کہ تم وہ خدمت انجام دو جسے بنی اسرائیل چھوڑ بھی چکے ہیں اور ادا کرنے کے اہل بھی نہیں رہے ہیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد چہارم، الشوریٰ، آیات 13 تا 15 مع حواشی 20 تا 26 )

24. یعنی اگر تم انہیں راضی کرنے کے لیے اللہ کے دین میں کسی قسم کا رد و بدل کرو گے تو اللہ کے مواخذہ سے وہ تمہیں نہ بچا سکیں گے۔

25. مطلب یہ ہے کہ یہ کتاب اور یہ شریعت دنیا کے تمام انسانوں کے لیے وہ روشنی پیش کرتی ہے جو حق اور باطل کا فرق نمایاں کرنے والی ہے۔ مگر اس سے ہدایت وہی لوگ پاتے ہیں جو اس کی صداقت پر یقین لائیں، اور انہی کے حق میں یہ رحمت ہے۔

26. توحید کی دعوت کے بعد اب یہاں سے آخرت پر کلام شروع ہو رہا ہے۔

27. یہ آخرت کے بر حق ہونے پر اخلاقی استدلال ہے۔ اخلاق میں خیر و شر اور اعمال میں نیکی و بدی کے فرق کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اچھے اور برے لوگوں کا انجام یکساں نہ ہو، بلکہ اچھوں کو ان کی اچھائی کا اچھا بدلہ ملے اور برے اپنی برائی کا برا بدلہ پائیں۔یہ بات اگر نہ ہو، اور نیکی و بدی کا نتیجہ ایک ہی جیسا ہو تو سرے سے اخلاق میں خوبی و زشتی کی تمیز ہی بے معنی ہو جاتی ہے اور خدا پر بے انصافی کا الزام عائد ہوتا ہے۔جو لوگ دنیا میں بدی کی راہ چلتے ہیں وہ تو ضرور یہ چاہتے ہیں کہ کوئی جزا و سزا نہ ہو، کیونکہ یہ تصور ہی ان کے عیش کو منغّص کر دینے والا ہے۔لیکن خداوند عالم کی حکمت اور اس کے عدل سے یہ بات بالکل بعید ہے کہ وہ نیک و بد سے ایک جیسا معاملہ کرے اور کچھ نہ دیکھے کہ مومن صالح نے دنیا میں کس طرح زندگی بسر کی ہے اور کافر و فاسق یہاں کیا گل کھلاتا رہا ہے۔ ایک شخص عمر بھر اپنے اوپر اخلاق کی پابندیاں لگائے رہا۔ حق والوں کے حق ادا کرتا رہا۔ نا جائز فائدوں اور لذتوں سے اپنے آپ کو محروم کیے رہا۔ اور حق و صداقت کی خاطر طرح طرح کے نقصانات برداشت کرتا رہا۔ دوسرے شخص نے اپنی خواہشات ہر ممکن طریقے سے پوری کیں، نہ خدا کا حق پہچانا اور نہ بندوں کے حقوق پر دست درازی کرنے سے باز آیا۔ جس طرح سے بھی اپنے لیے فائدے اور لذتیں سمیٹ سکتا تھا، سمیٹتا چلا گیا۔ کیا خدا سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ ان دونوں قسم کے آدمیوں کی زندگی کے اس فرق کو وہ نظر انداز کر دے گا؟ مرتے دم تک جن کا جینا یکساں نہیں رہا ہے، موت کے بعد اگر ان کا انجام یکساں ہو تو خدا کی خدائی میں اس سے بڑھ کر اور کیا بے انصافی ہو سکتی ہے؟(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم،یونس،حواشی،9،10،ہود،حاشیہ،106،النحل،حاشیہ،35،جلد سوم،الحج،حاشیہ،9،النمل ،حاشیہ،86،الروم،حواشی،6تا8، جلد چہارم، تفسیر سورہ،صٓ، آیت 28۔ حاشیہ نمبر 30)