15. یہ ان دلائل میں سے ایک ہے جو قریش کے سردار عوام الناس کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف بہکا نے کیے لیے استعمال کر تے تھے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ اگر یہ قرآن بر حق ہوتا اور محمد( صلی اللہ علیہ و سلم) ایک صحیح بات کی طرف دعوت دے رہے ہوتے تو قوم کے سردار اور شیو خ اور معز ز ین آگے بڑ ھ کر اس کو قبول کرتے۔ آخر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ چند نا تجربہ کار لڑکے اور چند ادنی درجہ کے غلام تو ایک معقول بات کو مان لیں اور قوم کے بڑے بڑ ے لوگ، جو دانا اور جہاندیدہ ہیں، اور جن کی عقل و تدبیر پر آ ج تک قوم اعتماد کر تی رہی ہے، اس کو رد کر دیں۔ اس پر فریب استدلال سے وہ عوام کو مطمئن کرنے کی کو شش کرتے تھے کہ اس نئی دعوت میں خرابی ہے، اسی لیے تو قوم کے اکابر اس کو نہیں مان رہے ہیں، لہذا تم لو گ بھی اس سے دور بھا گو۔
16. یعنی ان لوگوں نے اپنے آپ کو حق و باطل کا معیار قرار دے رکھا ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ جس ہدایت کو یہ قبول نہ کریں وہ ضرور ضلالت ہی ہونی چاہیے۔ لیکن یہ اسے ’’ نیا جھوٹ‘‘ کہنے کی ہمت نہیں رکھتے، کیونکہ اس سے پہلے بھی انبیاء علیہم السلام یہی تعلیمات پیش کرتے رہے ہیں، اور تمام کتب آسمانی جو اہل کتاب کے پاس موجود ہیں، ان ہی عقائد اور ان ہی ہدایات سے بھری ہوئی ہیں۔ اس لیے یہ اسے ’’پرانا جھوٹ‘‘ کہتے ہیں۔ گویا ان کے نزدیک وہ سب لوگ بھی دانائی سے محروم تھے جو ہزاروں برس سے ان حقائق کو پیش کرتے اور مانتے چلے آ رہے ہیں، اور تمام دانائی صرف انکے حصے میں آ گئی ہے۔
17. یعنی ان لوگوں کو انجام بد سے خبردار کر دے جو اللہ سے کفر اور غیر اللہ کی بندگی کر کے اپنے اوپر اور حق و صداقت پر ظلم کر رہے ہیں، اور اپنی اس گمراہی کی وجہ سے اخلاق اور اعمال کی ان برائیوں میں مبتلا ہیں جن سے انسانی معاشرہ طرح طرح کے مظالم اور بے انصافیوں سے بھر گیا ہے۔
18. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، حٰم السجدہ، حاشیہ نمبر 33 تا 35۔
19. یہ آیت اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اگرچہ اولاد کو ماں اور باپ دونوں ہی کی خدمت کرنی چاہیے، لیکن ماں کا حق اپنی اہمیت میں اس بنا پر زیادہ ہے کہ وہ اولاد کے لیے زیادہ تکلیفیں اٹھاتی ہے۔ یہی بات اس حدیث سے معلوم ہوتی ہے جو تھوڑے سے لفظی اختلاف کے ساتھ بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ، مسند احمد، اور امام بخاری کی ادب المفرد میں وارد ہوئی ہے کہ ایک صاحب نے حضورؐ سے پوچھا کس کا حق خدمت مجھ پر زیادہ ہے؟ فرمایا تیری ماں کا۔ انہوں نے پوچھا اس کے بعد کون؟ فرمایا تیری ماں۔ انہوں نے پوچھا اس کے بعد کون؟ فرمایا تیری ماں۔ انہوں نے پوچھا اس کے بعد کون؟ فرمایا تیرا باپ۔ حضورؐ کا یہ ارشاد ٹھیک ٹھیک اس آیت کی ترجمانی ہے، کیونکہ اس میں بھی ماں کے تہرے حق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے : (1) اس کی ماں نے اسے مشقت اٹھا کر پیٹ میں رکھا۔ (2) مشقت اٹھا کر اس کو جنا۔(3) اور اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں 30 مہینے لگ گئے۔
اس آیت، اور سورہ لقمان کی آیت 14، اور سورہ بقرہ کی آیت 233 سے ایک اور قانونی نکتہ بھی نکلتا ہے جس کی نشان دہی ایک مقدمے میں حضرت علیؓ اور حضرت ابن عباس نے کی اور حضرت عثمانؓ نے اسی کی بنا پر اپنا فیصلہ بدل دیا۔ قصہ یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ایک شخص نے قبیلہ جُہیَنہ کی ایک عورت سے نکاح کیا اور شادی کے چھ مہینے بعد اس کے ہاں صحیح و سالم بچہ پیدا ہو گیا۔ اس شخص نے حضرت عثمان کے سامنے لا کر یہ معاملہ پیش کر دیا۔ آپ نے اس عورت کو زانیہ قرار دے کر حکم دیا کہ اسے رجم کر دیا جائے۔ حضرت علیؓ نے یہ قصہ سنا تو فوراً حضرت عثمانؓ کے پاس پہنچے اور کہا یہ آپ نے کیا فیصلہ کر دیا؟ انہوں نے جواب دیا کہ نکاح کے چھ مہینے بعد اس نے زندہ سلامت بچہ جن دیا، یہ اس کے زانیہ ہونے کا کھلا ثبوت نہیں ہے۔؟ حضرت علیؓ نے فرمایا نہیں۔ پھر انہوں نے قرآن مجید کی مذکورہ بالا تینوں آیتیں ترتیب کے ساتھ پڑھیں۔سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’ مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں اس باپ کے لیے جو رضاعت کی پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے۔’’ سورہ لقمان میں فرمایا ’’ اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے۔‘‘ اور سورہ احقاف میں فرمایا ’’ اس کے حمل اور اس کا دودھ چھڑانے میں تیس مہینے لگے‘‘۔ اب اگر تیس مہینوں میں سے رضاعت کے دو سال نکال دیے جائیں تو حمل کے چھ مہینے رہ جاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ حمل کی کم سے کم مدت، جس میں زندہ سلامت بچہ پیدا ہو سکتا ہے، چھ مہینے ہے۔ لہٰذا جس عورت نے نکاح کے چھ مہینے بعد بچہ جنا ہو اسے زانیہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ حضرت علیؓ کا یہ استدلال سن کر حضرت عثمانؓ نے فرمایا اس بات کی طرف میرا ذہن بالکل نہ گیا تھا۔ پھر آپ نے عورت کو واپس بلوایا اور اپنا فیصلہ بدل دیا۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت علیؓ کے استدلال کی تائید حضرت ابن عباسؓ نے بھی کی اور اس کے بعد حضرت عثمانؓ نے اپنے فیصلے سے رجوع فرما لیا (ابن جریر، احکام القرآن للجصاص، ابن کثیر)۔
ان تینوں آیات کو ملا کر پڑھنے سے جو قانونی احکام نکلتے ہیں وہ یہ ہیں :
(1)جو عورت نکاح کے چھ مہینے سے کم مدت میں صحیح و سالم بچہ (یعنی وہ اسقاط نہ ہو بلکہ وضع حمل ہو) وہ زانیہ قرار پائے گی اور اس کے بچے کا نسب اس کے شوہر سے ثابت نہ ہو گا۔
(2) جو عورت نکاح کے چھ مہینے بعد یا اس سے زیادہ مدت میں زندہ سلامت بچہ جنے اس پر زنا کا الزام محض اس ولادت کی بنیاد پر نہیں لگایا جا سکتا، نہ اس کے شوہر کو اس پر تہمت لگانے کا حق دیا جا سکتا ہے، اور نہ اس کا شوہر بچے کے نسب سے انکار کر سکتا ہے۔ بچہ لازماً اسی کا مانا جائے گا، اور عورت کو سزا نہ دی جائے گی۔
(3) رضاعت کی زیادہ سے زیادہ مدت دو سال ہے۔ اس عمر کے بعد اگر کسی بچے نے کسی عورت کا دودھ پیا ہو تو وہ اس کی رضاعی ماں قرار نہیں پائے گی اور نہ وہ احکام رضاعت اس پر مترتب ہوں گے جو سورہ نساء آیت 23 میں بیان ہوئے ہیں۔ اس معاملہ میں امام ابو حنیفہ نے بر سبیل احتیاط دو سال کے بجائے ڈھائی سال کی مدت تجویز کی ہے تاکہ حرمت رضاعت جیسے نازک مسئلے میں خطا کر جانے کا احتمال باقی نہ رہے۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم، سورہ لقمان حاشیہ نمبر 23)
اس مقام پر یہ جان لینا فائدہ سے خالی نہ ہو گا کہ جدید ترین طبی تحقیقات کی رو سے ماں کے پیٹ میں ایک بچہ کو کم از کم 28 ہفتے درکار ہوتے ہیں جن میں وہ نشو و نما پاکر زندہ ولادت کے قابل ہو سکتا ہے۔ یہ مدت ساڑھے چھ مہینے سے زیادہ بنتی ہے۔ اسلامی قانون میں نصف مہینے کے قریب مزید رعایت دی گئی ہے، کیونکہ ایک عورت کا زانیہ قرار پانا اور ایک بچہ کا نصب سے محروم ہو جانا بڑا سخت معاملہ ہے اور اس کی نزاکت یہ تقاضہ کرتی ہے کہ ماں اور بچے دونوں اس کے قانونی نتائج سے بچانے کے لیے زیادہ سے زیادہ گنجائش دی جائے۔ علاوہ بریں کسی طبیب، قاضی حتی کہ خود حاملہ عورت اسے بارور کرنے والے مرد کو بھی ٹھیک ٹھیک یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ استقرار حمل کس وقت ہوا ہے۔ یہ بات بھی اس امر کی متقاضی ہے کہ حمل کی کم سے کم قانونی مدت کے تعین میں چند روز کی مزید گنجائش رکھی جائے۔
20. یعنی مجھے ایسے نیک عمل کی توفیق دے جو اپنے ظاہری صورت میں بھی ٹھیک ٹھیک تیرے قانون کے مطابق ہو، اور حقیقت میں بھی تیرے ہاں مقبول ہونے کے لائق ہو۔ ایک عمل اگر دنیا والوں کے نزدیک بڑا اچھا ہو، مگر خدا کے قانون کی پیروی اس میں نہ کی گئی ہو تو دنیا کے لوگ اس پر کتنی ہی داد دیں، خدا کے ہاں وہ کسی داد کا مستحق نہیں ہو سکتا۔ دوسری طرف ایک عمل ٹھیک ٹھیک شریعت کے مطابق ہوتا ہے اور بظاہر اس کی شکل میں کوئی کسر نہیں ہوتی، مگر نیت کی خرابی، ریا، خود پسندی، فخر و غرور، اور دنیا طلبی اس کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے اور وہ بھی ا س قابل نہیں رہتا ہے کہ اللہ کے ہاں مقبول ہو۔
21. یعنی دنیا میں انہوں نے جو بہتر سے بہتر عمل کیا ہے آخرت میں ان کا درجہ اسی کے لحاظ سے مقرر کیا جائے گا۔ اور ان کی لغزشوں، کمزوروں اور خطاؤں پر گرفت نہیں کی جائے گی یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایک کریم النفس اور قدر شناس آقا اپنے خدمت گذار اور وفادار ملازم کی قدر اس کی چھوٹی چھوٹی خدمات کے لحاظ سے نہیں بلکہ اس کی کسی ایسی خدمت کے لحاظ سے کرتا ہے جس میں اس نے کوئی بڑا کارنامہ انجام دیا ہو، یا جانثاری یا وفاشعاری کا کمال کر دکھایا ہو۔ اور ایسے خادم کے ساتھ وہ یہ معاملہ نہیں کیا کرتا کہ اس کی ذرا ذرا سی کوتاہیوں پر گرفت کر کے اس کی ساری خدمات پر پانی پھیر دے۔
22. یہاں دو طرح کے کردار آمنے سامنے رکھ کر گویا یہ سامعین کے سامنے یہ خاموش سوال رکھ دیا گیا ہے کہ بتاؤ، ان دونوں میں سے کونسا کردار بہتر ہے۔ اس وقت یہ دونوں ہی کردار معاشرے میں عملاً موجود تھے اور لوگوں کے لیے یہ جاننا کچھ بھی مشکل نہ تھا کہ پہلی قسم کا کردار کہاں پایا جاتا ہے اور دوسری قسم کا کہاں۔ یہ جواب ہے سرداران قریش کے اس قول کا اگر اس کتاب کو مان لینا کوئی اچھا کام ہوتا تو یہ چند نوجوان اور چند غلام اس معاملہ میں ہم سے بازی نہ لے جا سکتے تھے۔ اس جواب کے آئینہ میں ہر شخص خود دیکھ سکتا تھا کہ ماننے والوں کا کردار کیا ہے اور نہ ماننے والوں کا کیا۔
23. یعنی نہ اچھے لوگوں کی نیکیاں اور قربانیاں ضائع ہوں گی اور نہ برے لوگوں کو ان کی برائی سے بڑھ کر سزا دی جائے گی۔ نیک آدمی اگر اپنے اجر سے محروم رہ جائے، یا اپنے حقیقی استحقاق سے کم اجر پائے تو یہ بھی ظلم ہے، اور برا آدمی اپنے کیے کی سزا نہ پائے یا جتنا کچھ قصور اس نے کیا ہے اس سے زیادہ سزا پائے تو یہ بھی ظلم ہے۔
24. ذلت کا عذاب اس تکبر کی مناسبت سے ہے جو انہوں نے کیا۔ وہ اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ رسول پر ایمان لا کر غریب اور فقیر مومنوں کے گروہ میں شامل ہو جانا ان کی شان سے گری ہوئی بات ہے۔ وہ اس زعم میں مبتلا تھے کہ جس چیز کو چند غلاموں اور بے نوا انسانوں نے مانا ہے اسے ہم جیسے بڑے لوگ مان لیں گے تو ہماری عزت کو بٹا لگ جائے گا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ ان کو آخرت میں ذلیل و خوار کرے گا اور ان کے غرور کو خاک میں ملا کررکھ دے گا۔