32. یعنی ان ہستیوں کے ساتھ عقیدت کی ابتداء تو انہوں نے اس خیال سے کی تھی کہ یہ خدا کے مقبول بندے ہیں، ان کے وسیلے سے خدا کے ہاں ہماری رسائی ہو گی۔ مگر بڑھتے بڑھتے انہوں نے خود انہی ہستیوں کو معبود بنا لیا، ان ہی کو مدد کے لیے پکارنے لگے، انہی سے دعائیں مانگنے لگے، اور ان ہی کے متعلق یہ سمجھ لیا کہ یہ صاحبِ تصرُّف ہیں، ہماری فریاد رسی و مشکل کشائی یہی کریں گے۔ اس گمراہی سے ان کو نکالنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات اپنے رسولوں کے ذریعہ سے بھیج کر طرح طرح سے ان کو سمجھانے کی کوشش کی، مگر وہ اپنے ان جھوٹے خداؤں کی بندگی پر اڑے رہے اور اصرار کیے چلے گیے کہ ہم اللہ کے بجائے ان ہی کا دامن تھامے رہیں گے۔ اب بتاؤ ان مشرک قوموں پر جب ان کی گمراہی کی وجہ سے اللہ کا عذاب آیا تو ان کے وہ فریاد رس اور مشکل کشا معبود کہاں مر رہے تھے؟ کیوں نہ اس برے وقت میں وہ ان کی دست گیری کو آئے۔
33. اس آیت کی تفسیر میں جو روایات حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت زبیر، حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرات حسن بصری، سعید بن حبیر، زر بن حبیش، مجاہد، عکرمہ اور دوسرے بزرگوں سے منقول ہیں وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ جنوں کی پہلی حاضری کا واقعہ، جس کا اس آیت میں ذکر ہے، بطن نخلہ میں پیش آیا تھا۔ اور ابن اسحاق، ابو نعیم اصفہانی اور واقدی کا بیان ہے کہ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم طائف سے مایوس ہو کر مکہ معظمہ کی طرف واپس ہوئے تھے۔ راستہ میں آپ نے نخلہ میں قیام کیا۔ وہاں عشاء یا فجر یا تہجد کی نماز میں آپ قرآن کی تلاوت فرما رہے تھے کہ جنوں کے ایک گروہ کا ادھر سے گزر ہوا اور وہ آپ کی قرأت سننے کے لیے ٹھہر گیا۔ اس کے ساتھ تمام روایات اس بات پر بھی متفق ہیں کہ اس موقع پر جن حضور کے سامنے نہیں تھے، نہ آپ نے ان کی آمد کو محسوس فرمایا تھا بلکہ بعد میں اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے آپ کو ان کے آنے اور قرآن سننے کی خبر دی۔
یہ مقام جہاں یہ واقعہ پیش آیا، یا تو الزیمہ تھا، یا السیل الکبیر، کیونکہ یہ دونوں مقام وادی نخلہ میں واقع ہیں، دونوں جگہ پانی اور سرسبزی موجود ہے اور طائف سے آنے والوں کو اگر اس وادی میں پڑاؤ کرنے کی ضرورت پیش آئے تو وہ ان ہی دونوں میں سے کسی جگہ ٹھہر سکتے ہیں۔ نقشے میں ان مقامات کا موقع ملاحظہ ہو۔
34. اس سے معلوم ہوا کہ یہی جن پہلے سے حضرت موسیٰ اور کتب آسمانی پر ایمان لائے ہوئے تھے۔ قرآن سننے کے بعد انہوں نے محسوس کیا کہ یہ وہی تعلیم ہے جو پچھلے انبیاء دیتے چلے آ رہے ہیں۔ اس لیے وہ اس کتاب اور اس کے لانے والے رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر بھی ایمان لے آئے۔
35. معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد جنوں کے پے درپے وفود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس حاضر ہونے لگے اور آپ سے ان کی رو در رو ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ اس بارے میں جو روایات کتب حدیث میں منقول ہوئی ہیں ان کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت سے پہلے مکہ معظمہ میں کم از کم چھ وفد آئے تھے۔
ان میں سے ایک وفد کے متعلق حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مکہ میں رات بھر غائب رہے۔ ہم لوگ سخت پریشان تھے کہ کہیں آپ پر کوئی حملہ نہ کر دیا گیا ہو۔ صبح سویرے ہم نے آپ کو حراء کی طرف سے آتے ہوئے دیکھا۔ پوچھنے پر آپ نے بتایا کہ ایک جن مجھے بلانے آیا تھا۔ میں نے اس کے ساتھ آ کر یہاں جنوں کے ایک گروہ کو قرآن سنایا۔ (مسلم۔ مسند احمد۔ ترمذی۔ ابوداؤد)
حضرت عبداللہ بن مسعود ہی کی ایک اور روایت ہے کہ ایک مرتبہ مکہ میں حضور نے صحابہ سے فرمایا کہ آج رات تم میں سے کون میرے ساتھ جنوں کی ملاقات کے لیے چلتا ہے؟ میں آپ کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہو گیا۔ مکہ کے بالائی حصہ میں ایک جگہ حضور نے لکیر کھینچ کر مجھ سے فرمایا کہ اس سے آگے نہ بڑھنا۔ پھر آپ آگے تشریف لے گئے اور کھڑے ہو کر قرآن پڑھنا شروع کیا۔میں نے دیکھا کہ بہت سے اشخاص ہیں جنہوں نے آپ کو گھیر رکھا ہے اور وہ میرے اور آپ کے درمیان حائل ہیں۔ )ابن جریر۔ بیہقی۔ دلائل النبوۃ۔ابونعیم اصفہانی، دلائل النبوہ)
ایک اور موقع پر بھی رات کے وقت حضرت عبداللہ بن مسعود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھے اور مکہ معظمہ میں حجون کے مقام پر جنوں کے ایک مقدمہ کا آپ نے فیصلہ فرمایا۔ اس کے سالہا سال بعد ابن مسعودؓ نے کوفہ میں جاٹوں کے ایک گروہ کو دیکھ کر کہا حجون کے مقام پر جنوں کے جس گروہ کو میں نے دیکھا تھا وہ ان لوگوں سے بہت مشابہ تھا۔ (ابن جریر)
36. ہو سکتا ہے کہ یہ فقرہ بھی جنوں ہی کے قول کا حصہ ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ان کے قول پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اضافہ ہو۔ فحوائے کلام سے دوسری بات زیادہ قرین قیاس محسوس ہوتی ہے۔
37. یعنی جس طرح تمہارے پیش رو انبیاء اپنی قوم کی بے رخی، مخالفت، مزاحمت اور طرح طرح کی ایذا رسانیوں کا مقابلہ سالہا سال تک مسلسل صبر اور ان تھک جدوجہد کے ساتھ کرتے رہے اسی طرح تم بھی کرو، اور یہ خیال دل میں نہ لاؤ کہ یا تو یہ لوگ جلدی سے ایمان لے آئیں یا پھر اللہ تعالیٰ ان پر عذاب نازل کر دے۔