Tafheem ul Quran

Surah 47 Muhammad, Ayat 12-19

اِنَّ اللّٰهَ يُدۡخِلُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ​ ؕ وَالَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا يَتَمَتَّعُوۡنَ وَيَاۡكُلُوۡنَ كَمَا تَاۡكُلُ الۡاَنۡعَامُ وَالنَّارُ مَثۡوًى لَّهُمۡ‏ ﴿47:12﴾ وَكَاَيِّنۡ مِّنۡ قَرۡيَةٍ هِىَ اَشَدُّ قُوَّةً مِّنۡ قَرۡيَتِكَ الَّتِىۡۤ اَخۡرَجَتۡكَ​ۚ اَهۡلَكۡنٰهُمۡ فَلَا نَاصِرَ لَهُمۡ‏ ﴿47:13﴾ اَفَمَنۡ كَانَ عَلٰى بَيِّنَةٍ مِّنۡ رَّبِّهٖ كَمَنۡ زُيِّنَ لَهٗ سُوۡٓءُ عَمَلِهٖ وَاتَّبَعُوۡۤا اَهۡوَآءَهُمۡ‏ ﴿47:14﴾ مَثَلُ الۡجَـنَّةِ الَّتِىۡ وُعِدَ الۡمُتَّقُوۡنَ​ؕ فِيۡهَاۤ اَنۡهٰرٌ مِّنۡ مَّآءٍ غَيۡرِ اٰسِنٍ​ ۚ وَاَنۡهٰرٌ مِّنۡ لَّبَنٍ لَّمۡ يَتَغَيَّرۡ طَعۡمُهٗ ​ۚ وَاَنۡهٰرٌ مِّنۡ خَمۡرٍ لَّذَّةٍ لِّلشّٰرِبِيۡنَ ۚ وَاَنۡهٰرٌ مِّنۡ عَسَلٍ مُّصَفًّى​ ؕ وَلَهُمۡ فِيۡهَا مِنۡ كُلِّ الثَّمَرٰتِ وَمَغۡفِرَةٌ مِّنۡ رَّبِّهِمۡ​ؕ كَمَنۡ هُوَ خَالِدٌ فِى النَّارِ وَسُقُوۡا مَآءً حَمِيۡمًا فَقَطَّعَ اَمۡعَآءَهُمۡ‏ ﴿47:15﴾ وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ يَّسۡتَمِعُ اِلَيۡكَ​ۚ حَتّٰٓى اِذَا خَرَجُوۡا مِنۡ عِنۡدِكَ قَالُوۡا لِلَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ مَاذَا قَالَ اٰنِفًا​​ اُولٰٓـئِكَ الَّذِيۡنَ طَبَعَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوۡبِهِمۡ وَ اتَّبَعُوۡۤا اَهۡوَآءَهُمۡ‏ ﴿47:16﴾ وَالَّذِيۡنَ اهۡتَدَوۡا زَادَهُمۡ هُدًى وَّاٰتٰٮهُمۡ تَقۡوٰٮهُمۡ‏ ﴿47:17﴾ فَهَلۡ يَنۡظُرُوۡنَ اِلَّا السَّاعَةَ اَنۡ تَاۡتِيَهُمۡ بَغۡتَةً ​ ۚ فَقَدۡ جَآءَ اَشۡرَاطُهَا​​ ۚ فَاَنّٰى لَهُمۡ اِذَا جَآءَتۡهُمۡ ذِكۡرٰٮهُمۡ‏ ﴿47:18﴾ فَاعۡلَمۡ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَاسۡتَغۡفِرۡ لِذَنۡۢبِكَ وَلِلۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ​ ؕ وَاللّٰهُ يَعۡلَمُ مُتَقَلَّبَكُمۡ وَمَثۡوٰٮكُمۡ‏ ﴿47:19﴾

12 - ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو اللہ ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، اور کفر کرنے والے بس دنیا کی چند روزہ زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں، جانوروں کی طرح کھا پی رہے ہیں،17 اور ان کا آخری ٹھکانہ جہنم ہے۔ 13 - اے نبیؐ، کتنی ہی بستیاں ایسی گزر چکی ہیں جو تمہاری اس بستی سے بہت زیادہ زور آور تھیں جس نے تمہیں نکال دیا ہے ۔ انہیں ہم نے اس طرح ہلاک کر دیا کہ کوئی ان کا بچانے والا نہ تھا ۔18 14 - بھلا کہیں ایسا ہو سکتا ہے کہ جو اپنے رب کی طرف سے ایک صاف و صریح ہدایت پر ہو، وہ ان لوگوں کی طرح ہو جا ئے جن کے لیے ان کا برا عمل خوشنما بنا دیا گیا ہے اور وہ اپنی خواہشات کے پیروبن گئے ہیں؟19 15 - پرہیز گاروں کے لیے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان تو یہ ہے کہ اس میں نہریں بہ رہی ہوں گی نِتھرے ہوئے پانی کی ،20 نہریں بہ رہی ہوں گی ایسے دودھ کی جس کے مزے میں ذرا فرق نہ آیا ہوگا،21 نہریں بہہ رہی ہوں گی ایسی شراب کی جو پینے والوں کے لیے لذیز ہو گی ،22 نہریں بہ رہی ہوں گی صاف شفاف شہد کی۔23 اس میں ان کے لیے ہر طرح کے پھل ہوں گے اور ان کے رب کی طرف سے بخشش۔24 (کیا وہ شخص جس کے حصہ میں یہ جنت آنے والی ہے)ان لوگوں کی طرح ہو سکتا ہے جو جہنم میں ہمیشہ رہیں گے اور جنہیں ایسا گرم پانی پلایا جائے گا جو ان کی آنتیں تک کاٹ دے گا؟ 16 - ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو کان لگا کر تمہاری بات سنتے ہیں اور پھر جب تمہارے پاس سے نکلتے ہیں تو ان لوگوں سے جنہیں علم کی نعمت بخشی گئی ہے پوچھتے ہیں کہ ابھی ابھی انہوں نے کیا کہا تھا ؟25 یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ نے ٹھپّہ لگا دیا ہے اور یہ اپنی خواہشات کے پیرو بنے ہوئے ہیں۔26 17 - رہے وہ لوگ جنہوں نے ہدایت پائی ہے، اللہ ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے27 اور انہیں ان کے حصے کا تقوٰی عطا فرماتا ہے۔28 18 - اب کیا یہ لوگ بس قیامت ہی کے منتظر ہیں کہ وہ اچانک ان پر آجائے؟29 اس کی علامات تو آچکی ہیں۔30 جب وہ خود آجائے گی تو ان کے لیے نصیحت قبول کرنے کا کونسا موقع باقی رہ جائے گا؟ 19 - پس اے نبیؐ، خوب جان لو کہ اللہ کےسوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے، اور معافی مانگو اپنے قصور کے لیے بھی اور مومن مردوں اور عورتوں کے لیے بھی۔31 اللہ تمہاری سرگرمیوں کو بھی جانتا ہے اور تمہارے ٹھکانے سے بھی واقف ہے۔ ؏۲


Notes

17. یعنی جس طرح جانور کھا تا ہے اور کچھ نہیں سوچتا کہ یہ رزق کہاں سے آیا ہے، کس کا پیدا کیا ہوا ہے، اور اس رزق کے ساتھ میرے اوپر رازق کے کیا حقوق عائد ہوتے ہیں، اسی طرح یہ لوگ بھی کھائے جا رہے ہیں، چرنے چگنے سے آگے کسی چیز کی انہیں کوئی فکر نہیں ہے۔

18. رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو مکہ سے نکلنے کا رنج تھا۔ جب آپ ہجرت پر مجبور ہوئے تو شہر سے باہر نکل کر آپ نے اس کی طرف رخ کر کے فرمایا تھا ’’اے مکہ، تو دنیا کے تمام شہروں میں خدا کو سب سے زیادہ محبوب ہے، اور خدا کے تمام شہروں میں مجھے سب سے بڑھ کر تجھ سے محبت ہے،۔ اگر مشرکوں نے مجھے نہ نکالا تو میں تجھے چھوڑ کر کبھی نہ نکلتا‘‘۔ اسی پر ارشاد ہو ہے کہ اہل مکہ تمہیں نکال کر اپنی جگہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ انہوں نے کوئی بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ حالانکہ در حقیقت یہ حرکت کر کے انہوں نے اپنی شامت بلائی ہے۔ آیت کا انداز کلام صاف بتا رہا ہے کہ یہ ضرور ہجرت سے متصل ہی نازل ہوئی ہو گی۔

19. یعنی آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ پیغمبر اور اس کے پیروؤں کو جب خدا کی طرف سے ایک صاف اور سیدھا راستہ مل گیا ہے اور پوری بصیرت کی روشنی میں وہ اس پر قائم ہو چکے ہیں، تو اب وہ ان لوگوں کے ساتھ چل سکیں جو اپنی پرانی جاہلیت کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں، جو اپنی ضلالتوں کو ہدایت اور اپنی بد کرداریوں کو خوبی سمجھ رہے ہیں، جو کسی دلیل کی بنا پر نہیں بلکہ محض اپنی خواہشات کی بنا پر یہ فیصلے کرتے ہیں کہ حق کیا ہے اور باطل کیا۔ اب تو نہ اس دنیا میں ان دونوں گروہوں کی زندگی ایک جیسی ہو سکتی ہے اور نہ آخرت میں ان کا انجام یکساں ہو سکتا ہے۔

20. اصل الفاظ ہیں مَاءٍ غیر اٰسنٍ۔ آسِن اس پانی کو کہتے ہیں جس کا مزا اور رنگ بدلا ہوا ہو، یا جس میں کسی طرح کی بو پیدا ہو گئی ہو۔ دنیا میں دریاؤں اور نہروں کے پانی عموماً گدلے ہوتے ہیں ان کے ساتھ ریت، مٹی اور بسا اوقات طرح طرح کی نباتات کے مل جانے سے ان کا رنگ اور مزا بدل جاتا ہے۔ اور کچھ نہ کچھ بو بھی ان میں پائی جاتی ہے۔ اس لیے جنت کے دریاؤں اور نہروں کے پانی کی یہ تعریف بیان کی گئی ہے کہ وہ غیر آسن ہوگا۔ یعنی وہ خالص، صاف ستھرا پانی ہوگا کسی قسم کی آمیزش اس میں نہ ہوگی۔

21. حدیث مرفوع میں اس کی تشریح یہ آئی ہے کہ ’’وہ جانوروں کے تھنوں سے نکلا ہوا دودھ نہ ہوگا‘‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ یہ دودھ چشموں کی شکل میں زمین سے نکالے گا اور نہروں کی شکل میں اسے بہا دے گا۔ ایسا نہ ہوگا کہ جانوروں کے تھنوں سے اس کو نچوڑا جائے اور پھر جنت کی نہروں میں ڈال دیا جائے۔ اس قدرتی دودھ کی تعریف میں بیان کیا گیا ہے کہ ’’اس کے مزے میں ذرا فرق نہ آیا ہوگا،‘‘ یعنی اس کے اندر وہ ذرا سی بِساند بھی نہ ہوگی جو جانور کے تھن سے نکلے ہوئے ہر دودھ میں ہوتی ہے۔

22. حدیث مرفوع میں اس کی تشریح یہ آئی ہے کہ اس شراب کو ’’انسانوں نے اپنے قدموں سے روند کر نہ نچوڑا ہو گا‘‘۔ یعنی وہ دنیا کی شرابوں کی طرح پھلوں کو سڑا کر اور قدموں سے روند کر کشید کی ہوئی نہ ہو گی، بلکہ اللہ تعالیٰ اسے بھی چشموں کی شکل میں پیدا کرے گا اور نہروں کی شکل میں بہا دے گا۔ پھر اس کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے کہ ’’وہ پینے والوں کے لیے لذیذ ہو گی‘‘، یعنی دنیا کی شرابوں کی طرح وہ تلخ اور بو دار نہ ہوگی جسے کوئی بڑے سے بڑا شراب کا رسیا بھی کچھ نہ کچھ منہ بنائے بغیر نہیں پی سکتا۔ سورہ صافات میں اس کی مزید تعریف یہ کی گئی ہے کہ اس کے پینے سے نہ جسم کو کوئی ضرر ہو گا نہ عقل خراب ہوگی (آیت 47)، اور سورہ واقعہ میں فرمایا گیا ہے کہ اس سے نہ دوران سر لاحق ہو گا نہ آدمی بہکے گا(آیت 19)۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ شراب نشہ آور نہ ہو گی بلکہ محض لذت و سرور بخشنے والی ہو گی۔

23. حدیث مرفوع میں اس کی تشریح یہ آئی ہے کہ ’’وہ مکھیوں کے پیٹ سے نکلا ہوا شہد نہ ہوگا‘‘۔ یعنی وہ بھی چشموں سے نکلے گا اور نہروں میں بہے گا۔ اسی لیے اس کے اندر موم اور چھتے کے ٹکڑے اور مری ہوئی مکھیوں کی ٹانگیں ملی ہوئی نہ ہوں گی، بلکہ وہ خالص شہد ہو گا۔

24. جنت کی ان نعمتوں کے بعد اللہ کی طرف سے مغفرت کا ذکر کرنے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ان ساری نعمتوں سے بڑھ کر یہ نعمت ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرما دے گا۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جو کوتاہیاں ان سے ہوئی تھیں ان کا ذکر تک جنت میں کبھی ان کے سامنے نہ آئے گا بلکہ اللہ تعالیٰ ان پر ہمیشہ کے لیے پردہ ڈال دے گا تا کہ جنت میں وہ شرمندہ نہ ہوں۔

25. یہ ان کفار و منافقین اور منکرین اہل کتاب کا ذکر ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں آ کر بیٹھتے تھے اور آپ کے ارشادات، یا قرآن مجید کی آیات سنتے تھے، مگر چونکہ ان کا دل ان مضامین سے دور تھا جو آپ کی زبان مبارک سے ادا ہوتے تھے، اس لیے سب کچھ سن کر بھی وہ کچھ نہ سنتے تھے اور باہر نکل کر مسلمانوں سے پوچھتے تھے کہ ابھی ابھی آپؐ کیا فرما رہے تھے۔

26. یہ تھا وہ اصل سبب جس کی وجہ سے ان کے دل کے کان نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات کے لیے بہرے ہو گئے تھے۔ وہ اپنی خواہشات کے بندے تھے، اور حضور جو تعلیمات پیش فرما رہے تھے وہ ان کی خواہشات کے خلاف تھیں، اس لیے اگر وہ کبھی آپ کی مجلس میں آ کر بتکلف آپ کی طرف کان لگاتے بھی تھے تو ان کے پلے کچھ نہ پڑتا تھا۔

27. یعنی وہی باتیں، جن کو سن کر کفار و منافقین پوچھتے ہیں کہ ابھی ابھی آپ کیا فرما رہے تھے، ہدایت یافتہ لوگوں کے لیے مزید ہدایت کی موجب ہوتی ہیں، اور جس مجلس سے وہ بد نصیب اپنا وقت ضائع کر کے اٹھتے ہیں، اسی مجلس سے یہ خوش نصیب لوگ علم و عرفان کا ایک نیا خزانہ حاصل کر کے پلٹتے ہیں۔

28. یعنی جس تقویٰ کی اہلیت وہ اپنے اندر پیدا کر لیتے ہیں، اللہ تعالیٰ اس کی توفیق انہیں عطا فرما دیتا ہے۔

29. یعنی جہاں تک حق واضح کرنے کا تعلق ہے وہ تو دلائل سے، قرآن کے معجزانہ بیان سے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت پاک سے، اور صحابہ کرام کی زندگیوں کے انقلاب سے، انتہائی روشن طریقے پر واضح کیا جا چکا ہے۔ اب کیا ایمان لانے کے لیے یہ لوگ اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ قیامت ان کے سامنے آ کھڑی ہو؟

30. قیامت کی علامات سے مراد وہ علامات ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی آمد کا وقت اب قریب آ لگا ہے ان میں سے ایک اہم علامت خد اکے آخری نبی کا آ جانا ہے جس کے بعد پھر قیامت تک کوئی اور نبی آنے والا نہیں ہے۔ بخاری، مسلم، ترمذی اور مسند احمد میں حضرت انس، حضرت سہل بن سعد ساعدی، اور حضرت بریدہ کی روایات منقول ہیں کہ حضور نے اپنی انگشت شہادت اور بیچ کی انگلی کھڑی کر کے فرمایا: بُعثتُ انا س السّاعۃ کھَا تین۔ ’’میری بعثت اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح ہیں‘‘۔ یعنی جس طرح ان دو انگلیوں کے درمیان کوئی اور انگلی نہیں ہے، اسی طرح میرے اور قیامت کے درمیان کوئی اور نبی بھی مبعوث ہونے والا نہیں ہے۔ میرے بعد اب بس قیامت ہی آنے والی ہے۔

31. اسلام نے جو اخلاق انسان کو سکھائے ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بندہ اپنے رب کی بندگی و عبادت بجا لانے میں، اور اسے دین کی خاطر جان لڑانے میں، خواہ اپنی حد تک کتنی ہی کوشش کرتا رہا ہو، اس کو کبھی اس زعم میں مبتلا نہ ہونا چاہیے کہ جو کچھ مجھے کرنا چاہیے تھا وہ میں نے کر دیا ہے، بلکہ اسے ہمیشہ یہی سمجھتے رہنا چاہیے کہ میرے مالک کا مجھ پر جو حق تھا وہ میں ادا نہیں کر سکا ہوں، اور ہر وقت اپنے قصور کا اعتراف کر کے اللہ سے یہی دعا کرتے رہنا چاہیے کہ تیری خدمت میں جو کچھ بھی کوتاہی مجھ سے ہوئی ہے اس سے در گزر فرما۔ یہی اصل روح ہے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی کہ ’’اے نبی، اپنے قصور کی معافی مانگو‘‘۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ معاذاللہ، نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فی الواقع جان بوجھ کر کوئی قصور کیا تھا۔ بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ تمام بندگان خدا سے بڑھ کر جو بندہ اپنے رب کی بندگی بجا لانے والا تھا، اس کا منصب بھی یہ نہ تھا کہ اپنے کار نامے پر فخر کا کوئی شائبہ تک اس کے دل میں راہ پائے، بلکہ اس کا مقام بھی یہ تھا کہ اپنے ساری عظیم القدر خدمات کے باوجود اپنے رب کے حضور اعتراف قصور ہی کرتا رہے۔ اسی کیفیت کا اثر تھا جس کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہمیشہ بکثرت استغفار فرماتے رہتے تھے۔ ابوداؤد، نسائی اور مسند احمد کی روایت میں حضور کا یہ ارشاد منقول ہوا ہے کہ ’’میں ہر روز سو بار اللہ استغفار کر تا ہوں‘‘۔