Tafheem ul Quran

Surah 47 Muhammad, Ayat 29-38

اَمۡ حَسِبَ الَّذِيۡنَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ مَّرَضٌ اَنۡ لَّنۡ يُّخۡرِجَ اللّٰهُ اَضۡغَانَهُمۡ‏ ﴿47:29﴾ وَلَوۡ نَشَآءُ لَاَرَيۡنٰكَهُمۡ فَلَعَرَفۡتَهُمۡ بِسِيۡمٰهُمۡ​ؕ وَلَتَعۡرِفَنَّهُمۡ فِىۡ لَحۡنِ الۡقَوۡلِ​ؕ وَاللّٰهُ يَعۡلَمُ اَعۡمَالَكُمۡ‏ ﴿47:30﴾ وَلَـنَبۡلُوَنَّكُمۡ حَتّٰى نَعۡلَمَ الۡمُجٰهِدِيۡنَ مِنۡكُمۡ وَالصّٰبِرِيۡنَ ۙ وَنَبۡلُوَا۟ اَخۡبَارَكُمۡ‏ ﴿47:31﴾ اِنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَصَدُّوۡا عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَشَآقُّوا الرَّسُوۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الۡهُدٰىۙ لَنۡ يَّضُرُّوا اللّٰهَ شَيۡـئًا ؕ وَسَيُحۡبِطُ اَعۡمَالَهُمۡ‏ ﴿47:32﴾ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِيۡعُوا اللّٰهَ وَاَطِيۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَلَا تُبۡطِلُوۡۤا اَعۡمَالَـكُمۡ‏ ﴿47:33﴾ اِنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَصَدُّوۡا عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ ثُمَّ مَاتُوۡا وَهُمۡ كُفَّارٌ فَلَنۡ يَّغۡفِرَ اللّٰهُ لَهُمۡ‏ ﴿47:34﴾ فَلَا تَهِنُوۡا وَتَدۡعُوۡۤا اِلَى السَّلۡمِ​ۖ وَاَنۡـتُمُ الۡاَعۡلَوۡنَ​ۖ وَاللّٰهُ مَعَكُمۡ وَلَنۡ يَّتِـرَكُمۡ اَعۡمَالَـكُمۡ‏ ﴿47:35﴾ اِنَّمَا الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَا لَعِبٌ وَّلَهۡوٌ​ ؕ وَاِنۡ تُؤۡمِنُوۡا وَتَتَّقُوۡا يُؤۡتِكُمۡ اُجُوۡرَكُمۡ وَلَا يَسۡـئَـلۡكُمۡ اَمۡوَالَكُمۡ‏ ﴿47:36﴾ اِنۡ يَّسۡـئَـلۡكُمُوۡهَا فَيُحۡفِكُمۡ تَبۡخَلُوۡا وَيُخۡرِجۡ اَضۡغَانَكُمۡ‏  ﴿47:37﴾ هٰۤاَنۡـتُمۡ هٰٓؤُلَاۤءِ تُدۡعَوۡنَ لِتُنۡفِقُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ ​ۚ فَمِنۡكُمۡ مَّنۡ يَّبۡخَلُ ​ ۚ وَمَنۡ يَّبۡخَلۡ فَاِنَّمَا يَبۡخَلُ عَنۡ نَّـفۡسِهٖ​ ؕ وَاللّٰهُ الۡغَنِىُّ وَاَنۡـتُمُ الۡفُقَرَآءُ ​ۚ وَاِنۡ تَتَوَلَّوۡا يَسۡتَـبۡدِلۡ قَوۡمًا غَيۡرَكُمۡ ۙ ثُمَّ لَا يَكُوۡنُوۡۤا اَمۡثَالَـكُم‏ ﴿47:38﴾

29 - کیا وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ اللہ ان کے دلوں کے کھوٹ ظاہر نہیں کرے گا؟ 30 - ہم چاہیں تو انہیں تم کو آنکھوں سے دکھائیں اور ان کے چہروں سے تم ان کو پہچان لو۔ مگر ان کے اندازِ کلام سے تو تم ان کو جان ہی لو گے۔ اللہ تم سب کے اعمال سے خوب واقف ہے۔ 31 - ہم ضرور تم لوگوں کو آزمائش میں ڈالیں گے تا کہ تمہارے حالات کی جانچ کریں اور دیکھ لیں کہ تم میں مجاہداور ثابت قدم کون ہیں۔ 32 - جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا اور رسول سے جھگڑا کیا جبکہ ان پر راہ راست واضح ہو چکی تھی، درحقیقت وہ اللہ کا کوئی نقصان بھی نہیں کر سکتے ، بلکہ اللہ ہی ان کا سب کیا کرایا غارت کر دے گا۔39 33 - اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم اللہ کی اطاعت کرو اوررسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو بر باد نہ کر لو۔40 34 - کفر کرنے والوں اور راہِ خدا سے روکنے والوں اور مرتے دم تک کفر پر جمے رہنے والوں کو تو اللہ ہرگز معاف نہ کرے گا۔ 35 - پس تم بودے نہ بنو اور صلح کی درخواست نہ کرو۔41 تم ہی غالب رہنے والے ہو۔ اللہ تمہارے ساتھ ہے اور تمہارے اعمال کو وہ ہر گز ضائع نہ کریگا۔ 36 - یہ دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور تماشا ہے۔42 اگر تم ایمان رکھو اور تقوٰی کی روش پر چلتے رہو تو اللہ تمہارے اجر تم کو دے گا اور وہ تمہارے مال تم سے نہ مانگے گا۔43 37 - اگر کہیں وہ تمہارے مال تم سے مانگ لے اور سب کے سب تم سے طلب کر لے تو تم بخل کرو گے اور وہ تمہارے کھوٹ اُبھار لائے گا۔44 38 - دیکھو، تم لوگوں کو دعوت دی جا رہی ہے کہ اللہ راہ میں مال خرچ کرو۔ اس پر تم میں سے کچھ لوگ ہیں جو بخل کر رہے ہیں، حالانکہ جو بخل کرتا ہے وہ درحقیقت اپنے آپ ہی سے بخل کر رہا ہے۔ اللہ تو غنی ہے، تم ہی اس کے محتاج ہو۔ اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے۔ ؏۴


Notes

39. اس فقرے کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ جن کاموں کو انہوں نے اپنے نزدیک نیک سمجھ کر کیا ہے، اللہ ان سب کو ضائع کر دے گا اور آخرت میں ان کا کوئی اجر بھی وہ نہ پا سکیں گے۔ دوسرا مطلب یہ کہ جو تدبیریں بھی وہ اللہ اور اس کے رسول کے دین کا راستہ روکنے کے لیے کر رہے ہیں وہ سب ناکام و نا مراد ہو جائیں گی۔

40. ۔ بالفاظ دیگر اعمال کے نافع اور نتیجہ خیز ہونے کا سارا انحصار اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پر ہے۔ اطاعت سے منحرف ہو جانے کے بعد کوئی عمل بھی خیر نہیں رہتا کہ آدمی اس پر کوئی اجر پانے کا مستحق ہو سکے۔

41. ۔ یہاں یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ یہ ارشاد اس زمانے میں فرمایا گیا ہے جب صرف مدینے کی چھوٹی سی بستی میں چند سو مہاجرین و انصار کی ایک مٹھی بھر جمیعت اسلام کی علمبرداری کر رہی تھی اور اس کا مقابلہ محض قریش کے طاقتور قبیلے ہی سے نہیں بلکہ پورے ملک عرب کے کفار و مشرکین سے تھا۔ اس حالت میں فرمایا جا رہا ہے کہ ہمت ہار کر ان دشمنوں سے صلح کی درخواست نہ کرنے لگو، بلکہ سر دھڑ کی بازی لگا دینے کے لیے تیار ہو جاؤ۔اس ارشاد کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مسلمانوں کو کبھی صلح کی بات چیت کرنی ہی نہ چاہیے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی حالت میں صلح کی سلسلہ جنبانی کرنا درست نہیں ہے جب اس کے معنی اپنی کمزوری کے اظہار کے ہوں اور اس سے دشمن اور زیادہ دلیر ہو جائیں۔ مسلمانوں کو پہلے اپنی طاقت کا لوہا منوا لینا چاہیے، اس کے بعد وہ صلح کی بات چیت کریں تو مضائقہ نہیں۔

42. یعنی آخرت کے مقابلے میں اس دنیا کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ چند روز کا دل بہلاوا ہے۔ یہاں کی کامرانی و ناکامی کوئی حقیقی اور پائیدار چیز نہیں ہے جسے کوئی اہمیت حاصل ہو۔ اصل زندگی آخرت کی ہے جس کی کامیابی کے لیے انسان کو فکر کرنی چاہیے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، تفسیر سورہ عنکبوت، حاشیہ 102)۔

43. یعنی وہ غنی ہے، اسے اپنی ذات کے لیے تم سے لینے کی کچھ ضرورت نہیں ہے۔ اگر وہ اپنی راہ میں تم سے کچھ خرچ کرنے کے لیے کہتا ہے تو وہ اپنے لیے نہیں بلکہ تمہاری ہی بھلائی کے لیے کہتا ہے۔

44. یعنی اتنی بڑی آزمائش میں وہ تمہیں نہیں ڈالتا جس سے تمہاری کمزوریاں ابھر آئیں۔