Tafheem ul Quran

Surah 48 Al-Fath, Ayat 1-10

اِنَّا فَتَحۡنَا لَكَ فَتۡحًا مُّبِيۡنًا ۙ‏ ﴿48:1﴾ لِّيَـغۡفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنۡ ذَنۡۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعۡمَتَهٗ عَلَيۡكَ وَيَهۡدِيَكَ صِرَاطًا مُّسۡتَقِيۡمًا ۙ‏ ﴿48:2﴾ وَّ يَنۡصُرَكَ اللّٰهُ نَصۡرًا عَزِيۡزًا‏ ﴿48:3﴾ هُوَ الَّذِىۡۤ اَنۡزَلَ السَّكِيۡنَةَ فِىۡ قُلُوۡبِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ لِيَزۡدَادُوۡۤا اِيۡمَانًا مَّعَ اِيۡمَانِهِمۡ​ ؕ وَلِلّٰهِ جُنُوۡدُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ​ؕ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِيۡمًا حَكِيۡمًا ۙ‏ ﴿48:4﴾ لِّيُدۡخِلَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا وَيُكَفِّرَ عَنۡهُمۡ سَيِّاٰتِهِمۡ​ؕ وَكَانَ ذٰ لِكَ عِنۡدَ اللّٰهِ فَوۡزًا عَظِيۡمًا ۙ‏ ﴿48:5﴾ وَّيُعَذِّبَ الۡمُنٰفِقِيۡنَ وَالۡمُنٰفِقٰتِ وَالۡمُشۡرِكِيۡنَ وَ الۡمُشۡرِكٰتِ الظَّآنِّيۡنَ بِاللّٰهِ ظَنَّ السَّوۡءِ​ؕ عَلَيۡهِمۡ دَآئِرَةُ السَّوۡءِ​ ۚ وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَيۡهِمۡ وَلَعَنَهُمۡ وَاَعَدَّ لَهُمۡ جَهَنَّمَؕ وَسَآءَتۡ مَصِيۡرًا‏  ﴿48:6﴾ وَلِلّٰهِ جُنُوۡدُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ​ؕ وَكَانَ اللّٰهُ عَزِيۡزًا حَكِيۡمًا‏  ﴿48:7﴾ اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيۡرًا ۙ‏ ﴿48:8﴾ لِّـتُؤۡمِنُوۡا بِاللّٰهِ وَ رَسُوۡلِهٖ وَتُعَزِّرُوۡهُ وَتُوَقِّرُوۡهُ ؕ وَتُسَبِّحُوۡهُ بُكۡرَةً وَّاَصِيۡلًا‏ ﴿48:9﴾ اِنَّ الَّذِيۡنَ يُبَايِعُوۡنَكَ اِنَّمَا يُبَايِعُوۡنَ اللّٰهَ ؕ يَدُ اللّٰهِ فَوۡقَ اَيۡدِيۡهِمۡ​ ۚ فَمَنۡ نَّكَثَ فَاِنَّمَا يَنۡكُثُ عَلٰى نَفۡسِهٖ​ۚ وَمَنۡ اَوۡفٰى بِمَا عٰهَدَ عَلَيۡهُ اللّٰهَ فَسَيُؤۡتِيۡهِ اَجۡرًا عَظِيۡمًا‏ ﴿48:10﴾

1 - اے نبی ؐ ، ہم نے تم کو کھلی فتح عطا کر دی1 2 - تاکہ اللہ تمہاری اگلی پچھلی ہر کوتاہی سے درگزر فرمائے2 اور تم پر اپنی نعمت کی تکمیل کر دے3 اور تمھیں سیدھا راستہ دکھائے4 3 - اور تم کو زبردست نصرت بخشے۔5 4 - وہی ہے جس نے مومنوں کے دلوں میں سکینت نازل فرمائی6 تاکہ اپنے ایمان کے ساتھ وہ ایک ایمان اور بڑھا لیں۔7 زمین اور آسمانوں کے سب لشکر اللہ کے قبضہٴ قدرت میں ہیں اور وہ علیم و حکیم ہے۔8 5 - (اس نے یہ کام اس لیے کیا ہے)تاکہ مومن مردوں اور عورتوں9 کو ہمیشہ رہنے کے لیے ایسی جنّتوں میں داخل فرمائے جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہو ں گی اور ان کی برائیاں ان سے دور کر دے ۔۔۔۔10 اللہ کے نزدیک یہ بڑی کامیابی ہے 6 - ۔۔۔۔ اور ان منافق مردوں اور عورتوں اور مشرک مردوں اور عورتوں کو سزا دے جو اللہ کے متعلق بُرے گمان رکھتے ہیں۔11 بُرائی کے پھیر میں وہ خودہی آگئے،12 اللہ کا غضب ان پر ہوا اور اس نے ان پر لعنت کی اور ان کے لیے جہنم مہیّا کر دی جو بہت ہی بُرا ٹھکانا ہے۔ 7 - زمین اور آسمان کے لشکر اللہ ہی کے قبضہٴ قدرت میں ہیں اور وہ زبردست اور حکیم ہے۔13 8 - اے نبیؐ ، ہم نے تم کو شہادت دینے والا،14 بشارت دینے والا اور خبر دار کردینے والا15 بنا کر بھیجا ہے 9 - تاکہ اے لوگو، تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کا ساتھ دو، اس کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو۔16 10 - اے نبیؐ ، جو لوگ تم سے بیعت کر رہے تھے17 وہ دراصل اللہ سے بیعت کر رہے تھے۔ ان کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ تھا۔18 اب جو اس عہد کو توڑے گا اس کی عہد شکنی کا وبال اس کی اپنی ہی ذات پر ہو گا ، اور جو اس عہد کو وفا کرے گا جو اس نے اللہ سے کیا ہے،19 اللہ عنقریب اس کوبڑا اجر عطا فرمائے گا۔ ؏۱


Notes

1. دس سال تک فریقین کے درمیان جنگ بند رہے گی، اور ایک دوسرے کے خلاف خفیہ اور علانیہ کوئی کارروائی نہ کی جائے گی۔

2. اس دوران قریش کا جو شخص اپنے ولی کی اجازت کے بغیر بھاگ کر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس جائے گا اسے آپ واپس کر دیں گے اور آپ کے ساتھیوں میں سے جو شخص قریش کے پاس چلا جائے گا اسے وہ واپس نہ کریں گے۔

3. قبائل عرب میں سے جو قبیلہ بھی فریقین میں سے کسی ایک کا حلیف بن کر اس معاہدے میں شامل ہونا چاہے گا اسے اس کا اختیار ہوگا۔

4. محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس سال واپس جائیں گے اور آئندہ سال وہ عمرے کے لیے آ کر تین دن مکہ میں ٹھیر سکتے ہیں، بشرطیکہ پرتلوں میں صرف ایک ایک تلوار لے کر آئیں اور کوئی سامان حرب ساتھ نہ لائیں۔ ان تین دنوں میں اہل مکہ ان کے لیے شہر خالی کر دیں گے (تاکہ کسی تصادم کی نوبت نہ آئے)۔ مگر واپس جاتے ہوئے وہ یہاں کے کسی شخص کو اپنے ساتھ لے جانے کے مجاز نہ ہوں گے۔

جس وقت اس معاہدے کی شرائط طے ہو رہی تھیں، مسلمانوں کا پورا لشکر سخت مضطرب تھا۔ کوئی شخص بھی ان مصلحتوں کو نہیں سمجھ رہا تھا جنہیں نگاہ میں رکھ کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ شرائط قبول فرما رہے تھے۔ کسی کی نظر اتنی دور رس نہ تھی کہ اس صلح کے نتیجے میں جو خیر عظیم رونما ہونے والی تھی اسے دیکھ سکے۔ کفار قریش اسے اپنی کامیابی سمجھ رہے تھے اور مسلمان اس پر بے تاب تھے کہ ہم آخر دب کر یہ ذلیل شرائط کیوں قبول کریں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے بالغ النظر مدبر تک کا یہ حال تھا کہ وہ کہتے ہیں کہ مسلمان ہونے کے بعد کبھی میرے دل میں شک نے راہ نہ پائی تھی،مگر اس موقع پر میں بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکا۔ وہ بے چین ہو کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور کہا "کیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ کے رسول نہیں ہیں؟ کیا ہم مسلمان نہیں ہیں؟ کیا یہ لوگ مشرک نہیں ہیں؟ پھر آخر ہم اپنے دین کے معاملے میں یہ ذلت کیوں اختیار کریں؟" انہوں نے جواب دیا "اے عمر! وہ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ ان کو ہر گز ضائع نہ کرے گا"۔ پھر ان سے صبر نہ ہوا جاکر یہی سوالات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بھی کیے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی ان کو ویسا ہی جواب دیا جیسا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے دیا تھا۔ بعد میں حضرت عمر مدتوں اس پر نوافل اور صدقات ادا کرتے رہے تاکہ اللہ تعالٰی اس گستاخی کو معاف فرما دے جو اس روز ان سے شان رسالت میں ہو گئی تھی۔

سب سے زیادہ دو باتیں اس معاہدے میں لوگوں کو بری طرح کَھل رہی تھیں۔ ایک شرط نمبر 2 جس کے متعلق لوگ کہتے تھے کہ یہ صریح نامساوی شرط ہے۔ اگر مکہ سے بھاگ کر آنے والوں کو ہم واپس کریں تو مدینہ سے بھاگ کر جانے والے کو کیوں نہ واپس کریں؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس پر فرمایا جو ہمارے ہاں سے بھاگ کر ان کے پاس چلا جائے وہ آخر ہمارے کس کام کا ہے؟ اللہ اسے ہم سے دور ہی رکھے۔ اور جو ان کے ہاں سے بھاگ کر ہمارے پاس آ جائے اسے اگر ہم واپس کر دیں گے تو اللہ اس کے لیے خلاصی کی کوئی اور صورت پیدا فرما دے گا۔ دوسری چیز جو لوگوں کے دلوں میں کھٹک رہی تھی وہ چوتھی شرط تھی۔ مسلمان یہ سمجھ رہے تھے کہ اسے ماننے کے معنی یہ ہیں کہ تمام عرب کے سامنے گویا ہم ناکام واپس جا رہے ہیں۔ مزید براں یہ سوال بھی دلوں میں خلش پیدا کر رہا تھا کہ حضورصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خواب میں دیکھا تھا کہ ہم مکہ میں طواف کر رہے ہیں،مگر یہاں تو ہم طواف کیے بغیر واپس جانے کی شرط مان رہے ہیں۔ حضورصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس پر لوگوں کو سمجھایا کہ خواب میں آخر اسی سال طواف کرنے کی صراحت تو نہ تھی۔ شرائطِ صلح کے مطابق اس سال نہیں تو اگلے سال انشاء اللہ طواف ہوگا۔

جلتی پر تیل کا کام جس واقعہ نے کیا وہ یہ تھا کہ عین اس وقت جب صلح کا معاہدہ لکھا جا رہا تھا، سہیل بن عمرو کے اپنے صاحبزادے ابو جندل، جو مسلمان ہو چکے تھے اور کفار مکہ نے ان کو قید کر رکھا تھا، کسی نہ کسی طرح بھاگ کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کیمپ میں پہنچ گئے۔ ان کے پاؤں میں بیڑیاں تھیں اور جسم پر تشدد کے نشانات تھے۔ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے فریاد کی کہ مجھے اس حبس بے جا سے نجات دلائی جائے۔ صحابہ کرام کے لیے یہ حالت دیکھ کر ضبط کرنا مشکل ہو گیا۔ مگر سہیل بن عمرو نے کہا کہ صلح نامے کی تحریر چاہے مکمل نہ ہوئی ہو، شرائط تو ہمارے اور آپ کے درمیان طے ہو چکی ہیں، اس لیے اس لڑکے کو میرے حوالے کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی حجت تسلیم فرما لی اور ابو جندل ظالموں کے حوالے کر دیے گئے۔

صلح سے فارغ ہو کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ سے فرمایا کہ اب یہیں قربانی کر کے سر منڈواؤ اور احرام ختم کر دو۔ مگر کوئی اپنی جگہ سے نہ ہلا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین مرتبہ حکم دیا، مگر صحابہ پر اس وقت رنج و غم اور دل شکستگی کا ایسا شدید غلبہ تھا کہ انہوں نے اپنی جگہ سے حرکت نہ کی۔ حضورصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پورے دور رسالت میں اس ایک موقع کے سوا کبھی یہ صورت پیش نہ آئی تھی کہ آپ صحابہ کو حکم دیں اور وہ اس کی تعمیل کے لیے دوڑ نہ پڑیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس پر سخت صدمہ ہوا اور آپ نے اپنے خیمے میں جا کر ام المومنین حضرت ام سلمہ سے اپنی کبیدہ خاطری کا اظہار فرمایا۔ انہوں نےعرض کیا کہ آپ بس خاموشی کے ساتھ تشریف لے جا کر خود اپنا اونٹ ذبح فرمائیں اور حجام کو بلا کر اپنا سر منڈوا لیں۔ اس کے بعد لوگ خود بخود آپ کے عمل کی پیروی کریں گے اور سمجھ لیں گے کہ جو فیصلہ ہو چکا ہے وہ اب بدلنے والا نہیں ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور آپ کے فعل کو دیکھ کر لوگوں نے بھی قربانیاں کر لیں، سر منڈوا لیے یا بال ترشوا لیے اور احرام سے نکل آئے۔ مگر دل ان کے غم سے کٹے جا رہے تھے۔

اس کے بعد جب یہ قافلہ حدیبیہ کی صلح کو اپنی شکست اور ذلت سمجھتا ہوا مدینہ کی طرف واپس جا رہا تھا، اس وقت ضجنان کے مقام پر (یا بقول بعض کراع الغمیم کے مقام پر) یہ سورت نازل ہوئی، جس نے مسلمانوں کو بتایا کہ یہ صلح جس کو وہ شکست سمجھ رہے ہیں دراصل فتح عظیم ہے۔ اس کے نازل ہونے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسلمانوں کو جمع کیا اور فرمایا آج مجھ پر وہ چیز نازل ہوئی ہے جو میرے لیے دنیا و مافیہا سے زیادہ قیمتی ہے۔ پھر یہ سورت آپ نے تلاوت فرمائی اور خاص طور پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بلا کر اسے سنایا کیونکہ وہ سب سے زیادہ رنجیدہ تھے۔

اگرچہ اہل ایمان تو اللہ تعالٰی کا یہ ارشاد سن کر ہی مطمئن ہو گئے تھے، مگر کچھ زیادہ مدت نہ گذری تھی کہ اس صلح کے فوائدایک ایک کرتے کھلتے چلے گئے یہاں تک کہ کسی کو بھی اس امر میں شک نہ رہا کہ فی الواقع یہ صلح ایک عظیم الشان فتح تھی۔

1. اس میں پہلی مرتبہ عرب میں اسلامی ریاست کا وجود باقاعدہ تسلیم کیا گیا۔ اس سے پہلے تک عربوں کی نگاہ میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے ساتھیوں کی حیثیت محض قریش اور قبائل عرب کے خلاف خروج کرنے والے ایک گروہ کی تھی اور ان کو برادری باہر (Outlaw ) سمجھتے تھے۔ اب خود قریش ہی نے آپ سے معاہدہ کر کے سلطنت اسلامی کے مقبوضات پر آپ کا اقتدار مان لیا اور قبائل عرب کے لیے یہ دروازہ بھی کھول دیا کہ ان دونوں سیاسی طاقتوں میں سےجس کے ساتھ چاہیں حلیفانہ معاہدات کرلیں۔

2. مسلمانوں کے لیے زیارت بیت اللہ کا حق تسلیم کر کے قریش نے آپ سے آپ گویا یہ بھی مان لیا کہ اسلام کوئی بے دینی نہیں ہے جیسا کہ وہ اب تک کہتے چلے آ رہے تھے، بلکہ عرب کے مسلمہ ادیان میں سے ایک ہے اور دوسرے عربوں کی طرح اس کے پیرو بھی حج و عمرہ کے مناسک ادا کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ اس سے اہل عرب کے دلوں کی وہ نفرت کم ہو گئی جو قریش کے پروپیگنڈا سے اسلام کے خلاف پیدا ہو گئی تھی۔

3. دس سال کے لیے جنگ بندی کا معاہدہ ہو جانے سے مسلمانوں کو امن میسر آ گیا اور انہوں نے عرب کے تمام اطراف و نواح میں پھیل کر اس تیزی سے اسلام کی اشاعت کی کہ صلح حدیبیہ سے پہلے پورے 19 سال میں اتنے آدمی مسلمان نہ ہوئے تھے جتنے اس کے بعد دو سال کے اندر ہو گئے۔ یہ اسی صلح کی برکت تھی کہ یا تو وہ وقت تھا جب حدیبیہ کے مقام پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ 1400 آدمی آئے تھے، یا دو ہی سال کے بعد جب قریش کی عہد شکنی کے نتیجے میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ پر چڑھائی کی تو دس ہزار کا لشکر آپ کے ہمرکاب تھا۔

4. قریش کی طرف سے جنگ بند ہوجانے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ موقع مل گیا کہ اپنے مقبوضات میں اسلامی حکومت کو اچھی طرح مستحکم کر لیں اور اسلامی قانون کے اجراء سے مسلم معاشرے کو ایک مکمل تہذیب و تمدن بنا دیں۔ یہی و ہ نعمت عظمٰی ہے جس کے متعلق اللہ تعالٰی نے سورہ مائدہ کی آیت 3 میں فرمایا کہ "آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے"۔( تشریح کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول،دیباچۂ سورہ مائدہ اور حاشیہ 15 ۔)

5. قریش سے صلح کے بعد جنوب کی طرف سے اطمینان نصیب ہو جانے کا فائدہ یہ بھی ہوا کہ مسلمانوں نے شمال عرب اور وسطِ عرب کی تمام مخالف طاقتوں کو با آسانی مسخر کر لیا۔ صلح حدیبیہ پر تین ہی مہینے گذرے تھے کہ یہودیوں کا سب سے بڑا گڑھ خیبر فتح ہو گیا اور اس کے بعد فدک، وادی القریٰ، تیما اور تبوک کی یہودی بستیاں اسلام کے زیر نگیں آتی چلی گئیں۔ پھر وسطِ عرب کے وہ تمام قبیلے بھی، جو یہود و قریش کے ساتھ گٹھ جوڑ رکھتے تھے، ایک ایک کر کے تابع فرمان ہو گئے۔ اس طرح حدیبیہ کی صلح نے دو ہی سال کے اندر عرب میں قوت کا توازن اتنا بدل دیا کہ قریش اور مشرکین کی طاقت دب کر رہ گئی اور اسلام کا غلبہ یقینی ہو گیا۔

یہ تھیں وہ برکات جو مسلمانوں کو اس صلح سے حاصل ہوئیں جسے وہ اپنی ناکامی اور قریش اپنی کامیابی سمجھ رہے تھے۔ سب سے زیادہ جو چیز اس صلح میں مسلمانوں کو ناگوار ہوئی تھی اور جسے قریش نے اپنی جیت سمجھا تھا کہ مکہ سے بھاگ کر مدینہ جانے والوں کو واپس کر دیا جائے گا اور مدینہ سے بھاگ کر مکہ جانے والوں کو واپس نہ کیا جائے گا۔ مگر تھوڑی ہی مدت گذری تھی کہ یہ معاملہ بھی قریش پر الٹا پڑا اور تجربہ نے بتا دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نگاہِ دور رس نے اس کے کن نتائج کو دیکھ کر یہ شرط قبول کی تھی۔ صلح کے کچھ دنوں بعد مکہ سے ایک مسلمان ابو بصیر قریش کی قید سے بھاگ نکلے اور مدینہ پہنچے۔ قریش نے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے معاہدے کے مطابق انہیں ان لوگوں کے حوالے کر دیا جو ان کی گرفتاری کے لیے مکہ سے بھیجے گئے تھے۔ مگر مکہ جاتے ہوئے راستے میں وہ پھر ان کی گرفت سے بچ نکلے اور ساحل بحیرہ احمر کے اس راستے پر جا بیٹھے جس سے قریش کے تجارتی قافلے گذرتے تھے۔ اس کے بعد جس مسلمان کو بھی قریش کی قید سے بھاگ نکلنے کا موقع ملتا وہ مدینہ جانے کے بجائے ابو بصیر کر ٹھکانے پر پہنچ جاتا، یہاں تک کہ 70 آدمی جمع ہو گئے اور انہوں نے قریش کے قافلوں پر چھاپے مار مار کر ان کا ناطقہ تنگ کر دیا۔ آخر کار قریش نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے درخواست کی کہ ان لوگوں کو مدینہ بلا لیں اور حدیبیہ کے معاہدے کی وہ شرط آپ سے آپ ساقط ہو گئی۔

یہ تاریخی پس منظر نگاہ میں رکھ کر اس سورت کو پڑھا جائے تو اسے اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔

1. صلح حدیبیہ کے بعد جب فتح کا یہ مژدہ سنایا گیا تو لوگ حیران تھے کہ آخر اس صلح کو فتح کیسے کہا جاسکتا ہے۔ ایمان کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے ارشاد کو مان لینے کی بات تو دوسری تھی۔ مگر اس کے فتح ہونے کا پہلو کسی کی سمجھ میں نہ آ رہا تھا۔ حضرت عمرؓ نے یہ آیت سن کر پوچھا: یا رسول اللہ، کیا یہ فتح ہے؟ حضورؐ نے فرمایا ہاں(ابن جریر)۔ ایک اور صحابی حاضر ہوئے اور انہوں نے بھی یہی سوال کیا۔ آپ نے فرمایا ای والذی نفس محمد بیدہٖ انہٗ لفتح ۔’’ قسم ہےاس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے، یقیناً یہ فتح ہے‘‘(مسند احمد۔ابوداؤد)۔ مدینہ پہنچ کر ایک اور صاحب نے اپنے ساتھیوں سے کہا ’’ یہ کیسی فتح ہے؟ ہم بیت اللہ جانے سےروک دیے گئے، ہماری قربانی کے اونٹ بھی آگے نہ جا سکے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو حدیبیہ ہی میں رک جانا پڑا ، اور اس صلح کی بدولت ہمارے دو مظلوم بھائیوں (ابو جندل اور ابو بصیر) کو ظالموں کے حوالہ کر دیا گیا‘‘۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم تک یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا’’ بڑی غلط بات کہی گئی ہے یہ ۔ حقیقت میں تو یہ بہت بڑی فتح ہے۔ تم مشرکوں کے عین گھر پر پہنچ گئے اور انہوں نے آئندہ سال عمرہ کرنے کی درخواست کر کے تمہیں واپس جانے پر راضی کیا ۔ انہوں نے تم سےخود جنگ بند کر دینےاور صلح کر لینے کی خواہش کی حالانکہ ان کے دلوں میں تمہارے لیے جیسا کچھ بغض ہے وہ معلوم ہے۔ اللہ نے تم کو ان پر غلبہ عطا کر دیا ہے۔ کیا وہ دن بھول گئے جب احد میں تم بھاگے جا رہے تھے اور میں تمہیں پیچھے سے پکار رہا تھا ؟ کیا وہ دن بھول گئے جب جنگ احزاب میں ہر طرف سے دشمن چڑھ آئے تھے اور کلیجے منہ کو آ رہے تھے‘‘؟ (بیہقی بروایت عروہ بن زبیر)۔ مگر کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کی اس صلح کا فتح ہونا بالکل عیاں ہوتا چلا گیا اور ہر خاص و عام پر یہ بات پوری طرح کھل گئی کہ فی الواقع اسلام کی فتح کا آغاز صلح حدیبیہ ہی سے ہوا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت جابر بن عبداللہ، اور حضرت براء بن عازب، تینوں حضرات سے قریب قریب ایک ہی معنی میں یہ قول منقول ہوا ہے کہ ’’ لوگ فتح مکہ کو فتح کہتے ہیں ، حالانکہ ہم اصل فتح حدیبیہ کو سمجھتے ہیں‘‘(بخاری، مسلم ،مسند احمد ، ابن جریر)۔

2. جس موقع و محل پر یہ فقرہ ارشاد ہوا ہے اس نگاہ میں رکھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں جن کوتاہیوں سے در گزر کرنے کا ذکر ہے ان سے مراد وہ خامیاں ہیں جو اسلام کی کامیابی و سر بلندی کے لیے کام کرتے ہوئے اس سعی و جہد میں رہ گئی تھیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قیادت میں پچھلے 19 سال سے مسلمان کر رہے تھے۔ یہ خامیاں کسی انسان کے علم میں نہیں ہیں، بلکہ انسانی عقل تو اس جدوجہد میں کوئی نقص تلاش کرنے سے قطعی عاجز ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کمال کا جو بلند ترین معیار ہے اس کے لحاظ سےاس میں کچھ ایسی خامیاں تھیں جن کی وجہ سے مسلمانوں کو اتنی جلدی مشرکین عرب پر فیصلہ کن فتح حاصل نہ ہو سکتی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ ان خامیوں کے ساتھ اگر تم جدوجہد کرتے رہتے تو عرب کے مسخر ہونے میں ابھی عرصۂ درازدر کار تھا، مگر ہم نے ان ساری کمزوریوں اور کوتاہیوں سے در گزر کر کے محض اپنے فضل سے ان کی تلافی کر دی اور حدیبیہ کے مقام پر تمہارے لیے اس فتح و ظفر کا دروازہ کھول دیا جو معمول کے مطابق تمہاری اپنی کوششوں سے نصیب نہ ہوسکتی تھی۔

اس مقام پر یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ کسی مقصد کے لیے ایک جماعت جو کوشش کر رہی ہو اس کی خامیوں کے لیے اس جماعت کے قائد و رہنما ہی کو مخاطب کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ خامیاں قائد کی ذاتی خامیاں ہیں۔ در اصل وہ اس جدوجہد کی کمزوریاں ہوتی ہیں جو پوری جماعت بحیثیت مجموعی کر رہی ہوتی ہے۔ مگر خطاب قائد سے کیا جاتا ہے کہ آپ کے کام میں یہ کمزوریاں ہیں۔

تاہم چونکہ روئے سخن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف ہے، اور فرمایا یہ گیا ہے کہ اللہ نے آپ کی ہر اگلی پچھلی کوتاہی کو معاف فرما دیا ، اس لیے ان عام الفاظ سے یہ مضمون بھی نکل آیا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے رسول پاک کی تمام لغزشیں (جو آپ کے مقام بلند کے لحاظ سے لغزشیں تھیں) بخش دی گئیں ۔ اسی بنا پر جب صحابہ کرام حضورؐ کو عبادت میں غیر معمولی مشقتیں اٹھاتے ہوئے دیکھتے تھے تو عرض کرتے تھے کہ آپ کے تو اب اگلے پچھلے قصور معاف ہو چکے ہیں، پھر آپ اپنی جان پر اتنی سختی کیوں اٹھاتے ہیں؟ اور آپؐ جواب میں فرماتے تھے : افلا اکون عبداً ا شکوراً۔‘‘کیا میں ایک شکر گزار بندہ نہ بنوں‘‘؟ (احمد، بخاری، مسلم ، ابوداؤد)۔

3. نعمت کی تکمیل سے مراد یہ ہے کہ مسلمان اپنی جگہ ہر خوف، ہر مزاحمت اور ہر بیرونی مداخلت سے محفوظ ہو کر پوری طرح اسلامی تمدن و تہذیب اور اسلامی قوانین و احکام کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے آزاد ہو جائیں ، اور ان کو یہ طاقت بھی نصیب ہو جائے کہ وہ دنیا میں اللہ کا کلمہ بلند کر سکیں۔ کفر و فسق کا غلبہ، جو بندگی رب کی راہ میں مانع اور اعلائے کلمۃ اللہ کی سعی میں مزاحم ہو، اہل ایمان کے لیے سب سے بڑی مصیبت ہے جسے قرآن ’’فتنہ‘‘ قرار دیتا ہے۔ اس فتنے سے خلاصی پاکر جب ان کو ایک ایسا دارالاسلام میسر آ جائے جس میں اللہ کا پورا دین بے کم و کاست نافذ ہو، اور اس کے ساتھ ان کو ایسے ذرائع و وسائل بھی بہم پہنچ جائیں جن سے وہ خدا کی زمین پر کفر و فسق کی جگہ ایمان و تقویٰ کا سکہ رواں کر سکیں، تو یہ ان پر اللہ کی نعمت کا اتمام ہے ۔ یہ نعمت چونکہ مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہی کی بدولت حاصل ہوئی تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضورؐ ہی کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ہم تم پر اپنی نعمت کی تکمیل کر دینا چاہتے تھے، اس لیے یہ فتح ہم نے تم کو عطا کر دی۔

4. اس مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو سیدھا راستہ دکھانے کا مطلب آپ کو فتح و کامرانی کا راستہ دکھانا ہے دوسرے الفاظ میں اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حدیبیہ کے مقام پر صلح کا یہ معاہدہ کرا کے آپؐ کے لیے وہ راہ ہموار کر دی اور وہ تدبیر آپ کو سجھا دی جس سے آپ اسلام کی مزاحمت کرنے والی تمام طاقتوں کو مغلوب کر لیں۔

5. دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ’’ تم کو بے مثل نصرت بخشے‘‘۔ اصل میں لفظ نصراً عزیزاً استعمال ہوا ہے۔ عزیز کے معنی زبردست کے بھی ہیں اور بے نظیر ، بے مثل اور نادر کے بھی ۔ پہلے معنی کے لحاظ سے اس فقرے کا مطلب یہ ہے کہ اس صلح کے ذریعہ سے اللہ نے آپ کی ایسی مدد کی ہے جس سے آپ کے دشمن عاجز ہو جائیں گے۔ اور دوسرے معنی کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ شاذ و نادر ہی کبھی کسی کی مدد کا ایسا عجیب طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ بظاہر جو چیز لوگوں کو محض ایک صلح نامہ اور وہ بھی دب کر کیا ہوا صلح نامہ نظر آتی ہے، وہی ایک فیصلہ کن فتح بن جانے والی ہے۔

6. ’’ سکینت ‘‘ عربی زبان میں سکون و اطمینان اور ثبات قلب کو کہتے ہیں، اور یہاں اللہ تعالیٰ مومنوں کے دل میں اس کے نازل کیے جانے کو اس فتح کا ایک اہم سبب قرار دے رہا ہے جو حدیبیہ کے مقام پر اسلام اور مسلمانوں کو نصیب ہوئی۔ اس وقت کے حالات پر تھوڑا سا غور کرنے سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہو جاتی ہے کہ وہ کس قسم کی سکینت تھی جو اس پورے زمانے میں مسلمانوں کے دلوں میں اتاری گئی اور کیسے وہ اس فتح کا سبب بنی۔ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عمرے کے لیے مکہ معظمہ جانے کا ارادہ ظاہر فرمایا، اگر مسلمان اس وقت خوف زدگی میں مبتلا ہو جاتے اور منافقین کی طرح یہ سوچنے لگتے کہ یہ تو صریحاً موت کے منہ میں جانا ہے، یا جب راستے میں یہ اطلاع ملی کہ کفار قریش لڑنے مرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں، اس وقت اگر مسلمان اس گھبراہٹ میں مبتلا ہو جاتے کہ ہم کسی جنگی ساز و سامان کے بغیر دشمن کا مقابلہ کیسے کر سکیں گے، اور اس بنا پر ان کے اندر بھگدڑ مچ جاتی، تو ظاہر ہے کہ وہ نتائج کبھی رو نما نہ ہوتے جو حدیبیہ میں رو نما ہوئے۔ پھر جب حدیبیہ کے مقام پر کفار نے مسلمانوں کو آگے بڑھنے سے روکا ، اور جب انہوں نے چھاپے اور شبخون مار مار کر مسلمانوں کو اشتعال دلانے کی کوشش کی، اور جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی اطلاع ملی، اور جب ابو جندل مظلومیت کی تصویر بنے ہوئے مجمع عام میں آ کھڑے ہوئے ، ان میں سےہر موقع ایسا تھا کہ اگر مسلمان اشتعال میں آ کر اس نظم ضبط کو توڑ ڈالتے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قائم کیا تھا تو سارا کام خراب ہو جاتا۔ سب سے زیادہ یہ کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان شرائط پر صلح نامہ طے کرنے لگے جو مسلمانوں کی پوری جماعت کو سخت ناگوار تھیں، اس وقت اگر وہ حضور کی نافرمانی کرنے پر اتر آتے تو حدیبیہ کی فتح عظیم شکست عظیم میں تبدیل ہو جاتی ۔ اب یہ سراسر اللہ ہی کا فضل تھا کہ ان نازک گھڑیوں میں مسلمانوں کو رسول پاکؐ کی رہنمائی پر، دین حق کی صداقت پر اور اپنے مشن کے بر حق ہونے پر کامل اطمینان نصیب ہوا ۔ اسی کی بنا پر انہوں نے ٹھنڈے دل سے یہ فیصلہ کیا کہ اللہ کی راہ میں جو کچھ بھی پیش آئے سب گوارا ہے۔اسی کی بنا پر وہ خوف ، گھبراہٹ ، اشتعال، مایوسی ، ہر چیز سے محفوظ رہے۔ اسی کی بدولت ان کے کیمپ میں پورا نظم و ضبط بر قرار رہا۔ اور اسی کی وجہ سے انہوں نے شرائط صلح پر سخت کبیدہ خاطر ہونے کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فیصلہ پر سر تسلم خم کر دیا۔ یہی وہ سکینت تھی جو اللہ نے مومنوں کے دلوں میں اتاری تھی ، اور اسی کی یہ برکت تھی کہ عمرے کے لیے نکلنے کا خطرناک ترین اقدام بہترین کامیابی کا موجب بن گیا۔

7. یعنی ایک ایمان تو وہ تھا جو اس مہم سے پہلے ان کو حاصل تھا، اور اس پر مزید ایمان انہیں اس وجہ سے حاصل ہوا کہ اس مہم کے سلسلے میں جتنی شدید آزمائشیں پیش آتی چلی گئیں ان میں سے ہر ایک میں وہ اخلاص، تقویٰ اور اطاعت کی روش پر ثابت قدم رہے۔ یہ آیت بھی منجملہ ان آیات کے ہے جن سےمعلوم ہوتا ہے کہ ایمان ایک جامد و ساکن حالت نہیں ہے، بلکہ اس میں ترقی بھی ہوتی ہے اور تنزل بھی ۔ اسلام قبول کرنے کے بعد سے مرتے دم تک مومن کو زندگی میں قدم قدم پر ایسی آزمائشوں سے سابقہ پیش آتا رہتا ہے جن میں اس کے لیے یہ سوال فیصلہ طلب ہوتا ہے کہ آیا وہ اللہ کے دین کی پیروی میں اپنی جان، مال ، جذبات ، خواہشات، اوقات، آسائشوں اور مفادات کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے یا نہیں۔ ایسی ہر آزمائش کے موقع پر اگر وہ قربانی کی راہ اختیار کر لے تو اس کے ایمان کو ترقی اور بالیدگی نصیب ہوتی ہے، اور اگر منہ موڑ جائے تو اس کا ایمان ٹھٹھر کر رہ جاتا ہے، یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آ جاتا ہے جب وہ ابتدائی سرمایہ ایمان بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے جسے لیے ہوئے وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوا تھا۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، تفسیر سورہ انفال ، حاشیہ 2، جلد چہارم ، الاحزاب ، حاشیہ 38)۔

8. مطلب یہ ہے کہ اللہ کے پاس تو ایسے لشکر ہیں جن سے وہ کفار کو جب چاہے تہس نہس کر دے ، مگر اس نے کچھ جان کر اور حکمت ہی کی بنا پر ایہ ذمہ داری اہل ایمان پر ڈالی ہے کہ وہ کفار کے مقابلہ میں جد و جہد اور کشمکش کر کے اللہ کے دین کا بول بالا کریں۔ اسی سے ان کے لیے درجات کی ترقی اور آخرت کی کامیابیوں کا دروازہ کھلتا ہے جیسا کہ آگے کی آیت بتا رہی ہے۔

9. قرآن مجید میں بالعموم اہل ایمان کے اجر کا ذکر مجموعی طور پر کیا جاتا ہے ، مردوں اور عورتوں کو اجر ملنے کی الگ الگ تصریح نہیں کی جاتی۔ لیکن یہاں چونکہ یکجائی ذکر پر اکتفا کرنے سے یہ گمان پیدا ہوسکتا تھا کہ شاید یہ اجر صرف مردوں کے لیے ہو،اس لیے اللہ تعالیٰ نے مومن عورتوں کے متعلق الگ صراحت کر دی کہ وہ بھی اس اجر میں مومن مردوں کے ساتھ برابر کی شریک ہیں ۔ اس کی وجہ ظاہر ہے۔ جن خدا پرست خواتین نے اپنے شوہروں، بیٹوں ، بھائیوں اور باپوں کو اس خطرناک سفر پر جانے سے روکنے اور آہ و فغاں سے ان کے حوصلے پست کرنے کے بجائے ان کی ہمت افزائی کی، جنہوں نے ان کے پیچھے ان کے گھر ، ان کے مال ، ان کی آبرو اور ان کے بچوں کی محافظ بن کر انہیں اس طرف سے بے فکر کر دیا، جنہوں نے اس اندیشے سے بھی کوئی واویلا نہ مچائی کہ چودہ سو صحابیوں کے ایک لخت چلے جانے کے بعد کہیں گرد و پیش کے کفار و منافقین شہر پر نہ چڑھ آئیں ، وہ یقیناً گھر بیٹھنے کے باوجود جہاد کے اجر میں اپنے مردوں کے ساتھ برابر کی شریک ہونی ہی چاہیے تھیں۔

10. یعنی بشری کمزوریوں کی بنا پر جو کچھ بھی قصور ان سے سر زد ہو گئے ہوں انہیں معاف کر دے ، جنت میں داخل کرنے سے پہلے ان قصوروں کے ہر اثر سے ان کو پاک کر دے، اور جنت میں وہ اس طرح داخل ہوں کہ کوئی داغ ان کے دامن پر نہ ہو جس کی وجہ سے وہ وہاں شرمندہ ہوں۔

11. اطراف مدینہ کے منافقین کو تو اس موقع پر یہ گمان تھا، جیسا کہ آگے آیت 12 میں بیان ہوا ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے ساتھی اس سفر سے زندہ واپس نہ آسکیں گے۔ رہے مکہ کے مشرکین اور ان کے ہم مشرب کفار، تو وہ اس خیال میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے ساتھیوں کو عمر ے سے روک کر وہ گویا آپ کو زک دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔ ان دونوں گروہوں نے یہ جو کچھ بھی سوچا تھا اس کی تہ میں در حقیقت اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ بد گمانی کام کر رہی تھی کہ وہ اپنے نبی کی مدد نہ کرے گا اور حق و باطل کی اس کشمکش میں باطل کو حق کا بول نیچا کرنے کی کھلی چھوٹ دے دے گا۔

12. یعنی جس انجام بد سے وہ بچنا چاہتے تھے اور جس سے بچنے کے لیے انہوں نے یہ تدبیریں کی تھیں، اسی کے پھیر میں وہ آ گئے اور ان کی وہی تدبیریں اس انجام کو قریب لانے کا سبب بن گئیں۔

13. یہاں اس مضمون کو ایک دوسرے مقصد کے لیے دہرایا گیا ہے۔ آیت نمبر 4 میں اسے اس غرض کے لیے بیان کیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کے مقابلے میں لڑنے کا کام اپنے فوق الفطری لشکروں سے لینے کے بجائے مومنین سے اس لیے لیا ہے کہ وہ ان کو نوازنا چاہتا ہے۔ اور یہاں اس مضمون کو دوبارہ اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو سزا دینا چاہے اس کی سرکوبی کے لیے وہ اپنے بے شمار لشکروں میں سے جس کو چاہے استعمال کر سکتا ہے، کسی میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اپنی تدبیروں سے وہ اس کی سزا کو ٹال سکے۔

14. شاہ ولی اللہ صاحب نے شاہد کا ترجمہ ’’ اظہار حق کنندہ ‘‘ فرمایا ہے اور دوسرے مترجمین اس کا ترجمہ ’’ گواہی دینے والا ’’ کرتے ہیں۔ شہادت کا لفظ ان دونوں مفہومات پر حاوی ہے۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو: تفہیم القرآن، جلد چہارم ، تفسیر سوری احزاب ، حاشیہ نمبر 82 ۔

15. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ احزاب، حاشیہ 83 ۔

16. بعض مفسرین نے تُعَزِّ رُوْہُ اور تُوَقِّرُوْہُ کی ضمیروں کا مرجع رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اور تُسَبِّحُوہُ کی ضمیر کا مرجع اللہ تعالیٰ کو قرار دیا ہے۔ یعنی ان کے نزدیک آیت کا مطلب یہ ہے کہ ’’ تم رسول کا ساتھ دو اور اس کی تعظیم و توقیر کرو، اور صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے رہو‘‘۔ لیکن ایک ہی سلسلہ کلام میں ضمیروں کے دو الگ الگ مرجع قرار دینا، جبکہ اس کے لیے کوئی قرینہ موجود نہیں ہے، درست نہیں معلوم ہوتا ۔ اسی لیے مفسرین کے ایک دوسرے گروہ نے تمام ضمیروں کا مرجع اللہ تعالیٰ ہی کو قرار دیا ہے اور ان کے نزدیک عبارت کا مطلب یہ ہے کہ ’’ تم اللہ کا ساتھ دو، اسکی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو‘‘۔

صبح و شام تسبیح کرنےسے مراد صرف صبح و شام ہی نہیں بلکہ ہمہ وقت تسبیح کرتے رہنا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ فلاں بات کا شہرہ مشرق و مغرب میں پھیلا ہوا ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ صرف مشرق اور مغرب کے لوگ اس بات کو جانتے ہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ساری دنیا میں اس کا چرچا ہو رہا ہے۔

17. اشارہ ہے اس بیعت کی طرف جو مکہ معظمہ میں حضرت عثمانؓ کے شہید ہو جانے کی خبر سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام سے حدیبیہ کے مقام پرلی تھی ۔ بعض روایات کی رو سے یہ بیعت علیٰ الموت تھی، اور بعض روایات کے مطابق بیعت اس بات پر لی گئی تھی کہ ہم میدان جنگ سے پیٹھ نہ پھیریں گے۔ پہلی بات حضرت سلمہ بن اکوَع سے مروی ہے، اور دوسرے حضرات ابن عمر ، جابر بن عبداللہ اور معقِل بن یسار سے۔ مآل دونوں کا ایک ہی ہے۔ صحابہ نے رسول پاکؐ کے ہاتھ پر بیعت اس بات کی کی تھی کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت کا معاملہ اگر صحیح ثابت ہوا تو وہ سب یہیں اور اسی وقت قریش سے نمٹ لیں گے خواہ نتیجہ میں وہ سب کٹ ہی کیوں نہ مریں۔ اس موقع پر چونکہ یہ امر ابھی یقینی نہیں تھا کہ حضرت عثمان واقعی شہید ہو چکے ہیں یا زندہ ہیں ، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی طرف سے خود اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھ کر بیعت میں شریک فرمایا۔ حضورؐ کا ان کی طرف سے خود بیعت کرنا لازماً یہ معنی رکھتا ہے کہ حضور کو ان پر پوری طرح یہ اعتماد تھا کہ اگر وہ موجود ہوتے تو یقیناً بیعت کرتے۔

18. ۔ یعنی جس ہاتھ پر لوگ اس وقت بیعت کر رہے تھے وہ شخص رسول کا ہاتھ نہیں بلکہ اللہ کے نمائندے کا ہاتھ تھا اور یہ بیعت رسول کے واسطہ سے در حقیقت اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہو رہی تھی۔

19. اس مقام پر ایک لطیف نکتہ نگاہ میں رہنا چاہیے۔ عربی زبان کے عام قاعدے کی رو سے یہاں عٰھَدَعَلَیْہِ اللہَ پڑھا جانا چاہیے تھا، لیکن اس عام قاعدے سے ہٹ کر اس جگہ عَلَیْہُ اللہَ پڑھا جاتا ہے۔ علامہ آلوسی نے اس غیر معمولی اِعراب کے دو وجوہ بیان کیے ہیں ۔ ایک یہ کہ اس خاص موقع پر اس ذات کی بزرگی اور جلالت شان کا اظہار مقصود ہے جس کے ساتھ یہ عہد استوار کیا جا رہا تھا اس لیے یہاں عَلَیْہِ کے بجائے عَلَیْہُ ہی زیادہ مناسب ہے۔ دوسرے یہ کہ عَلَیْہِ میں ’’ہ‘‘ دراصل ھُوَ کی قائم مقام ہے اور اس کا اصلی اعراب پیش ہی تھا نہ کہ زیر ۔ لہٰذا یہاں اس کے اصلی اعراب کو باقی رکھنا وفائے عہد کے مضمون سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔