Tafheem ul Quran

Surah 48 Al-Fath, Ayat 11-17

سَيَـقُوۡلُ لَكَ الۡمُخَلَّفُوۡنَ مِنَ الۡاَعۡرَابِ شَغَلَـتۡنَاۤ اَمۡوَالُـنَا وَاَهۡلُوۡنَا فَاسۡتَغۡفِرۡ لَـنَا​ ۚ يَقُوۡلُوۡنَ بِاَلۡسِنَتِهِمۡ مَّا لَـيۡسَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ​ؕ قُلۡ فَمَنۡ يَّمۡلِكُ لَـكُمۡ مِّنَ اللّٰهِ شَيۡـئًـا اِنۡ اَرَادَ بِكُمۡ ضَرًّا اَوۡ اَرَادَ بِكُمۡ نَفۡعًا ​ؕ بَلۡ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرًا‏ ﴿48:11﴾ بَلۡ ظَنَـنۡـتُمۡ اَنۡ لَّنۡ يَّـنۡقَلِبَ الرَّسُوۡلُ وَالۡمُؤۡمِنُوۡنَ اِلٰٓى اَهۡلِيۡهِمۡ اَبَدًا وَّزُيِّنَ ذٰ لِكَ فِىۡ قُلُوۡبِكُمۡ وَظَنَنۡتُمۡ ظَنَّ السَّوۡءِ ۖۚ وَكُنۡـتُمۡ قَوۡمًا ۢ بُوۡرًا‏ ﴿48:12﴾ وَمَنۡ لَّمۡ يُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعۡتَدۡنَا لِلۡكٰفِرِيۡنَ سَعِيۡرًا‏ ﴿48:13﴾ وَلِلّٰهِ مُلۡكُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ​ؕ يَغۡفِرُ لِمَنۡ يَّشَآءُ وَيُعَذِّبُ مَنۡ يَّشَآءُ​ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوۡرًا رَّحِيۡمًا‏ ﴿48:14﴾ سَيَـقُوۡلُ الۡمُخَلَّفُوۡنَ اِذَا انْطَلَقۡتُمۡ اِلٰى مَغَانِمَ لِتَاۡخُذُوۡهَا ذَرُوۡنَا نَـتَّبِعۡكُمۡ​ ۚ يُرِيۡدُوۡنَ اَنۡ يُّبَدِّلُوۡا كَلٰمَ اللّٰهِ​ ؕ قُلْ لَّنۡ تَتَّبِعُوۡنَا كَذٰلِكُمۡ قَالَ اللّٰهُ مِنۡ قَبۡلُ​ ۚ فَسَيَقُوۡلُوۡنَ بَلۡ تَحۡسُدُوۡنَـنَا​ ؕ بَلۡ كَانُوۡا لَا يَفۡقَهُوۡنَ اِلَّا قَلِيۡلًا‏ ﴿48:15﴾ قُلْ لِّلۡمُخَلَّفِيۡنَ مِنَ الۡاَعۡرَابِ سَتُدۡعَوۡنَ اِلٰى قَوۡمٍ اُولِىۡ بَاۡسٍ شَدِيۡدٍ تُقَاتِلُوۡنَهُمۡ اَوۡ يُسۡلِمُوۡنَ​ ۚ فَاِنۡ تُطِيۡـعُوۡا يُـؤۡتِكُمُ اللّٰهُ اَجۡرًا حَسَنًا​ ۚ وَاِنۡ تَتَـوَلَّوۡا كَمَا تَوَلَّيۡـتُمۡ مِّنۡ قَبۡلُ يُعَذِّبۡكُمۡ عَذَابًا اَ لِيۡمًا‏ ﴿48:16﴾ لَيۡسَ عَلَى الۡاَعۡمٰى حَرَجٌ وَّلَا عَلَى الۡاَعۡرَجِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَى الۡمَرِيۡضِ حَرَجٌ​ ؕ وَمَنۡ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ يُدۡخِلۡهُ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ​​ۚوَمَنۡ يَّتَوَلَّ يُعَذِّبۡهُ عَذَابًا اَلِيۡمًا‏  ﴿48:17﴾

11 - اے نبیؐ ، بدوی عربوں20 میں سے جو لوگ پیچھے چھوڑ دیے گئے تھے اب وہ آکر ضرور تم سے کہیں گے کہ ” ہمیں اپنے اموال اور بال بچّوں کی فکر نے مشغول کر رکھا تھا، آپ ہمارے لیے مغفرت کی دُعا فرمائیں۔“ یہ لوگ اپنی زبانوں سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتیں۔21 ان سے کہنا” اچھا ، یہی بات ہے تو کون تمہارے معاملہ میں اللہ کے فیصلے کو روک دینے کا کچھ بھی اختیار رکھتا ہے اگر وہ تمہیں کوئی نقصان پہنچانا چاہے یا نفع بخشنا چاہے؟ تمہارے اعمال سے تو اللہ ہی باخبر ہے۔22 12 - (مگر اصلہ بات وہ نہیں ہے جو تم کہہ رہے ہو) بلکہ تم نے یوں سمجھا کہ رسول اور مومنین اپنے گھر والوں میں ہر گز پلٹ کر نہ آسکیں گے اور یہ خیال تمہارے دلوں کو بہت بھلا لگا23 اور تم نے بہت بُرے گمان کیے اور تم سخت بد باطن لوگ ہو“24۔ 13 - اللہ اور اس کے رسول پر جو لوگ ایمان نہ رکھتے ہوں ایسے کافروں کے لیے ہم نے بھڑکتی ہوئی آگ مہیّا کر رکھی ہے۔25 14 - آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا مالک اللہ ہی ہے۔ جسے چاہے معاف کرے اور جسے چاہے سزا دے، اور وہ غفورورحیم ہے۔26 15 - جب تم مالِ غنیمت حاصل کرنے کے لیے جانے لگو گے تو یہ پیچھے چھوڑے جانے والے لوگ تم سے ضرور کہیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے دو۔27 یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے فرمان کو بدل دیں۔28 ان سے صاف کہہ دینا کہ ”تم ہر گز ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے ،اللہ پہلے ہی یہ فرما چکا ہے۔“29 یہ کہیں گے کہ”نہیں، بلکہ تم لوگ ہم سے حسد کر رہے ہو“۔(حالانکہ بات حسد کی نہیں ہے)بلکہ یہ لوگ صحیح بات کو کم ہی سمجھتے ہیں ۔ 16 - ان پیچھے چھوڑے جانے والے بدوی عربوں سے کہنا کہ”عنقریب تمہیں ایسے لوگوں سے لڑنے کے لیے بلایا جائے گا جو بڑے زور آور ہیں۔ تم کو ان سے جنگ کرنی ہوگی یا وہ مطیع ہوجائیں گے۔30 اس وقت اگر تم نے حکم جہاد کی اطاعت کی تو اللہ تمہیں اچھا اجر دیگا، اور اگر تم پھر اسی طرح منہ موڑ گئے جس طرح پہلے موڑ چکے ہو تو اللہ تم کو درد ناک سزا دے گا۔ 17 - اگر اندھا اور لنگڑا اور مریض جہاد کے لیے نہ آئے تو کوئی حرج نہیں۔31 جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اللہ اسے ان جنّتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہو ں گی اور جو منہ پھیرے گا اسے وہ درد ناک عذاب دے گا“۔ ؏۲


Notes

20. یہ اطراف مدینہ کے ان لوگوں کا ذکر ہے جنہیں عمرے کی تیاری شروع کرتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ساتھ چلنے کی دعوت دی تھی، مگر وہ ایمان کا دعویٰ رکھنے کے باوجود صرف اس لیے اپنے گھروں سے نہ نکلے تھے کہ انہیں اپنی جان عزیز تھی ۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اَسلم،مُزَینہ، جُہَینہ ،غِفار، اَشْجع، دِیل وغیرہ قبائل کے لوگ تھے۔

21. اس کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ تمہارے مدینہ پہنچنے کے بعد یہ لوگ اپنے نہ نکلنے کے لیے جو عذر اب پیش کریں گے وہ محض ایک جھوٹا بہانہ ہو گا ، ورنہ ان کے دل جانتے ہیں کہ وہ در اصل کیوں بیٹھ رہے تھے ۔ دوسرے یہ کہ ان کا اللہ کے رسول سے دعائے مغفرت کی درخواست کرنا محض زبانی جمع خرچ ہو گا۔ اصل میں وہ نہ اپنی اس حرکت پر نادم ہیں، نہ انہیں یہ احساس ہے کہ انہوں نے رسول کا ساتھ نہ دے کر کسی گناہ کا ارتکاب کیا ہے، اور نہ ان کے دل میں مغفرت کی کوئی طلب ہے۔ اپنے نزدیک تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اس خطرناک سفر پر نہ جا کر بڑی عقلمندی کی ہے۔ اگر انہیں واقعی اللہ اور اس کی مغفرت کی کوئی پروا ہوتی تو وہ گھر بیٹھے ہی کیوں رہتے۔

22. یعنی اللہ کا فیصلہ تو اس علم کی بنا پر ہوگا جو وہ تمہارے عمل کی حقیقت کے متعلق رکھتا ہے۔ اگر تمہارا عمل سزا کا مستحق ہو اور میں تمہارے لیے مغفرت کی دعا کر دوں تو میری یہ دعا تمہیں اللہ کی سزا سے نہ بچا دے گی۔ اور اگر تمہارا عمل سزا کا مستحق نہ ہو اور میں تمہارے حق میں استغفار نہ کروں تو میرا استغفار نہ کرنا تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچا دے گا ۔ اختیار میرا نہیں بلکہ اللہ کا ہے، اور اس کو کسی کی زبانی باتیں دھوکا نہیں دے سکتیں۔ اس لیے تمہارے ظاہری قول کو میں سچ مان بھی لوں اور اس بنا پر تمہارے حق میں دعائے مغفرت بھی کر دوں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

23. یعنی تم اس بات پر بہت خوش ہوئے کہ رسول اور اس کا ساتھ دینے والے اہل ایمان جس خطرے کے منہ میں جا رہے ہیں اس سے تم نے اپنے آپ کوبچا لیا ۔ تمہاری نگاہ میں یہ بڑی دانشمندی کا کام تھا۔ اور تمہیں اس بات پر بھی خوش ہوتے ہوئے کوئی شرم نہ آئی کہ رسول اور اہل ایمان ایک ایسی مہم پر جا رہے ہیں جس سے وہ بچ کر نہ آئیں گے۔ ایمان کا دعویٰ رکھتے ہوئے بھی تم اس پر مضطرب نہ ہوئے بلکہ اپنی یہ حرکت تمہیں بہت اچھی معلوم ہوئی کہ تم نے اپنے آپ کو رسول کے ساتھ اس خطرے میں نہیں ڈالا۔

23. یعنی تم اس بات پر بہت خوش ہوئے کہ رسول اور اس کا ساتھ دینے والے اہل ایمان جس خطرے کے منہ میں جا رہے ہیں اس سے تم نے اپنے آپ کوبچا لیا ۔ تمہاری نگاہ میں یہ بڑی دانشمندی کا کام تھا۔ اور تمہیں اس بات پر بھی خوش ہوتے ہوئے کوئی شرم نہ آئی کہ رسول اور اہل ایمان ایک ایسی مہم پر جا رہے ہیں جس سے وہ بچ کر نہ آئیں گے۔ ایمان کا دعویٰ رکھتے ہوئے بھی تم اس پر مضطرب نہ ہوئے بلکہ اپنی یہ حرکت تمہیں بہت اچھی معلوم ہوئی کہ تم نے اپنے آپ کو رسول کے ساتھ اس خطرے میں نہیں ڈالا۔

24. اصل الفاظ ہیں کُنْتُمْ قَوْماً بُوْراً ۔ بور جمع ہے بائر کی۔ اور بائر کے دو معنی ہیں ایک، فاسد ، بگڑا ہوا آدمی ، جو کسی بھلے کام کے لائق نہ ہو، جس کی نیت میں فساد ہو۔ دوسرے ہالک، بد انجام ، تباہی کے راستے پر جانے والا۔

25. یہاں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو صاف الفاظ میں کافر اور ایمان سےخالی قرار دیتا ہے جو اللہ اور اس کے دین کے معاملہ میں مخلص نہ ہوں اور آزمائش کا وقت آنے پر دین کی خاطر اپنی جان و مال اور اپنے مفاد کو خطرے میں ڈالنے سے جی چرا جائیں۔ لیکن یہ خیال رہے کہ یہ وہ کفر نہیں ہےجس کی بنا پر دنیا میں کسی شخص یا گروہ کو خارج از اسلام قرار دے دیا جائے، بلکہ وہ کفر ہے جس کی بنا پر آخرت میں وہ غیر مومن قرار پائے گا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان لوگوں کو ، جن کے بارے میں یہ نازل ہوئی تھی، خارج از اسلام قرار نہیں دیا اور نہ ان سے وہ معاملہ کیا جو کفار سے کیا جاتا ہے۔

26. اوپر کی شدید تنبیہ کے بعد اللہ کے غفور و رحیم ہونے کا ذکر اپنے اندر نصیحت کا ایک لطیف پہلو رکھتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اب بھی اپنی غیر مخلصانہ روش کو چھوڑ کر تم لوگ اخلاص کی راہ پر آ جاؤ تو اللہ کو تم غفور و رحیم پاؤ گے۔ وہ تمہاری پچھلی کوتاہیوں کو معاف کر دے گا اور آئندہ تمہارے ساتھ وہ معاملہ کرے گا جس کے تم اپنے خلوص کی بنا پر مستحق ہو گے۔

27. یعنی عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب یہی لوگ ، جو آج خطرے کی مہم پر تمہارے ساتھ جانے سے جی چُرا گئے تھے، تمہیں ایک ایسی مہم پر جاتے دیکھیں گے جس میں ان کو آسان فتح اور بہت سے اموال غنیمت کے حصول کا امکان نظر آئے گا، اور اس وقت یہ خود دوڑے آئیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ لے چلو۔ یہ وقت صلح حدیبیہ کے تین ہی مہینے بعد آگیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خیبر پر چڑھائی کی اور بڑی آسانی کے ساتھ اسے فتح کر لیا۔ اس وقت ہر شخص کو یہ بات صاف نظر آ رہی تھی کہ قریش سے صلح ہو جانے کے بعد اب خیبر ہی کے نہیں ، بلکہ تَیما ، فَدَک، وادی القریٰ، اور شمالی حجاز کے دوسرے یہودی بھی مسلمانوں کی طاقت کا مقابلہ نہ کر سکیں گے اور یہ ساری بستیاں پکّے پھل کی طرح اسلامی حکومت کی گود میں آ گریں گی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ان آیات میں پیشگی خبر دار کر دیا کہ اطراف مدینہ کے یہ موقع پرست لوگ ان آسان فتوحات کو حاصل ہوتے دیکھ کر ان میں حصہ بٹا لینے کے لیے آ کھڑے ہوں گے، مگر تم انہیں صاف جواب دے دینا کہ ان میں حصہ لینے کا موقع تمہیں ہر گز نہ دیا جائے گا، بلکہ یہ ان لوگوں کا حق ہے جو خطرات کے مقابلے میں سرفروشی کے لیے آگے بڑھے تھے۔

28. اللہ کے فرمان سے مراد یہ فرمان ہے کہ خیبر کی مہم پر حضور کے ساتھ صرف انہی لوگوں کو جانے کی اجازت دی جائے گی جو حدیبیہ کی مہم پر آپ کے ساتھ گئے تھے اور بیعت رضوان میں شریک ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے خیبر کے اموال غنیمت ان ہی کے لیے مخصوص فرما دیے تھے جیسا کہ آگے آیت 18 میں بصراحت ارشاد ہوا ہے۔

29. ’’ اللہ پہلے یہ فرما چکا ہے‘‘ کے الفاظ سے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ اس آیت سے پہلے کوئی حکم اس مضمون کا آیا ہوا ہوگا جس کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے، اور چونکہ اس سورہ میں اس مضمون کا کوئی حکم اس آیت سے پہلے نہیں ملتا اس لیے انہوں نے قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر اسے تلاش کرنا شروع کیا، یہاں تک کہ سورہ توبہ کی آیت 84 انہیں مل گئی جس میں یہی مضمون ایک اور موقع پر ارشاد ہوا ہے۔ لیکن در حقیقت وہ آیت اس کی مصداق نہیں ہے، کیونکہ وہ غزوہ تبوک کے سلسلے میں نازل ہوئی تھی جس کا زمانہ نزول سورہ فتح کے زمانہ نزول سے تین سال بعد کا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اس آیت کا اشارہ خود اسی سورہ کی آیات 18 ۔ 19 کی طرف ہے ، اور اللہ کے پہلے فرما چکنے کا مطلب اس آیت سے پہلے فرمانا نہیں ہے بلکہ مخلَّفین کے ساتھ اس گفتگو سے پہلے فرمانا ہے۔ مخلَّفین کے ساتھ یہ گفتگو ، جس کے متعلق یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو پیشگی ہدایات دی جا رہی ہیں، خیبر کی مہم پر جانے کے وقت ہونے والی تھی ، اور یہ پوری سورۃ ، جس میں آیات 18 ۔ 19 بھی شامل ہیں، اس سے تین مہینے پہلے حدیبیہ سے پلٹتے وقت راستے میں نازل ہو چکی تھیں ۔ سلسلہ کلام کو غور سےدیکھیے تو معلوم ہو جائے گا کہ یہاں اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو یہ ہدایت دے رہا ہے کہ جب تمہارے مدینہ واپس ہونے کے بعد یہ پیچھے رہ جانے والے لوگ آ کر تم سے یہ عذرات بیان کریں تو ان کو یہ جواب دینا، اور خیبر کی مہم پر جاتے وقت جب وہ تمہارے ساتھ چلنے کی خواہش ظاہر کریں تو ان سے یہ کہنا۔

30. اصل الفاظ ہیں اَوْیُسْلِمُوْنَ ۔ اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں اور دونوں ہی مراد ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اسلام قبول کر لیں ۔ دوسرے یہ کہ وہ اسلامی حکومت کی اطاعت قبول کر لیں۔

31. یعنی جس آدمی کے لیے شریک جہاد ہونے میں واقعی کوئی صحیح عذر مانع ہو اس پر تو کوئی گرفت نہیں، مگر ہٹے کٹے لوگ اگر بہانے بنا کر بیٹھ رہیں تو ان کو اللہ اور اس کے دین کے معاملہ میں مخلص نہیں مانا جا سکتا اور انہیں یہ موقع نہیں دیا جاسکتا کہ مسلم معاشرے میں شامل ہونے کے فوائد تو سمیٹتے رہیں ، مگر جب اسلام کے لیے قربانیاں دینے کا وقت آئے تو اپنی جان و مال کی خیر منائیں۔ اس مقام پر یہ بات جان لینی چاہیے کہ شریعت میں جن لوگوں کو شریک جہاد ہونے سے معاف رکھا گیا ہے وہ دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جو جسمانی طور پر جنگ کے قابل نہ ہوں، مثلاً کم سن لڑکے، عورتیں، مجنون، اندھے ، ایسے مریض جو جنگی خدمات انجام نہ دے سکتے ہوں ، اور ایسے معذور جو ہاتھ یا پاؤں بیکار ہونے کی وجہ سےجنگ میں حصہ نہ لے سکیں ۔ دوسرے وہ لوگ جن کے لیے کچھ اور معقول اسباب سے شامل جہاد ہونا مشکل ہو، مثلاً غلام، یا وہ لوگ جو لڑنے کے لیے تو تیار ہوں مگر ان کے لیے آلات جنگ اور دوسرے ضروری وسائل فراہم نہ ہوسکیں، یا ایسے قرض دار جنہیں جلدی سے جلدی اپنا قرض ادا کرنا ہو اور قرض خواہ انہیں مہلت نہ دے رہا ہو، یا ایسے لوگ جن کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک زندہ ہو اور وہ اس کا محتاج ہو کہ اولاد اس کی خبر گیری کرے۔ اس سلسلے میں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ والدین اگر مسلمان ہوں تو اولاد کو ان کی اجازت کے بغیر جہاد پر نہ جانا چاہیے، لیکن اگر وہ کافر ہوں تو ان کے روکنے سے کسی شخص کا رک جانا جائز نہیں ہے۔