Tafheem ul Quran

Surah 48 Al-Fath, Ayat 18-26

لَـقَدۡ رَضِىَ اللّٰهُ عَنِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اِذۡ يُبَايِعُوۡنَكَ تَحۡتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ فَاَنۡزَلَ السَّكِيۡنَةَ عَلَيۡهِمۡ وَاَثَابَهُمۡ فَتۡحًا قَرِيۡبًا ۙ‏ ﴿48:18﴾ وَّمَغَانِمَ كَثِيۡرَةً يَّاۡخُذُوۡنَهَا ​ؕ وَكَانَ اللّٰهُ عَزِيۡزًا حَكِيۡمًا‏  ﴿48:19﴾ وَعَدَكُمُ اللّٰهُ مَغَانِمَ كَثِيۡرَةً تَاۡخُذُوۡنَهَا فَعَجَّلَ لَكُمۡ هٰذِهٖ وَكَفَّ اَيۡدِىَ النَّاسِ عَنۡكُمۡ​ۚ وَلِتَكُوۡنَ اٰيَةً لِّلۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَيَهۡدِيَكُمۡ صِرَاطًا مُّسۡتَقِيۡمًاۙ‏ ﴿48:20﴾ وَّاُخۡرٰى لَمۡ تَقۡدِرُوۡا عَلَيۡهَا قَدۡ اَحَاطَ اللّٰهُ بِهَا​ؕ وَكَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرًا‏ ﴿48:21﴾ وَلَوۡ قَاتَلَـكُمُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لَوَلَّوُا الۡاَدۡبَارَ ثُمَّ لَا يَجِدُوۡنَ وَلِيًّا وَّلَا نَصِيۡرًا‏ ﴿48:22﴾ سُنَّةَ اللّٰهِ الَّتِىۡ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلُ ۖۚ وَلَنۡ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰهِ تَبۡدِيۡلًا‏ ﴿48:23﴾ وَهُوَ الَّذِىۡ كَفَّ اَيۡدِيَهُمۡ عَنۡكُمۡ وَاَيۡدِيَكُمۡ عَنۡهُمۡ بِبَطۡنِ مَكَّةَ مِنۡۢ بَعۡدِ اَنۡ اَظۡفَرَكُمۡ عَلَيۡهِمۡ​ؕ وَكَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِيۡرًا‏ ﴿48:24﴾ هُمُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَصَدُّوۡكُمۡ عَنِ الۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِ وَالۡهَدۡىَ مَعۡكُوۡفًا اَنۡ يَّبۡلُغَ مَحِلَّهٗ​ ؕ وَلَوۡلَا رِجَالٌ مُّؤۡمِنُوۡنَ وَنِسَآءٌ مُّؤۡمِنٰتٌ لَّمۡ تَعۡلَمُوۡهُمۡ اَنۡ تَطَئُوْ هُمۡ فَتُصِيۡبَكُمۡ مِّنۡهُمۡ مَّعَرَّةٌ ۢ بِغَيۡرِ عِلۡمٍ ۚ ​لِيُدۡخِلَ اللّٰهُ فِىۡ رَحۡمَتِهٖ مَنۡ يَّشَآءُ​ ۚ لَوۡ تَزَيَّلُوۡا لَعَذَّبۡنَا الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا مِنۡهُمۡ عَذَابًا اَ لِيۡمًا‏ ﴿48:25﴾ اِذۡ جَعَلَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا فِىۡ قُلُوۡبِهِمُ الۡحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الۡجَـاهِلِيَّةِ فَاَنۡزَلَ اللّٰهُ سَكِيۡنَـتَهٗ عَلٰى رَسُوۡلِهٖ وَعَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَاَلۡزَمَهُمۡ كَلِمَةَ التَّقۡوٰى وَ كَانُوۡۤا اَحَقَّ بِهَا وَاَهۡلَهَا​ؕ وَكَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمًا‏ ﴿48:26﴾

18 - اللہ مومنوں سے خوش ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے تم سےبیعت کر رہے تھے۔32 ان کے دلوں کا حال اس کو معلوم تھا، اس لیے اس نے ان پر سکینت نازل فرمائی،33 ان کو انعام میں قریبی فتح بخشی ، 19 - اور بہت سا مالِ غنیمت انہیں عطا کر دیا جسے وہ (عنقریب) حاصل کریں گے۔34 اللہ زبردست اور حکیم ہے۔ 20 - اللہ تم سے بکثرت اموالِ غنیمت کا وعدہ کرتا ہے جنہیں تم حاصل کرو گے۔35 فوری طور پر تو یہ فتح اس نے تمہیں عطا کر دی36 اور لوگوں کے ہاتھ تمہارے خلاف اٹھنے سے روک دیے،37 تاکہ یہ مومنوں کے لیے ایک نشانی بن جائے38 اور اللہ سیدھے راستے کی طرف تمہیں ہدایت بخشے۔39 21 - اِس کے علاوہ دوسری اور غنیمتوں کا بھی وہ تم سے وعدہ کرتا ہے جن پر تم ابھی تک قادر نہیں ہوئے ہو اور اللہ نے ان کو گھیر رکھا ہے،40 اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ 22 - یہ کافر لوگ اگر اس وقت تم سے لڑگئے ہو تے تو یقیناً پیٹھ پھیر جاتے اور کوئی حامی و مدد گار نہ پاتے۔41 23 - یہ اللہ کی سنّت ہے جو پہلے سے چلی آرہی ہے42 اور تم اللہ کی سنّت میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔ 24 - وہی ہے جس نے مکّہ کی وادی میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیے، حالانکہ وہ ان پر تمہیں غلبہ عطا کر چکا تھا اور جو کچھ تم کر رہے تھے اللہ اسے دیکھ رہا تھا۔ 25 - وہی لوگ تو ہیں جنھوں نے کفر کیا اور تم کو مسجد حرام سے روکا اور ہدی کے اونٹوں کو ان کی قربانی کی جگہ نہ پہنچنے دیا۔43 اگر (مکّہ میں) ایسے مومن مرد و عورت موجود نہ ہو تے جنھیں تم نہیں جانتے، اور یہ خطرہ نہ ہوتا کہ نادانستگی میں تم انھیں پامال کر دو گے اور اس سے تم پر حرف آئے گا( تو جنگ نہ روکی جاتی۔ روکی وہ اس لیے گئی)تاکہ اللہ اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کر لے۔ وہ مومن الگ ہو گئے ہوتے تو (اہل مکّہ میں سے) جو کافر تھے ان کو ہم ضرور سخت سزا دیتے۔44 26 - (یہی وجہ ہے کہ) جب ان کافروں نے اپنے دلوں میں جاہلانہ حمیّت بٹھالی 45تو اللہ نے اپنے رسول اور مومنوں پر سکینت نازل فرمائی46 اور مومنوں کو تقوٰی کی بات کا پابند رکھا کہ وہی اس کے زیادہ حق دار اور اس کے اہل تھے ۔ اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ ؏۳


Notes

32. یہاں پھر اسی بیعت کا ذکر ہے جو حدیبیہ کے مقام پر صحابہ کرام سے لی گئی تھی۔ اس بیعت کو بیعت رضوان کہا جاتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ خوش خبری سنائی ہے کہ وہ ان لوگوں سے راضی ہو گیا جنہوں نے اس خطرناک موقع پر جان کی بازی لگا دینے میں ذرہ برابر تامل نہ کیا اور رسولؐ کے ہاتھ پر سرفروشی کی بیعت کر کے اپنے صادق الایمان ہونے کا صریح ثبوت پیش کر دیا ۔ وقت وہ تھا کہ مسلمان صرف ایک ایک تلوار لیے ہوئے آئے تھے۔ صرف چودہ سو کی تعداد میں تھے۔ جنگی لباس میں بھی نہ تھے بلکہ احرام کی چادریں باندھے ہوئے تھے۔ اپنے جنگی مستقر(مدینہ) سے ڈھائی سو میل دور تھے ، اور دشمن کا گڑھ ، جہاں سے وہ ہر قسم کی مدد لا سکتا تھا، صرف 13 میل کے فاصلے پر واقع تھا۔ اگر اللہ اور اس کے رسول اور اس کے دین کے لیے ان لوگوں کے اندر خلوص کی کچھ بھی کمی ہوتی تو وہ اس انتہائی خطرناک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ساتھ چھوڑ جاتے اور اسلام کی بازی ہمیشہ کے لیے ہر جاتی ۔ ان کے اپنے اخلاص کے سوا کوئی خارجی دباؤ ایسا نہ تھا جس کی بنا پر وہ اس بیعت کے لیے مجبور ہوتے ۔ ان کا اس وقت خدا کے دین کے لیے مرنے مارنے پر آمادہ ہو جانا اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ وہ اپنے ایمان میں صادق و مخلص اور خدا اور رسولؐ کی وفاداری میں درجہ کمال پر فائز تھے ۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ سند خوشنودی عطا فرمائی ۔ اور اللہ کی سند خوشنودی عطا ہو جانے کے بعد اگر کوئی شخص ان سے ناراض ہو، یا ان پر زبان طعن دراز کرے تو اس کا معارضہ ان سے نہیں بلکہ اللہ سے ہے۔ اس پر جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جس وقت اللہ نے ان حضرات کو یہ خوشنودی کی سند عطا کی تھی اس وقت تو یہ مخلص تھے مگر بعد میں یہ خدا اور رسول کے بے وفا ہو گئے، وہ شاید اللہ سے یہ بد گمانی رکھتے ہیں کہ اسے یہ آیت نازل کرتے وقت ان کے مستقبل کی خبر نہ تھی، اس لیے محض اس وقت کی حالت دیکھ اس نے یہ پروانہ انہیں عطا کر دیا ، اور غالباً اسی بے خبری کی بنا پر اسے اپنی کتاب پاک میں بھی درج فرما دیا تاکہ بعد میں بھی، جب یہ لوگ بے وفا ہو جائیں ، ان کے بارے میں دنیا یہ آیت پڑھتی رہے اور اس خدا کے علم غیب کی داد دیتی رہے جس نے معاذاللہ ان بیوفاؤں کو یہ پروانہ خوشنودی عطا کیا تھا۔ جس درخت کے نیچے یہ بیعت ہوئی تھی اس کے متعلق حضرت نافع مولیٰ بن عمر کی یہ روایت عام طور پر مشہور ہو گئی ہے کہ لوگ اس کے پاس جا جا کر نمازیں پڑھنے لگے تھے، حضرت عمرؓ کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے لوگوں کو ڈانٹا اور اس درخت کو کٹوا دیا (طبقات ابن سعد ، ج 2، ص 100 )۔ لیکن متعدد روایات اس کے خلاف بھی ہیں ۔ ایک روایت خود حضرت نافع ہی سے طبقات ابن سعد میں یہ منقول ہوئی ہے کہ بیعت رضوان کے کئی سال بعد صحابہ کرام نے اس درخت کو تلاش کیا مگر اسے پہچان نہ سکے اور اس امر میں اختلاف ہو گیا کہ وہ درخت کونسا تھا( ص 105)۔ دوسری روایت بخاری و مسلم اور طبقات ابن سعد میں حضرت سعید بن المسیب کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے والد بیعت رضوان میں شریک تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ دوسرے سال جب ہم لوگ عمرۃالقضاء کے لیے گئے تو ہم اس درخت کو بھول چکے تھے، تلاش کرنے پر بھی ہم اسے نہ پاسکے ۔ تیسری روایت ابن جریر کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ اپنے عہد خلافت میں جب حدیبیہ کے مقام سے گزرے تو انہوں نے دریافت کیا کہ وہ درخت کہاں ہے جس کے نیچے بیعت ہوئی تھی۔ کسی نے کہا فلاں درخت ہے اور کسی نے کہا فلاں۔ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا، چھوڑو، اس تکلف کی کیا حاجت ہے۔

33. یہاں سکنیت سے مراد دل کی وہ کیفیت ہے جس کی بنا پر ایک شخص کسی مقصد عظیم کے لیے ٹھنڈے دل سے پورے سکون و اطمینان کے ساتھ اپنے آپ کو خطرے کے منہ میں جھونک دیتا ہے اور کسی خوف یا گھبراہٹ کے بغیر فیصلہ کر لیتا ہے کہ یہ کام بہر حال کرنے کا ہے خواہ نتیجہ کچھ بھی ہو۔

34. یہ اشارہ ہے خیبر کی فتح اور اس کے اموال غنیمت کی طرف ۔ اور یہ آیت اس امر کی تصریح کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ انعام صرف ان لوگوں کے لیے مخصوص فرما دیا تھا جو بیعت رضوان میں شریک تھے، ان کے سوا کسی کو اس فتح اور ان غنائم میں شریک ہونے کا حق نہ تھا۔ اسی بنا پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صفر 7ھ میں خیبر پر چڑھائی کرنے کے لیے نکلے تو آپ نے صرف ان ہی کو اپنے ساتھ لیا۔ اس میں شک نہیں کہ بعد میں حضورؐ نے حبش سے واپس آنے والے مہاجرین اور بعض دوسی اور اشعری صحابیوں کو بھی اموال خیبر میں سے کچھ حصہ عطا فرمایا، مگر وہ یا تو خمس میں سے تھا، یا اصحاب رضوان کی رضا مندی سے دیا گیا ۔ کسی کو حق کے طور پر اس مال میں حصہ دار نہیں بنایا گیا۔

35. اس سے مراد وہ دوسری فتوحات ہیں جو خیبر کے بعد مسلمانوں کو مسلسل حاصل ہوتی چلی گئیں ۔

36. اس سے مراد ہے صلح حدیبیہ جس کو سورۃ کے آغاز میں فتح مبین قرار دیا گیا ہے۔

37. یعنی کفار قریش کو یہ ہمت اس نے نہ دی کہ وہ حدیبیہ کے مقام پر تم سے لڑ جاتے ، حالانکہ تمام ظاہری حالات کے لحاظ سے وہ بہت زیادہ بہتر پوزیشن میں تھے، اور جنگی نقطہ نظر سے تمہارا پلہ ان کے مقابلہ میں بہت کمزور نظر آتا تھا۔ مزید براں اس سے مراد یہ بھی ہے کہ کسی دشمن طاقت کو اس زمانے میں مدینے پر بھی حملہ آور ہونے کی جرأت نہ ہوئی ، حالانکہ چودہ سو مردانِ جنگی کے نکل جانے کے بعد مدینے کا محاذ بہت کمزور ہو گیا تھا اور یہود و مشرکین اور منافقین اس موقع سے فائدہ اٹھا سکتے تھے۔

38. نشانی اس بات کی کہ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں ثابت قدم رہتا ہے اور اللہ کے بھروسے پر حق اور راستی کی حمایت کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے اسے اللہ کس کس طرح اپنی تائید و نصرت سے نوازتا ہے۔

39. یعنی تمہیں مزید بصیرت اور یقین حاصل ہو، اور آئندہ تم اسی طرح اللہ اور رسول کی اطاعت پر قائم رہو اور اللہ کے اعتماد پر راہ حق میں پیش قدمی کرتے چلے جاؤ، اور یہ تجربات تمہیں یہ سبق سکھا دیں کہ خدا کا دین جس اقدام کا تقاضا کر رہا ہو، مومن کا کام یہ ہے کہ خدا کے بھروسے پر وہ اقدام کر ڈالے، اس حیص بیص میں نہ لگ جائے کہ میری طاقت کتنی ہے اور باطل کی طاقتوں کا زور کتنا ہے۔

40. اغلب یہ ہے کہ یہ اشارہ فتح مکہ کی طرف ہے۔ یہی رائے قتادہ کی ہے اور اسی کو ابن جریر نے ترجیح دی ہے۔ ارشاد الٰہی کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تو مکہ تمہارے قابو میں نہیں آیا ہے مگر اللہ نے اسے گھیرے میں لے لیا ہے اور حدیبیہ کی اس فتح کے نتیجے میں وہ بھی تمہارے قبضے میں آ جائے گا۔

41. یعنی حدیبیہ میں جنگ کو اللہ نے اس لیے نہیں روکا کہ وہاں تمہارے شکست کھا جانے کا امکان تھا، بلکہ اس کی مصلحت کچھ دوسری تھی جسے آگے کی آیتوں میں بیان کیا جا رہا ہے ۔ اگر وہ مصلحت مانع نہ ہوتی، اور اللہ تعالیٰ اس مقام پر جنگ ہو جانے دیتا تو یقیناً کفار ہی کو شکست ہوتی اور مکہ معظمہ اسی وقت فتح ہو جاتا۔

42. اس جگہ اللہ کی سنت سے مراد یہ ہے کہ جو کفار اللہ کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اللہ ان کو ذلیل و خوار کرتا ہے۔ اور اپنے رسول کی مدد فرماتا ہے۔

43. یعنی جس خلوص اور بے نفسی کےساتھ تم لوگ دین حق کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دینے پر آمادہ ہو گئے تھے اور جس طرح بے چون و چرا رسول کی اطاعت کر رہے تھے، اللہ اسے بھی دیکھ رہا تھا، اور یہ بھی دیکھ رہا تھا کہ کفار سراسر زیادتی کر رہے ہیں ۔ اس صورت حال کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہیں اور اسی وقت تمہارے ہاتھوں سے ان کی سرکوبی کرا دی جاتی ۔ لیکن اس کے باوجود ایک مصلحت تھی جس کی بنا پر اللہ نے تمہارے ہاتھ ان سے اور ان کے ہاتھ تم سے روک دیے۔

44. یہ تھی وہ مصلحت جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے حدیبیہ میں جنگ نہ ہونے دی۔ اس مصلحت کے دو پہلو ہیں ۔ ایک یہ کہ مکہ معظمہ میں اس وقت بہت سے مسلمان مردو زن ایسے موجود تھے جنہوں نے یا تو اپنا ایمان چھپا رکھا تھا ، یا جن کا ایمان معلوم تھا، مگر وہ اپنی بے بسی کی وجہ سے ہجرت نہ کر سکتے تھے اور ظلم و ستم کے شکار ہو رہے تھے۔ اس حالت میں اگر جنگ ہوتی اور مسلمان کفار کو رگیدتے ہوئے مکہ معظمہ میں داخل ہوتے تو کفار کے ساتھ ساتھ یہ مسلمان بھی نادانستگی میں مسلمانوں کے ہاتھوں سے مارے جاتے جس سے مسلمانوں کو اپنی جگہ بھی رنج و افسوس ہوتا اور مشرکین عرب کو بھی یہ کہنے کا موقع مل جاتا کہ یہ لوگ تو لڑائی میں خود اپنے دینی بھائیوں کو بھی مارنے سے نہیں چوکتے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان بے بس مسلمانوں پر رحم کھا کر، اور صحابہ کرام کو رنج اور بد نامی سے بچانے کی خاطر اس موقع پر جنگ کو ٹال دیا ۔ دوسرا پہلو اس مصلحت کا یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ قریش کو ایک خونریز جنگ میں شکست دلوا کر مکہ فتح کرانا نہ چاہتا تھا بلکہ اس کے پیش نظر یہ تھا کہ دو سال کے اندر ان کو ہر طرف سے گھیر کر اس طرح بے بس کر دے کہ وہ کسی مزاحمت کے بغیر مغلوب ہو جائیں، اور پھر پورا کا پورا قبیلہ اسلام قبول کر کے اللہ کی رحمت میں داخل ہو جائے ، جیسا کہ فتح مکہ کے موقع پر ہوا۔

اس مقام پر یہ فقہی بحث پیدا ہوتی ہے کہ اگر ہماری اور کافروں کی جنگ ہو رہی ہو اور کافروں کے قبضے میں کچھ مسلمان مرد ، عورتیں ، بچے اور بوڑھے ہوں جنہیں وہ ڈھال بنا کر سامنے لے آئیں ، یا کافروں کے جس شہر پر ہم چڑھائی کر رہے ہوں وہاں مسلمان آبادی بھی موجود ہو، یا کافروں کا کوئی جنگی جہاز ہماری زد میں ہو اور اس کے اندر کافروں نے کچھ مسلمانوں کو بھی رکھ چھوڑا ہو، تو کیا ایسی صورت میں ہم ان پر گولہ باری کرسکتے ہیں؟ اس کے جواب میں مختلف فقہاء نے جو فیصلے دیے ہیں وہ حسب ذیل ہیں:

امام مالکؒ کہتے ہیں کہاس حالت میں گولہ باری نہیں کرنی چاہیے، اور اس کے لیے وہ اسی آیت کو دلیل قرار دیتے ہیں ۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بچانے کے لیے ہی تو حدیبیہ میں جنگ کو روک دیا(احکام القرآن لا بن العربی)۔ لیکن فی الواقع یہ ایک کمزور دلیل ہے۔ آیت میں کوئی لفظ ایسا نہیں ہے کہ جس سے یہ بات نکلتی ہو کہ ایسی حالت میں حملہ کرنا حرام و ناجائز ہے، بلکہ زیادہ سے زیادہ اس سے جو بات نکلتی ہے وہ یہ ہے کہ اس حالت میں مسلمانوں کو بچانے کے لیے حملہ سے اجتناب کیا جاسکتا ہے جب کہ اجتناب سے یہ خطرہ نہ کہ کفار کو مسلمانوں پر غلبہ حاصل ہو جائے گا، یا ان پر ہمارے فتح یاب ہونے کے مواقع باقی نہ رہیں گے۔

امام ابو حنیفہؒ ، امام ابو یوسفؒ ، امام زُفَرؒ اور امام محمدؒ کہتے ہیں کہ ان حالات میں گولہ باری کرنا بالکل جائز ہے، حتی کہ اگر کفار مسلمانوں کے بچوں کو ڈھال بنا کر سامنے لا کھڑا کریں تب بھی ان پر گولی چلانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اور جو مسلمان اس حالت میں مارے جائیں ان کے خون کا کوئی کفارہ اور کوئی دِیَت مسلمانوں پر واجب نہیں ہے۔ (احکام القرآن للجصاص کتاب السیرللامام محمد، باب قطع الماء عن اہل الحرب)۔

امام سفیان ثوری بھی اس حالت میں گولہ باری کو جائز رکھتے ہیں، مگر وہ کہتے ہیں کہ جو مسلمان اس حالت میں مارے جائیں ان کی دیت تو نہیں ، البتہ کفارہ مسلمانوں پر واجب ہے (احکام القرآن للجصاص)۔امام اوزاعی اور لَیث بن سعد کہتے ہیں کہ اگر کفار مسلمانوں کو ڈھال بنا کر سامنے لے آئیں تو ان پر گولی نہیں چلانی چاہیے۔ اسی طرح اگر ہمیں معلوم ہو کہ ان کے جنگی جہاز میں خود ہمارے قیدی بھی موجود ہیں، تو اس حالت میں اس کو غرق نہ کرنا چاہیے۔ لیکن اگر ہم ان کے کسی شہر پر حملہ کریں اور ہمیں معلوم ہو کہ اس شہر میں مسلمان بھی موجود ہیں تو اس پر گولہ باری کرنا جائز ہے، کیوں کہ یہ امر یقینی نہیں ہے کہ ہمارا گولہ مسلمانوں ہی پر جا کر گرے گا ، اور اگر کوئی مسلمان اس گولہ باری کا شکار ہو جائے تو یہ ہماری طرف سے بالقصد مسلمان کا قتل نہ ہو گا بلکہ نادانستگی میں ایک حادثہ ہو گا(احکام القرآن للجصاص)۔ امام شافعیؒ کا مذہب یہ ہے کہ اگر اس حالت میں گولہ باری کرنا نا گزیر نہ ہو تو مسلمانوں کو ہلاکت سے بچانے کی کوشش کرنا بہترہے۔ اگرچہ اس صورت میں گولہ باری کرنا حرام نہیں مکر وہ ضرور ہے۔ لیکن اگر فی الواقع اس کی ضرورت ہو، اور اندیشہ ہو کہ اگر ایسا نہ کیا جائے گا تو یہ کفار کے لیے جنگی حیثیت سے مفید اور مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہوگا تو پھر گولہ باری کرنا جائز ہے۔ مگر اس حالت میں بھی مسلمانوں کو بچانے کی حتی الامکان کوشش کرنی چاہیے۔ مزید براں امام شافعی یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر معرکہ قتال میں کفار کسی مسلمان کو ڈھال بنا کر آگے کریں اور کوئی مسلمان اسے قتل کر دے تو اس کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ قاتل کو معلوم تھا کہ یہ مسلمان ہے، اور دوسری صورت یہ کہ اسے معلوم نہ تھا کہ یہ مسلمان ہے۔ پہلی صورت میں دیت اور کفارہ دونوں واجب ہیں، اور دوسری صورت میں صرف کفارہ واجب ہے(مغنی المحتاج)۔

45. جاہلانہ حمیت سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص محض اپنی ناک کی خاطر یا اپنی بات کی پچ میں جان بوجھ کر ایک ناروا کام کرے ۔ کفار مکہ خود جانتے اور مانتے تھے کہ ہر شخص کو حج اور عمرے کے لیے بیت اللہ کی زیارت کا حق حاصل ہے، اور کسی کو اس مذہبی فریضے سے روکنے کا حق نہیں ہے۔ یہ عرب کا قدیم ترین مسلّم آئین تھا۔ لیکن اپنے آپ کو سراسر ناحق پر اور مسلمانوں کو بالکل بر سر حق جاننے کے باوجود انہوں نے محض اپنی ناک کی خاطر مسلمانوں کو عمرے سے روکا۔ خود مشرکین میں سے جو راستی پسند تھے وہ بھی یہ کہہ رہے تھے کہ جو لوگ احرام باندھ کر ہدی کے اونٹ ساتھ لیے ہوئے عمرہ کرنے آئے ہیں ان کو روکنا ایک بے جا حرکت ہے۔ مگر قریش کے سردار صرف اس خیال سے مزاحمت پر اڑے رہے کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ و سلم اتنی بڑی جمیعت کے ساتھ مکہ میں داخل ہو گئے تو تمام عرب میں ہماری ناک کٹ جائے گی۔ یہی ان کی حمیت جاہلیہ تھی۔

46. یہاں سکینت سے مراد ہے صبر اور وقار جس کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں نے کفار قریش کی اس جاہلانہ حمیت کا مقابلہ کیا ۔ وہ ان کی اس ہٹ دھرمی اور صریح زیادتی پر مشتعل ہو کر آپے سے باہر نہ ہوئے، اور ان کے جواب میں کوئی بات انہوں نےایسی نہ کی جو حق سے متجاوز اور راستی کے خلاف ہو، یا جس سے معاملہ بخیر و خوبی سلجھنے کے بجائے اور زیادہ بگڑ جائے۔