Tafheem ul Quran

Surah 48 Al-Fath, Ayat 27-29

لَـقَدۡ صَدَقَ اللّٰهُ رَسُوۡلَهُ الرُّءۡيَا بِالۡحَـقِّ​ ۚ لَـتَدۡخُلُنَّ الۡمَسۡجِدَ الۡحَـرَامَ اِنۡ شَآءَ اللّٰهُ اٰمِنِيۡنَۙ مُحَلِّقِيۡنَ رُءُوۡسَكُمۡ وَمُقَصِّرِيۡنَۙ لَا تَخَافُوۡنَ​ؕ فَعَلِمَ مَا لَمۡ تَعۡلَمُوۡا فَجَعَلَ مِنۡ دُوۡنِ ذٰلِكَ فَتۡحًا قَرِيۡبًا‏ ﴿48:27﴾ هُوَ الَّذِىۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَهٗ بِالۡهُدٰى وَدِيۡنِ الۡحَـقِّ لِيُظۡهِرَهٗ عَلَى الدِّيۡنِ كُلِّهٖ​ؕ وَكَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيۡدًا ؕ‏ ﴿48:28﴾ مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰهِ​ ؕ وَالَّذِيۡنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الۡكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيۡنَهُمۡ ​ تَرٰٮهُمۡ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضۡوَانًا​سِيۡمَاهُمۡ فِىۡ وُجُوۡهِهِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ​ ؕ ذٰ لِكَ مَثَلُهُمۡ فِى التَّوۡرٰٮةِ ۛ ۖۚ وَمَثَلُهُمۡ فِى الۡاِنۡجِيۡلِ ۛۚ كَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطْئَـهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسۡتَغۡلَظَ فَاسۡتَوٰى عَلٰى سُوۡقِهٖ يُعۡجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَـغِيۡظَ بِهِمُ الۡكُفَّارَ​ ؕ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنۡهُمۡ مَّغۡفِرَةً وَّاَجۡرًا عَظِيۡمًا‏ ﴿48:29﴾

27 - فی الواقع اللہ نے اپنے رسول کو سچا خواب دکھایا تھا جو ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق تھا۔47 اِنشاءاللہ 48تم ضرور مسجد حرام میں پورے امن کے ساتھ داخل ہوگے،49 اپنے سر منڈواؤ گے اور بال ترشواؤ گے،50 اور تمہیں کوئی خوف نہ ہو گا ۔ وہ اس بات کو جانتا تھا جسے تم نہ جانتے تھے اس لیے وہ خواب پورا ہونے سے پہلے اس نے یہ قریبی فتح تم کو عطا فرمادی۔ 28 - وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجاہے تاکہ اس کو پوری جنسِ دین پر غالب کر دے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔51 29 - محمدؐ اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت52 اور آپس میں رحیم ہیں۔53 تم جب دیکھو گے انہیں رکوع وسجود، اور اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں مشغول پاؤ گے۔ سجود کے اثرات ان کے چہروں پرموجود ہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں۔54 یہ ہے ان کی صفت توراة میں۔55 اور انجیل میں ان کی مثال یوں دی گئی ہے56 کہ گویا ایک کھیتی ہے جس نے پہلے کونپل نکالی، پھر اس کو تقویت دی ، پھر وہ گدرائی ، پھر اپنے تنے پر کھڑی ہو گئی ۔ کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کر تی ہے تاکہ کفار ان کے پھلنے پھولنے پر جلیں ۔ اِس گروہ کے لوگ جو ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں اللہ نےان سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے۔57 ؏۴


Notes

47. یہ اس سوال کا جواب ہے جو بار بار مسلمانوں کے دلوں میں کھٹک رہا تھا ۔ وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خواب تو یہ دیکھا تھا کہ آپ مسجد حرام میں داخل ہوئے ہیں اور بیت اللہ کا طواف کیا ہے، پھر یہ کیا ہوا کہ ہم عمرہ کیے بغیر واپس جا رہے ہیں۔ اس کے جواب میں اگر چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرما دیا تھا کہ خواب میں اسی سال عمرہ ہونے کی تصریح تو نہ تھی، مگر اس کے باوجود ابھی تک کچھ نہ کچھ خلش دلوں میں باقی تھی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے خود یہ وضاحت فرمائی کہ وہ خواب ہم نے دکھایا تھا، اور وہ بالکل سچا تھا ، اور وہ یقیناً پورا ہو کر رہے گا۔

48. یہاں اللہ تعالیٰ نے خود اپنے وعدے کے ساتھ ’’ ان شاء اللہ‘‘ کے الفاظ جو استعمال فرمائے ہیں، اس پر ایک معترض یہ سوال کرسکتا ہے کہ جب یہ وعدہ اللہ تعالیٰ خود ہی فرما رہا ہے تو اس کو اللہ کے چاہنے سے مشروط کرنے کے کیا معنی ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں یہ الفاظ اس معنی میں استعمال نہیں ہوئے ہیں کہ اگر اللہ نہ چاہے گا تو اپنا یہ وعدہ پورا نہ کرے گا ۔ بلکہ در اصل ان کا تعلق اس پس منظر سے ہے جس میں یہ وعدہ فرمایا گیا ہے۔ کہ کفار مکہ نے جس زعم کی بنا پر مسلمانوں کو عمرے سے روکنے کا یہ سارا کھیل کھیلا تھا وہ یہ تھا کہ جس کو ہم عمرہ کرنے دینا چاہیں گے وہ عمرہ کر سکے گا، اور جب ہم اسے کرنے دیں گے اسی وقت وہ کر سکے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ ان کی مشیت پر نہیں بلکہ ہماری مشیت پر موقوف ہے۔ اس سال عمرے کا نہ ہو سکنا اس لیے نہیں ہوا کہ کفار مکہ نے یہ چاہا تھا کہ وہ نہ ہو، بلکہ یہ اس لیے ہوا کہ ہم نے اس کو نہ ہونے دینا چاہا تھا ۔ اور آئندہ یہ عمرہ اگر ہم چاہیں گے تو ہو گا خواہ کفار چاہیں یا نہ چاہیں۔ اس کے ساتھ ان الفاظ میں یہ معنی بھی پوشیدہ ہیں کہ مسلمان بھی جو عمرہ کریں گے تو اپنے زور سے نہیں کریں گے بلکہ اس بنا پر کریں گے کہ ہماری مشیت یہ ہوگی کہ وہ عمرہ کریں۔ ورنہ ہماری مشیت اگر اس کے خلاف ہو تو ان کا یہ بل بوتا نہیں ہے کہ خود عمرہ کر ڈالیں۔

49. یہ وعدہ اگلے سال ذی القعدہ 7ھ میں پورا ہوا ۔ تاریخ میں یہ عمرہ ’’عمرۃ القضاء’‘ کے نام سے مشہور ہے۔

50. یہ الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ عمرے اور حج میں سر منڈوانا لازم نہیں ہے بلکہ بال ترشوانا بھی جائز ہے۔ البتہ مر منڈوانا افضل ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے پہلے بیان فرمایا ہے او ربال ترشوانے کا ذکر بعد میں کیا ہے۔

51. اس مقام پر یہ بات ارشاد فرمانے کی وجہ یہ ہے کہ حدیبیہ میں جب معاہدہ صلح لکھا جانے لگا تھا اس وقت کفار مکہ نے حضور کے اسم گرامی کے ساتھ رسول اللہ کے الفاظ لکھنے پر اعتراض کیا تھا اور ان کے اصرار پر حضورؐ نے خود معاہدے کی تحریر میں سے یہ الفاظ مٹا دیے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ ہمارے رسول کا رسول ہونا تو ایک حقیقت ہے جس میں کسی کے ماننے یا نہ ماننےسے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ اس کو اگر کچھ لوگ نہیں مانتے تو نہ مانیں۔ اس کے حقیقت ہونے پر صرف ہماری شہادت کافی ہے۔ ان کے انکار کردینےسے یہ حقیقت بدل نہیں جائے گی، بلکہ ان کے علی الرَّغم اس ہدایت اور اس دین حق کو پوری جنس دین پر غلبہ حاصل ہو کر رہے گا جسےلے کر یہ رسول ہماری طرف سے آیا ہے، خواہ یہ منکرین اسے روکنے کے لیے کتنا ہی زور مار کر دیکھ لیں۔ ’’پوری جنس دین‘‘سے مراد زندگی کے وہ تمام نظام ہیں جو ’’ دین‘‘ کی نوعیت رکھتے ہیں۔ اس کی مفصل تشریح ہم اس سے پہلے تفہیم القرآن، جلد چہارم ، تفسیر سورہ زمر، حاشیہ 3، اور تفسیر سورہ شوریٰ حاشیہ 20 میں کر چکے ہیں ۔ یہاں جو بات اللہ تعالیٰ نے صاف الفاظ میں ارشاد فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کا مقصد محض اس دین کی تبلیغ نہ تھا بلکہ اسے دین کی نوعیت رکھنے والے تمام نظامات زندگی پر غالب کر دینا تھا۔ دوسرے الفاظ میں آپ یہ دین اس لیے نہیں لائے تھے کہ زندگی کے سارےشعبوں پر غلبہ تو ہو کسی دین باطل کا اور اس کی قہر مانی کے تحت یہ دین ان حدود کے اندر سکڑ کر رہے جن میں دین غالب اسے جینے کی اجازت دے دے۔ بلکہ اسے آپ اس لیے لائے تھے کہ زندگی کا غالب دین یہ ہو اور دوسرا کوئی دین اگر جیے بھی تو ان حدود کے اندر جیے جن میں یہ اسے جینے کی اجازت دے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو، تفہیم القران، جلد چہارم، تفسیر سورہ زمر، حاشیہ48)۔

52. اصل الفاظ میں اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّار، ۔ عربی زبان میں کہتے ہیں فُلانٌ شَدِیْدٌ عَلَیْہِ، فلاں شخص اس پر شدید ہے، یعنی اس کو رام کرنا اور اپنے مطلب پر لانا اس کے لیے مشکل ہے۔ کفار پر اصحاب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے سخت ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کافروں کے ساتھ درشتی اور تند خوئی سے پیش آتے ہیں ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے ایمان کی پختگی، اصول کی مضبوطی، سیرت کی طاقت، اور ایمانی فراست کی وجہ سے کفار کے مقابلے میں پتھر کی چٹان کا حکم رکھتے ہیں۔ وہ موم کی ناک نہیں ہیں کہ انہیں کافر جدھر چاہیں موڑ دیں۔ وہ نرم چارہ نہیں ہیں کہ کافر انہیں آسانی کے ساتھ چبا جائیں۔ انہیں کسی خوف سے دبا یا نہیں جاسکتا ۔ انہیں کسی ترغیب سے خریدا نہیں جاسکتا۔ کافروں میں یہ طاقت نہیں ہے کہ انہیں اس مقصد عظیم سے ہٹا دیں جس کے لیے وہ سر دھڑ کی بازی لگا کر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا ساتھ دینے کے لیے اٹھے ہیں۔

53. یعنی ان کی سختی جو کچھ بھی ہے دشمنان دین کے لیے ہے، اہل ایمان کے لیے نہیں ہے۔ اہل ایمان کے مقابلے میں وہ نرم ہیں، رحیم و شفیق ہیں، ہمدرد و غمگسار ہیں۔ اصول اور مقصد کے اتحاد نے ان کے اندر ایک دوسرے کے لیے محبت اور ہم رنگی و ساز گاری پیدا کر دی ہے۔

54. اس سے مراد پیشانی کا وہ گٹہ نہیں ہے جو سجدے کرنے کی وجہ سے بعض نمازیوں کے چہرے پر پڑ جاتا ہے۔ بلکہ اس سےمراد خدا ترسی ، کریم النفسی، شرافت اور حسن اخلاق کے وہ آثار ہیں جو خدا کے آگے جھکنے کی وجہ سے فطرۃً آدمی کے چہرے پر نمایا ں ہو جاتے ہیں۔ انسان کا چہرہ ایک کھلی کتاب ہوتا ہے جس کے صفحات پر آدمی کے نفس کی کیفیات بآسانی دیکھی جاسکتی ہیں۔ ایک متکبر انسان کا چہرہ ایک متواضع اور منکسرالمزاج آدمی کے چہرے سےمختلف ہوتا ہے۔ ایک بد اخلاق آدمی کا چہرہ ایک نیک نفس اور خوش خلق آدمی کے چہرے سے الگ پہچانا جاتا ہے۔ ایک لفنگے اور بد کار آدمی کی صورت اور ایک شریف پاک باز آدمی کی سورت میں نمایاں فرق ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا منشاء یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے یہ ساتھی تو ایسے ہیں کہ ان کو دیکھتے ہی ایک آدمی بیک نظر یہ معلوم کر سکتا ہے کہ یہ خیر الخلائق ہیں، کیونکہ خدا پرستی کا نور ان کے چہروں پر چمک رہا ہے ۔ یہ وہی چیز ہے جس کے متعلق امام مالکؒ بیان کرتے ہیں کہ جب صحابہ کرام کی فوجیں شام کی سر زمین میں داخل ہوئیں تو شام کے عیسائی کہتے تھے کہ مسیح کے حواریوں کی جو شان ہم سنتے تھے یہ تو اسی شان کے لوگ نظر آتے ہیں۔

55. غالباً یہ اشارہ کتاب استثناء، باب 33 ، آیات 2۔3 کی طرف ہے جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد مبارک کا ذکر کرتے ہوئے آپ کے صحابہ کے لیے’’ قدسیوں‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے سوا اگر صحابہ کرام کی کوئی صفت توراۃ میں بیان ہوئی تھی تو وہ اب موجودہ محرف توراۃ میں نہیں ملتی۔

56. یہ تمثیل حضرت عیسیٰ علیہالسلام کے ایک وعظ میں بیان ہوئی ہے جسےبائیبل کے عہد نامہ جدید میں اس طرح نقل کیا گیا ہے۔ ’’اور اس نے کہا خدا کی بادشاہی ایسی ہے جیسےکوئی آدمی زمین میں بیج ڈالے اور رات کو سوئے اورد ن کو جاگے اور وہ بیج اس طرح اگے اور بڑھے کہ وہ نہ جانے۔ زمین آپ سےآپ پھل لاتی ہے۔ پتی،پھر بالیں ، پھر بالوں میں تیار دانے، پھر جب اناج پک چکا تو وہ فی الفور درانتی لگاتا ہے کیونکہ کاٹنے کا وقت آ پہنچا ۔ ۔ ۔ ۔ وہ رائی کے دانے کے مانند ہے کہ جب زمین میں بویا جاتا ہےتو زمین کےسب بیجوں سے چھوٹا ہوتا ہے۔ مگر جب بو دیا گیا تو اگ کر سب ترکاریوں سے بڑا ہو جاتا ہے اور ایسی بڑی ڈالیاں نکالتا ہے کہ ہوا کے پرندےاس کے سائے میں بسیر کرسکتےہیں۔‘‘ (مرقس،بابا4، آیات 26 تا 32۔ اس وعظ کا آخری حصہ انجیل متی ، باب13، آیات 31۔32 میں بھی ہے)۔

57. ایک گروہ اس آیت میں مِنْھُمْ کی مِنْ کو تبعیض کے معنی میں لیتا ہے اور آیت کا ترجمہ یہ کرتا ہے کہ ’’ان میں سےجو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اللہ نے ان سےمغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے‘‘۔ اس طرح یہ لوگ صحابہ پر طعن کا راستہ نکالتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ اس آیت کی رو سے صحابہ میں سے بہت سے لوگ مومن و صالح نہ تھے ۔ لیکن یہ تفسیر اسی سورۃ کی آیات 4۔5۔18 اور 26 کے خلاف پڑتی ہے، اور خود اس آیت کے ابتدائی فقروں سے بھی مطابقت نہیں رکھتی ۔ آیات 4۔5۔ میں اللہ تعالیٰ نے ان تمام صحابہ کے دلوں میں سکنیت نازل کیے جانے اور ان کے ایمان میں اضافہ ہونے کا ذکر فرمایا ہے جو حدیبیہ میں حضور کے ساتھ تھے، اور بالا استثناء ان سب کو جنت میں داخل ہونے کی بشارت دی ہے ۔ آیت 18 میں اللہ تعالیٰ نے ان سب لوگوں کے حق میں اپنی خوشنودی کا اظہار فرمایا ہے جنہوں نے درخت کے نیچے حضور سے بیعت کی تھی، اور اس میں بھی کوئی استثناء نہیں ہے۔ آیت 26 میں بھی حضورؐ کے تمام ساتھیوں کے لیے مومنین کا لفظ استعمال کیا ہے، ان کے اوپر اپنی سکینت نازل کرنے کی خبر دی ہے، اور فرمایا ہے کہ یہ لوگ کلمہ تقویٰ کی پابندی کے زیادہ حق دار اور اسکے اہل ہیں۔ یہاں بھی یہ نہیں فرمایا کہ ان میں سے جو مومن ہیں صرف ان ہی کے حق میں یہ خبر دی جا رہی ہے۔ پھر خود اس آیت کے بھی ابتدائی فقروں میں جو تعریف بیان کی گی ہے وہ ان سب لوگوں کے لیے ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھے۔ الفاظ یہ ہیں کہ جو لوگ بھی آپ کے ساتھ ہیں وہ ایسے اور ایسے ہیں۔ اس کے بعد یکایک آخری فقرے پر پہنچ کر یہ ارشاد فرمانے کا آخر کیا موقع ہو سکتا تھا کہ ان میں سےکچھ لوگ مومن و صالح تھے اور کچھ نہ تھے۔ اس لیے یہاں منْ کو تبعیض کے معنی میں لینا نظم کلام کے خلاف ہے۔ در حقیقت یہاں مِنْ بیان کےلیےہےجس طرح آیت فَاجْتَنِبُو ا الرِّجْسَ مِنَ الْاوثَانِ (بتوں کی گندگی سےبچو) میں مِنْ تبعیض کے لیے نہیں بلکہ لازماً بیان ہی کے لیے ہے، ورنہ آیت کے معنی یہ ہو جائیں گے کہ ’’ بتوں میں سےجونا پاک ہیں ان سے پرہیز کرو، اور اس سےنتیجہ یہ نکلے گا کہ کچھ بت پاک بھی قرار پائیں گے جن کی پرستش سےپرہیز لازم نہ ہو گا۔