1. یعنی اُن حُدُود اور قیُود کی پابندی کرو جو اس سُورۃ میں تم پر عائد کی جا رہی ہیں، اور جو بالعمُوم خدا کی شریعت میں تم پر عائد کی گئی ہیں۔ اس مختصر سے تمہیدی جملہ کے بعد ہی اُس بندشوں کا بیان شروع ہو جاتا ہے جن کی پابندی کا حکم دیا گیا ہے۔
2. ”اَنعام“ (مویشی) کا لفظ عربی زبان میں اُونٹ ، گائے ، بھیڑ اور بکری پر بولا جاتا ہے۔ اور ”بہیمہ“ کا اطلاق ہر چَرنے والے چوپائے پر ہوتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہوتا کہ انعام تمہارے لیے حلال کیے گئے ، تو اس سے صرف وہی چار جانور حلال ہوتے جنہیں عربی میں”انعام “ کہتے ہیں۔ لیکن حکم اِن الفاظ میں دیا گیا ہے کہ”مویشی کی قسم کے چرند ہ چوپائے تم پر حلال کیے گئے “۔ اس سے حکم وسیع ہو جاتا ہے اور وہ سب چرندہ جانور اس کےدائرے میں آجاتے ہیں جو مویشی کی نوعیّت کے ہوں۔ یعنی جو کچلیاں نہ رکھتے ہوں، حیوانی غذا کے بجائے نباتی غذا کھاتے ہوں، اور دُوسری حیوانی خصُوصیات میں اَنعامِ عرب سے مماثلت رکھتے ہوں۔ نیز اس سے اشارۃً یہ بات بھی مترشح ہو تی ہے کہ وہ چوپائے جو مویشیوں کے بر عکس کچلیاں رکھتے ہوں اور دُوسرے جانوروں کو مار کر کھاتے ہوں، حلال نہیں ہیں۔ اسی اشارے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کر کے حدیث میں صاف حکم دے دیا کہ درندے حرام ہیں۔ اسی طرح حضور نے اُن پرندوں کو بھی حرام قرار دیا ہے جن کے پنجے ہوتے ہیں اور جو دوسرے جانوروں کا شکار کرکے کھاتے ہیں یا مُردار خور ہوتے ہیں۔ ابن عباس کی روایت ہے کہ نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن کل ذی ناب من ا لسباع و کل ذی مخلب من الطیر۔ دُوسرے متعدّد صحابہ سے بھی اس کی تائید میں روایات منقول ہیں۔
3 ۔ "احرام“ اُس فقیرانہ لباس کو کہتے ہیں جو زیارت کعبہ کے لیے پہنا جاتا ہے ۔ کعبہ کے گرد کئی کئی منزل کے فاصلہ پر ایک حد مقرر کر دی گئی ہے جس سے آگے بڑھنے کی کسی زائر کو اجازت نہیں جب تک کہ وہ اپنا معمُولی لباس اُتار کر احرام کا لباس نہ پہن لے۔ اس لباس میں صرف ایک تَہمت ہوتا ہے اور ایک چادر جو اُوپر سے اوڑھی جاتی ہے۔ اسے احرام اس لیے کہتے ہیں کہ اسے باندھنے کے بعد آدمی پر بہت سی وہ چیزیں حرام ہو جاتی ہیں جو معمُولی حالات میں حلال ہیں، مثلاً حجامت، خوشبوکا استعمال، ہر قسم کی زینت و آرائش اور قضا ء شہوت وغیرہ۔ انہی پابندیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی جاندار کو ہلاک نہ کیا جائے، نہ شکار کیا جائے اور نہ کسی کو شکار کا پتہ دیا جائے۔
4. یعنی اللہ حاکمِ مطلق ہے ، اسے پُورا اختیار ہے کہ جو چاہے حکم دے۔ بندوں کو اُس کے احکام میں چون و چرا کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اگر چہ اس کے تمام احکام حکمت و مصلحت پر مبنی ہیں ، لیکن بندۂ مسلم اس کے حکم کی اطاعت اس حیثیت سے نہیں کرتا کہ وہ اسے مناسب پاتا ہے یا مبنی بر مصلحت سمجھتا ہے، بلکہ صرف اس بنا پر کرتا ہے کہ یہ مالک کا حکم ہے۔ جو چیز اس نے حرام کر دی ہے وہ صرف اس لیے حرام ہے کہ اس نے حرام کی ہے، اور اسی طرح جو اس نے حلال کر دی ہے وہ بھی کسی دُوسری بنیاد پر نہیں بلکہ صر ف اس بُنیاد پر حلال ہے کہ جو خدا ان ساری چیزوں کا مالک ہے، وہ اپنے غلاموں کو اس چیز کے استعمال کی اجازت دیتا ہے۔ لہٰذا قرآن پُورے زور کے ساتھ یہ اُصُول قائم کرتا ہے کہ اشیاء کی حُرمت و حِلّت کے لیے مالک کی اجازت و عدم اجازت کے سوا کسی اور بُنیاد کی قطعاً ضرورت نہیں ، اور اسی طرح بندے کے لیے کسی کام کے جائز ہونے یا نہ ہونے کا مدار بھی اس کے سوا اَور کچھ نہیں کہ خدا جس کو جائز رکھے وہ جائز ہے اور جسے ناجائز قرار دے وہ ناجائز۔
5. ہر وہ چیز جو کسی مسلک یا عقیدے یا طرزِ فکر و عمل یا کسی نظام کی نمائندگی کرتی ہو وہ اس کا ”شعار“ کہلائے گی، کیونکہ وہ اس کے لیے علامت یا نشانی کا کام دیتی ہے۔ سرکاری جھنڈے ، فوج اور پولیس وغیرہ کے یونیفارم ، سِکّے، نوٹ اور اسٹامپ حکومتوں کے شعائر ہیں اور وہ اپنے محکوموں سے ، بلکہ جن جن پر ان کا زور چلے ، سب سے ان کے احترام کا مطالبہ کرتی ہیں۔ گِرجا اور قربان گاہ اور صلیب مسیحیّت کے شعائر ہیں۔ چوٹی اور زنّار اور مندر برہمنیّت کے شعائر ہیں۔ کیس اور کڑا اور کرپان وغیرہ سکھ مذہب کے شعائر ہیں۔ ہتھوڑا اور درانتی اشتراکیّت کا شعار ہیں۔ سواستیکا آریہ نسل پرستی کا شعار ہے۔ یہ سب مسلک اپنے اپنے پیرووں سے اپنے اِن شعائر کے احترام کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص کسی نظام کے شعائر میں سے کسی شعار کی توہین کرتا ہے تو یہ اِس بات کی علامت ہے کہ وہ دراصل اُس نظام کے خلاف دُشمنی رکھتا ہے، اور اگر وہ توہین کرنے والا خود اسی نظام سے تعلق رکھتا ہو تو اس کا یہ فعل اپنے نظام سے ارتداد اور بغاوت کا ہم معنی ہے۔
”شعائراللہ“ سے مراد وہ تمام علامات یا نشانیاں ہیں جو شرک و کفر اور دہریّت کے بالمقابل خالص خدا پرستی کے مسلک کی نمائندگی کرتی ہوں۔ ایسی علامات جہاں جس مسلک اور جس نظام میں بھی پائی جائیں مسلمان ان کے احترام پر مامو ر ہیں ، بشرطیکہ ان کا نفسیاتی پس منظر خالص خدا پرستانہ ہو، کسی مشرکانہ یا کافرانہ تخیّل کی آلودگی سے انہیں ناپاک نہ کر دیا گیا ہو۔ کوئی شخص خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو، اگر اپنے عقیدہ و عمل میں خدائے واحد کی بندگی و عبادت کا کوئی جُزء رکھتا ہے، تو اس جُزء کی حد تک مسلمان اس سے موافقت کریں گے اور ان شعائر کا بھی پُورا احترام کریں گے جو اس کے مذہب میں خالص خدا پرستی کی علامت ہوں۔ اس چیز میں ہمارے اور اس کے درمیان نزاع نہیں بلکہ موافقت ہے۔ نزاع اگر ہے تو اس امر میں نہیں کہ وہ خدا کی بندگی کیوں کرتا ہے، بلکہ اس امر میں ہے کہ وہ خداکی بندگی کے ساتھ دُوسری بندگیوں کی آمیزش کیوں کرتا ہے۔
یاد رکھنا چاہیے کہ شعائر اللہ کے احترام کا یہ حکم اُس زمانہ میں دیا گیا تھا جبکہ مسلمانوں اور مشرکینِ عرب کے درمیان جنگ برپا تھی، مکّہ پر مشرکین قابض تھے، عرب کے ہر حصّے سے مشرک قبائل کے لوگ حج و زیارت کے لیے کعبہ کی طرف جاتے تھے اور بہت سے قبیلوں کے راستے مسلمانوں کی زد میں تھے۔ اس وقت حکم دیا گیا کہ یہ لوگ مشرک ہی سہی، تمہارے اور ان کے درمیان جنگ ہی سہی، مگر جب یہ خدا کے گھر کی طرف جاتے ہیں تو انہیں نہ چھیڑو، حج کے مہینوں میں ان پر حملہ نہ کرو، خدا کے دربار میں نذر کرنے کے لیے جانور یہ لیے جارہے ہوں اُن پر ہاتھ نہ ڈالو ، کیونکہ ان کے بگڑے ہوئے مذہب میں خدا پرستی کا جتنا حصّہ باقی ہے وہ بجائے خود احترام کا مستحق ہے نہ کہ بے احترامی کا۔
6. ”شعائراللہ “کے احترام کا عام حکم دینے کے بعد چند شعائر کا نام لے کر ان کے احترام کا خاص طور پر حکم دیا گیا کیونکہ اُس وقت جنگی حالات کی وجہ سے یہ اندیشہ پیدا ہوگیا تھا کہ جنگ کے جوش میں کہیں مسلمانوں کے ہاتھوں ان کی توہین نہ ہو جائے۔ ان چند شعائر کو نام بنام بیان کرنے سے یہ مقصُود نہیں ہے کہ صرف یہی احترام کے مستحق ہیں۔
7. احرام بھی مِن جُملہ شعائر اللہ ہے، اور اس کی پابندیوں میں سے کسی پابندی کو توڑنا اس کی بے حرمتی کرنا ہے۔ اس لیے شعائر اللہ ہی کے سلسلہ میں اس کا ذکر بھی کر دیا گیا کہ جب تک تم احرام بند ہو ، شکار کرنا خداپرستی کے شعائر میں سے ایک شعا ر کی توہین کرنا ہے۔ البتہ جب شرعی قاعدہ کے مطابق احرام کی حد ختم ہو جائے تو شکار کرنے کی اجازت ہے۔
8. چونکہ کفار نے اس وقت مسلمانوں کو کعبہ کی زیارت سے روک دیا تھا اور عرب کے قدیم دستور کے خلاف حج تک سے مسلمان محرُوم کر دیے گئے تھے ، اس لیے مسلمانوں میں یہ خیال پیدا ہوا کہ جن کافر قبیلوں کے راستے اسلامی مقبوضات کے قریب سے گزرتے ہیں ، ان کو ہم بھی حج سے روک دیں اور زمانۂ حج میں ان کے قافلوں پر چھا پے مارنے شروع کر دیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فر ما کر انہیں اِس ارادہ سے باز رکھا۔
9. یعنی وہ جانور جو طبعی موت مر گیا ہو۔
10. یعنی جس کو ذبح کرتے وقت خدا کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو، یا جس کو ذبح کرنے سے پہلے یہ نیت کی گئی ہو کہ یہ فلاں بزرگ یا فلاں دیوی یا دیوتا کی نذر ہے۔ (ملاحظہ ہو سُورۂ بقرہ، حاشیہ نمبر ۱۷۱)۔
11. یعنی جو جانور مذکورۂ بالا حوادث میں سے کسی حادثے کا شکار ہوجانے کے باوجود مرا نہ ہو بلکہ کچھ آثارِ زندگی اس میں پائےجاتے ہوں ، اس کو اگر ذبح کر لیا جائے تو اُسے کھا یا جا سکتا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حلال جانور کا گوشت صرف ذبح کرنے سے حلال ہوتا ہے ، کوئی دُوسرا طریقہ اس کو ہلاک کر نے کا صحیح نہیں ہے۔ یہ ”ذبح“ اور ”ذکاۃ“ اسلام کے اصطلاحی لفظ ہیں۔ ان سے مراد حلق کا اتنا حصہ کاٹ دینا ہے جس سے جسم کا خون اچھی طرح خارج ہو جائے۔ جھٹکا کرنے یا گلا گھُونٹنے یا کسی اور تدبیر سے جانور کو ہلاک کرنے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ خُون کا بیشتر حصہ جسم کے اندر ہی رُک کر رہ جاتا ہے اور وہ جگہ جگہ جم کر گوشت کے ساتھ چمٹ جاتا ہے۔۔ بر عکس اس کے ذبح کرنے کی صُورت میں دماغ کے ساتھ جسم کا تعلق دیر تک باقی رہتا ہے جس کی وجہ سے رگ رگ کا خُون کھِنچ کر باہر آجاتا ہے اور اس طرح پُورے جسم کا گوشت خُون سے صاف ہوجاتا ہے۔ خون کے متعلق ابھی اُوپر ہی یہ بات گزر چکی ہے کہ وہ حرام ہے، لہٰذا گوشت کے پاک اور حلال ہونے کے لیے ضروری ہے کہ خُون اس سے جُدا ہو جائے۔
12. اصل میں لفظ” نُصُب“ استعمال ہوا ہے۔ اس سے مراد وہ سب مقامات ہیں جن کو غیراللہ کی نذر و نیاز چڑھانے کے لیے لوگوں نے مخصُوص کر رکھا ہو، خواہ وہاں کوئی پتھر یا لکڑی کی مُورت ہو یا نہ ہو۔ ہماری زبان میں اس کا ہم معنی لفظ آستانہ یا استھان ہے جو کسی بزرگ یا دیوتا سے ، یا کسی خاص مشرکانہ اعتقاد سے وابستہ ہو۔
13. اس مقام پر یہ بات خوب سمجھ لینی چاہیے کہ کھانے پینے کی چیزوں میں حرام و حلال کی جو قیُود شریعت کی طرف سے عائد کی جاتی ہیں اُن کی اصل بُنیاد اُن اشیاء کے طبّی فوائد یا نقصانات نہیں ہوتے، بلکہ اُن کے اخلاقی فوائد و نقصانات ہوتے ہیں۔ جہاں تک طبیعی اُمُور کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ نے اُن کو انسان کی اپنی سعی و جستجو اور کاوش و تحقیق پر چھوڑ دیا ہے۔ یہ دریافت کرنا انسان کا اپنا کام ہے کہ مادّی اشیاء میں سے کیا چیزیں اس کے جسم کو غذائے صالح بہم پہنچانے والی ہیں اور کیا چیزیں تغذیہ کے لیے غیر مفید ہیں یا نقصان دہ ہیں۔ شریعت اِن اُمُور میں اس کی رہنمائی کی ذمّہ داری اپنے سر نہیں لیتی۔ اگر یہ کام اس نے اپنے ذمّہ لیا ہوتا تو سب سے پہلے سنکھیا کو حرام کیا ہوتا۔ لیکن آپ دیکھتے ہی ہیں کہ قرآن و حدیث میں اُس کا، یا اُن دُوسرے مفردات و مرکبّات کا ، جو انسان کے لیے سخت مُہلک ہیں، سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ شریعت غذا کے معاملہ میں جس چیز پر روشنی ڈالتی ہے وہ دراصل اُس کا یہ پہلو ہے کہ کس غذا کا انسان کے اخلاق پر کیا اثر ہوتا ہے، اور کونسی غذائیں طہارتِ نفس کے لحاظ سے کیسی ہیں ، اور غذا حاصل کرنے کے طریقوں میں سے کون سے طریقے اعتقادی و نظری حیثیت سے صحیح یا غلط ہیں۔ چونکہ اس کی تحقیق کرنا انسان کے بس میں نہیں ہے ، اور اسے دریافت کرنے کے ذرائع انسان کو میسّر ہی نہیں ہیں، اور اسی بنا پر انسان نے اکثر اِن اُمُور میں غلطیاں کی ہیں، اس لیے شریعت صرف اِنہی اُمُور میں، اس کی رہنمائی کرتی ہے ۔ جن چیزوں کو اس نے حرام کیا ہے انہیں اس وجہ سے حرام کیا ہے کہ یا تو اخلاق پر ان کا بُرا اثر پڑتا ہے، یا وہ طہارت کے خلاف ہیں، یا ان کا تعلق کسی فاسد عقیدہ سے ہے۔ بر عکس اس کے جن چیزوں کو اس نے حلال کیا ہے ان کی حِلّت کی وجہ یہ ہے کہ وہ اِن بُرائیوں میں سے کوئی بُرائی اپنے اندر نہیں رکھتیں۔
سوال کیا جا سکتا ہے کہ خدا نے ہم کو ان اشیاء کی حُرمت کے وجوہ کیوں نہ سمجھائے تا کہ ہمیں بصیرت حاصل ہوتی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے وجوہ کو سمجھنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ مثلاً یہ بات کہ خُون ، یا سُور کے گوشت یا مُردار کے کھانے سے ہماری اخلاقی صفات میں کیا خرابیاں رُونما ہوتی ہیں، کس قدر اور کس طرح ہوتی ہیں، اس کی تحقیق ہم کسی طرح نہیں کر سکتے ، کیونکہ اخلاق کو نا پنے اور تولنے کے ذرائع ہمیں حاصل نہیں ہیں۔ اگر بالفرض اُن کے بُرے اثرات کو بیان کر بھی دیا جاتا تو شبہ کرنے ولا تقریباً اُسی مقام پر ہوتا جس مقام پر وہ اب ہے، کیونکہ وہ اس بیان کی صحت و عدمِ صحت کو آخر کس چیز سے جانچتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے حرام و حلال کے حُدُود کی پابندی کا انحصار ایمان پر رکھ دیا ہے۔ جو شخص اس بات پر مطمئن ہو جائے کہ کتاب ، اللہ کی کتاب ہے اور رسول ، اللہ کا رسول ہے ، اور للہ علیم و حکیم ہے، وہ اس کے مقرر کیے ہوئے حُدُود کی پابندی کرے گا، خواہ ان کی مصلحت اس کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ اور جو شخص اس بُنیادی عقیدے پر ہی مطمئن نہ ہو، اس کے لیے اِس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ جن چیزوں کی خرابیاں انسانی علم کے احاطہ میں آگئی ہیں صرف انہی سے پرہیز کرے ا ور جن کی خرابیوں کا علمی احاطہ نہیں ہو سکا ہے ان کے نقصانات کا تختہ ٔ مشق بنتا رہے۔
14. اِس آیت میں جس چیز کو حرام کیا گیا ہے اس کی تین بڑی قسمیں دُنیا میں پائی جاتی ہیں اور آیت کا حُکم ان تینوں پر حاوی ہے:
(۱) مشرکانہ فال گیری، جس میں کسی دیوی یا دیوتا سے قسمت کا فیصلہ پُوچھا جاتا ہے ، یا غیب کی خبر دریافت کی جاتی ہے، یا باہمی نزاعات کا تصفیہ کرایا جاتا ہے۔ مشرکینِ مکّہ نے اِس غرض کے لیے کعبہ کے اندر ہُبَل دیوتا کے بُت کو مخصُوص کر رکھا تھا ۔ اس کے استھان میں سات تیر رکھے ہوئے تھے جن پر مختلف الفاظ اور فقرے کندہ تھے۔ کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا سوال ہو، یا کھوئی ہوئی چیز کا پتہ پُوچھنا ہو، یا خُون کے مقدمہ کا فیصلہ مطلوب ہو، غرض کوئی کام بھی ہو، اس کے لیے ہُبَل کے پانسہ دار ( صاحبِ القِداح) کے پاس پہنچ جاتے، اس کا نذرانہ پیش کرتے اور ہُبَل سے دُعا مانگتے کہ ہمارے اس معاملے کا فیصلہ کر دے۔ پھر پانسہ دار اِن تیروں کے ذریعہ سے فال نکالتا ، اور جو تیر بھی فال میں نِکل آتا اس پر لِکھے ہوئے لفظ کو ہُبَل کا فیصلہ سمجھا جاتا تھا۔
(۲) توہّم پرستانہ فال گیری، جس میں زندگی کے معاملات کا فیصلہ عقل و فکر سے کرنے کے بجائے کسی وہمی و خیالی چیز یا کسی اتفاقی شے کے ذریعہ سے کیا جاتا ہے۔ یا قسمت کا حال ایسے ذرائع سے معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جن کا وسیلۂ علمِ غیب ہونا کسی علمی طریق سے ثابت نہیں ہے۔ رمل ، نجوم، جفر، مختلف قسم کے شگون اور نچھتر، اور فال گیری کے بے شمار طریقے اس صنف میں داخل ہیں۔
(۳)جُوئے کی قسم کے وہ سارے کھیل اور کام جن میں اشیاء کی تقسیم کا مدار حقوق اور خدمات اور عقلی فیصلوں پر رکھنے کے بجائے محض کسی اتفاقی امر پر رکھ دیا جائے۔ مثلاً یہ کہ لاٹری میں اتفاقاً فلاں شخص کا نام نِکل آیا ہے لہٰذا ہزار ہا آدمیوں کی جیب سے نِکلا ہوا روپیہ اُس ایک شخص کی جیب میں چلا جائے۔ یا یہ کہ علمی حیثیت سے تو ایک معمّہ کے بہت سے حل صحیح ہیں، مگر انعام وہ شخص پائے گا جس کا حل کسی معقول کوشش کی بنا پر نہیں بلکہ محض اتفاق سے اُس حل کے مطابق نِکل آیا ہو جو صاحبِ معمّہ کے صندوق میں بند ہے۔
اِن تین اقسام کو حرام کر دینے کے بعد قُرعہ اندازی کی صرف وہ سادہ صُورت اسلام میں جائز رکھی گئی ہے جس میں دو برابر کے جائز کاموں یا دو برابر کے حقوق کے درمیان فیصلہ کرنا ہو۔ مثلاً ایک چیز پر دو آدمیوں کا حق ہر حیثیت سے بالکل برابر ہے، اور فیصلہ کرنے والے کے لیے ان میں سے کسی کو ترجیح دینے کی کوئی معقول وجہ موجود نہیں ہے ، اور خود ان دونوں میں سے بھی کوئی اپنا حق خود چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس صُورت میں ان کی رضا مندی سے قرعہ اندازی پر فیصلہ کا مدار رکھا جا سکتا ہے۔ یا مثلاً دو کام یکساں درست ہیں اور عقلی حیثیت سے آدمی ان دونوں کے درمیان مذبذب ہو گیا ہے کہ ان میں سے کس کو اختیار کرے ۔ اس صُورت میں ضرورت ہو تو قرعہ اندازی کی جاسکتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بالعمُوم ایسے مواقع پر یہ طریقہ اختیار فرمانے تھے جبکہ دو برابر حق داروں کے درمیان ایک کو ترجیح دینے کی ضرورت پیش آ جاتی تھی اور آپ ؐ کو اندیشہ ہوتا تھا کہ اگر آپ ؐ خود ایک کو ترجیح دیں گے تو دُوسرے کو ملال ہو گا۔
15. ”آج“سے مراد کوئی خاص دن اور تاریخ نہیں ہے بلکہ وہ دَور یا زمانہ مراد ہے جس میں یہ آیات نازل ہوئی تھیں۔ ہماری زبان میں بھی آج کا لفظ زمانۂ حال کے لیے عام طور پر بولا جاتا ہے۔
”کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے مایوسی ہو چکی ہے“، یعنی اب تمہارا دین ایک مستقل نظام بن چکا ہے اور خود اپنی حاکمانہ طاقت کے ساتھ نافذ و قائم ہے۔ کفار جو اب تک اس کے قیام میں مانع و مزاحم رہے ہیں ، اب اس طرف سے مایوس ہو چکے ہیں کہ وہ اِسے مٹا سکیں گے اور تمہیں پھر پچھلی جاہلیّت کی طرف واپس لے جا سکیں گے۔ ”لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو“، یعنی اس دین کے احکام اور اس کے ہدایات پر عمل کر نے میں اب کسی کافر طاقت کے غلبہ و قہر اور در اندازی و مزاحمت کا خطرہ تمہارے لیے باقی نہیں رہا ہے۔ انسانوں کے خوف کی اب کوئی وجہ نہیں رہی۔ اب تمہیں خدا سے ڈرنا چاہیے کہ اس کے احکام کی تعمیل میں اگر کوئی کوتاہی تم نے کی تو تمہارے پاس کوئی ایسا عذر نہ ہوگا جس کی بنا پر تمہارے ساتھ کچھ بھی نرمی کی جائے۔ اب شریعتِ الہٰی کی خلاف ورزی کے معنی یہ نہیں ہوں گے کہ تم دُوسرے کے اثر سے مجبُور ہو، بلکہ اس کے صاف معنی یہ ہوں گے کہ تم خدا کی اطاعت کرنا نہیں چاہتے۔
16. دین کو مکمل کر دینے سے مُراد ُس کو ایک مستقل نظامِ فکر و عمل اور ایک ایسا مکمل نظامِ تہذیب و تمدّن بنا دینا ہے جس میں زندگی کے جُملہ مسائل کا جواب اُصُولاً یا تفصیلاً موجود ہو اور ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے کے لیے کسی حال میں اس سے باہر جانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ نعمت تمام کرنے سے مُراد نعمتِ ہدایت کی تکمیل کر دینا ہے۔ اور اسلام کو دین کی حیثیت سے قبول کر لینے کا مطلب یہ ہے کہ تم نے میری اطاعت و بندگی اختیار کرنے کا جو اقرار کیا تھا ، اس کو چونکہ تم اپنی سعی و عمل سے سچّا اور مخلصانہ اقرار ثابت کر چکے ہو، اس لیے میں نے اسے درجۂ قبولیّت عطا فر مایا ہے اور تمہیں عملاً اس حالت کو پہنچا دیا ہے کہ اب فی الواقع میرے سوا کسی کی اطاعت و بندگی کا جُوا تمہاری گردنوں پر باقی نہ رہا۔ اب جس طرح اعتقاد میں تم میرے مسلم ہو اسی طرح عملی زندگی میں بھی میرے سوا کسی اور کے مسلم بن کر رہنے کے لیے کوئی مجبُوری تمہیں لاحق نہیں رہی ہے۔ ان احسانات کا ذکر فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ سکوت اختیار فرماتا ہے مگر اندازِ کلام سے خود بخود یہ بات نِکل آتی ہے کہ جب یہ احسانات میں نے تم پر کیے ہیں تو ان کا تقاضا یہ ہے کہ اب میرے قانون کی حُدُود پر قائم رہنے میں تمہاری طرف سے بھی کوئی کوتاہی نہ ہو۔
مستند روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت حجۃ الوداع کے موقعہ پر سن ۱۰ ہجری میں نازل ہوئی تھی ۔ لیکن جس سلسلۂ کلام میں یہ واقع ہوئی ہے وہ صُلحِ حُدَیبیَہ سے متصل زمانہ (سن ۶ ہجری) کا ہے اور سیاقِ عبارت میں دونوں فقرے کچھ ایسے پیوستہ نظر آتے ہیں کہ یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ ابتداء میں یہ سلسلۂ کلام اِن فقروں کے بغیر نازل ہوا تھا اور بعد میں جب یہ نازل ہوئے تو انہیں یہاں لا کر نصب کر دیا گیا۔ میرا قیاس یہ ہے ، وَ الْعِلْم ُ عِنْدَ اللہ، کہ ابتداءً یہ آیت اِسی سیاق ِ کلام میں نازل ہوئی تھی اس لیے اس کی حقیقی اہمیّت لوگ نہ سمجھ سکے۔ بعد میں جب تمام عرب مسخر ہو گیا اور اسلام کی طاقت اپنے شباب پر پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ نے دوبارہ یہ فقرے اپنے نبی پر نازل فرمائے اور ان کے اعلان کا حکم دیا۔
17. ملاحظہ ہو سُورۂ بقرہ ، حاشیہ نمبر ۱۷۲۔
18. اس جواب میں ایک لطیف نکتہ پوشیدہ ہے۔ مذہبی طرزِ خیال کے لوگ اکثر اس ذہنیّت کے شکار ہو تے رہے ہیں کہ دُنیا کی ہر چیز کو حرام سمجھتے ہیں جب تک کہ صراحت کے ساتھ کسی چیز کو حلال نہ قرار دیا جائے۔ اس ذہنیّت کی وجہ سے لوگوں پر وہمی پن اور قانونیت کا تسلّط ہو جاتا ہے۔ وہ زندگی کے ہر شعبہ میں حلا ل اشیاء اور جائز کاموں کی فہرست مانگتے ہیں اور ہر کام اور ہر چیز کو اس شبہ کی نظر سے دیکھنےلگتے ہیں کہ کہیں وہ ممنُوع تو نہیں۔ یہاں قرآن اسی ذہنیّت کی اصلاح کرتا ہے۔ پُوچھنے والوں کا مقصد یہ تھا کہ انہیں تمام حلال چیزوں کی تفصیل بتائی جائے تاکہ ان کے سوا ہر چیز کو وہ حرام سمجھیں ۔ جواب میں قرآن نے حرام چیزوں کی تفصیل بتائی اور اس کے بعد یہ عام ہدایت دے کر چھوڑ دیا کہ ساری پاک چیزیں حلا ل ہیں۔ اس طرح قدیم مذہبی نظریہ بالکل اُلٹ گیا۔ قدیم نظریہ یہ تھا کہ سب کچھ حرام ہےبجُز اس کے جسے حلال ٹھیرایا جائے۔ قرآن نے اس کے برعکس یہ اُصُول مقرر کیا کہ سب کچھ حلال ہے بجز اُس کے جس کی حُرمت کی تصریح کر دی جائے۔ یہ ایک بہت بڑی اصلاح تھی جس نے انسانی زندگی کو بندشوں سے آزاد کر کے دُنیا کی وُسعتوں کا دروازہ اس کے لیے کھول دیا ۔ پہلے حِلّت کے ایک چھوٹے سے دائرے کے سوا ساری دُنیا اس کے لیے حرام تھی۔ اب حُرمت کے ایک مختصر سے دائرے کو مستثنیٰ کر کے ساری دُنیا اس کے لیے حلا ل ہو گئی۔
حلال کے لیے ”پاک“ کی قید اس لیے لگائی کہ ناپاک چیزوں کو اس اباحت کی دلیل سے حلال ٹھیرانے کی کوشش نہ کی جائے۔ اب رہا یہ سوال کہ اشیاء کے ”پاک“ ہونے کا تعین کس طرح ہو گا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ جُو چیزیں اُصُولِ شرع میں سے کسی اصل کے ماتحت ناپاک قرار پائیں، یا جن چیزوں سے ذوقِ سلیم کراہت کرے ، یا جنہیں مہذّب انسان نے بالعمُوم اپنے فطری احساسِ نظافت کے خلاف پایا ہو، ان کے ماسوا سب کچھ پاک ہے۔
19. شکاری جانوروں سے مُراد کُتّے، چیتے، باز، شِکرے اور تمام وہ درندے اور پرندے ہیں جن سے انسان شکار کی خدمت لیتا ہے۔ سَدھائے ہوئے جانور کی خصُوصیّت یہ ہوتی ہے کہ وہ جس کا شکار کرتا ہے اُسے عام درندوں کی طرح پھاڑ نہیں کھاتا بلکہ اپنے مالک کے لیے پکڑ رکھتا ہے۔ اسی وجہ سے عام درندوں کا پھاڑ ا ہوا جانور حرام ہے اور سَدھائے ہوئے درندوں کا شکار حلال۔
اس مسئلہ میں فقہاء کے درمیان کچھ اختلاف ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ اگر شکاری جانور نے، خواہ وہ درندہ ہو یا پرندہ شکار میں سے کچھ کھا لیا تو وہ حرام ہو گا کیونکہ اس کا کھا لینا یہ معنی رکھتا ہے کہ اس نے شکار کو مالک کے لیے نہیں بلکہ اپنے لیے پکڑا۔ یہی مسلک امام شافعی کا ہے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اگر اس نے شکار میں سے کچھ کھالیا ہو تب بھی وہ حرام نہیں ہوتا ، حتٰی کہ اگر ایک تہائی حصّہ بھی وہ کھا لے تو بقیّہ دوتہائی حلال ہے، اور اس معاملے میں درندے اور پرندے کے درمیان کچھ فرق نہیں۔ یہ مسلک امام مالک کا ہے۔ تیسرا گروہ کہتا ہے کہ شکاری درندے نے اگر شکار میں سے کھا لیا ہو تو وہ حرام ہو گا، لیکن اگر شکاری پرندے نے کھایا ہو تو حرام نہ ہوگا۔ کیونکہ شکاری درندے کو ایسی تعلیم دی جا سکتی ہے کہ وہ شکار کو مالک کے لیے پکڑ رکھے اور اس میں سے کچھ نہ کھائے ، لیکن تجربہ سے ثابت ہے کہ شکاری پرندہ ایسی تعلیم قبول نہیں کرتا۔ یہ مسلک امام ابو حنیفہ اور اُن کے اصحاب کا ہے۔ اس کے برعکس حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شکاری پرندے کا شکار سرے سے جائز ہی نہیں ہے ، کیونکہ اسے تعلیم سےیہ بات سکھائی نہیں جا سکتی کہ شکار کو خود نہ کھائے بلکہ مالک کے لیے پکڑ رکھے۔
20. یعنی شکاری جانور کو شکار پر چھوڑتے وقت بسم اللہ کہو۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عَدِی بن حاتم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آیا میں کُتّے کے ذریعہ سے شکار کر سکتا ہوں؟ آپ ؐ نے فرمایا کہ”اگر اس کو چھوڑتے ہوئے تم نے اللہ کا نام لیا ہو تو کھاؤ ورنہ نہیں۔ اور اگر اس نے شکار میں سے کچھ کھا لیا ہو تو نہ کھاو ٔ کیونکہ اس نے شکار کو دراصل اپنے لیے پکڑا“۔ پھر انہوں نے پُوچھا کہ اگر میں شکار پر اپنا کُتّا چھوڑوں اور بعد میں دیکھوں کہ کوئی اور کُتّا وہاں موجود ہے ؟ آپ ؐ نے جواب دیا”اس شکار کو نہ کھاؤ۔ اس لیے کہ تم نے خدا کا نام اپنے کُتّے پر لیا تھا نہ کہ دُوسرے کُتّے پر“۔
اس آیت سے یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ شکاری جانور کو شکار پر چھوڑتے ہوئے خدا کا نام لینا ضروری ہے۔ اس کے بعد اگر شکار زندہ ملے تو پھر خدا کا نام لے کر اسے ذبح کر لینا چاہیے اور اگر زندہ نہ ملے تو اس کے بغیر ہی وہ حلال ہوگا ، کیونکہ ابتداءً شکاری جانور کو اس پر چھوڑتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا نام لیا جا چکا تھا۔ یہی حکم تیر کا بھی ہے۔
20. یعنی شکاری جانور کو شکار پر چھوڑتے وقت بسم اللہ کہو۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عَدِی بن حاتم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آیا میں کُتّے کے ذریعہ سے شکار کر سکتا ہوں؟ آپ ؐ نے فرمایا کہ”اگر اس کو چھوڑتے ہوئے تم نے اللہ کا نام لیا ہو تو کھاؤ ورنہ نہیں۔ اور اگر اس نے شکار میں سے کچھ کھا لیا ہو تو نہ کھاو ٔ کیونکہ اس نے شکار کو دراصل اپنے لیے پکڑا“۔ پھر انہوں نے پُوچھا کہ اگر میں شکار پر اپنا کُتّا چھوڑوں اور بعد میں دیکھوں کہ کوئی اور کُتّا وہاں موجود ہے ؟ آپ ؐ نے جواب دیا”اس شکار کو نہ کھاؤ۔ اس لیے کہ تم نے خدا کا نام اپنے کُتّے پر لیا تھا نہ کہ دُوسرے کُتّے پر“۔
اس آیت سے یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ شکاری جانور کو شکار پر چھوڑتے ہوئے خدا کا نام لینا ضروری ہے۔ اس کے بعد اگر شکار زندہ ملے تو پھر خدا کا نام لے کر اسے ذبح کر لینا چاہیے اور اگر زندہ نہ ملے تو اس کے بغیر ہی وہ حلال ہوگا ، کیونکہ ابتداءً شکاری جانور کو اس پر چھوڑتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا نام لیا جا چکا تھا۔ یہی حکم تیر کا بھی ہے۔
21. اہلِ کتاب کے کھانے میں اُن کا ذبیحہ بھی شامل ہے ۔ ہمارے لیے اُن کا اور اُن کے لیے ہمارا کھانا حلال ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے اور اُن کے درمیان کھانے پینے میں کوئی رکاوٹ اور کوئی چھُوت چھات نہیں ہے۔ ہم اُن کے ساتھ کھا سکتے ہیں اور وہ ہمارے ساتھ۔ لیکن یہ عام اجازت دینے سے پہلے اس فقرے کا اعادہ فرما دیا گیا ہے کہ ”تمہارے لیے پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں“۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہلِ کتاب اگر پاکی و طہارت کے اُن قوانین کی پابندی نہ کریں جو شریعت کے نقطۂ نظر سے ضروری ہیں، یا اگر اُن کے کھانے میں حرام چیزیں شامل ہوں تو اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔ مثلاً اگر وہ خدا کا نام لیے بغیر کسی جانور کو ذبح کریں، یا اس پر خدا کے سوا کسی اَور کا نام لیں ، تو اُسے کھانا ہمارے لیے جائز نہیں۔ اِسی طرح اگر اُن کے دستر خوان پر شراب یا سُور یا کوئی اور حرام چیز ہو تو ہم ان کے ساتھ شریک نہیں ہو سکتے۔
اہلِ کتاب کے سوا دُوسرے غیر مسلموں کا بھی یہی حکم ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ذبیحہ اہلِ کتاب ہی کا جائز ہے جبکہ اُنہوں نے خدا کا نام اس پر لیا ہو، رہے غیر اہلِ کتاب ، تو ان کے ہلاک کیے ہوئے جانور کو ہم نہیں کھا سکتے۔
22. اِس سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں۔ نکاح کی اجازت صرف انہی کی عورتوں سے دی گئی ہے اور اس کے ساتھ شرط یہ لگا دی گئی ہے کہ و ہ مُحصنَات (محفوظ عورتیں) ہوں۔ اس حکم کی تفصیلات میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہوا ہے۔ ابنِ عباس ؓ کا خیال ہے کہ یہاں اہلِ کتاب سے مُراد وہ اہلِ کتاب ہیں جو اسلامی حکومت کی رعایا ہوں۔ رہے دار الحرب اور دارالکفر کے یہود و نصاریٰ ، توان کی عورتوں سے نکاح کرنا درست نہیں۔ حنفیّہ اس سے تھوڑا اختلاف کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک بیرونی ممالک کے اہلِ کتاب کی عورتوں سے نکاح کرنا حرام تو نہیں ہے مگر مکرُوہ ضرور ہے۔ بخلاف اس کے سعید بن المُسَیِّب ؒ اور حَسَن بصری ؒ اس کے قائل ہیں کہ آیت اپنے حکم میں عام ہے لہٰذا ذمّی اور غیر ذمّی میں فرق کرنے کی ضرورت نہیں۔ پھر مُحصَنات کے مفہُوم میں بھی فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ حضرت عمر ؓ کے نزدیک اس سے مراد پاک دامن ، عصمت مآب عورتیں ہیں اور اس بنا پر وہ اہلِ کتاب کی آزادمنش عورتوں کو اس اجازت سے خارج قرار دیتے ہیں۔ یہی رائے حسن ؒ، شَعبِیؒ اور ابراہیم نَخعَی ؒ کی ہے۔ اور حنفیہ نے بھی اسی کو پسند کیا ہے۔ بخلاف اس کے امام شافعی ؒ کی رائے یہ ہے کہ یہاں یہ لفظ لونڈیوں کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے، یعنی اس سے مراد اہلِ کتاب کی وہ عورتیں ہیں جو لونڈیاں نہ ہوں۔
23. اہلِ کتاب کی عورتوں سے نکاح کی اجازت دینے کے بعد یہ فقرہ اس لیے تنبیہ کے طور پر ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جو شخص اِس اجازت سے فائد ہ اُٹھائے وہ اپنے ایمان و اخلاق سے ہوشیار رہے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کافر بیوی کے عِشق میں مُبتلا ہو کر یا اس کے عقائد اور اعمال سے متاثر ہو کر وہ اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے، یا اخلاق و معاشرت میں ایسی روش پر چل پڑے جو ایمان کے منافی ہو۔