116. نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض لوگ عجیب عجیب قسم کے فضول سوالات کیا کرتے تھے جن کی نہ دین کے کسی معاملہ میں ضرورت ہوتی تھی اور نہ دُنیا ہی کے کسی معاملہ میں۔ مثلاً ایک موقع پر ایک صاحب بھرے مجمع میں آپ ؐ سے پُوچھ بیٹھے کہ”میرا اصلی باپ کون ہے؟“ اسی طرح بعض لوگ احکامِ شرع میں غیر ضروری پُوچھ گچھ کیا کرتے تھے ، اور خواہ مخواہ پُوچھ پُوچھ کر ایسی چیزوں کا تعیّن کرانا چاہتے تھے جنہیں شارع نے مصلحتاً غیر معیّن رکھا ہے۔ مثلاً قرآن میں مُجملاً یہ حکم دیا گیا تھا کہ حج تم پر فرض کیا گیا ہے۔ ایک صاحب نے حکم سُنتے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا” کیا ہر سال فرض کیا گیا ہے؟“ آپ ؐ نے کچھ جواب نہ دیا ۔ اُنہوں نے پھر پُوچھا۔ آپ ؐ پھر خاموش ہوگئے۔ تیسری مرتبہ پُوچھنے پر آپ ؐ نے فرمایا”تم پر افسوس ہے ۔ اگر میری زبان سے ہاں نِکل جائے تو حج ہر سال فرض قرار پائے۔ پھر تم ہی لوگ اس کی پیروی نہ کر سکو گے اور نا فرمانی کرنے لگو گے“۔ ایسے ہی لا یعنی اور غیر ضروری سوالات سے اس آیت میں منع کیا گیا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی لوگوں کو کثرتِ سوال سے اور خواہ مخواہ ہر بات کی کھوج لگانے سے منع فرماتے رہے تھے۔ چنانچہ حدیث میں ہے ان اعظم المسلمین فی المسلمین جرما من سأل عن شیٔ لم یحرم علی الناس فحرم من اجل مسألتہ۔ ” مسلمانوں کے حق میں سب سے بڑا مجرم وہ شخص ہے جس نے کسی ایسی چیز کے متعلق سوال چھیڑا جو لوگوں پر حرام نہ کی گئی تھی اور پھر محض اس کے سوال چھیڑنے کی بدولت وہ چیز حرام ٹھیرائی گئی“۔ ایک دُوسری حدیث میں ہے ان اللہ فرض فرائض فلا تضیْعوھا و حرم حرمَات فلا تنتھکو ھا وحَدّ حُدُوْداً فلا تعتدُوْھَا وسَکتَ عَنْ اشیَا ء من غیر نسیان فلا تبحثو ا عنھا۔” اللہ نے کچھ فرائض تم پر عائد کیے ہیں ، انہیں ضائع نہ کرو ۔ کچھ چیزوں کو حرام کیا ہے ان کے پاس نہ پھٹکو۔ کچھ حُدُود مقرر کی ہیں ، ان سے تجاوز نہ کرو۔ اور کچھ چیزوں کے متعلق خاموشی اختیار کی ہے بغیر اس کے کہ اُسے بھُول لاحق ہوئی ہو، لہٰذا ان کی کھوج نہ لگاؤ“۔ ان دونوں حدیثوں میں ایک اہم حقیقت پر متنبّہ کیا گیا ہے ۔ جن اُمُور کو شارع نے مجملاً بیان کیا ہے اور ان کی تفصیل نہیں بتائی، یا جو احکام برسبیلِ اجمال دیے ہیں اور مقدار یا تعداد یا دُوسرے تعیّنات کا ذکر نہیں کیا ہے ، ان میں اجمال اور عدمِ تفصیل کی وجہ یہ نہیں ہے کہ شارع سے بھُول ہو گئی، تفصیلات بتانی چاہیے تھیں مگر نہ بتائیں، بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ شارع ان امور کی تفصیلات کو محدُود نہیں کرنا چاہتا اور احکام میں لوگوں کے لیے وسعت رکھنا چاہتا ہے۔ اب جو شخص خواہ مخواہ سوال پر سوال نکال کر تفصیلات اور تعینات اور تقیدات بڑھانے کی کوشش کرتا ہے ، اور اگر شارع کے کلام سے یہ چیزیں کسی طرح نہیں نکلتیں تو قیاس سے ، اِستنباط سے کِسی نہ کسی طرح مجمل کو مفصّل، مطلَق کو مقَیَّد، غیر معیّن کو معیّن بنا کر ہی چھوڑتا ہے ، وہ درحقیقت مسلمانوں کو بڑے خطرے میں ڈالتا ہے ۔ اس لیے کہ ما بعد الطبیعی اُمُور میں جتنی تفصیلات زیادہ ہوں گی، ایمان لانے والے کے لیے اتنے ہی زیادہ اُلجھن کے مواقع بڑھیں گے، اور احکام میں جتنی قیُود زیادہ ہوں گی پَیروی کرنے والے کے لیے خلاف ورزی ِ حکم کے امکانات بھی اسی قدر زیادہ ہوں گے۔
117. یعنی پہلے انہوں نے خود ہی عقائد اور احکام میں موشگافیاں کیں اور ایک ایک چیز کے متعلق سوال کر کر کے تفصیلات اور قیُود کا ایک جال اپنے لیے تیار کرایا، پھر خود ہی اُس میں اُلجھ کر اعتقادی گمراہیوں اور عملی نافرمانیوں میں مبتلا ہو گئے۔۔۔۔۔۔ اِس گروہ سے مراد یہودی ہیں جن کے نقشِ قدم پر چلنے میں، قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تنبیہات کے باوجود، مسلمانوں نے کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی ہے۔
118. جس طرح ہمارے ملک میں گائے، بیل اور بکرے خدا کے نام پر یا کسی بُت یا قبر یا دیوتا یا پیر کے نام پر چھوڑ دیے جاتے ہیں ، اور ان سے کوئی خدمت لینا یا انہیں ذبح کرنا یا کسی طور پر ان سے فائدہ اُٹھانا حرام سمجھا جاتا ہے، اسی طرح زمانۂ جاہلیّت میں اہلِ عرب بھی مختلف طریقوں سے جانوروں کو پُن کرکے چھوڑ دیا کرتے تھے اور ان طریقوں سے چھوڑے ہوئے جانوروں کے الگ الگ نام رکھتے تھے۔
بحیرہ: اُس اُونٹنی کو کہتے تھے جو پانچ دفعہ بچّے جَن چکی ہو اور آخری بار اس کے ہاں نر بچّہ ہوا ہو۔ اس کا کان چیر کر اُسے آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا۔ پھرنہ کوئی اس پر سوار ہوتا، نہ اُس کا دُودھ پیا جاتا، نہ اُسے ذبح کیا جاتا، نہ اس کا اُون اتارا جاتا۔ اُسے حق تھا کہ جس کھیت اورجس چراگاہ میں چاہے چرے اور جس گھاٹ سے چاہے پانی پیے۔
سائبہ: اُس اُونٹ یا اُونٹنی کو کہتے تھے جسے کسی مَنّت کے پُورا ہو نے یا کسی بیماری سے شفا پانے یا کسی خطرے سے بچ جانے پر بطور شکرانہ کے پُن کر دیا گیا ہو۔ نیز جس اُونٹنی نے دس مرتبہ بچّے دیے ہوں اور ہر بار مادہ ہی جنی ہو اُسے بھی آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا۔
وصیلہ: اگر بکری کا پہلا بچّہ نر ہوتا تو وہ خداؤں کے نام پر ذبح کر دیا جاتا، اور اگر وہ پہلی بار مادہ جنتی تو اسے اپنے لیے رکھ لیا جاتا تھا۔ لیکن اگر نر اور مادہ ایک ساتھ پیدا ہوتے تو نر کو ذبح کر نے کے بجائے یونہی خداؤں کے نام پر چھوڑ دیا جاتا تھا اوراس کا نام وصیلہ تھا۔
حام : اگر کسی اُونٹ کا پوتا سواری دینے کے قابل ہو جاتا تو اس بُوڑھے اُونٹ کو آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا۔ نیز اگر کسی اُونٹ کے نطفہ سے دس بچّے پیدا ہو جاتے تو اسے بھی آزادی مِل جاتی۔
119. یعنی بجائے اس کے کہ آدمی ہر وقت یہ دیکھتا رہے کہ فلاں کیا کر رہا ہے اور فلاں کے عقیدے میں کیا خرابی ہے اور فلاں کے اعمال میں کیا بُرائی ہے ، اسے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ خود کیا کر رہا ہے ۔ اسے فکر اپنے خیالات کی، اپنے اخلاق اور اعمال کی ہونی چاہیے کہ وہ کہیں خراب نہ ہوں۔ اگر آدمی خود اللہ کی اطاعت کر رہا ہے، خدا اور بندوں کے جو حقوق اس پر عائد ہوتے ہیں انہیں ادا کر رہا ہے ، اور راست روی و راست بازی کی مقتضیا ت پُورے کر رہا ہے، جن میں لازماً امر بالمعروف و نہی عن المنکر بھی شامل ہے، تو یقیناً کسی شخص کی گمراہی و کج روی اس کے لیے نقصان دہ نہیں ہوسکتی۔
اِس آیت کا یہ منشاء ہر گز نہیں ہے کہ آدمی بس اپنی نجات کی فکر کرے، دُوسروں کی اصلاح کی فکر نہ کرے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ اس غلط فہمی کی تردید کرتے ہوئے اپنے ایک خطبہ میں فرماتے ہیں: ”لوگو! تم اس آیت کو پڑھتے ہو اور اس کی غلط تاویل کرتے ہو ۔ میں نے رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سُنا ہے کہ جب لوگوں کا حال یہ ہوجائے کہ وہ بُرائی کو دیکھیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں، ظالم کو ظلم کرتے ہوئے پائیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں ، تو بعید نہیں کہ اللہ اپنے عذاب میں سب کو لپیٹ لے۔ خدا کی قسم تم کو لازم ہے کہ بھلائی کا حکم دو اور بُرائی سے روکو، ورنہ اللہ تم پر ایسے لوگوں کو مسلّط کر دے گا جو تم میں سب سے بدتر ہوں گے اور وہ تم کو سخت تکلیفیں پہنچائیں گے، پھر تمہارے نیک لوگ خدا سے دُعائیں مانگیں گے مگر وہ قبول نہ ہوں گی۔
120. یعنی دیندار ، راست باز اور قابلِ اعتماد مسلمان۔
121. اِس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے معاملات میں غیر مسلم کو شاہد بنانا صرف اُس حالت میں درست ہے جبکہ کوئی مسلمان گواہ بننے کے لیے میسّر نہ آسکے۔