Tafheem ul Quran

Surah 5 Al-Ma'idah, Ayat 109-115

يَوۡمَ يَجۡمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَيَقُوۡلُ مَاذَاۤ اُجِبۡتُمۡ​ ؕ قَالُوۡا لَا عِلۡمَ لَـنَا ؕ اِنَّكَ اَنۡتَ عَلَّامُ الۡغُيُوۡبِ‏ ﴿5:109﴾ ​اِذۡ قَالَ اللّٰهُ يٰعِيۡسَى ابۡنَ مَرۡيَمَ اذۡكُرۡ نِعۡمَتِىۡ عَلَيۡكَ وَعَلٰى وَالِدَتِكَ​ ۘ اِذۡ اَيَّدتُّكَ بِرُوۡحِ الۡقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِىۡ الۡمَهۡدِ وَكَهۡلًا ​ ۚوَاِذۡ عَلَّمۡتُكَ الۡـكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ وَالتَّوۡرٰٮةَ وَالۡاِنۡجِيۡلَ​ ۚ وَاِذۡ تَخۡلُقُ مِنَ الطِّيۡنِ كَهَيۡـئَـةِ الطَّيۡرِ بِاِذۡنِىۡ فَتَـنۡفُخُ فِيۡهَا فَتَكُوۡنُ طَيۡرًۢا بِاِذۡنِىۡ​ وَ تُبۡرِئُ الۡاَكۡمَهَ وَالۡاَبۡرَصَ بِاِذۡنِىۡ​ ۚ وَاِذۡ تُخۡرِجُ الۡمَوۡتٰى بِاِذۡنِىۡ​ ۚ وَاِذۡ كَفَفۡتُ بَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَ عَنۡكَ اِذۡ جِئۡتَهُمۡ بِالۡبَيِّنٰتِ فَقَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا مِنۡهُمۡ اِنۡ هٰذَاۤ اِلَّا سِحۡرٌ مُّبِيۡنٌ‏ ﴿5:110﴾ وَ اِذۡ اَوۡحَيۡتُ اِلَى الۡحَـوَارِيّٖنَ اَنۡ اٰمِنُوۡا بِىۡ وَبِرَسُوۡلِىۡ​ۚ قَالُوۡۤا اٰمَنَّا وَاشۡهَدۡ بِاَنَّـنَا مُسۡلِمُوۡنَ‏ ﴿5:111﴾ اِذۡ قَالَ الۡحَـوَارِيُّوۡنَ يٰعِيۡسَى ابۡنَ مَرۡيَمَ هَلۡ يَسۡتَطِيۡعُ رَبُّكَ اَنۡ يُّنَزِّلَ عَلَيۡنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَآءِ​ ؕ قَالَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿5:112﴾ قَالُوۡا نُرِيۡدُ اَنۡ نَّاۡكُلَ مِنۡهَا وَتَطۡمَـئِنَّ قُلُوۡبُنَا وَنَـعۡلَمَ اَنۡ قَدۡ صَدَقۡتَـنَا وَنَكُوۡنَ عَلَيۡهَا مِنَ الشّٰهِدِيۡنَ‏ ﴿5:113﴾ قَالَ عِيۡسَى ابۡنُ مَرۡيَمَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَاۤ اَنۡزِلۡ عَلَيۡنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَآءِ تَكُوۡنُ لَـنَا عِيۡدًا لِّاَوَّلِنَا وَاٰخِرِنَا وَاٰيَةً مِّنۡكَ​ۚ وَارۡزُقۡنَا وَاَنۡتَ خَيۡرُ الرّٰزِقِيۡنَ‏ ﴿5:114﴾ قَالَ اللّٰهُ اِنِّىۡ مُنَزِّلُهَا عَلَيۡكُمۡ​ۚ فَمَنۡ يَّكۡفُرۡ بَعۡدُ مِنۡكُمۡ فَاِنِّىۡۤ اُعَذِّبُهٗ عَذَابًا لَّاۤ اُعَذِّبُهٗۤ اَحَدًا مِّنَ الۡعٰلَمِيۡنَ‏  ﴿5:115﴾

109 - جس روز122 اللہ سب رسولوں کو جمع کرکے پُوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب دیا گیا، 123تو وہ عرض کریں گے کہ ہمیں کچھ علم نہیں،124 آپ ہی تمام پوشیدہ حقیقتوں کو جانتے ہیں۔ 110 - پھر تصوّر کرو اس موقع کا جب اللہ فرمائے گا125 کہ ”اے مریم کے بیٹے عیسٰی ؑ! یاد کر میری اس نعمت کو جو میں نے تجھے اور تیری ماں کو عطا کی تھی، میں نے رُوح پاک سے تیری مدد کی، تُو گہوارے میں بھی لوگوں سے بات کرتا تھا اور بڑی عمر کو پہنچ کر بھی، میں نے تجھ کو کتاب اور حکمت اور تورات اور انجیل کی تعلیم دی، تُو میرے حکم سے مٹی کا پُتلا پرندے کی شکل کا بناتا اور اس میں پُھونکتا تھا، اور وہ میرے حکم سے پرندہ بن جاتا تھا ، تُو مادر زاد اندھے کو کوڑھی کو میرے حکم سے اچھا کرتا تھا، تُو مُردوں کو میرے حکم سے نکالتا تھا، 126پھر جب تُو بنی اسرائیل کے پاس صریح نشانیاں لے کر پہنچا اور جو لوگ ان میں سے منکرِ حق تھے انہوں نے کہا کہ یہ نشانیاں جادوگری کے سوا اور کچھ نہیں ہیں تو میں نے ہی تجھے اُن سے بچایا ، 111 - اور جب میں نے حواریوں کو اشارہ کیا کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاوٴ تب اُنہوں نے کہا کہ ہم ایمان لائے اور گواہ رہو کہ ہم مسلم ہیں“127۔۔۔۔ 112 - 128(حواریوں کے سلسلہ میں)یہ واقعہ بھی یاد رہے کہ جب حواریوں نے کہا کہ اے عیسٰی ؑ ابنِ مریم ؑ ! کیا آپ کا رب ہم پر آسمان سے کھانے کا ایک خوان اتار سکتا ہے؟ تو عیسٰی ؑ نے کہا اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو۔ 113 - اُنہوں نے کہا ہم بس یہ چاہتے ہیں کہ اس خوان سے کھانا کھائیں اور ہمارے دل مطمئن ہوں اور ہمیں معلوم ہوجائے کہ آپ نے جو کچھ ہم سے کہا ہے وہ سچ ہے اور ہم اس پر گواہ ہوں۔ 114 - اس پر عیسٰی ؑ ابن مریم ؑ نے دُعا کی ”خدایا !ہمارے ربّ ! ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل کر جو ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں پچھلوں کے لیے خوشی کا موقع قرار پائے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو، ہم کو رزق دے اور تُو بہترین رازق ہے“۔ 115 - اللہ نے جواب دیا ”میں اُس کو تم پر نازل کرنے والا ہوں،129 مگر اس کے بعد جو تم میں سے کفر کرے گا اسے میں ایسی سزا  دوں گا جو دُنیا میں کسی کو نہ دی ہوگی“۔ ؏۱۵


Notes

122. مراد ہے قیامت کا دن۔

123. یعنی اسلام کی طرف جو دعوت تم نے دُنیا کو دی تھی اس کا کیا جواب دُنیا نے تمہیں دیا۔

124. یعنی ہم تو صرف اُس محدُود ظاہر ی جواب کو جانتے ہیں جو ہمیں اپنی زندگی میں ملتا ہو ا محسوس ہوا۔ باقی رہا یہ کہ فی الحقیقت ہماری دعوت کا ردِّ عمل کہاں کس صُورت میں کتنا ہوا، تو اس کا صحیح علم آپ کے سوا کسی کو نہیں ہوسکتا۔

125. ابتدائی سوال تمام رسُولوں سے بحیثیت مجمُوعی ہوگا۔ پھر ایک ایک رسُول سے الگ الگ شہادت لی جائے گی جیسا کہ قرآن مجید میں متعدّد مقامات پر بتصریح ارشاد ہوا ہے۔ اس سلسلہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السّلام سے جو سوال کیا جائے گا وہ یہاں بطورِ خاص نقل کیا جا رہا ہے۔

126. یعنی حالت موت سے نکال کر زندگی کی حالت میں لاتا تھا۔

127. یعنی حواریوں کا تجھ پر ایمان لانا بھی ہمارے فضل اور توفیق کا نتیجہ تھا ، ورنہ تجھ میں تو اتنی طاقت بھی نہ تھی کہ اُس جُھٹلانے والی آبادی میں ایک ہی تصدیق کرنے والا اپنے بل بوتے پر پیدا کر لیتا ۔۔۔۔۔۔ ضمناً یہاں یہ بھی بتا دیا کہ حواریوں کا اصل دین اسلام تھا نہ کہ عیسا ئیت۔

128. چونکہ حواریوں کا ذکر آگیا تھا اس لیے سلسلہء کلام کو توڑ کر جملہء معترضہ کے طور پر یہاں حواریوں ہی کے متعلق ایک اور واقعہ کی طرف بھی اشارہ کر دیا گیا جس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ مسیح سے براہِ راست جن شاگردوں نے تعلیم پائی تھی وہ مسیح کو ایک انسان اور محض ایک بندہ سمجھتے تھے اور ان کے وہم و گمان میں بھی اپنے مرشد کے خدا یا شریکِ خدا یا فرزندِ خدا ہونے کا تصوّر نہ تھا ۔ نیز یہ کہ مسیح نے خود بھی اپنے آپ کو ان کے سامنے ایک بندۂ بے اختیار کی حیثیت سے پیش کیا تھا۔

یہاں یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ جو گفتگو قیامت کے روز ہونے والی ہے ، اس کے اندر اس جملۂ معتر ضہ کا کونسا موقع ہو گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ جملۂ معترضہ اُس گفتگو سے متعلق نہیں ہے جو قیامت کے روز ہو گی بلکہ اُس کی اس پیشگی حکایت سے متعلق ہے جو اس دنیا میں کی جا رہی ہے ۔ قیامت کی اس ہونے والی گفتگو کا ذکر یہاں کیا ہی اس لیے جا رہا ہے کہ موجودہ زندگی میں عیسائیوں کو اُس سے سبق ملے اور وہ راہِ راست پر آئیں۔ لہٰذا اس گفتگو کے سلسلہ میں حواریوں کے اس واقعہ کا ذکر بطور ایک جملۂ معترضہ کے آنا کسی طرح غیر متعلق نہیں ہے۔

129. قرآن اس باب میں خاموش ہے کہ یہ خوان فی الواقع اتارا گیا یا نہیں۔ دُوسرے کسی معتبر ذریعہ سے بھی اس سوال کا جواب نہیں ملتا۔ ممکن ہے کہ یہ نازل ہوا ہو اور ممکن ہے کہ حواریوں نے بعد کی خوفناک دھمکی سُن کر اپنی درخواست واپس لے لی ہو۔