122. مراد ہے قیامت کا دن۔
123. یعنی اسلام کی طرف جو دعوت تم نے دُنیا کو دی تھی اس کا کیا جواب دُنیا نے تمہیں دیا۔
124. یعنی ہم تو صرف اُس محدُود ظاہر ی جواب کو جانتے ہیں جو ہمیں اپنی زندگی میں ملتا ہو ا محسوس ہوا۔ باقی رہا یہ کہ فی الحقیقت ہماری دعوت کا ردِّ عمل کہاں کس صُورت میں کتنا ہوا، تو اس کا صحیح علم آپ کے سوا کسی کو نہیں ہوسکتا۔
125. ابتدائی سوال تمام رسُولوں سے بحیثیت مجمُوعی ہوگا۔ پھر ایک ایک رسُول سے الگ الگ شہادت لی جائے گی جیسا کہ قرآن مجید میں متعدّد مقامات پر بتصریح ارشاد ہوا ہے۔ اس سلسلہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السّلام سے جو سوال کیا جائے گا وہ یہاں بطورِ خاص نقل کیا جا رہا ہے۔
126. یعنی حالت موت سے نکال کر زندگی کی حالت میں لاتا تھا۔
127. یعنی حواریوں کا تجھ پر ایمان لانا بھی ہمارے فضل اور توفیق کا نتیجہ تھا ، ورنہ تجھ میں تو اتنی طاقت بھی نہ تھی کہ اُس جُھٹلانے والی آبادی میں ایک ہی تصدیق کرنے والا اپنے بل بوتے پر پیدا کر لیتا ۔۔۔۔۔۔ ضمناً یہاں یہ بھی بتا دیا کہ حواریوں کا اصل دین اسلام تھا نہ کہ عیسا ئیت۔
128. چونکہ حواریوں کا ذکر آگیا تھا اس لیے سلسلہء کلام کو توڑ کر جملہء معترضہ کے طور پر یہاں حواریوں ہی کے متعلق ایک اور واقعہ کی طرف بھی اشارہ کر دیا گیا جس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ مسیح سے براہِ راست جن شاگردوں نے تعلیم پائی تھی وہ مسیح کو ایک انسان اور محض ایک بندہ سمجھتے تھے اور ان کے وہم و گمان میں بھی اپنے مرشد کے خدا یا شریکِ خدا یا فرزندِ خدا ہونے کا تصوّر نہ تھا ۔ نیز یہ کہ مسیح نے خود بھی اپنے آپ کو ان کے سامنے ایک بندۂ بے اختیار کی حیثیت سے پیش کیا تھا۔
یہاں یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ جو گفتگو قیامت کے روز ہونے والی ہے ، اس کے اندر اس جملۂ معتر ضہ کا کونسا موقع ہو گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ جملۂ معترضہ اُس گفتگو سے متعلق نہیں ہے جو قیامت کے روز ہو گی بلکہ اُس کی اس پیشگی حکایت سے متعلق ہے جو اس دنیا میں کی جا رہی ہے ۔ قیامت کی اس ہونے والی گفتگو کا ذکر یہاں کیا ہی اس لیے جا رہا ہے کہ موجودہ زندگی میں عیسائیوں کو اُس سے سبق ملے اور وہ راہِ راست پر آئیں۔ لہٰذا اس گفتگو کے سلسلہ میں حواریوں کے اس واقعہ کا ذکر بطور ایک جملۂ معترضہ کے آنا کسی طرح غیر متعلق نہیں ہے۔
129. قرآن اس باب میں خاموش ہے کہ یہ خوان فی الواقع اتارا گیا یا نہیں۔ دُوسرے کسی معتبر ذریعہ سے بھی اس سوال کا جواب نہیں ملتا۔ ممکن ہے کہ یہ نازل ہوا ہو اور ممکن ہے کہ حواریوں نے بعد کی خوفناک دھمکی سُن کر اپنی درخواست واپس لے لی ہو۔