Tafheem ul Quran
Surah 5 Al-Ma'idah, Ayat 116-120
وَاِذۡ قَالَ اللّٰهُ يٰعِيۡسَى ابۡنَ مَرۡيَمَ ءَاَنۡتَ قُلۡتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوۡنِىۡ
وَاُمِّىَ اِلٰهَيۡنِ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِؕ قَالَ سُبۡحٰنَكَ مَا يَكُوۡنُ لِىۡۤ اَنۡ
اَقُوۡلَ مَا لَـيۡسَ لِىۡ بِحَقٍّؕ اِنۡ كُنۡتُ قُلۡتُهٗ فَقَدۡ عَلِمۡتَهٗؕ تَعۡلَمُ
مَا فِىۡ نَفۡسِىۡ وَلَاۤ اَعۡلَمُ مَا فِىۡ نَفۡسِكَؕ اِنَّكَ اَنۡتَ عَلَّامُ الۡغُيُوۡبِ
﴿5:116﴾
مَا قُلۡتُ لَهُمۡ اِلَّا مَاۤ اَمَرۡتَنِىۡ بِهٖۤ اَنِ اعۡبُدُوا اللّٰهَ رَبِّىۡ
وَرَبَّكُمۡۚ وَكُنۡتُ عَلَيۡهِمۡ شَهِيۡدًا مَّا دُمۡتُ فِيۡهِمۡۚ فَلَمَّا تَوَفَّيۡتَنِىۡ
كُنۡتَ اَنۡتَ الرَّقِيۡبَ عَلَيۡهِمۡؕ وَاَنۡتَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ شَهِيۡدٌ ﴿5:117﴾
اِنۡ تُعَذِّبۡهُمۡ فَاِنَّهُمۡ عِبَادُكَۚ وَاِنۡ تَغۡفِرۡ لَهُمۡ فَاِنَّكَ
اَنۡتَ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ ﴿5:118﴾
قَالَ اللّٰهُ هٰذَا يَوۡمُ يَـنۡفَعُ الصّٰدِقِيۡنَ صِدۡقُهُمۡؕ لَهُمۡ جَنّٰتٌ
تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَاۤ اَبَدًا ؕ رَضِىَ اللّٰهُ
عَنۡهُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡهُ ؕ ذٰ لِكَ الۡـفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ ﴿5:119﴾
لِلّٰهِ مُلۡكُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَمَا فِيۡهِنَّ ؕ وَهُوَ عَلٰى كُلِّ
شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ ﴿5:120﴾
116 - غرض جب (یہ احسانات یاد دلاکر) اللہ فرمائے گا کہ ”اے عیسٰی ؑ بن مریم ؑ ! کیا تُو نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کے سوا مجھے اور میری ماں کو بھی خدا بنالو؟“ 130 تو وہ جواب میں عرض کرے گا ”سبحان اللہ! میرا یہ کام نہ تھا کہ وہ بات کہتا جس کے کہنے کا مجھے حق نہ تھا، اگر میں نے ایسی بات کہی ہوتی تو آپ کو ضرور علم ہوتا، آپ جانتے ہیں جو کچھ میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو کچھ آپ کے دل میں ہے، آپ تو ساری پوشیدہ حقیقتوں کے عالم ہیں۔
117 - میں نے اُن سے اُس کے سوا کچھ نہیں کہا جس کا آپ نے حکم دیا تھا، یہ کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا ربّ بھی ہے اور تمہارا ربّ بھی۔ میں اُسی وقت تک ان کا نگراں تھا جب تک کہ میں ان کے درمیان تھا۔ جب آپ نے مجھے واپس بلالیا تو آپ ان پر نگراں تھے اور آپ تو ساری ہی چیزوں پر نگراں ہیں۔
118 - اب اگر آپ انہیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کردیں تو آپ غالب اور دانا ہیں“۔
119 - تب اللہ فرمائے گا ”یہ وہ دن ہے جس میں سچّوں کو ان کی سچّائی نفع دیتی ہے، اُن کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، یہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے، یہی بڑی کامیابی ہے“۔
120 - زمین اور آسمانوں اور تمام موجودات کی پادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ ؏۱۶
Notes
130. عیسائیوں نے اللہ کے ساتھ صرف مسیح اور رُوح القدس ہی کو خدا بنانے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ مسیح کی والدۂ ماجدہ حضرت مریم کو بھی ایک مستقل معبُود بنا ڈالا۔ حضرت مریم علیہا السّلام کو اُلُوہیّت یا قُدُّوسیّت کے متعلق کوئی اشارہ تک بائیبل میں موجود نہیں ہے۔ مسیح کے بعد ابتدائی تین سو برس تک عیسائی دُنیا اس تخیّل سے بالکل نا آشنا تھی۔ تیسری صدی عیسوی کے آخری دَور میں اسکندریہ کے بعض علماء دینیات نے پہلی مرتبہ حضرت مریم کے لیے ”اُمّ اللہ“ یا ” مادرِ خدا“ کے الفاظ استعمال کیا۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ اُلُوہیّت ِ مریم کا عقیدہ اور مریم پرستی کا طریقہ عیسائیوں میں پھیلنا شروع ہوا۔ لیکن اوّل اوّل چرچ اسے باقاعدہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھا ، بلکہ مریم پرستوں کو فاسد العقیدہ قرار دیتا تھا۔ پھر جب نَسطُور یَس کے اس عقیدے پر کہ مسیح کی واحد ذات میں دو مستقل جُداگانہ شخصیتیں جمع تھیں، مسیحی دُنیا میں بحث و جدال کا ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا تو اس کا تصفیہ کرنے کے لیے سن ۴۳۱ ء میں شہر افسوس میں ایک کونسل منعقد ہوئی، اور اس کونسل میں پہلی مرتبہ کلیسا کی سرکاری زبان میں حضرت مریم کے لیے ”مادرِ خدا“ کا لقب استعمال کیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مریم پرستی کا جو مرض اب تک کلیسا کے باہر پھیل رہا تھا وہ اس کے بعد کلیسا کے اندر بھی تیزی کے ساتھ پھیلنے لگا، حتٰی کہ نزولِ قرآن کے زمانہ تک پہنچتے پہنچتے حضرت مریم اتنی بڑی دیوی بن گئیں کہ باپ، بیٹا اور رُوح القدس تینوں ان کے سامنے ہیچ ہوگئے۔ ان کے مجسّمے جگہ جگہ کلیساؤں میں رکھے ہوئے تھے ، ان کے آگے عبادت کے جُملہ مراسم ادا کیے جاتے تھے، انہی سے دُعائیں مانگی جاتی تھیں ، وہی فریاد رس، حاجت روا، مشکل کشا اوربیکسوں کی پشتیبان تھیں، اور ایک مسیحی بندے کے لیے سب سے بڑا ذریعۂ اعتماد اگر کوئی تھا تو وہ یہ تھا کہ ” مادرِ خدا“ کی حمایت و سرپرستی اسے حاصل ہو۔ قیصر جَسٹِینَن اپنے ایک قانون کی تمہید میں حضرت مریم ؑ کو اپنی سلطنت کا حامی و ناصر قرار دیتا ہے۔ اس کا مشہوُر جنرل نرسیس میدانِ جنگ میں حضرت مریم ؑ سے ہدایت و رہنمائی طلب کرتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمعصر قیصر ہِرَ قْل نے اپنے جھنڈے پر ”مادرِ خدا“ کی تصویر بنا رکھی تھی اور اسے یقین تھا کہ اس تصویر کی برکت سے یہ جھنڈا سرنگوں نہ ہوگا۔ اگرچہ بعد کی صدیوں میں تحریک اصلاح کے اثر سے پروٹسٹنٹ عیسائیوں نے مریم پرستی کے خلاف شدّت سے آواز اُٹھائی ، لیکن رومن کیتھولک کلیسا آج تک اس مسلک پر قائم ہے۔