31. نقیب کے معنی نگرانی اور تفتیش کرنے والے کے ہیں۔ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ہر قبیلہ پر ایک ایک نقیب خود اسی قبیلہ سے مقرر کرنے کا حکم دیا تھا تا کہ وہ ان کے حالات پر نظر رکھے اور انہیں بے دینی و بد اخلاقی سے بچانے کی کوشش کرتا رہے۔ بائیبل کی کتاب گنتی میں بارہ ”سرداروں“ کا ذکر موجود ہے ، مگر ان کی وہ حیثیت جو یہاں لفظ ”نقیب“ سے قرآن میں بیان کی گئی ہے ، بائیبل کے بیان سے ظاہر نہیں ہوتی۔ بائیبل انہیں صرف رئیسوں اور سرداروں کی حیثیت سے پیش کرتی ہے اور قرآن ان کی حیثیت اخلاقی و دینی نگرانِ کار کی قرار دیتا ہے۔
32. یعنی جو رسول بھی میری طرف سے آئیں ، ان کی دعوت پر اگر تم لبیک کہتے اور ان کی مدد کرتے رہو۔
33. یعنی خدا کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے رہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ اُس ایک ایک پائی کو ، جو انسان اس کی راہ میں خرچ کرے، کئی گُنا زیادہ انعام کے ساتھ واپس کرنے کا وعدہ فرماتا ہے ، اس لیے قرآن میں جگہ جگہ راہِ خدا میں مال خرچ کرنے کو ”قرض “ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بشرطیکہ وہ”اچھا قرض“ ہو، یعنی جائز ذرائع سے کمائی ہوئی دولت خرچ کی جائے، خدا کے قانون کے مطابق خرچ کی جائے اور خلوصِ وحُسنِ نیت کے ساتھ خرچ کی جائے۔
34. کسی سے اُس کی بُرائیاں زائل کر دینے کے دو مطلب ہیں: ایک یہ کہ راہِ راست کو اختیار کرنے اور خدا کی ہدایت کے مطابق فکر و عمل کے صحیح طریقے پر چلنے کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ انسان کا نفس بہت سی بُرائیوں سے ، اور اس کا طرزِ زندگی بہت سی خرابیوں سے پاک ہوتا چلا جائے۔ دوسرے یہ کہ اس اصلاح کے باوجود اگر کوئی شخص بحیثیتِ مجمُوعی کمال کے مرتبے کو نہ پہنچ سکے اور کچھ نہ کچھ بُرائیاں اس کے اندر باقی رہ جائیں تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان پر مواخذہ نہ فرمائے گا اور ان کو اس کے حساب سےساقط کر دے گا، کیونکہ جس نے اساسی ہدایت اور بُنیادی اِصلاح قبول کر لی ہو اس کی جُزئی اور ضمنی بُرائیوں کا حساب لینے میں اللہ تعالیٰ سخت گیر نہیں ہے۔
35. یعنی اُس نے”سَوَا ء السّبیل“ کو پا کر پھر کھو دیا اور وہ تباہی کے راستوں میں بھٹک نکلا۔ ”سَوَاء السّبیل“ کا ترجمہ ”توسّط و اعتدال کی شاہ راہ“ کیا جا سکتا ہے مگر اس سے پُورا مفہُوم ادا نہیں ہوتا۔ اسی لیے ہم نے ترجمہ میں اصل لفظ ہی کو جُوں کا تُوں لے لیا ہے۔
اِس لفظ کی معنویت کو سمجھنے کے لیے پہلے یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ انسان بجائے خود اپنی ذات میں ایک عالِم اصغر ہے جس کے اندر بے شمار مختلف قوتیں اور قابلیتیں ہیں، خواہشیں ہیں، جذبات اور رُحجانات ہیں، نفس اور جسم کے مختلف مطالبے ہیں ، رُوح اور طبیعت کے مختلف تقاضے ہیں۔ پھر ان افراد کے ملنے سے جو اجتماعی زندگی بنتی ہے وہ بھی بے حد و حساب پیچیدہ تعلقات سے مرکب ہوتی ہے اور تمدّن و تہذیب کے نشو و نما کے ساتھ ساتھ اس کی پیچیدگیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں ۔ پھر دنیا میں جو سامانِ زندگی انسان کے چاروں طرف پھیلا ہوا ہے اس سے کام لینے اور اس کو انسانی تمدّن میں استعمال کرنے کا سوال بھی انفرادی اور اجتماعی حیثیت سے بکثرت شاخ در شاخ مسائل پیدا کرتا ہے۔
انسان اپنی کمزوری کی وجہ سے اس پُورے عرصۂ حیات پر بیک وقت ایک متوازن نظر نہیں ڈال سکتا۔ اس بنا پر انسان اپنے لیے خود زندگی کا کوئی ایسا راستہ بھی نہیں بنا سکتا جس میں اس کی ساری قوتوں کے ساتھ انصاف ہو، اس کی تمام خواہشوں کا ٹھیک ٹھیک حق ادا ہو جائے، اس کے سارے جذبات و رُحجانات میں توازن قائم رہے، اس کے سب اندرونی و بیرونی تقاضے تناسب کے ساتھ پُورے ہوں، اس کی اجتماعی زندگی کے تمام مسائل کی مناسب رعایت ملحوظ ہو اور ان سب کا ایک ہموار اور متناسب حل نکل آئے ، اور مادّی اشیاء کو بھی شخصی اور تمدّنی زندگی میں عدل ، انصاف اور حق شناسی کے ساتھ استعمال کیا جا تا رہے۔ جب انسان خود اپنا رہنما اور اپنا شارع بنتا ہے تو حقیقت کے مختلف پہلووں میں سے کوئی ایک پہلو، زندگی کی ضرورتوں میں سے کوئی ایک ضرورت، حل طلب مسئلوں میں سے کوئی ایک مسئلہ اس کے دماغ پر اس طرح مسلّط ہو جاتا ہے کہ دُسرے پہلووں اور ضرورتوں اور مسئلوں کے ساتھ وہ بالارادہ یا بلا ارادہ بے انصافی کرنے لگتا ہے۔ اور اس کی اِس رائے کے زبردستی نافذ کیے جانے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زندگی کا توازن بگڑ جاتا ہے اور وہ بے اعتدالی کی کسی ایک انتہا کی طرف ٹیڑھی چلنے لگتی ہے۔ پھر جب یہ ٹیڑھی چال اپنے آخری حُدُود پر پہنچتے پہنچتے انسان کے لیے ناقابلِ برداشت ہو جاتی ہے تو وہ پہلو اور وہ ضروریات اور وہ مسائل جن کے ساتھ بے انصافی ہوئی تھی ، بغاوت شرُوع کر دیتے ہیں اور زور لگانا شروع کر تے ہیں کہ اُن کے ساتھ انصاف ہو۔ مگر انصاف پھر بھی نہیں ہو تا ۔ کیونکہ پھر وہی عمل رُونما ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی ایک ، جو سابق بے اعتدالی کی بدولت سب سے زیادہ دبادیا گیا تھا ، انسانی دماغ پر حاوی ہو جاتا ہے اور اسے اپنے مخصُوص مقتضاء کے مطابق ایک خاص رُخ پر بہا لے جاتا ہے جس میں پھر دُوسرے پہلووں اور ضرورتوں اور مسئلوں کے ساتھ بے انصافی ہونے لگتی ہے۔ اِس طرح زندگی کو کبھی سیدھا چلنا نصیب نہیں ہوتا۔ ہمیشہ وہ ہچکولے ہی کھاتی رہتی ہے اور تباہی کے ایک کنارے سے دُوسرے کنارے کی طرف ڈُھلکتی چلی جاتی ہے۔ تمام وہ راستے جو خود انسان نے اپنی زندگی کے لیے بنائے ہیں، خطِ منحنی کی شکل میں واقع ہیں، غلط سمت سے چلتے ہیں اور غلط سمت پر ختم ہو کر پھر کسی دُوسری غلط سمت کی طرف مُڑ جاتے ہیں۔
اِن بہت سے ٹیڑھے اور غلط راستوں کے درمیان ایک ایسی راہ جو بالکل وسط میں واقع ہو، جس میں انسان کی تمام قوتوں اور خواہشوں کے ساتھ، اس کے تمام جذبات و رُحجانات کے ساتھ، اور اس کی رُوح اور جسم کے تمام مطالبوں اور تقاضوں کے ساتھ، اوراس کی زندگی کے تمام مسائل کے ساتھ پُورا پُورا انصاف کیا گیا ہو، جس کے اندر کوئی ٹیڑھ، کوئی کجی، کِسی پہلو کی بے جا رعایت اور کسی دُوسرے پہلو کے ساتھ ظلم اور بے انصافی نہ ہو، انسانی زندگی کے صحیح ارتقاء اور اس کی کامیابی و بامُرادی کے لیے سخت ضروری ہے۔ انسان کی عین فطرت اس راہ کی طالب ہے ، اور مختلف ٹیڑھے راستوں سے بار بار اُس کے بغاوت کرنے کی اصل وجہ یہی ہے کہ وہ اس سیدھی شاہ راہ کو ڈھونڈتی ہے۔مگر انسان خود اس شاہ راہ کو معلوم کرنے پر قادر نہیں ہے۔ اس کی طرف صرف خداہ راہ نمائی کر سکتا ہے اور خدا نے اپنے رسول اسی لیے بھیجے ہیں کہ اِس راہِ راست کی طرف انسان کی راہنمائی کریں۔
قرآن اسی راہ کو سَوَاء السّبیل اور صراطِ مستقیم کہتا ہے۔ یہ شاہ راہ دُنیا کی اِس زندگی سے لے کر آخرت کی دُوسری زندگی تک بے شمار ٹیڑھے راستوں کے درمیان سے سیدھی گزرتی چلی جاتی ہے۔ جو اس پر چلا ، وہ یہاں راست رَو اور آخرت میں کامیاب و بامراد ہے، اور جس نے اس راہ کو گم کر دیا، وہ یہاں غلط بین، غلط رَو اور غلط کار ہے، اور آخرت میں لامحالہ اُسے دوزخ میں جانا ہے، کیونکہ زندگی کے تمام ٹیڑھے راستے دوزخ ہی کی طرف جاتے ہیں۔
موجودہ زمانہ کے بعض نادان فلسفیوں نے یہ دیکھ کر کہ انسانی زندگی پے در پے ایک انتہا سے دُوسری انتہا کی طرف دھکّے کھاتی چلی جا رہی ہے، یہ غلط نتیجہ نِکال لیا کہ ”جَدَلی عمل“(Dialectical Process) انسانی زندگی کے ارتقاء کا فطری طریق ہے۔ وہ اپنی حماقت سے یہ سمجھ بیٹھے کہ انسان کے ارتقاء کا راستہ یہی ہے کہ پہلے ایک انتہا پسندانہ دعویٰ ( Thesis ) اُسے ایک رُخ پر بہا لے جائے، پھر اِس کے جواب میں دُوسرا ویسا ہی انتہا پسندانہ دعویٰ (Antithesis) اُسے دُوسری انتہا کی طرف کھینچے ، اور پھر دونوں کے امتزاج (Synthesis) سے ارتقاء حیات کا راستہ بنے ۔ حالانکہ دراصل یہ ارتقاء کی راہ نہیں ہے بلکہ بد نصیبی کے دھکے ہیں جو انسانی زندگی کے صحیح ارتقاء میں بار بار مانع ہو رہے ہیں۔ ہر انتہا پسندانہ دعویٰ زندگی کو اُس کے کسی ایک پہلو کی طرف موڑتا ہے اور اسے کھینچے لیے چلا جا تا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ سَوَاء السّبیل سے بہت دُور جا پڑتی ہے تو خود زندگی ہی کی بعض دُوسری حقیقتیں ، جن کے ساتھ بے انصافی ہو رہی تھی، اس کے خلاف بغاوت شروع کر دیتی ہیں اور یہ بغاوت ایک جوابی دعوے کی شکل اختیار کر کے اسے مخالف سمت میں کھینچنا شروع کر تی ہے۔ جُوں جُوں سَوَاءالسّبیل قریب آتی ہے ان متصادم دعووں کے درمیان مصالحت ہونے لگتی ہے اور ان کے امتزاج سے وہ چیزیں وجود میں آتی ہیں جو انسانی زندگی میں نافع ہیں۔ لیکن جب وہاں نہ سَوَاء السّبیل کے نشانات دکھانے والی روشنی موجود ہوتی ہے اور نہ اس پر ثابت قدم رکھنے والا ایمان ، تو وہ جوابی دعویٰ زندگی کو اس مقام پر ٹھیرنے نہیں دیتا بلکہ اپنے زور میں اُسے دُوسری جانب انتہا تک کھینچتا چلا جاتا ہے ، یہاں تک کہ پھر زندگی کی کچھ دُوسری حقیقتوں کی نفی شروع ہو جاتی ہے اور نتیجہ میں ایک دُوسری بغاوت اُٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ اگر ان کم نظر فلسفیوں تک قرآن کی روشنی پہنچ گئی ہوتی اور انہوں نے سَوَاء السّبیل کو دیکھ لیا ہوتا تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ انسان کے لیے ارتقاء کا صحیح راستہ یہی سواء السّبیل ہے نہ کہ خط منحنی پر ایک انتہا سے دُوسری انتہا کی طرف دھکے کھاتے پھرنا۔
جنت ابدی فلاح و سعادت کا مقام
36. لوگوں کا یہ خیال غلط ہےکہ ”نصاریٰ“ کا لفظ”ناصرہ“ سے ماخوذ ہے جو مسیح علیہ السّلام کا وطن تھا۔ دراصل اس کا ماخذ ”نصرت“ ہے، اور اس کی بنا وہ قول ہے جو مسیح علیہ السّلام کے سوال مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللہِ (خدا کی راہ میں کون لوگ میرے مددگار ہیں؟) کے جواب میں حواریوں نے کہا تھا کہ نَحْنُ اَنْصَارُ اللہِ (ہم اللہ کے کام میں مددگار ہیں)۔ عیسائی مصنّفین کو بالعمُوم محض ظاہری مشابہت دیکھ کر یہ غلط فہمی ہوئی کہ مسیحیت کی ابتدائی تاریخ میں ناصر یہ (Nazarenes) کے نام سے جو ایک فرقہ پایا جاتا تھا ، اور جنہیں حقارت کے ساتھ ناصری اور ایبونی کہا جاتا تھا، انہی کے نام کو قرآن نے تمام عیسائیوں کے لیے استعمال کیا ہے۔ لیکن یہاں قرآن صاف کہہ رہا ہے کہ انہوں نے خود کہا تھا کہ ہم”نصاریٰ“ اور یہ ظاہر ہے کہ عیسائیوں نے اپنا نام کبھی ناصری نہیں رکھا۔ (اس مسئلہ کی مزید تشریح کے لیے صفحہ نمبر ۵۱۷ پرضمیمہ میں الگ نوٹ درج ہے)۔
37. یعنی تمہاری بعض چوریاں اور خیانتیں کھول دیتا ہے جن کا کھولنا دینِ حق کو قائم کرنے لیے ناگزیر ہے، اور بعض سے چشم پوشی اختیار کرلیتا ہے جن کے کھولنے کی کوئی حقیقی ضرورت نہیں ہے۔
38. ”سلامتی“سے مُراد غلط بینی، غلط اندیشی اور غلط کاری سے بچنا اور اس کے نتائج سے محفوظ رہنا ہے۔ جو شخص اللہ کی کتاب اور اُس کے رسول کی زندگی سے روشنی حاصل کرتا ہے اُسے فکر و عمل کے ہر چوراہے پر یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ کس طرح ان غلطیوں سے محفوظ رہے۔
39. عیسائیوں نے ابتداءً مسیحؑ کی شخصیت کو انسانیت اور الوہیت کا مرکب قرار دے کر جو غلطی کی تھی ، اُس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اُن کے لیے مسیحؑ کی حقیقت ایک معما بن کر رہ گئی جسے اُن کے علماء نے لفّاظی اور قیاس آرائی کی مدد سے حل کرنے کی جتنی کوشش کی اُتنے ہی زیادہ اُلجھتے چلے گئے ۔ اُن میں سے جس کے ذہن پر اِس مرکب شخصیت کے جُزوِ انسانی نے غلبہ کیا اس نے مسیحؑ کے ابن اللہ ہونے اور تین مستقل خداؤں میں سے ایک ہونے پر زور دیا۔ اور جس کے ذہن پر جُزوِ اُلُوہیّت کا اثر زیادہ غالب ہوا اس نے مسیحؑ کو اللہ تعالیٰ کا جسمانی ظہُور قرار دے کر عین اللہ بنا دیا اور اللہ ہونے کی حیثیت ہی سے مسیحؑ کی عبادت کی۔ ان کے درمیان بیچ کی راہ جنہوں نے نکالنی چاہی انہوں نے سارا زور ایسی لفظی تعبیریں فراہم کرنے پر صرف کر دیا جن سے مسیحؑ کو انسان بھی کہا جاتا رہے اور اس کے ساتھ خدا بھی سمجھا جا سکے، خدا اور مسیحؑ الگ الگ بھی ہوں اور پھر ایک بھی رہیں۔ (ملاحظہ ہو سُورۂ نساء، حاشیہ نمبر ۲۱۲، ۲۱۳ و ۲۱۵)۔
40. اس فقرے میں ایک لطیف اشارہ ہے اس طرف کہ محض مسیح ؑ کی اعجاز ی پیدائش اور ان کے اخلاقی کمالات اور محسُوس معجزات کو دیکھ کر جو لوگ اس دھوکہ میں پڑ گئے کہ مسیح ؑ ہی خدا ہے وہ درحقیقت نہایت نادان ہیں۔ مسیح ؑ تو اللہ کے بے شمار عجائب ِ تخلیق میں سے محض ایک نمونہ ہے جسے دیکھ کر ان ضعیف ُ البصر لوگوں کی نگاہیں چُوندھیا گئیں۔ اگر اِن لوگوں کی نگاہ کچھ وسیع ہوتی تو انہیں نظر آتا کہ اللہ نے اپنی تخلیق کے اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز نمونے پیش کیے ہیں اور اس کی قدرت کسی حد کے اند ر محدُود نہیں ہے ۔ پس یہ بڑی بے دانشی ہے کہ مخلوق کے کمالات کو دیکھ کر اسی پر خالق ہونے کا گمان کر لیا جائے۔ دانشمند وہ ہیں جو مخلوق کے کمالات میں خالق کی عظیم الشان قدرت کے نشانات دیکھتے ہیں اور ان سے ایمان کا نُور حاصل کرتے ہیں۔
41. اِس موقع پر یہ فقرہ نہایت بلیغ و لطیف ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ جو خدا پہلے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے بھیجنے پر قادر تھا اسی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس خد مت پر مامور کیا ہے اور وہ ایسا کرنے پر قادرتھا۔ دُوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے اس بشیر و نذیر کی بات نہ مانی تو یاد رکھو کہ اللہ قادر و توانا ہے۔ ہرسزا جو وہ تمہیں دینا چاہے بلا مزاحمت دے سکتا ہے۔