42. یہ اشارہ ہے بنی اسرائیل کی اُس عظمت گذشتہ کی طرف جو حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے بہت پہلے کسی زمانہ میں اُن کو حاصل تھی۔ ایک طرف حضرت ابراہیم ؑ ، حضرت اسحاق ؑ ، حضرت یعقوب ؑ اور حضرت یوسف ؑ جیسے جلیل القدر پیغمبر اُن کی قوم میں پیدا ہوئے۔ اور دُوسری طرف حضرت یوسُف علیہ السّلام کے زمانہ میں اور اُن کے بعد مصر میں اُن کو بڑا اِقتدار نصیب ہوا۔ مدّتِ دراز تک یہی اس زمانہ کی مہذب دُنیا کے سب سے بڑے فرماں روا تھے اور انہی کا سکّہ مصر اور اس کے نواح میں رواں تھا۔ عموماً لوگ بنی اسرائیل کے عُروج کی تاریخ حضرت موسی ٰ ؑ سے شروع کرتے ہیں ، لیکن قرآن اس مقام پر تصریح کرتا ہے کہ بنی اسرائیل کا اصل زمانہ ٔ عُرُوج حضرت موسیٰ ؑ سے پہلے گزر چکا تھا جسے خود حضرت موسیٰ اپنی قوم کے سامنے اس کے شاندار ماضی کی حیثیت سے پیش کرتے تھے۔
43. اِس سے مراد فلسطین کی سرزمین ہے جو حضرت ابراہیم ؑ ، حضرت اسحاق ؑ اور حضرت یعقوب ؑ کا مسکن رہ چکی تھی۔ بنی اسرائیل جب مصر سے نکل آئے تو اسی سرزمین کو اللہ تعالیٰ نے اُن کے لیے نامزد فرمایا اور حکم دیا کہ جاکر اسے فتح کر لو۔
44. حضرت موسیٰ ؑ کی یہ تقریر اس موقع کی ہے جب مصر سے نکلنے کے تقریباً دو سال بعد آپ اپنی قوم کو لیے ہوئے دشتِ فاران میں خیمہ زن تھے۔ یہ بیابان جزیرہ نمائے سَینا میں عرب کی شمالی اور فلسطین کی جنوبی سرحد سے متصل واقع ہے۔
45. قَالَ رَجُلَانِ مِنَ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ جو لوگ جبّاروں سے ڈر رہے تھے اُن کے درمیان سے دو شخص بول اُٹھے۔ دوسرا یہ کہ جو لوگ خد اسے ڈرنے والے تھے ان میں سے دو شخصوں نے یہ بات کہی۔
46. “اِس قصے کی تفصیلات بائیبل کی کتاب گنتی ، استثناء اور یشوع میں ملیں گی۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ نے دشتِ فاران سے بنی اسرائیل کے ۱۲ سرداروں کو فلسطین کا دَورہ کرنے کے لیے بھیجا تاکہ وہاں کے حالات معلوم کر کے آئیں۔ یہ لوگ چالیس دن دَورہ کرکے وہاں سے واپس آئے اور انہوں نے قوم کے مجمعِ عام میں بیان کیا کہ واقعی وہاں دُودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں،”لیکن جو لوگ وہاں بسے ہوئے ہیں وہ زور آور ہیں۔۔۔۔ ہم اِس لائق نہیں ہیں کہ ان لوگوں پر حملہ کریں۔۔۔۔ وہاں جتنے آدمی ہم نے دیکھے وہ سب بڑے قدآور ہیں اور ہم نے وہاں بنی عناق کو بھی دیکھا جو جبّار ہیں اور جبّاروں کی نسل سے ہیں ، اور ہم تو اپنی ہی نگاہ میں ایسے تھے جیسے ٹِڈ ے ہوتے ہیں اور ایسے ہی ان کی نگاہ میں تھے“۔ یہ بیان سُن کر سارا مجمع چیخ اُٹھا کہ” اے کاش ہم مصر ہی میں مر جاتے! یا کاش اس بیابان ہی میں مرتے! خداوند، کیوں ہم کواس مُلک میں لے جا کر تلوار سے قتل کرانا چاہتا ہے؟ پھر تو ہماری بیویاں اور بال بچے لُوٹ کا مال ٹھیریں گے۔ کیا ہمارے لیے بہتر نہ ہوگا کہ ہم مصر واپس چلے جائیں“۔ پھر وہ آپس میں کہنے لگے کہ آ ؤ ہم کسی کو کاپنا سردار بنا لیں اور مصر کو لَوٹ چلیں۔ اِس پر اُن بارہ سرداروں میں سے ، جو فلسطین کے دَورے پر بھیجے گئے تھے ، دوسردار ، یُوشَع اور کالِب اُٹھے اور انہوں نے اِس بُزدلی پر قوم کو ملامت کی۔ کالب نے کہا”چلو ہم ایک دم جا کر اس ملک پر قبضہ کر لیں ، کیونکہ ہم اس قابل ہیں کہ اس پر تصرف کریں“۔ پھر دونوں نے یک زبان ہو کر کہا” اگر خدا ہم سے راضی رہے تو وہ ہم کو اس ملک میں پہنچائے گا۔۔۔ فقط اتنا ہو کہ تم خداوند سے بغاوت نہ کرو اور نہ اِس ملک کے لوگوں سے ڈرو۔۔۔۔ اور ہمارے ساتھ خداوند ہے سو ان کا خوف نہ کرو“۔ مگر قوم نے اس کا جواب یہ دیا کہ” انہیں سنگسار کر دو“۔ آخر کار اللہ تعالیٰ کا غضب بھڑکا اور اس نے فیصلہ فرما یا کہ اچھا اب یوشَع اور کالب کے سوااس قوم کے بالغ مردوں میں سے کوئی بھی اُس سر زمین میں داخل نہ ہونے پائے گا۔ یہ قوم چالیس برس تک بے خانماں پھرتی رہے گی، یہاں تک کہ جب ان میں سے ۲۰ برس سے لے کر اُوپر کی عمر تک کے سب مرد مر جائیں گے اور نئی نسل جوان ہو کر اُٹھے گی تب انہیں فلسطین فتح کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ چنانچہ اس فیصلہ ٔ خداوندی کے مطابق بنی اسرائیل کو دشت ِ فاران سے شرق اُردن تک پہنچتے پہنچتے پُورے ۳۸ برس لگ گئے ۔ اِس دَوران میں وہ سب لوگ مر کھپ گئے جو جوانی کی عمر میں مصر سے نکلے تھے۔ شرق اُردن فتح کرنے کے بعد حضرت موسیٰ ؑ کا بھی انتقال ہو گیا ۔ اس کے بعد حضرت یُوشع بن نون کے عہدِ خلافت میں بنی اسرائیل اس قابل ہوئے کہ فلسطین فتح کر سکیں۔
47. یہاں اس واقعہ کا حوالہ دینے کی غرض سلسلۂ بیان پر غور کرنے سے صاف سمجھ میں آجاتی ہے۔ قصہ کے پیرایہ میں دراصل بنی اسرائیل کو یہ جتانا مقصُود ہے کہ موسیٰ کے زمانہ میں نافرمانی ، انحراف اور پست ہمتی سے کام لے کر جو سزا تم نے پائی تھی ، اب اس سے بہت زیادہ سخت سزا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں باغیانہ روش اختیار کر کے پاؤ گے۔