48. یعنی تیری قربانی اگر قبول نہیں ہوئی تو یہ میرے کسی قصُور کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ تجھ میں تقویٰ نہیں ہے، لہٰذا میری جان لینے کے بجائے تجھ کو اپنے اندر تقویٰ پیدا کرنے کی فکر کرنی چاہیے۔
49. اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر تُو مجھے قتل کر نے کے لیے آئے گا تو میں ہاتھ باندھ کر تیرے سامنے قتل ہونے کے لیے بیٹھ جاؤ ں گا اور مدافعت نہ کروں گا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تُو میرے قتل کے درپے ہوتا ہے تو ہو، میں تیرے قتل کے درپے نہ ہوں گا۔ تُومیرے قتل کی تدبیر میں لگنا چاہے تو تُجھے اختیار ہے ، لیکن میں یہ جاننے کے بعد بھی کہ تُو میرے قتل کی تیاریاں کر رہا ہے ، یہ کوشش نہ کروں گا کہ پہلے میں ہی تجھے مار ڈالوں۔ یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ کسی شخص کا اپنے آپ کو خود قاتل کے آگے پیش کر دینا اور ظالمانہ حملہ کی مدافعت نہ کرنا کوئی نیکی نہیں ہے۔ البتہ نیکی یہ ہے کہ اگر کوئی شخص میرے قتل کے درپے ہو اور میں جانتا ہوں کہ وہ میری گھات میں لگا ہو ا ہے ، تب بھی میں اس کے قتل کی فکر نہ کروں اور اسی بات کو ترجیح دوں کہ ظالمانہ اقدام اُس کی طرف سے ہو نہ کہ میری طرف سے ۔ یہی مطلب تھا اس بات کا جو آدم علیہ السّلام کے اس نیک بیٹے نے کی۔
50. یعنی بجائے اس کے کہ ایک دُوسرے کے قتل کی سعی میں ہم دونوں گناہ گار ہوں ، میں اس کو زیادہ بہتر سمجھتا ہوں کہ دونوں کا گناہ تنہا تیرے ہی حصّہ میں آجائے ، تیرے اپنے قاتلانہ اقدام کا گناہ بھی، اور اس نقصان کا گناہ بھی جو اپنی جان بچانے کی کوشش کرتے ہوئے میرے ہاتھ سے تجھے پہنچ جائے۔
51. اس طرح اللہ تعالیٰ نے ایک کوّے کے ذریعہ سے آدم کے اس غلط کا ر بیٹے کو اس کی جہالت و نادانی پر متنبّہ کیا، اور جب ایک مرتبہ اس کو اپنے نفس کی طرف توجّہ کرنے کا موقع مل گیا توا س کی ندامت صرف اسی بات تک محدُود نہ رہی کہ وہ لاش چھپانے کی تدبیر نکالنے میں کوّے سے پیچھے کیوں رہ گیا، بلکہ اس کو یہ بھی احساس ہونے لگا کہ اس نے اپنے بھائی کو قتل کر کے کتنی بڑی جہالت کا ثبُوت دیا ہے۔ بعد کا فقرہ کہ وہ اپنے کیے پر پچھتایا، اسی مطلب پر دلالت کر تا ہے۔
52. یہاں اس واقعہ کا ذکر کرنے سے مقصد یہودیوں کو ان کی اُس سازش پر لطیف طریقہ سے ملامت کرنا ہے جو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ ؐ کے جلیل القدر صحابہ کو قتل کرنے کے لیے کی تھی(ملاحظہ ہو اسی سُورۃ کا حاشیہ نمبر ۳۰)۔ دونوں واقعات میں مماثلت بالکل واضح ہے۔ یہ بات کہ اللہ تعالیٰ نے عرب کے اِن اُمّیوں کو قبولیت کا درجہ عطا فرمایا اور اُن پُرانے اہلِ کتاب کو رد کر دیا، سراسر اِس بُنیاد پر تھی کہ ایک طرف تقویٰ تھا اور دُوسری طرف تقویٰ نہ تھا۔ لیکن بجائے اس کے کہ وہ لوگ جنہیں رَد کر دیا گیا تھا، اپنے مردُود ہونے کی وجہ پر غور کرتے اور اُس قصُور کی تلافی کرنے پر مائل ہوتے جس کی وجہ سے وہ رد کیے گئے تھے، ان پر ٹھیک اُسی جاہلیت کا دورہ پڑ گیا جس میں آدم ؑ کا وہ غلط کار بیٹا مبتلا ہوا تھا، اور اُسی کی طرح وہ ان لوگوں کے قتل پر آمادہ ہو گئے جنہیں خدا نے قبولیت عطا فرمائی تھی۔ حالانکہ ظاہر تھا کہ ایسی جاہلانہ حرکتوں سے وہ خدا کے ہاں مقبول نہ ہو سکتے تھے ، بلکہ یہ کرتُوت انہیں اور زیادہ مردُود بنا دینے والے تھے۔
53. یعنی چونکہ بنی اسرائیل کے اندر اُنہی صفات کے آثار پائے جاتے تھے جن کا اظہار آدم کے اس ظالم بیٹے نے کیا تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ا ن کو قتلِ نفس سے باز رہنے کی سخت تاکید کی تھی اور اپنے فرمان میں یہ الفاظ لکھے تھے۔ افسوس ہے کہ آج جو بائیبل پائی جاتی ہے وہ فرمانِ خداوندی کے ان قیمتی الفاظ سے خالی ہے۔ البتہ تلمُود میں یہ مضمون اس طرح بیان ہوا ہے:” جس نے اسرائیل کی ایک جان کو ہلاک کیا، کتاب اللہ کی نگاہ میں اس نے گویا ساری دنیا کو ہلاک کیا، اور جس نے اسرائیل کی ایک جان کو محفوظ رکھا، کتاب اللہ کی نزدیک اس نے گویا ساری دنیا کی حفاظت کی“۔ اسی طرح تلمود میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ قتل کے مقدمات میں بنی اسرائیل کے قاضی گواہوں کو خطاب کر کے کہا کرتے تھےکہ”جو شخص ایک انسان کی جان ہلاک کرتا ہے وہ ایسی باز پرس کا مستحق ہے کہ گویا اس نے دُنیا بھر کے انسانوں کو قتل کیا ہے“۔
54. مطلب یہ ہے کہ دُنیا میں نوعِ انسانی کی زندگی کا بقا منحصر ہے اس پر کہ ہر انسان کے دل میں دُوسرے انسانوں کی جان کا احترام موجود ہو اور ہر ایک دُوسرے کی زندگی کے بقاء و تحفظ میں مدد گار بننے کا جذبہ رکھتا ہو۔ جو شخص ناحق کسی کی جان لیتا ہے وہ صرف ایک ہی فرد پر ظلم نہیں کرتا بلکہ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ اس کا دل حیاتِ انسانی کے احترام سے اور ہمدردی ِ نوع کے جذبہ سے خالی ہے ، لہٰذا وہ پُوری انسانیت کا دُشمن ہے، کیونکہ اس کے اندر وہ صفت پائی جاتی ہے جو اگر تمام افرادِ انسانی میں پائی جائے تو پُوری نوع کا خاتمہ ہو جائے۔ اس کے برعکس جو شخص انسان کی زندگی کے قیام میں مدد کرتا ہے وہ درحقیقت انسانیت کا حامی ہے، کیونکہ اس میں وہ صفت پائی جاتی ہے جس پر انسانیت کے بقاء کا انحصار ہے۔
55. زمین سے مراد یہاں وہ مُلک یا وہ علاقہ ہے جس میں امن و انتظام قائم کرنے کی ذمہ داری اسلامی حکومت نے لے رکھی ہو۔ اور خدا و رسول سے لڑنے کا مطلب اُس نظامِ صالح کے خلاف جنگ کرنا ہے جو اسلام کی حکومت نے ملک میں قائم کر رکھا ہو۔ اللہ تعالیٰ کی مرضی یہ ہے اور اسی کے لیے اس نے اپنا رسول بھیجا تھا کہ زمین میں ایک ایسا صالح نظا م قائم ہو جو انسان اور حیوان اور درخت اور ہر اُس چیز کو جو زمین پر ہے، امن بخشے، جس کے تحت انسانیت اپنی فطرت کے کمال مطلوب کو پہنچ سکے،جس کے تحت زمین کے وسائل اس طرح استعمال کیے جائیں کہ وہ انسان کی ترقی میں مددگار ہوں نہ کہ اس کی تباہی و بربادی میں۔ ایسا نظام جب کسی سر زمین میں قائم ہو جائے تو اس کو خراب کرنے کی سعی کرنا، قطع نظر اس سے کہ وہ چھوٹے پیمانے پر قتل و غارت اور رہزنی و ڈکیتی کی حد تک ہو یا بڑے پیمانے پر اس صالح نظام کو اُلٹنے اور اس کی جگہ کوئی فاسد نظام قائم کردینے کے لیے ، دراصل وہ خدا اور اس کے رسُول ؐ کے خلاف جنگ ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے تعزیراتِ ہند میں ہر اُس شخص کو جو ہندوستان کی برطانوی حکومت کا تختہ اُلٹنے کی کوشش کرے” بادشاہ کے خلاف لڑائی“(Waging war against the King) کا مجرم قرار دیا گیا ، چاہے اس کی کاروائی ملک کے کسی دُور دراز گوشے میں ایک معمُولی سپاہی کے خلاف ہی کیوں نہ ہو اور بادشاہ اس کی دست رس سے کتنا ہی دُور ہو۔
56. یہ مختلف سزائیں بر سبیلِ اجمال بیان کر دی گئی ہیں تاکہ قاضی یا امامِ وقت اپنے اجتہاد سے ہر مُجرم کو اس کے جُرم کی نوعیت کے مطابق سزا دے۔ اصل مقصُود یہ ظاہر کرنا ہے کہ کسی شخص کا اسلامی حکومت کے اندر رہتے ہوئے اسلامی نظام کو اُلٹنے کی کوشش کرنا بدترین جُرم ہے اور اسے ان انتہائی سزا ؤں میں سے کوئی سزا دی جا سکتی ہے۔
57. یعنی اگر وہ سعیِ فساد سے باز آگئے ہوں، اور صالح نظام کو درہم برہم کرنے یا اُلٹنے کی کوشش چھوڑ چکے ہوں ، اور اُن کا بعد کا طرزِ عمل ثابت کر رہا ہو کہ وہ امن پسند ، مطیع قانون، اور نیک چلن انسان بن چکے ہیں، اور اس کے بعد اُن کے سابق جرائم کا پتہ چلے ، تو اُن سزا ؤ ں میں سے کوئی سزا اُن کو نہ دی جائے گی جو اُوپر بیان ہوئی ہیں۔ البتہ آدمیوں کے حقوق پر اگر کوئی دست درازی انہوں نے کی تھی تو اس کی ذمہ داری ان پر سے ساقط نہ ہو گی۔ مثلاً اگر کسی انسان کو انہوں نے قتل کیا تھا یا کسی کا مال لیا تھا یا کوئی اور جُرم انسانی جان و مال کے خلاف کیا تھا تو اسی جرم کے بارے میں فوجداری مقدمہ ان پر قائم کیا جائے گا ، لیکن بغاوت اور غدّاری اور خدا و رسُول کے خلاف محاربہ کا کوئی مقدمہ نہ چلایا جائے گا۔