58. یعنی ہر اُس ذریعہ کے طالب اور جویاں رہو جس سے تم اللہ کا تقرب حاصل کر سکو اور اس کی رضا کو پہنچ سکو۔
59. اصل میں لفظ جَاھِدُوْ استعمال فرمایا گیا ہے جس کا مفہُوم محض ”جدوجہد“ سے پُوری طرح واضح نہیں ہوتا۔ مجاہدہ کا لفظ مقابلہ کا مقتضی ہے اور اس کا صحیح مفہُوم یہ ہے کہ جو قوتیں اللہ کی راہ میں مزاحم ہیں، جو تم کو خد اکی مرضی کے مطابق چلنے سے روکتی اور اس کی راہ سے ہٹانے کی کوشش کرتی ہیں ، جو تم کو پُوری طرح خدا کی بندہ بن کر نہیں رہنے دیتیں اور تمیں اپنا یا کسی غیر اللہ کا بندہ بننے پر مجبُور کرتی ہیں، ان کے خلاف اپنی تمام امکانی طاقتوں سے کشمکش اور جدو جہد کرو۔ اسی جدوجہد پر تمہاری فلاح و کامیابی کا اور خدا سے تمہارے تقرب کا انحصار ہے۔
اس طرح یہ آیت بندہء مومن کو ہر محاذ پر چو مُکھی لڑائی لڑنے کی ہدایت کرتی ہے۔ ایک طرف ابلیسِ لعین اور اس کا شیطانی لشکر ہے۔ دُوسری طرف آدمی کا اپنا نفس اور اس کی سرکش خواہشات ہیں۔ تیسری طرف خدا سے پھرے ہوئے بہت سے انسان ہیں جن کے ساتھ آدمی ہر قسم کے معاشرتی ، تمدّنی اور معاشی تعلقات میں بندھا ہوا ہے۔ چوتھی طرف وہ غلط مذہبی ، تمدّنی اور سیاسی نظا م ہیں جو خدا سے بغاوت پر قائم ہوئے ہیں اور بندگیِ حق کے بجائے بندگیِ باطل پر انسان کو مجبُور کرتے ہیں۔ ان سب کے حربے مختلف ہیں مگر سب کی ایک ہی کوشش ہے کہ آدمی کو خدا کے بجائے اپنا مطیع بنائیں۔ بخلاف اس کے آدمی کی ترقی کا اور تقربِ خداوندی کے مقام تک اس کے عُروج کا انحصار بالکلیہ اس پر ہے کہ وہ سراسر خدا کا مطیع اور باطن سے لے کر ظاہر تک خالصتًہ اس کا بندہ بن جائے۔ لہٰذا اپنے مقصُود تک اس کا پہنچنا بغیر اِس کے ممکن نہیں ہے کہ وہ اِن تمام مانع و مزاحم قوتوں کے خلاف بیک وقت جنگ آزما ہو، ہر وقت ہر حال میں ان سے کشمکش کرتا رہے اور ان ساری رُکاوٹوں کو پامال کرتا ہوا خدا کی راہ میں بڑھتا چلا جائے۔
60. دونوں ہاتھ نہیں بلکہ ایک ہاتھ۔ اور اُمّت کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ پہلی چوری پر سیدھا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ بنی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت بھی فرمائی ہے کہ لا قطع علیٰ خَائنٍ۔ اس سے معلوم ہوا کہ سرقہ کا اطلاق خیانت وغیرہ پر نہیں ہوتا بلکہ صرف اِس فعل پر ہوتا ہے کہ آدمی کسی کے مال کو اس کی حفاظت سے نکال کر اپنے قبضہ میں کر لے۔
پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت بھی فرمائی ہے کہ ایک ڈھال کی قیمت سے کم کی چوری میں ہاتھ نہ کاٹا جائے ۔ ایک ڈھال کی قیمت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بروایت عبداللہ بن عباس ؓ دس درہم ، بروایت ابن عمر ؓ تین درہم، بروایت انس بن مالک ؓ پانچ درہم اور بروایت حضرت عائشہ ؓ ایک چوتھائی دینار ہوتی تھی۔ اسی اختلاف کی بنا پر فقہا کے درمیان کم سے کم نصابِ سرقہ میں اختلاف ہوا ہے۔ امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک سرقہ کا نصاب دس درہم ہے اور امام مالک ؒ شافعی ؒ اور احمد ؒ کے نزدیک چوتھائی دینار۔ (اُس زمانہ کے درہم میں تین ماشہ ۱- ۱/۵ رتی چاندی ہوتی تھی۔ اور ایک چوتھا ئی دینار ۳ درہم کے برابر تھا)۔
(پھر بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ جن کی چوری میں ہاتھ کاٹنے کی سزا نہ دی جائے گی۔ مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے کہ لا قطع فی ثمرۃ ولا کثر( پھل اور ترکاری کی چوری میں ہاتھ نہ کاٹا جائے)۔ لاقطع فی طعام( کھانے کی چوری میں قطعِ ید نہیں ہے۔)۔ اور حضرت عائشہ ؓ کی حدیث ہے کہ لم یکن قطع السارق علی عھد رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الشئ التافہ(حقیر چیزوں کی چوری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہاتھ نہیں کاٹا جاتا تھا)۔ حضرت علی ؓ اور حضرت عثمان ؓ کا فیصلہ ہے اور صحابہ کرام میں سے کسی نے اس سے اختلاف نہیں کیا کہ لا قطع فی الطّیر( پرندے کی چوری میں ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں ہے)۔ نیز سیّدنا عمر و علی رضی اللہ عنہما نے بیت المال سے چوری کرنے والے کا ہاتھ بھی نہیں کاٹا اور اس معاملہ میں بھی صحابہ کرام میں سے کسی کا اختلاف منقول نہیں ہے۔ اِن مآخذ کی بُنیاد پر مختلف ائمہ فقہ نے مختلف چیزوں کو قطعِ ید کے حکم سے مستثنٰی قرار دیا ہے۔ امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک ترکاریاں ، پھل ، گوشت ، پکا ہوا کھانا، غلّہ جس کا ابھی کھلیان نہ کیا گیا ہے، کھیل اور گانے بجانے کے آلات وہ چیزیں ہیں جن کی چوری میں قطعِ ید کی سزا نہیں ہے۔ نیز جنگل میں چَرتے ہوئے جانوروں کی چوری اور بیت المال کی چوری میں بھی وہ قطعِ ید کے قائل نہیں ہیں۔ اِسی طرح دُوسرے ائمّہ نے بھی بعض چیزوں کو اس حکم سے مستثنٰی قرار دیا ہے ۔ لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اِن چوریوں پر سرے سے کوئی سزا ہی نہ دی جائے گی۔ مطلب یہ ہے کہ ان جرائم میں ہاتھ نہ کاٹا جائے گا۔
61. اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ہاتھ کٹنے کے بعد جو شخص توبہ کر لے اور اپنے نفس کو چوری سے پاک کر کے اللہ کا صالح بندہ بن جائے وہ اللہ کے غضب سے بچ جائے گا ، اور اللہ اس کے دامن سے اس داغ کو دھو دے گا۔ لیکن اگر کسی شخص نے ہاتھ کٹوا نے کے بعد بھی اپنے آپ کو بدنیتی سے پاک نہ کیا اور وہی گندے جذبات اپنے اندر پرورش کیے جن کی بنا پر اس نے چوری کی اور اس کا ہاتھ کاٹا گیا ، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہاتھ تو اس کے بدن سے جدا ہو گیا مگر چوری اس کے نفس میں بدستور موجود رہی، اس وجہ سے وہ خدا کے غضب کا اسی طرح مستحق رہے گا جس طرح ہاتھ کٹنے سے پہلے تھا۔ اِسی لیے قرآن مجید چور کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ اللہ سے معافی مانگے اور اپنے نفس کی اصلاح کرے ۔ کیونکہ ہاتھ کاٹنا توانتظامِ تمدّن کے لیے ہے۔ اس سزا سے نفس پاک نہیں ہو سکتا۔ نفس کی پاکی صرف توبہ اور رُجوع اِلی اللہ سے حاصل ہوتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق احادیث میں مذکور ہے کہ ایک چور کا ہاتھ جب آپ کے حکم کے مطابق کاٹا جا چکا تو آپ ؐ نے اُسے اپنے پاس بلایا اور اس سے فرمایا قل اسْتغفر اللہ و اتوب الیہ۔”کہہ میں خدا سے معافی چاہتا ہوں اور اس سے توبہ کرتا ہوں“۔ اُس نے آپ ؐ کی تلقین کے مطابق یہ الفاظ کہے۔ پھر آپ ؐ نے اس کے حق میں دعا فرمائی کہ اَلّٰھُمَّ تُبْ عَلَیْہِ۔”خدایا اسے معاف فر ما دے“۔
62. یعنی جن کی ذہانتیں اور سرگرمیاں ساری کی ساری اس کوشش میں صرف ہو رہی ہیں کہ جاہلیت کی جو حالت پہلے سے چلی آرہی ہے وہی برقرار رہے اور اسلام کی یہ اصلاحی دعوت اُس بگاڑ کو درست کرنے میں کامیاب نہ ہونے پائے۔ یہ لوگ تمام اخلاقی بندشوں سے آزاد ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہر قسم کی رکیک سے رکیک چالیں چل رہے تھے۔ جان بُوجھ کر حق نِگل رہے تھے۔ نہایت بے باکی و جسارت کے ساتھ جھُوٹ ، فریب ، دغا اور مکر کے ہتھیاروں سے اُس پاک انسان کے کام کو شکست دینے کی کوشش کر رہے تھے جو کامل بے غرضی کے ساتھ سراسر خیر خواہی کی بنا پر عام انسانوں کی اور خود اُن کی فلاح و بہبُود کے لیے شب و روز محنت کر رہا تھا۔ اُن کی اِن حرکات کو دیکھ دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دل کُڑھتا تھا ، اور یہ کُڑھنا بالکل فطری امر تھا۔ جب کسی پاکیزہ انسان کو پست اخلاق لوگوں سے سابقہ پیش آتا ہے اور وہ محض اپنی جہالت اور خود غرضی و تنگ نظری کی بنا پر اس کی خیر خواہانہ مساعی کو روکنے کے لیے گھٹیا درجہ کی چال بازیوں سے کام لیتے ہیں تو فطرۃً اُس کا دل دُکھتا ہی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا منشا یہ نہیں ہے کہ اِن حرکات پر جو فطری رنج آپ کو ہوتا ہے وہ نہ ہونا چاہیے۔ بلکہ منشاء دراصل یہ ہے کہ اس سے آپ دل شکستہ نہ ہوں، ہمت نہ ہاریں، صبر کے ساتھ بندگانِ خدا کی اصلاح کے لیے کام کیے چلے جائیں۔ رہے یہ لوگ، تو جس قسم کے ذلیل اخلاق انہوں نے اپنے اندر پرورش کیے ہیں اُن کی بنا پر یہ روش ان سے عین متوقع ہے، کوئی چیز اِن کی اس روش میں خلاف توقع نہیں ہے۔
63. اس کے دو مطلب ہیں: ایک یہ کہ یہ لوگ چونکہ خواہشات کے بندے بن گئے ہیں اس لیےسچائی سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ جُھوٹ ہی انہیں پسند آتا ہے اور اسی کو یہ جی لگا کر سُنتے ہیں ، کیونکہ ان کے نفس کی پیاس اُسی سے بُجھتی ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی مجلسوں میں یہ جھُوٹ کی غرض سے آکر بیٹھتے ہیں تاکہ یہاں جو کچھ دیکھیں اور جو باتیں سُنیں اُن کو اُلٹے معنی پہنا کر یا ان کے ساتھ اپنی طرف سے غلط باتوں کی آمیزش کر کے آنحضرت ؐ اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے لوگوں میں پھیلائیں۔
64. اس کے بھی دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ جاسوس بن کر آتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی مجلسوں میں اس لیے گشت لگاتے پھرتے ہیں کہ کوئی راز کی بات کان میں پڑے تو اسے آپ کے دُشمنوں تک پہنچائیں۔ دُوسرے یہ کہ جھُوٹے الزامات عائد کرنے اور افترا پردازیاں کرنے کے لیے مواد فراہم کرتے پھرتے ہیں تاکہ اُن لوگوں میں بدگمانیاں اور غلط فہمیاں پھیلائیں جن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں سے براہِ راست تعلقات پیدا کرتے کا موقع نہیں ملا ہے۔
65. یعنی توراۃ کے جو احکام ان کی خواہشات کے مطابق نہیں ہیں۔ ان کے اندر جان بُوجھ کر ردو بدل کرتے ہیں اور الفاظ کے معنی بدل کر من مانے احکام ان سے نکالتے ہیں۔
66. یعنی جاہل عوام سے کہتے ہیں کہ جو حکم ہم بتا رہے ہیں ، اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہی حکم تمہیں بتائیں تو اسے قبول کرنا ورنہ رد کر دینا۔
67. “اللہ کی طرف سے کسی کے فتنہ میں ڈالے جانے کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کے اندر اللہ تعالیٰ کسی قسم کے بُرے میلانات پرورش پاتے دیکھتا ہے اس کےسامنے پے در پے ایسے مواقع لاتا ہے جن میں اس کی سخت آزمائش ہوتی ہے۔ اگر وہ شخص ابھی بُرائی کی طرف پوری طرح نہیں جھکا ہے تو ان آزمائشوں سے سنبھل جاتا ہے اور اس کے اندر بدی کا مقابلہ کرنے کے لیے نیکی کی جو قوتیں موجود ہوتی ہیں وہ اُبھر آتی ہیں۔ لیکن اگر وہ بُرائی کی طرف پُوری طرح جھُک چکا ہوتا ہے اور اس کی نیکی اس کی بدی سے اندر ہی شکست کھا چکی ہوتی ہے تو ہر ایسی آزمائش کے موقع پر وہ اور زیادہ بدی کے پھندے میں پھنستا چلا جاتا ہے۔ یہی اللہ تعالیٰ کا وہ فتنہ ہے جس سے کسی بگڑتے ہوئے انسان کو بچا لینا اس کے کسی خیر خواہ کے بس میں نہیں ہوتا۔ اور اس فتنہ میں صرف افراد ہی نہیں ڈالے جاتے بلکہ قومیں بھی ڈالی جاتی ہیں۔
68. اس لیے کہ انہوں نے خود پاک ہونا نہ چاہا۔ جو خود پاکیزگی کا خواہش مند ہوتا ہے اور اس کے لیے کوشش کرتا ہے اُسے پاکیزگی سے محرُوم کرنا اللہ کا دستور نہیں ہے ۔ اللہ پاک کرنا اُسی کو نہیں چاہتا جو خود پاک ہونا نہ چاہے۔
69. یہاں خاص طور پر اُن کے مفتیوں اور قاضیوں کی طرف اشارہ ہے جو جُھوٹی شہادتیں لے کر اور جھُوٹی رودادیں سُن کر اُن لوگوں کے حق میں انصاف کے خلاف فیصلے کیا کرتے تھے جن سے انہیں رشوت پہنچ جاتی تھی یا جن کے ساتھ ان کے ناجائز مفاد وابستہ ہوتے تھے۔
70. یہودی اس وقت تک اسلامی حکومت کی باقاعدہ رعایا نہیں بنے تھے بلکہ اسلامی حکوت کے ساتھ ان کے تعلقات معاہدات پر مبنی تھے۔ ان معاہدات کی رُو سے یہودیوں کو اپنے اندر ونی معاملات میں آزادی حاصل تھی اور ان کے مقدمات کے فیصلے انہی کے قوانین کے مطابق اُن کے اپنے جج کرتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یا آپ کے مقرر کردہ قاضیوں کے پاس اپنے مقدمات لانے کے لیے وہ ازرُوئے قانون مجبُور نہ تھے۔ لیکن یہ لوگ جن معاملات میں خود اپنے مذہبی قانون کے مطابق فیصلہ کرنا نہ چاہتے تھے اُن کا فیصلہ کرانے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس اُمید پر آجاتے تھے کہ شاید آپ کی شریعت میں ان کے لیے کوئی دُوسرا حکم ہو اور اس طرح وہ اپنے مذہبی قانون کی پیروی سے بچ جائیں۔ ()”“
یہاں خاص طور پر جس مقدمہ کی طرف اشارہ ہے وہ یہ تھا کہ خیبر کے معزز یہودی خاندانوں میں سے ایک عورت اور ایک مرد کے درمیان ناجائز تعلق پایا گیا ۔ توراۃ کی رُو سے ان کی سزا رجم تھی ، یعنی یہ کہ دونوں کو سنگسار کیا جائے ( استثناء – باب ۲۲ – آیت ۲۳ - ۲۴) لیکن یہودی اس سزا کو نافذ کرنا نہیں چاہتے تھے ۔ اس لیے انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس مقدمہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پنچ بنایا جائے۔ اگر وہ رجم کے سوا کوئی اَور حکم دیں تو قبول کر لیا جائے اور رجم ہی کا حکم دیں تو نہ قبول کیا جائے۔ چنانچہ مقدمہ آپ کے سامنے لایا گیا۔ آپ نے رجم کا حکم دیا۔ انہوں نے اس حکم کو ماننے سے انکار کیا۔ اس پر آپ نے پوچھا تمہارے مذہب میں اس کی کیا سزا ہے؟ انہوں نے کہا کوڑے مارنا اور منہ کالا کر کے گدھے پر سوار کرنا۔ آپ نے ان کے علماء کو قسم دے کر اُ ن سے پوچھا ، کیا توراۃ میں شادی شدہ زانی اور زانیہ کی یہی سزا ہے؟ انہوں نے پھر وہ جھوٹا جواب دیا۔ لیکن ان میں سے ایک شخص ابن صوریا، جو خود یہودیوں کے بیان کے مطابق اپنے وقت میں توارۃ کا سب سے بڑا عالم تھا، خاموش رہا۔ آپ نے اُس سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میں تجھے اُس خدا کی قسم دے کر پُوچھتا ہوں جس نے تم لوگوں کو فرعون سے بچایا اور طُور پر تمہیں شریعت عطا کی، کیا واقعی توراۃ میں زنا کی یہی سزا لکھی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ”اگر آپ مجھے ایسی بھاری قسم نہ دیتے تو میں نہ بتاتا۔ واقعہ یہ ہے کہ زنا کی سزا تو رجم ہی ہے مگر ہمارے ہاں جب زنا کی کثرت ہوئی تو ہمارے حُکّام نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ بڑے لوگ زنا کرتے تو انہیں چھوڑ دیا جاتا اور چھوٹے لوگوں سے یہی حرکت سرزد ہوتی تو انہیں رجم کر دیا جاتا۔ پھر جب اس سے عوام میں ناراضی پیدا ہونے لگی تو ہم نے توراۃ کے قانون کو بدل کر یہ قاعدہ بنا لیا کہ زانی اور زانیہ کو کوڑے لگائے جاِئیں اور انہیں مُنہ کالا کر کے گدھے پر اُلٹے مُنہ سوار کیا جائے۔“ اس کے بعد یہودیوں کے لیے کچھ بولنے کی گنجائش نہ رہی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے زانی اور زانیہ کو سنگسار کر دیا گیا۔
71. اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اِن لوگوں کی بددیانتی کو بالکل بے نقاب کر دیا ہے۔ یہ”مذہبی لوگ“ جنہوں نے تمام عرب پر اپنی دینداری اور اپنے علم کتاب کا سِکّہ جما رکھا تھا ، ان کی حالت یہ تھی کہ جس کتاب کو خود کتاب اللہ مانتے تھے اور جس پر ایمان رکھنے کے مدّعی تھے اُس کے حکم کو چھوڑ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا مقدمہ لائے تھے جن کے پیغمبر ہونے سے ان کو بشدّت انکار تھا۔ اس سے یہ راز بالکل فاش ہوگیا کہ یہ کسی چیز پر بھی صداقت کے ساتھ ایمان نہیں رکھتے، دراصل ان کا ایمان اپنے نفس اور اس کی خواہشات پر ہے، جسے کتاب اللہ مانتے ہیں اس سے صرف اس لیے مُنہ موڑتے ہیں کہ اس کا حکم ان کے نفس کو ناگوار ہے، اور جسے معاذاللہ جھُوٹا مدّعِی نبوّت کہتے ہیں اس کے پاس صرف اس امید پر جاتے ہیں کہ شاید وہاں سے کوئی ایسا فیصلہ حاصل ہو جائے جو ان کے منشاء کے مطابق ہو۔