Tafheem ul Quran

Surah 5 Al-Ma'idah, Ayat 57-66

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَـتَّخِذُوا الَّذِيۡنَ اتَّخَذُوۡا دِيۡنَكُمۡ هُزُوًا وَّلَعِبًا مِّنَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡكِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِكُمۡ وَالۡـكُفَّارَ اَوۡلِيَآءَ​ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿5:57﴾ وَ اِذَا نَادَيۡتُمۡ اِلَى الصَّلٰوةِ اتَّخَذُوۡهَا هُزُوًا وَّلَعِبًا​ ؕ ذٰ لِكَ بِاَنَّهُمۡ قَوۡمٌ لَّا يَعۡقِلُوۡنَ‏ ﴿5:58﴾ قُلۡ يٰۤـاَهۡلَ الۡـكِتٰبِ هَلۡ تَـنۡقِمُوۡنَ مِنَّاۤ اِلَّاۤ اَنۡ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَـيۡنَا وَمَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلُ ۙ وَاَنَّ اَكۡثَرَكُمۡ فٰسِقُوۡنَ‏ ﴿5:59﴾ قُلۡ هَلۡ اُنَـبِّئُكُمۡ بِشَرٍّ مِّنۡ ذٰ لِكَ مَثُوۡبَةً عِنۡدَ اللّٰهِ​ ؕ مَنۡ لَّعَنَهُ اللّٰهُ وَغَضِبَ عَلَيۡهِ وَجَعَلَ مِنۡهُمُ الۡقِرَدَةَ وَالۡخَـنَازِيۡرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوۡتَ​ ؕ اُولٰٓـئِكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّاَضَلُّ عَنۡ سَوَآءِ السَّبِيۡلِ‏  ﴿5:60﴾ وَاِذَا جَآءُوۡكُمۡ قَالُوۡۤا اٰمَنَّا وَقَدْ دَّخَلُوۡا بِالۡكُفۡرِ وَهُمۡ قَدۡ خَرَجُوۡا بِهٖ​ؕ وَاللّٰهُ اَعۡلَمُ بِمَا كَانُوۡا يَكۡتُمُوۡنَ‏ ﴿5:61﴾ وَتَرٰى كَثِيۡرًا مِّنۡهُمۡ يُسَارِعُوۡنَ فِى الۡاِثۡمِ وَالۡعُدۡوَانِ وَاَكۡلِهِمُ السُّحۡتَ​ ؕ لَبِئۡسَ مَا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿5:62﴾ لَوۡلَا يَنۡهٰٮهُمُ الرَّبَّانِيُّوۡنَ وَالۡاَحۡبَارُ عَنۡ قَوۡلِهِمُ الۡاِثۡمَ وَاَكۡلِهِمُ السُّحۡتَ​ؕ لَبِئۡسَ مَا كَانُوۡا يَصۡنَعُوۡنَ‏ ﴿5:63﴾ وَقَالَتِ الۡيَهُوۡدُ يَدُ اللّٰهِ مَغۡلُوۡلَةٌ​ ؕ غُلَّتۡ اَيۡدِيۡهِمۡ وَلُعِنُوۡا بِمَا قَالُوۡا​ ۘ بَلۡ يَدٰهُ مَبۡسُوۡطَتٰنِ ۙ يُنۡفِقُ كَيۡفَ يَشَآءُ​ ؕ وَلَيَزِيۡدَنَّ كَثِيۡرًا مِّنۡهُمۡ مَّاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡكَ مِنۡ رَّبِّكَ طُغۡيَانًا وَّكُفۡرًا​ ؕ وَاَ لۡقَيۡنَا بَيۡنَهُمُ الۡعَدَاوَةَ وَالۡبَغۡضَآءَ اِلٰى يَوۡمِ الۡقِيٰمَةِ​ ؕ كُلَّمَاۤ اَوۡقَدُوۡا نَارًا لِّلۡحَرۡبِ اَطۡفَاَهَا اللّٰهُ​ ۙ وَيَسۡعَوۡنَ فِى الۡاَرۡضِ فَسَادًا​ ؕ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الۡمُفۡسِدِيۡنَ‏ ﴿5:64﴾ وَلَوۡ اَنَّ اَهۡلَ الۡـكِتٰبِ اٰمَنُوۡا وَاتَّقَوۡا لَـكَفَّرۡنَا عَنۡهُمۡ سَيِّاٰتِهِمۡ وَلَاَدۡخَلۡنٰهُمۡ جَنّٰتِ النَّعِيۡمِ‏ ﴿5:65﴾ وَلَوۡ اَنَّهُمۡ اَقَامُوا التَّوۡرٰٮةَ وَالۡاِنۡجِيۡلَ وَمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡهِمۡ مِّنۡ رَّبِّهِمۡ لَاَ كَلُوۡا مِنۡ فَوۡقِهِمۡ وَمِنۡ تَحۡتِ اَرۡجُلِهِمۡ​ؕ مِنۡهُمۡ اُمَّةٌ مُّقۡتَصِدَةٌ​  ؕ وَكَثِيۡرٌ مِّنۡهُمۡ سَآءَ مَا يَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿5:66﴾

57 - اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے پیش رَو اہلِ کتاب میں سے جن لوگوں نے تمہارے دین کو مذاق اور تفریح کا سامان بنالیا ہے، اُنہیں اور دُوسرے کافروں کو اپنا دوست اور رفیق نہ بناوٴ۔ اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو۔ 58 - جب تم نماز کے لیے منادی کرتے ہو تو وہ اس کا مذاق اُڑاتے اور اس سے کھیلتے ہیں۔89 اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عقل نہیں رکھتے۔90 59 - اِن سے کہو، ”اے اہلِ کتاب ! تم جس بات پر ہم سے بگڑے ہو وہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ ہم اللہ پر اور دین کی اُس تعلیم پر ایمان لے آئے ہیں جو ہماری طرف نازل ہوئی ہے اور ہم سے پہلے بھی نازل ہوئی تھی، اور تم میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں ؟“ 60 - پھر کہو ”کیا میں اُن لوگوں کی نشاندہی کروں جن کا انجام خدا کے ہاں فاسقوں کے انجام سے بھی بدتر ہے؟ وہ جن پر خدا نے لعنت کی، جن پر اُس کا غضب ٹوٹا، جن میں سے بندر اور سُور بنائے گئے، جنہوں نے طاغوت کی بندگی کی۔ ان کا درجہ اور بھی زیادہ بُرا ہے اور وہ سَوَاءُ السّبیل سے بہت زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں“۔91 61 - جب یہ تم لوگوں کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے، حالانکہ کفر لیے ہوئے آئے تھے اور کفر ہی لیے ہوئے واپس گئے اور اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ یہ دلوں میں چُھپائے ہوئے ہیں۔ 62 - تم دیکھتے ہو کہ ان میں سے بکثرت لوگ گناہ اور ظلم و زیادتی کے کاموں میں دَوڑ دُھوپ کرتے پھرتے ہیں اور حرام کے مال کھاتے ہیں۔ بہت بُری حرکات ہیں جو یہ کررہے ہیں۔ 63 - کیوں اِن کے عُلماء اور مشائخ انہیں گناہ پر زبان کھولنے اور حرام کھانے سے نہیں روکتے؟ یقیناً بہت ہی بُرا کارنامہ زندگی ہے جو وہ تیار کررہے ہیں۔ 64 - یہُودی کہتے ہیں اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ۔۔۔۔92 باندھے گئے ان کے ہاتھ،93 اور لعنت پڑی اِن پر اُس بکواس کی بدولت جو یہ کرتے ہیں ۔۔۔۔94 اللہ کے ہاتھ تو کشادہ ہیں، جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو کلام تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے وہ ان میں سے اکثر لوگوں کی سرکشی و باطل پرستی میں اُلٹے اضافہ کا موجب بن گیا ہے،95 اور (اس کی پاداش میں)ہم نے ان کے درمیان قیامت تک کے لیے عداوت اور دُشمنی ڈال دی ہے۔ جب کبھی یہ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں اللہ اُس کو ٹھنڈا کردیتا ہے۔ یہ زمین میں فساد پَھیلانے کی سعی کررہے ہیں مگر اللہ فساد برپا کرنے والوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔ 65 - اگر (اِس سرکشی کے بجائے)یہ اہلِ کتاب ایمان لے آتے اور خدا ترسی کی رَوَش اختیار کرتے تو ہم اِن کی بُرائیاں اِن سے دُور کردیتے اور ان کو نعمت بھری جنتوں میں پہنچاتے۔ 66 - کاش انہوں نے توراة اور انجیل اور اُن دوسری کتابوں کو قائم کیا ہوتا جو اِن کے رب کی طرف سے اِن کے پاس بھیجی گئی تھیں۔ ایسا کرتے تو اِن کے لیے اُوپر سے رزق برستا اور نیچے سے اُبلتا۔96 اگرچہ ان میں کچھ لوگ راست رَو بھی ہیں لیکن ان کی اکثریت سخت بد عمل ہے۔ ؏۹


Notes

89. یعنی اذان کی آواز سُن کر اُس کی نقلیں اتارتے ہیں ، تمسخر کے لیے اس کے الفاظ بدلتے اور مسخ کرتے ہیں اور اس پر آوازے کستے ہیں۔

90. یعنی ان کی یہ حرکتیں محض بے عقلی کا نتیجہ ہیں۔ اگر وہ جہالت اور نادانی میں مبتلا نہ ہوتے تو مسلمانوں سے مذہبی اختلاف رکھنے کے باوجود ایسی خفیف حرکات ان سے سرزد نہ ہوتیں۔ آخر کون معقول آدمی یہ پسند کر سکتا ہے کہ جب کوئی گروہ خدا کی عبادت کے لیے منادی کرے تو اس کا مذاق اُڑایا جائے۔

91. لطیف اشارہ ہے خود یہُودیوں کی طرف، جن کی اپنی تاریخ یہ کہہ رہی ہے کہ بارہا وہ خدا کے غضب اور اس کی لعنت میں مُبتلا ہوئے، سَبْت کا قانون توڑنے پر ان کی قوم کے بہت سے لوگوں کی صُورتیں مسخ ہوئیں، حتٰی کہ وہ تنزّل کی اس انتہا کو پہنچے کہ طاغوت کی بندگی تک انہیں نصیب ہوئی ۔ پس کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آخر تمہاری بے حیائی اور مجرمانہ بے باکی کی کوئی حد بھی ہے کہ خود فسق و فجور اور انتہائی اخلاقی تنزل میں مُبتلا ہو اور اگر کوئی دُوسرا گروہ خدا پر ایمان لا کر سچی دینداری کا طریقہ اختیار کرتا ہے تو اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتے ہو۔

92. عربی محاورے کے مطابق کسی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بخیل ہے، عطا اور بخشش سے اُس کا ہاتھ رُکا ہوا ہے ۔ پس یہُودیوں کے اس قول کا مطلب یہ نہیں ہے کہ واقعی اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اللہ بخیل ہے ۔ چونکہ صدیوں سے یہُودی قوم ذلّت و نکبت کی حالت میں مُبتلا تھی اور اس کی گزشتہ عظمت محض ایک افسانہء پارینہ بن کر رہ گئی تھی جس کے پھر واپس آنے کا کوئی امکان اُنہیں نظر نہ آتا تھا ، اس لیے بالعمُوم اپنے قومی مصائب پر ماتم کرتے ہوئے اُس قوم کے نادان لوگ یہ بیہودہ فقرہ کہا کرتے تھے کہ معاذ اللہ خدا تو بخیل ہو گیا ہے، اس کے خزانے کا مُنہ بند ہے ، ہمیں دینے کے لیے اس کے پاس آفات اور مصائب کے سوا اور کچھ نہیں رہا۔ یہ بات کچھ یہُودیوں تک ہی محدُود نہیں، دُوسری قوموں کے جُہلاء کا بھی یہی حال ہے کہ جب ان پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو خدا کی طرف رجُوع کرنے کے بجائے وہ جل جل کر اس قسم کی گُستاخانہ باتیں کیا کرتے ہیں۔

93. یعنی بخل میں یہ خود مُبتلا ہیں۔ دُنیا میں اپنے بُخل اور اپنی تنگ دلی کے لیے ضرب المثل بن چکے ہیں۔

94. یعنی اس قسم کی گُستاخیاں اور طعن آمیز باتیں کر کے یہ چاہیں کہ خدا ان پر مہربان ہو جائے اور عنایات کی بارش کرنے لگے تو یہ کسی طرح ممکن نہیں۔ بلکہ ان باتوں کا اُلٹا نتیجہ یہ ہے کہ یہ لوگ خدا کی نظرِ عنایت سے اور زیادہ محرُوم اور اس کی رحمت سے اَور زیادہ دُور ہوتے جاتے ہیں۔

95. یعنی بجائے اس کے کہ اس کلام کو سُن کر وہ کوئی مفید سبق لیتے، اپنی غلطیوں اور غلط کاریوں پر متنبّہ ہو کر ان کی تلافی کرتے، اور اپنی گِری ہوئی حالت کے اسباب معلوم کر کے اصلاح کی طرف متوجہ ہوتے، اُن پر اس کا اُلٹا اثر یہ ہوا ہے کہ ضد میں آکر انہوں نے حق و صداقت کی مخالفت شروع کر دی ہے۔ خیر و صلاح کے بھُولے ہوئے سبق کو سُن کر خود راہِ راست پر آنا تو درکنار ، اُن کی اُلٹی کوشش یہ ہے کہ جو آواز اس سبق کو یاد دلا رہی ہے اسے دبا دیں تاکہ کوئی دُوسرا بھی اسے نہ سُننے پائے۔

96. بائیبل کی کتاب احبار(باب ۲۶) اور استثناء( باب ۲۸)” میں حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی ایک تقریر نقل کی گئی ہے جس میں انہوں نے بنی اسرائیل کو بڑی تفصیل کے ساتھ بتایا ہے کہ اگر تم احکامِ الٰہی کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرو گے تو کس کس طرح اللہ کی رحمتوں اور برکتوں سے نوازے جاؤ گے ، اور اگر کتاب اللہ کو پسِ پشت ڈال کر نافرمانیاں کرو گے تو کس طرح بلائیں اور مصیبتیں اور تباہیاں ہر طرف سے تم پر ہجوم کریں گی۔ حضرت موسیٰ ؑ کی وہ تقریر قرآن کے اِس مختصر فقرے کی بہترین تفسیر ہے۔