89. یعنی اذان کی آواز سُن کر اُس کی نقلیں اتارتے ہیں ، تمسخر کے لیے اس کے الفاظ بدلتے اور مسخ کرتے ہیں اور اس پر آوازے کستے ہیں۔
90. یعنی ان کی یہ حرکتیں محض بے عقلی کا نتیجہ ہیں۔ اگر وہ جہالت اور نادانی میں مبتلا نہ ہوتے تو مسلمانوں سے مذہبی اختلاف رکھنے کے باوجود ایسی خفیف حرکات ان سے سرزد نہ ہوتیں۔ آخر کون معقول آدمی یہ پسند کر سکتا ہے کہ جب کوئی گروہ خدا کی عبادت کے لیے منادی کرے تو اس کا مذاق اُڑایا جائے۔
91. لطیف اشارہ ہے خود یہُودیوں کی طرف، جن کی اپنی تاریخ یہ کہہ رہی ہے کہ بارہا وہ خدا کے غضب اور اس کی لعنت میں مُبتلا ہوئے، سَبْت کا قانون توڑنے پر ان کی قوم کے بہت سے لوگوں کی صُورتیں مسخ ہوئیں، حتٰی کہ وہ تنزّل کی اس انتہا کو پہنچے کہ طاغوت کی بندگی تک انہیں نصیب ہوئی ۔ پس کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آخر تمہاری بے حیائی اور مجرمانہ بے باکی کی کوئی حد بھی ہے کہ خود فسق و فجور اور انتہائی اخلاقی تنزل میں مُبتلا ہو اور اگر کوئی دُوسرا گروہ خدا پر ایمان لا کر سچی دینداری کا طریقہ اختیار کرتا ہے تو اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتے ہو۔
92. عربی محاورے کے مطابق کسی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بخیل ہے، عطا اور بخشش سے اُس کا ہاتھ رُکا ہوا ہے ۔ پس یہُودیوں کے اس قول کا مطلب یہ نہیں ہے کہ واقعی اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اللہ بخیل ہے ۔ چونکہ صدیوں سے یہُودی قوم ذلّت و نکبت کی حالت میں مُبتلا تھی اور اس کی گزشتہ عظمت محض ایک افسانہء پارینہ بن کر رہ گئی تھی جس کے پھر واپس آنے کا کوئی امکان اُنہیں نظر نہ آتا تھا ، اس لیے بالعمُوم اپنے قومی مصائب پر ماتم کرتے ہوئے اُس قوم کے نادان لوگ یہ بیہودہ فقرہ کہا کرتے تھے کہ معاذ اللہ خدا تو بخیل ہو گیا ہے، اس کے خزانے کا مُنہ بند ہے ، ہمیں دینے کے لیے اس کے پاس آفات اور مصائب کے سوا اور کچھ نہیں رہا۔ یہ بات کچھ یہُودیوں تک ہی محدُود نہیں، دُوسری قوموں کے جُہلاء کا بھی یہی حال ہے کہ جب ان پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو خدا کی طرف رجُوع کرنے کے بجائے وہ جل جل کر اس قسم کی گُستاخانہ باتیں کیا کرتے ہیں۔
93. یعنی بخل میں یہ خود مُبتلا ہیں۔ دُنیا میں اپنے بُخل اور اپنی تنگ دلی کے لیے ضرب المثل بن چکے ہیں۔
94. یعنی اس قسم کی گُستاخیاں اور طعن آمیز باتیں کر کے یہ چاہیں کہ خدا ان پر مہربان ہو جائے اور عنایات کی بارش کرنے لگے تو یہ کسی طرح ممکن نہیں۔ بلکہ ان باتوں کا اُلٹا نتیجہ یہ ہے کہ یہ لوگ خدا کی نظرِ عنایت سے اور زیادہ محرُوم اور اس کی رحمت سے اَور زیادہ دُور ہوتے جاتے ہیں۔
95. یعنی بجائے اس کے کہ اس کلام کو سُن کر وہ کوئی مفید سبق لیتے، اپنی غلطیوں اور غلط کاریوں پر متنبّہ ہو کر ان کی تلافی کرتے، اور اپنی گِری ہوئی حالت کے اسباب معلوم کر کے اصلاح کی طرف متوجہ ہوتے، اُن پر اس کا اُلٹا اثر یہ ہوا ہے کہ ضد میں آکر انہوں نے حق و صداقت کی مخالفت شروع کر دی ہے۔ خیر و صلاح کے بھُولے ہوئے سبق کو سُن کر خود راہِ راست پر آنا تو درکنار ، اُن کی اُلٹی کوشش یہ ہے کہ جو آواز اس سبق کو یاد دلا رہی ہے اسے دبا دیں تاکہ کوئی دُوسرا بھی اسے نہ سُننے پائے۔
96. بائیبل کی کتاب احبار(باب ۲۶) اور استثناء( باب ۲۸)” میں حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی ایک تقریر نقل کی گئی ہے جس میں انہوں نے بنی اسرائیل کو بڑی تفصیل کے ساتھ بتایا ہے کہ اگر تم احکامِ الٰہی کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرو گے تو کس کس طرح اللہ کی رحمتوں اور برکتوں سے نوازے جاؤ گے ، اور اگر کتاب اللہ کو پسِ پشت ڈال کر نافرمانیاں کرو گے تو کس طرح بلائیں اور مصیبتیں اور تباہیاں ہر طرف سے تم پر ہجوم کریں گی۔ حضرت موسیٰ ؑ کی وہ تقریر قرآن کے اِس مختصر فقرے کی بہترین تفسیر ہے۔