97. توراۃ اور انجیل کو قائم کرنے سے مراد راست بازی کے ساتھ ان کی پَیروی کرنا اور انہیں اپنا دستورِ زندگی بناتا ہے۔ اِس موقع پر یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ بائیبل کے مجمُوعہ کتب مقدسہ میں ایک قسم کی عبارات تو وہ ہیں جو یہودی اور عیسائی مصنّفین نے بطورِ خود لکھی ہیں۔ اور دُوسری قسم کی عبارات وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ارشادات یا حضرت موسیٰ ؑ ، عیسیٰ ؑ اور دُوسرے پیغمبروں کے اقوال ہونے کی حیثیت سے منقول ہیں اور جن میں اس بات کی تصریح ہے کہ اللہ نے ایسا فرمایا یا فلاں نبی نے ایسا کہا۔ ان میں سے پہلی قسم کی عبارات کو الگ کر کے اگر کوئی شخص صرف دُوسری قسم کی عبارات کا تَتَبُّع کرے تو بآسانی یہ دیکھ سکتا ہے کہ ان کی تعلیم اور قرآن کی تعلیم میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہے۔ اگرچہ مترجموں اور ناسخوں اور شارحوں کی دراندازی سے، اور بعض جگہ زبانی راویوں کی غلطی سے ، یہ دُوسری قسم کی عبارات بھی پُوری طرح محفوظ نہیں رہی ہیں، لیکن اس کے باوجود کوئی شخص یہ محسُوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ان میں بعینہ اسی خالص توحید کی دعوت دی گئی ہے جس کی طرف قرآن بُلا رہا ہے، وہی عقائد پیش کیے گئے ہیں جو قرآن پیش کرتا ہے اور اسی طریقِ زندگی کی طرف رہنمائی کی گئی ہے جس کی ہدایت قرآن دیتا ہے۔ پس حقیقت یہ ہے کہ اگر یہُودی اور عیسائی اُسی تعلیم پر قائم رہتے جو اِن کتابوں میں خدا اور پیغمبروں کی طرف سے منقول ہے تو یقیناّ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت وہ ایک حق پرست اور راست رَو گروہ پائے جاتے اور انہیں قرآن کے اندر وہی روشنی نظر آتی جو پچھلی کتابوں میں پائی جاتی تھی۔ اس صُورت میں ان کے لیے نبی صلی علیہ وسلم کی پَیروی اختیار کرنے میں تبدیلِ مذہب کا سرے سے کوئی سوال پیدا ہی نہ ہوتا بلکہ وہ اُسی راستہ کے تسلسل میں، جس پر وہ پہلے سے چلے آرہے تھے، آپ کے متبع بن کر آگے چل سکتے تھے۔
98. یعنی یہ بات سُن کر ٹھنڈے دل سے غور کرنے اور حقیقت کو سمجھنے کے بجائے وہ ضد میں آکر اَور زیادہ شدید مخالفت شروع کر دیں گے۔
99. دیکھو سُورہ ٔ بقرہ ، آِیت ۶۲ - و حاشیہ نمبر ۸۰۔
100. اِن چند لفظوں میں عیسائیوں کے عقیدہ ٔ اُلوہیّتِ مسیح کی ایسی صافف تردید کی گئی ہے جہ اس سے زیادہ صفائی ممکن نہیں ہے۔ مسیح کے بارے میں اگر کوئی یہ معلوم کرنا چاہے کہ فی الحقیقت وہ کیا تھا تو ان علامات سے بالکل غیر مشتبہ طور پر معلوم کر سکتا ہے کہ وہ محض ایک انسان تھا۔ ظاہر ہے کہ جو ایک عورت کے پیٹ سے پیدا ہوا ، جس کا شجرۂ نسب تک موجود ہے، جو انسانی جسم رکھتا تھا، جو اُن تمام حدُود سے محدُود اور ان تمام قیُود سے مقیّد اور ان تمام صفات سے متصف تھا جو انسان کے لیے مخصُوص ہیں، جو سوتا تھا، کھاتا تھا، گرمی اور سردی محسوس کرتا تھا، حتٰی کہ جسے شیطان کے ذریعہ سے آزمائش میں بھی ڈالا گیا ، اس کے متعلق کون معقول انسان یہ تصوّر کر سکتا ہے کہ وہ خود خدا ہے یا خدائی میں خدا کا شریک و سہیم ہے۔ لیکن یہ انسانی ذہن کی ضلالت پذیری کا ایک عجیب کرشمہ ہے کہ عیسائی خود اپنی مذہبی کتابوں میں مسیح کی زندگی کو صریحاّ ایک انسانی زندگی پاتے ہیں اور پھر بھی اسے خدائی سے متصف قرار دینے پر اصرار کیے چلے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اُس تاریخی مسیح کے قائل ہی نہیں ہیں جو عالمِ واقعہ میں ظاہر ہوا تھا ، بلکہ انہوں نے خود اپنے وہم و گمان سے ایک خیالی مسیح تصنیف کر کے اُسے خدا بنا لیا ہے۔
101. )اشارہ ہے اُن گمراہ قوموں کی طرف جن سے عیسائیوں نے غلط عقیدہ اور باطل طریقے اخذ کیے۔ خصُوصاّ فلاسفہء یونان کی طرف ، جن کے تخیلات سے متاثر ہو کر عیسائی اُس صراطِ مستقیم سے ہٹ گئے جس کی طرف ابتداءً ان کی رہنمائی کی گئی تھی۔ مسیح کے ابتدائی پَیرو جو عقائد رکھتے تھے وہ بڑی حد تک اُس حقیقت کے مطابق تھے جس کا مشاہدہ انہوں نے خود کیا تھا اور جس کی تعلیم ان کے ہادی و رہنما نے ان کو دی تھی۔ مگر بعد کے عیسائیوں نے ایک طرف مسیح کی عقیدت اور تعظیم میں غلو کر کے، اور دُوسری طرف ہمسایہ قوموں کے اَوہام اور فلسفوں سے متاثر ہو کر، اپنے عقائد کی مبالغہ آمیز فلسفیانہ تعبیریں شروع کر دیں اور ایک بالکل ہی نیا مذہب تیار کر لیا جس کو مسیح کی اصل تعلیمات سے دُور کا واسطہ بھی نہ رہا۔ اس باب میں خود ایک مسیحی عالمِ دینیات (ریور ینڈ چارلس اینڈ رسن اسکاٹ) کا بیان قابلِ ملاحظہ ہے۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے چودھویں ایڈیشن میں”یسُوع مسیح“(Jesus Christ) کے عنوان پر اس نے جو طویل مضمُون لکھا ہے اس میں وہ کہتا ہے:
”پہلی تین انجیلوں (متی، مرقس، لوقا) میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس سے یہ گمان کیا جا سکتا ہو کہ اِن انجیلوں کے لکھنے والے یسُوع کو انسان کے سوا کچھ اَور سمجھتے تھے۔ ان کی نگاہ میں وہ ایک انسان تھا، ایسا انسان جو خاص طور پر خدا کی رُوح سے فیض یاب ہوا تھا اور خدا کے ساتھ ایک ایسا غیر منقطع تعلق رکھتا تھا جس کی وجہ سے اگر اس کو خدا بیٹا کہا جائے تو حق بجانب ہے۔ خود متی اس کا ذکر بڑھئی کے بیٹے کی حیثیت سے کرتا ہے اور ایک جگہ بیان کرتا ہے کہ پطرس نے اس کو ”مسیح“ تسلیم کرنے کے بعد” الگ ایک طرف لے جا کر اُسے ملامت کی“(متی ۲۲،۱۶ ) ۔ لُوقا میں ہم دیکھتے ہیں کہ واقعہء صلیب کے بعد یسُوع کے دو شاگرد اماؤس کی طرف جاتے ہوئے اس کا ذکر اس حیثیت میں کرتے ہیں کہ” وہ خدا اور ساری اُمّت کے نزدیک کام اور کلام میں قدرت والا نبی تھا“(لوقا ۱۹،۲۴)۔ یہ بات خاص طور پر قابلِ توجہ ہے کہ اگرچہ”مرقس“ کی تصنیف سے پہلے مسیحیوں میں یسُوع کے لیے لفظ”خداوند“ کا استعمال عام طور پر چل پڑا تھا ، لیکن نہ مرقس کی انجیل میں یسُوع کو کہیں اس لفظ سے یاد کیا گیا ہے اور نہ متی کی انجیل میں۔ بخلاف اس کے دونوں کتابوں میں یہ لفظ اللہ کے لیے بکثرت استعمال کیا گیا ہے ۔ یسُوع کے ابتلاء کا ذکر تینوں انجیلیں پُورے زور کے ساتھ کرتی ہیں جیسا کہ اس واقعہ کے شایانِ شان ہے، مگر مرقس کی ” فدیہ“ والی عبارت (مرقس ۴۵،۱۰) اور آخری فَسَح کے موقع پر چند الفاظ کو مستثنیٰ کر کے ان کتابوں میں کہیں اس واقعہ کو وہ معنی نہیں پہنائے گئے ہیں جو بعد میں پہنائے گئے۔ حتٰی کہ اس بات کی طرف کہیں اشارہ تک نہیں کیا گیا کہ یسُوع کی موت کا انسان کے گناہ اور اس کے کفارہ سے کوئی تعلق تھا“۔
آگے چل کر وہ پھر لکھتا ہے:
”یہ بات کہ یسُوع خود اپنے آپ کو ایک نبی کی حیثیت سے پیش کرتا تھا اناجیل کی متعدّد عبارتوں سے ظاہر ہوتی ہے۔ مثلاً یہ کہ”مجھے آج اور کل اور پرسوں اپنی راہ پر چلنا ضرور ہے کیونکہ ممکن نہیں کہ نبی یروشلم سے باہر ہلاک ہو“(لوقا ۲۳،۱۳)۔ وہ اکثر اپنا ذکر” ابنِ آدم“ کے نام سے کرتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یسُوع کہیں اپنے آپ کو” ابن اللہ“ نہیں کہتا۔ اس کے دُوسرے ہمعصر جب اس کے متعلق یہ لفظ استعمال کرتے ہیں تو غالباً ان کا مطلب بھی اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ وہ اس کو خدا کا ممسُوح سمجھتے ہیں۔ البتہ وہ اپنے آپ کو مطلقاً ” بیٹے“ کے لفظ سے تعبیر کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ مزید برآں وہ خدا کے ساتھ اپنے تعلق کو بیان کرنے کے لیے بھی” باپ“ کا لفظ اسی اطلاقی شان میں استعمال کرتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اِس تعلق کے بارے میں وہ اپنے آپ کو منفرد نہیں سمجھتا تھا ، بلکہ ابتدائی دَور میں دُوسرے انسانوں کو بھی خدا کے ساتھ اِس خاص گہرے تعلق میں اپنا ساتھی سمجھتا تھا۔ البتہ بعد کے تجربے اور انسانی طبائع کے عمیق مطالعہ نے اسے یہ سمجھنے پر مجبُور کر دیا کہ اس معاملہ میں وہ اکیلا ہے۔“
پھر یہی مصنّف لکھتا ہے:
”عید پُنْتِکُسْت کے موقع پر پطرس کے یہ الفاظ کہ”ایک انسان جو خدا کی طرف سے تھا“ یسُوع کو اُس حیثیت میں پیش کرتے ہیں جس میں اس کے ہمعصر اس کو جانتے اور سمجھتے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انجیلوں سے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ یسُوع بچپن سے جوانی تک بالکل فطری طور پر جسمانی و ذہنی نشو و نما کے مدارج سے گزرا۔ اُس کو بھُوک پیاس لگتی تھی ، وہ تھکتا اور سوتا تھا، وہ حیرت میں مُبتلا ہو سکتا تھا اور دریافتِ احوال کا محتاج تھا، اس نے دُکھ اُٹھایا اور مرا۔ اُس نے صرف یہی نہیں کہ سمیع و بصیر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ صریحاً اس سے انکار کیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ درحقیقت اس کے حاضر و ناظر ہونے کا اگر دعویٰ کیا جائے تو یہ اُس پُورے تصوّر کے بالکل خلاف ہو گا جو ہمیں انجیلوں سے حاصل ہوتا ہے۔ بلکہ اس دعوے کے ساتھ آزمائش کے واقعہ کو اور گِتَسمْنی اور کھوپڑی کے مقام پر جو واردات گزریں ان میں سے کسی کو بھی مطابقت نہیں دی جا سکتی۔ تا وقتیکہ ان واقعات کو بالکل غیر حقیقی قرار نہ دے دیا جائے ، یہ ماننا پڑے گا کہ مسیح جب ان سارے حالات سے گزرا تو وہ انسانی علم کی عام محدُودیّت اپنے ساتھ لیے ہوئے تھا اور اس محدُودیّت میں اگر کوئی استثناء تھا تو وہ صرف اُسی حد تک جس حد تک پیغمبرانہ بصیرت اور خدا کے یقینی شہُود کی بنا پر ہو سکتا ہے۔ پھر مسیح کو قادرِ مطلق سمجھنے کی گنجائش تو انجیلوں میں اَور بھی کم ہے ۔ کہیں اس بات کا اشارہ تک نہیں ملتا کہ وہ خدا سے بےنیاز ہو کر خود مختارانہ کام کرتا تھا۔ اس کے برعکس وہ بار بار دُعا مانگنے کی عادت سے اور اِس قسم کے الفاظ سے کہ” یہ چیز دُعا کے سوا کسی اور ذریعہ سے نہیں ٹل سکتی“، اس بات کا صاف اقرار کرتا ہے کہ اس کی ذات بالکل خدا پر منحصر ہے۔ فی الواقع یہ بات ان انجیلوں کے تاریخی حیثیت سے معتبر ہونے کی ایک اہم شہادت ہے کہ اگرچہ ان کی تصنیف و ترتیب اُس زمانہ سے پہلے مکمل نہ ہوئی تھی کہ مسیحی کلیسا نے مسیح کو الہٰ سمجھنا شروع کر دیا تھا ، پھر بھی ان دستاویزوں میں ایک طرف مسیح کے فی الحقیقت انسان ہونے کی شہادت محفوظ ہے اور دُوسری طرف ان کے اندر کوئی شہادت اِس امر کی موجود نہیں ہے کہ مسیح اپنے آپ کو خدا سمجھتا تھا“۔
اس کے بعد یہ مصنف پھر لکھتا ہے:
”وہ سینٹ پال تھا جس نے اعلان کیا کہ واقعہء رفع کے وقت اسی فعلِ رفع کے ذریعہ سے یسُوع پُورے اختیارات کے ساتھ”ابن اللہ“ کے مرتبہ پر علانیہ فائز کیا گیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ”ابن اللہ“ کا لفظ یقینی طور پر ذاتی اِبنیّت کی طرف ایک اشارہ اپنے اندر رکھتا ہے جسے پا ل نے دُوسری جگہ یسُوع کو”خدا کا اپنا بیٹا“ کہہ کر صاف کر دیا ہے ۔ اِس امر کا فیصلہ اب نہیں کیا جا سکتا کہ آیا وہ ابتدائی عیسائیوں کا گروہ تھا یا پال جس نے مسیح کے لیے ” خداوند“ کا خطاب اصل مذہبی معنی میں استعمال کیا۔ شاید یہ فعل مقدّم الذکر گروہ ہی کا ہو۔ لیکن بلاشبہ وہ پال تھا جس نے اس خطاب کو پورے معنی میں بولنا شروع کیا ، پھر اپنے مُدّعا کو اس طرح اَور بھی زیادہ واضح کر دیا کہ ”خداوند یسُوع مسیح“ کی طرف بہت سے وہ تصوّرات اور اصطلاحی الفاظ منتقل کر دیے جو قدیم کتبِ مقدسہ میں خداوند یَہُوَہ(اللہ تعالیٰ) کے لیے مخصُوص تھے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے مسیح کو خدا کی دانش اور خدا کی عظمت کے مساوی قرار دیا اور اُسے مطلق معنی میں خدا کا بیٹا ٹھیرایا۔ تاہم متعدّد حیثیات اورپہلووں سے مسیح کو خدا کے برابر کر دینے کے باوجود پا ل اُس کو قطعی طور پر اللہ کہنے سے باز رہا“۔
انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے ایک دُوسرے مضمُون ”میسحیّت (Christianity) میں رورنڈ جارج ولیم ناکس مسیحی کلیسا کے بُنیادی عقیدے پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے:
”عقیدۂ تثلیث کا فکری سانچہ یُونانی ہے اور یہُودی تعلیمات اس میں ڈھالی گئی ہیں۔ اس لحاظ سے یہ ہمارے لیے ایک عجیب قسم کا مرکب ہے ، مذہبی خیالات بائیبل کے اور ڈھلے ہوئے ایک اجنبی فلسفے کی صُورتوں میں۔
باپ ، بیٹا اور رُوح القدس کی اصطلا حیں یہُودی ذرائع کی بہم پہنچائی ہوئی ہیں۔ آخری اصطلاح اگرچہ خود یسُوع نے شاذو نادر ہی کبھی استعمال کی تھی، اور پال نے بھی جو اس کو استعمال کیا ا س کا مفہوم بالکل غیر واضح تھا، تاہم یہودی لٹریچر میں یہ لفظ شخصیت اختیار کرنے کے قریب پہنچ چکا تھا۔ پس اس عقیدہ کا مواد یہودی ہے ( اگرچہ اس مرکب میں شامل ہونے سے پہلے وہ بھی یونانی اثرات سے مغلوب ہو چکا تھا) اور مسئلہ خالص یونانی۔ اصل سوال جس پر یہ عقیدہ بنا، وہ نہ کوئی اخلاقی سوال تھا نہ مذہبی، بلکہ وہ سراسر ایک فلسفیانہ سوال تھا، یعنی یہ کہ ان تینوں اقانیم ( باپ، بیٹے اور رُوح) کے درمیان تعلق کی حیثیت کیا ہے؟ کلیسا نے اس کا جو جواب دیا وہ اُس عقیدے میں درج ہے جو نیقیا کی کونسل میں مقرر کیا گیا تھا ، اور اسے دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی تمام خصُوصیات میں بالکل یونانی فکر کا نمونہ ہے“۔
اسی سلسلہ میں انسائیکلوپیڈیا بریٹا نیکا کے ایک اَور مضمون تاریخِ کلیسا(Church History) کی یہ عبارت بھی قابلِ ملاحظہ ہے:
”تیسری صدی عیسوی کے خاتمہ سے پہلے مسیح کو عام طور پر ”کلام“ کا جسدی ظہُور تومان لیا گیا تھا تا ہم بکثرت عیسائی ایسے تھے جو مسیح کی اُلُوہیّت کے قائل نہ تھے۔ چوتھی صدی میں اس مسئلہ پر سخت بحثیں چھڑی ہوئی تھیں جن سے کلیسا کی بُنیادیں ہل گئی تھیں۔ آخر کار سن ۳۲۵ ء میں نیقیا کی کونسل نے اُلُوہیّت مسیح کو باضابطہ سرکاری طور پر اصل مسیحی عقیدہ قرار دیا اور مخصُوص الفاظ میں اسے مرتب کر دیا۔ اگرچہ اس کے بعد بھی کچھ مدّت تک جھگڑا چلتا رہا لیکن آخری فتح نیقیا ہی کے فیصلے کی ہوئی جسے مشرق اور مغرب میں اس حیثیت سے تسلیم کر لیا گیا کہ صحیح العقیدہ عیسائیوں کا ایمان اسی پر ہونا چاہیے ۔ بیٹے کی اُلُوہیّت کے ساتھ رُوح کی اُلُوہیّت بھی تسلیم کی گئی اور اسے اصطباغ کے کلمہ اور رائج الوقت شعائر میں باپ اور بیٹے کے ساتھ جگہ دی گئی۔ اس طرح نیقیا میں مسیح کا جو تصوّر قائم کیا گیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عقیدۂ تثلیث اصل مسیحی مذہب کا ایک جزء لاینفک قرار پا گیا۔
پھر اس دعوے پر کہ ”بیٹے کی اُلُوہیّت مسیح کی ذات میں مجسّم ہُوئی تھی “ ایک دُوسرا مسئلہ پیدا ہوا جس پر چوتھی صدی میں اور اس کے بعد بھی مدّتوں تک بحث و مناظرہ کا سلسلہ جاری رہا۔ مسئلہ یہ تھا کہ مسیح کی شخصیت میں اُلُوہیّت اور انسانیت کے درمیان کیا تعلق ہے؟ سن ۴۵۱ ء میں کالسیڈن کی کونسل نے اس کا یہ تصفیہ کیا کہ مسیح کی ذات میں دو مکمل طبیعتیں مجتمع ہیں، ایک الہٰی طبیعت ، دُوسری انسانی طبیعت، اور دونوں متحد ہوجانے کے بعد بھی اپنی جداگانہ خصُوصیات بلا کسی تغیّر و تبدّل کے برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ تیسری کونسل میں جو سن ۶۸۰ ء میں بمقام قسطنطنیہ منعقد ہوئی، اس پر اتنا اضافہ اور کیا گیا کہ یہ دونوں طبیعتیں اپنی الگ الگ مشیّتیں بھی رکھتی ہیں، یعنی مسیح بیک وقت دو مختلف مشیّتوں کا حامل ہے ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اِس دَوران میں مغربی کلیسا نے گناہ اور فضل کے مسئلہ پر بھی خاص توجّہ کی اور یہ سوال مدّتوں زیرِ بحث رہا کہ نجات کے معاملہ میں خدا کا کام کیا ہے اور بندے کا کام کیا۔ آخر کا ر سن ۵۲۹ ء میں اورینج کی دُوسری کونسل میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ نظریّہ اختیار کیا گیا کہ ہبُوطِ آدم کی وجہ سے ہر انسان اس حالت میں مبتلا ہے کہ وہ نجات کی طرف کوئی قدم نہیں بڑھا سکتا جب تک وہ اُس فضلِ خداوندی سے ، جو اصطباغ میں عطا کیا جاتا ہے ، نئی زندگی نہ حاصل کر لے۔ اور یہ نئی زندگی شروع کرنے کے بعد بھی اسے حالتِ خیر میں استمرار نصیب نہیں ہو سکتا جب تک وہ فضلِ خداوندی دائماً اس کا مددگار نہ رہے۔ اور فضلِ خداوندی کی یہ دائمی اعانت اسے صرف کیتھولک کلیسا ہی کے توسّط سے حاصل رہ سکتی ہے“۔
مسیحی عُلماء کے اِن بیانات سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ابتداءً جس چیز نے مسیحیوں کو گمراہ کیا وہ عقیدت اور محبت کا غُلو تھا۔ اسی غلو کی بنا پر مسیح علیہ السّلام کے لیے خداوند اور ابن اللہ کے الفاظ استعمال کیے گئے، خدائی صفات ان کی طرف منسُوب کی گئیں، اور کفارہ کا عقیدہ ایجاد کیا گیا، حالانکہ حضرت مسیح ؑ کی تعلیمات میں ان باتوں کے لیے قطعاً کوئی گنجائش موجود نہ تھی۔ پھر جب فلسفہ کی ہوا مسیحیوں کو لگی تو بجائے اس کے کہ یہ لوگ اس ابتدائی گمراہی کو سمجھ کر اس سے بچنے کی سعی کرتے ، انہوں نے اپنے گزشتہ پیشوا ؤ ں کی غلطیوں کو نباہنے کے لیے ان کی توجیہات شروع کر دیں اور مسیح کی اصل تعلیمات کی طرف رجوع کیے بغیر محض منطق اور فلسفہ کی مدد سے عقیدے پر عقیدہ ایجاد کرتے چلے گئے۔ یہی وہ ضلالت ہے جس پر قرآن نے ان آیات میں مسیحیوں کو متنبہ فرمایا ہے۔