Tafheem ul Quran

Surah 5 Al-Ma'idah, Ayat 78-86

لُعِنَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا مِنۡۢ بَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَ عَلٰى لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِيۡسَى ابۡنِ مَرۡيَمَ​ ؕ ذٰ لِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوۡا يَعۡتَدُوۡنَ‏ ﴿5:78﴾ كَانُوۡا لَا يَتَـنَاهَوۡنَ عَنۡ مُّنۡكَرٍ فَعَلُوۡهُ ​ؕ لَبِئۡسَ مَا كَانُوۡا يَفۡعَلُوۡنَ‏ ﴿5:79﴾ تَرٰى كَثِيۡرًا مِّنۡهُمۡ يَتَوَلَّوۡنَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا​ؕ لَبِئۡسَ مَا قَدَّمَتۡ لَهُمۡ اَنۡفُسُهُمۡ اَنۡ سَخِطَ اللّٰهُ عَلَيۡهِمۡ وَفِى الۡعَذَابِ هُمۡ خٰلِدُوۡنَ‏ ﴿5:80﴾ وَلَوۡ كَانُوۡا يُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالنَّبِىِّ وَمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡهِ مَا اتَّخَذُوۡهُمۡ اَوۡلِيَآءَ وَلٰـكِنَّ كَثِيۡرًا مِّنۡهُمۡ فٰسِقُوۡنَ‏ ﴿5:81﴾ لَـتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّـلَّذِيۡنَ اٰمَنُوا الۡيَهُوۡدَ وَالَّذِيۡنَ اَشۡرَكُوۡا​ ۚ وَلَـتَجِدَنَّ اَ قۡرَبَهُمۡ مَّوَدَّةً لِّـلَّذِيۡنَ اٰمَنُوا الَّذِيۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّا نَصٰرٰى​ ؕ ذٰ لِكَ بِاَنَّ مِنۡهُمۡ قِسِّيۡسِيۡنَ وَرُهۡبَانًا وَّاَنَّهُمۡ لَا يَسۡتَكۡبِرُوۡنَ‏ ﴿5:82﴾ وَاِذَا سَمِعُوۡا مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَى الرَّسُوۡلِ تَرٰٓى اَعۡيُنَهُمۡ تَفِيۡضُ مِنَ الدَّمۡعِ مِمَّا عَرَفُوۡا مِنَ الۡحَـقِّ​ۚ يَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاكۡتُبۡنَا مَعَ الشّٰهِدِيۡنَ‏ ﴿5:83﴾ وَمَا لَـنَا لَا نُؤۡمِنُ بِاللّٰهِ وَمَا جَآءَنَا مِنَ الۡحَـقِّۙ وَنَطۡمَعُ اَنۡ يُّدۡخِلَـنَا رَبُّنَا مَعَ الۡقَوۡمِ الصّٰلِحِيۡنَ‏ ﴿5:84﴾ فَاَثَابَهُمُ اللّٰهُ بِمَا قَالُوۡا جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا​ ؕ وَذٰ لِكَ جَزَآءُ الۡمُحۡسِنِيۡنَ‏ ﴿5:85﴾ وَالَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَكَذَّبُوۡا بِاٰيٰتِنَاۤ اُولٰٓـئِكَ اَصۡحٰبُ الۡجَحِيۡمِ‏  ﴿5:86﴾

78 - بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی اُن پر داوٴد ؑ اور عیسٰی ؑ ابنِ مریم ؑ کی زبان سے لعنت کی گئی کیونکہ وہ سرکش ہوگئے تھے اور زیادتیاں کرنے لگے تھے، 79 - انہوں نے ایک دُوسرے کو بُرے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑ دیا تھا، 102بُرا طرز عمل تھا جو اُنہوں نے اختیار کیا۔ 80 - آج تم اُن میں بکثرت ایسے لوگ دیکھتے ہو جو (اہلِ ایمان کے مقابلہ میں)کفّار کی حمایت و رفاقت کرتے ہیں۔ یقیناً بہت بُرا انجام ہے جس کی تیاری اُن کے نفسوں نے اُن کے لیے کی ہے، اللہ اُن پر غضب ناک ہو گیا ہے اور وہ دائمی عذاب میں مُبتلا ہونے والے ہیں۔ 81 - اگر فی الواقع یہ لوگ اللہ اور پیغمبر ؐ اور اُس چیز کے ماننے والے ہوتے جو پیغمبر ؐ پر نازل ہوئی تھی تو کبھی (اہلِ ایمان کے مقابلہ میں)کافروں کو اپنا رفیق نہ بناتے۔ 103مگر ان میں سے تو بیشتر لوگ خدا کی اطاعت سے نکِل چکے ہیں۔ 82 - تم اہلِ ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہُود اور مشرکین کو پاوٴ گے، اور ایمان لانے والوں کے لیے دوستی میں قریب تر اُن لوگوں کو پاوٴ گے جنہوں نے کہا تھا کہ ہم نصاریٰ ہیں۔ یہ اس وجہ سے کہ ان میں عبادت گزار عالِم اور تارک الدُّنیا فقیر پائے جاتے ہیں اور اُن میں غرورِ نفس نہیں ہے۔ 83 - [الجزء ۷] جب وہ اس کلام کو سُنتے ہیں جو رسُول پر اُترا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ حق شناسی کے اثر سے اُن کی آنکھیں آنسووٴں سے تر ہو جاتی ہیں۔ وہ بول اُٹھتے ہیں کہ ”پروردگار ! ہم ایمان لائے، ہمارا نام گواہی دینے والوں میں لکھ لے“۔ 84 - اور وہ کہتے ہیں کہ ”آخر کیوں نہ ہم اللہ پر ایمان لائیں اور جو حق ہمارے پاس آیا ہے اُسے کیوں نہ مان لیں جبکہ ہم اِس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہمیں صالح لوگوں میں شامل کرے“؟ 85 - اُن کے اس قول کی وجہ سے اللہ نے اُن کو ایسی جنتیں عطا کیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ جزاء ہے نیک رویّہ اختیار کرنے والوں کے لیے۔ 86 - رہے وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کیا اور انہیں جھٹلایا، تو وہ جہنّم کے مستحق ہیں۔ ؏۱۱


Notes

102. ہر قوم کا بگاڑ ابتداءً چند افراد سے شروع ہوتا ہے ۔ اگر قوم کا اجتماعی ضمیر زندہ ہوتا ہے تو رائے عام ان بگڑے ہوئے افراد کو دبائے رکھتی ہے اور قوم بحیثیت مجموعی بگڑنے نہیں پاتی۔ لیکن اگر قوم ان افراد کے معاملہ میں تساہل شروع کر دیتی ہے اور غلط کار لوگوں کو ملامت کرنے کے بجائے انہیں سوسائیٹی میں غلط کاری کے لیے آزاد چھوڑ دیتی ہے، تو پھر رفتہ رفتہ وہی خرابی جو پہلے چند افراد تک محدُود تھی ، پُوری قوم میں پھیل کر رہتی ہے۔ یہی چیز تھی جو آخر کار بنی اسرائیل کے بگاڑ کی موجب ہوئی۔

حضرت داؤد ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ کی زبان سے جو لعنت بنی اسرائیل پر کی گئی اس کے لیے ملاحظہ ہو زبور ۱۰ و ۵۰ اور متی ۲۳۔

103. مطلب یہ ہے کہ جو لوگ خدا اور نبی اور کتاب کے ماننے والے ہوتے ہیں انہیں فطرۃً مشرکین کے مقابلہ میں اُن لوگوں کے ساتھ زیادہ ہمدردی ہوتی ہے جو مذہب میں خواہ ان سے اختلاف ہی رکھتے ہوں ، مگر بہرحال انہی کی طرح خدا اور سلسلہء وحی و رسالت کو مانتے ہوں۔ لیکن یہ یہُودی عجیب قسم کے اہلِ کتاب ہیں کہ توحید اور شرک کی جنگ میں کھُلم کھُلا مشرکین کا ساتھ دے رہے ہیں ، اقرارِ نبوّت اور انکارِ نبوّت کے لڑائی میں علانیہ ان کی ہمدردیاں منکرینِ نبوّت کے ساتھ ہیں، اور پھر بھی وہ بلا کسی شرم و حیا کے یہ دعویٰ رکھتے ہیں کہ ہم خدا اور پیغمبروں اور کتابوں کے ماننے والے ہیں۔