102. ہر قوم کا بگاڑ ابتداءً چند افراد سے شروع ہوتا ہے ۔ اگر قوم کا اجتماعی ضمیر زندہ ہوتا ہے تو رائے عام ان بگڑے ہوئے افراد کو دبائے رکھتی ہے اور قوم بحیثیت مجموعی بگڑنے نہیں پاتی۔ لیکن اگر قوم ان افراد کے معاملہ میں تساہل شروع کر دیتی ہے اور غلط کار لوگوں کو ملامت کرنے کے بجائے انہیں سوسائیٹی میں غلط کاری کے لیے آزاد چھوڑ دیتی ہے، تو پھر رفتہ رفتہ وہی خرابی جو پہلے چند افراد تک محدُود تھی ، پُوری قوم میں پھیل کر رہتی ہے۔ یہی چیز تھی جو آخر کار بنی اسرائیل کے بگاڑ کی موجب ہوئی۔
حضرت داؤد ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ کی زبان سے جو لعنت بنی اسرائیل پر کی گئی اس کے لیے ملاحظہ ہو زبور ۱۰ و ۵۰ اور متی ۲۳۔
103. مطلب یہ ہے کہ جو لوگ خدا اور نبی اور کتاب کے ماننے والے ہوتے ہیں انہیں فطرۃً مشرکین کے مقابلہ میں اُن لوگوں کے ساتھ زیادہ ہمدردی ہوتی ہے جو مذہب میں خواہ ان سے اختلاف ہی رکھتے ہوں ، مگر بہرحال انہی کی طرح خدا اور سلسلہء وحی و رسالت کو مانتے ہوں۔ لیکن یہ یہُودی عجیب قسم کے اہلِ کتاب ہیں کہ توحید اور شرک کی جنگ میں کھُلم کھُلا مشرکین کا ساتھ دے رہے ہیں ، اقرارِ نبوّت اور انکارِ نبوّت کے لڑائی میں علانیہ ان کی ہمدردیاں منکرینِ نبوّت کے ساتھ ہیں، اور پھر بھی وہ بلا کسی شرم و حیا کے یہ دعویٰ رکھتے ہیں کہ ہم خدا اور پیغمبروں اور کتابوں کے ماننے والے ہیں۔