Tafheem ul Quran

Surah 5 Al-Ma'idah, Ayat 87-98

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُحَرِّمُوۡا طَيِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَـكُمۡ وَلَا تَعۡتَدُوۡا​ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الۡمُعۡتَدِيۡنَ‏  ﴿5:87﴾ وَكُلُوۡا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَيِّبًا​ وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِىۡۤ اَنۡـتُمۡ بِهٖ مُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿5:88﴾ لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغۡوِ فِىۡۤ اَيۡمَانِكُمۡ وَلٰـكِنۡ يُّؤَاخِذُكُمۡ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الۡاَيۡمَانَ​ ۚ فَكَفَّارَتُهٗۤ اِطۡعَامُ عَشَرَةِ مَسٰكِيۡنَ مِنۡ اَوۡسَطِ مَا تُطۡعِمُوۡنَ اَهۡلِيۡكُمۡ اَوۡ كِسۡوَتُهُمۡ اَوۡ تَحۡرِيۡرُ رَقَبَةٍ​ ؕ فَمَنۡ لَّمۡ يَجِدۡ فَصِيَامُ ثَلٰثَةِ اَيَّامٍ​ ؕ ذٰ لِكَ كَفَّارَةُ اَيۡمَانِكُمۡ اِذَا حَلَفۡتُمۡ​ ؕ وَاحۡفَظُوۡۤا اَيۡمَانَكُمۡ​ ؕ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـكُمۡ اٰيٰتِهٖ لَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ‏ ﴿5:89﴾ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡخَمۡرُ وَالۡمَيۡسِرُ وَالۡاَنۡصَابُ وَالۡاَزۡلَامُ رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّيۡطٰنِ فَاجۡتَنِبُوۡهُ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ‏  ﴿5:90﴾ اِنَّمَا يُرِيۡدُ الشَّيۡطٰنُ اَنۡ يُّوۡقِعَ بَيۡنَكُمُ الۡعَدَاوَةَ وَالۡبَغۡضَآءَ فِى الۡخَمۡرِ وَالۡمَيۡسِرِ وَيَصُدَّكُمۡ عَنۡ ذِكۡرِ اللّٰهِ وَعَنِ الصَّلٰوةِ​ ۚ فَهَلۡ اَنۡـتُمۡ مُّنۡتَهُوۡنَ‏ ﴿5:91﴾ وَاَطِيۡعُوا اللّٰهَ وَاَطِيۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَاحۡذَرُوۡا​ ۚ فَاِنۡ تَوَلَّيۡتُمۡ فَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا عَلٰى رَسُوۡلِنَا الۡبَلٰغُ الۡمُبِيۡنُ‏ ﴿5:92﴾ لَـيۡسَ عَلَى الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِيۡمَا طَعِمُوۡۤا اِذَا مَا اتَّقَوا وَّاٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوا وَّاٰمَنُوۡا ثُمَّ اتَّقَوا وَّاَحۡسَنُوۡا​ ؕ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الۡمُحۡسِنِيۡنَ‏  ﴿5:93﴾ يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَيَبۡلُوَنَّكُمُ اللّٰهُ بِشَىۡءٍ مِّنَ الصَّيۡدِ تَنَالُـهٗۤ اَيۡدِيۡكُمۡ وَ رِمَاحُكُمۡ لِيَـعۡلَمَ اللّٰهُ مَنۡ يَّخَافُهٗ بِالۡـغَيۡبِ​ ۚ فَمَنِ اعۡتَدٰى بَعۡدَ ذٰ لِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَ لِيۡمٌ‏ ﴿5:94﴾ يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقۡتُلُوا الصَّيۡدَ وَاَنۡـتُمۡ حُرُمٌ​ ؕ وَمَنۡ قَتَلَهٗ مِنۡكُمۡ مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآءٌ مِّثۡلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحۡكُمُ بِهٖ ذَوَا عَدۡلٍ مِّنۡكُمۡ هَدۡيًاۢ بٰلِغَ الۡـكَعۡبَةِ اَوۡ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسٰكِيۡنَ اَوۡ عَدۡلُ ذٰ لِكَ صِيَامًا لِّيَذُوۡقَ وَبَالَ اَمۡرِهٖ​ ؕ عَفَا اللّٰهُ عَمَّا سَلَفَ​ ؕ وَمَنۡ عَادَ فَيَنۡتَقِمُ اللّٰهُ مِنۡهُ​ ؕ وَاللّٰهُ عَزِيۡزٌ ذُو انْتِقَامٍ‏ ﴿5:95﴾ اُحِلَّ لَـكُمۡ صَيۡدُ الۡبَحۡرِ وَطَعَامُهٗ مَتَاعًا لَّـكُمۡ وَلِلسَّيَّارَةِ​ ۚ وَحُرِّمَ عَلَيۡكُمۡ صَيۡدُ الۡبَـرِّ مَا دُمۡتُمۡ حُرُمًا​ ؕ وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِىۡۤ اِلَيۡهِ تُحۡشَرُوۡنَ‏ ﴿5:96﴾ جَعَلَ اللّٰهُ الۡـكَعۡبَةَ الۡبَيۡتَ الۡحَـرَامَ قِيٰمًا لِّـلنَّاسِ وَالشَّهۡرَ الۡحَـرَامَ وَالۡهَدۡىَ وَالۡقَلَاۤـئِدَ​ ؕ ذٰ لِكَ لِتَعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰهَ يَعۡلَمُ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الۡاَرۡضِ وَاَنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمٌ‏ ﴿5:97﴾ اِعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِيۡدُ الۡعِقَابِ وَاَنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ ؕ‏ ﴿5:98﴾

87 - اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جو پاک چیزیں اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہیں انہیں حرام نہ کرلو104 اور حد سے تجاوز نہ کرو، 105اللہ کو زیادتی کرنے والے سخت ناپسند ہیں۔ 88 - جو کچھ حلال و طیّب رزق اللہ نے تم کو دیا ہے اُسے کھاوٴ پیو اور اُس خدا کی نافرمانی سے بچتے رہو جس پر تم ایمان لائے ہو۔ 89 - تم لوگ جو مُہمل قسمیں کھالیتے ہو اُن پر اللہ گرفت نہیں کرتا، مگر جو قسمیں تم جان بُوجھ کر کھاتے ہو اُن پر وہ ضرور تم سے مواخذہ کرے گا۔ (ایسی قسم توڑنے کا) کفّارہ یہ ہے کہ دس (١۰)مسکینوں کو وہ اَوسط درجہ کا کھانا کھلاوٴ جو تم اپنے بال بچّوں کو کھلاتے ہو، یا انہیں کپڑے پہناوٴ، یا ایک غلام آزاد کرو، اور جو اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ تین دن کے روزے رکھے۔ یہ تمہاری قسموں کا کفّارہ ہے جبکہ تم قسم کھا کر توڑدو۔ 106اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو۔ 107اس طرح اللہ اپنے احکام تمہارے لیے واضح کرتا ہے شاید کہ تم شکر ادا کرو۔ 90 - اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہ شراب اور جُوا اور یہ آستانے اور پانسے، 108یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو، اُمیّد ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی۔109 91 - شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جُوئے کے ذریعہ سے تمہارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے اور تمہیں خدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے۔ پھر کیا تم ان چیزوں سے باز رہو گے؟ 92 - اللہ اور اُس کے رسول ؐ کی بات مانو اور باز آجاوٴ، لیکن اگر تم نے حکم عدُولی کی تو جان لو کہ ہمارے رسُول ؐ پر بس صاف صاف حکم پہنچا دینے کی ذمّہ داری تھی۔ 93 - جو لوگ ایمان لے آئے اور نیک عمل کرنے لگے انہوں نے پہلے جو کچھ کھایا پیا تھا اس پر کوئی گرفت نہ ہوگی بشرطیکہ وہ آئندہ اُن چیزوں سے بچے رہیں جو حرام کی گئی ہیں اور ایمان پر ثابت قدم رہیں اور اچھے کام کریں، پھر جس جس چیز سے روکا جائے اس سے رُکیں اور جو فرمانِ الٰہی ہو اُسے مانیں۔ پھر خدا ترسی کے ساتھ نیک رویّہ رکھیں۔ اللہ نیک کردار لوگوں کو پسند کرتا ہے۔ ؏۱۲ 94 - اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ تمہیں اُس شکار کے ذریعہ سے سخت آزمائش میں ڈالے گا جو بالکل تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوگا، یہ دیکھنے کے لیے کہ تم میں سے کون اس سے غائبانہ ڈرتا ہے، پھر جس نے اس تنبیہ کے بعد اللہ کی مقرر کی ہوئی حد سے تجاوز کیا اُس کے لیے درد ناک سزا ہے۔ 95 - اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اِحرام کی حالت میں شکار نہ مارو،110 اور اگر تم میں سے کوئی جان بوجھ کر ایسا کر گزرے تو جو جانور اس نے مارا ہو اُسی کے ہم پلّہ ایک جانور اُسے مویشیوں میں سے نذر دینا ہوگا جس کا فیصلہ تم میں سے دو عادل آدمی کریں گے، اور یہ نذرانہ کعبہ پہنچایا جائے گا، یا نہیں تو اس گناہ کے کفارہ میں چند مسکینوں کو کھانا کھلانا ہوگا، یا اس کے بقدر روزے رکھنے ہوں گے،111 تاکہ وہ اپنے کیے کا مزہ چکھے۔ پہلے جو کچھ ہوچکا اُسے اللہ نے معاف کردیا، لیکن اب اگر کسی نے اس حرکت کا اعادہ کیا تو اس سے اللہ بدلہ لے گا، اللہ سب پر غالب ہے اور بدلہ لینے کی طاقت رکھتا ہے۔ 96 - تمہارے لیے سمندر کا شکار اور اس کا کھانا حلال کردیا گیا، 112جہاں تم ٹھیرو وہاں بھی اُسے کھاسکتے ہو اور قافلے کے لیے زادِراہ بھی بناسکتے ہو۔ البتّہ خشکی کا شکار جب تک تم اِحرام کی حالت میں ہو، تم پر حرام کیا گیا ہے۔ پس بچو اُس خدا کی نافرمانی سے جس کی پیشی میں تم سب کو گھیر کر حاضر کیا جائے گا۔ 97 - اللہ نے مکانِ مُحترم، کعبہ کو لوگوں کے لیے (اجتماعی زندگی کے) قیام کا ذریعہ بنایا اور ماہِ حرام اور قربانی کے جانوروں اور قَلادوں کو بھی (اِس کام میں معاون بنادیا) 113 تاکہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ اللہ آسمانوں اور زمین کے سب حالات سے باخبر ہے اور اُسے ہر چیز کا علم ہے۔ 114 98 - خبردار ہوجاوٴ ! اللہ سزا دینے میں بھی سخت ہے اور اس کے ساتھ بہت درگزر اور رحم بھی کرنے والا ہے۔


Notes

104. اس آیت میں دو باتیں ارشاد ہوئی ہیں۔ ایک یہ کہ خود حلال و حرام کے مختار نہ بن جاؤ۔ حلال وہی ہے جو اللہ نے حلال کیا اور حرام وہی ہے جو اللہ نے حرام کیا۔ اپنے اختیار سے کسی حلال کو حرام کرو گے تو قانونِ الہٰی کے بجائے قانونِ نفس کے پَیرو قرار پاؤ گے۔ دوسری بات یہ کہ عیسائی راہبوں، ہندو جوگیوں ، بودھ مذہب کے بھکشووں اور اشراقی متصوّ فین کی طرح رہبانیت اور قطعِ لذّات کا طریقہ اختیار نہ کرو۔ مذہبی ذہنیت کے نیک مزاج لوگوں میں ہمیشہ سے یہ میلان پایا جاتا رہا ہے کہ نفس و جسم کے حقوق ادا کرنے کو وہ رُوحانی ترقی میں مانع سمجھتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالنا، اپنے نفس کو دُنیوی لذّتوں سے محرُوم کرنا، اور دُنیا کے سامانِ زیست سے تعلق توڑنا ، بجائے خود ایک نیکی ہے اور خدا کا تقرب اس کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا ۔ صحابہ کرام میں بھی بعض لوگ ایسے تھے جن کے اندر یہ ذہنیت پائی جاتی تھی ۔ چنانچہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ بعض صحابیوں نے عہد کیا ہے کہ ہمیشہ دن کو روزہ رکھیں گے ،راتوں کو بستر پر نہ سوئیں گے بلکہ جاگ جاگ کر عبادت کرتے رہیں گے ، گوشت اور چکنائی استعمال نہ کریں گے، عورتوں سے واسطہ نہ رکھیں گے۔ اس پر آپ ؐ نے ایک خطبہ دیا اور اس میں فرمایا کہ” مجھے ایسی باتوں کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ تمہارے نفس کے بھی تم پر حقوق ہیں۔ روزہ بھی رکھو اور کھاؤ پیو بھی۔ راتوں کو قیام بھی کرو اور سوؤ بھی ۔ مجھے دیکھو ، میں سوتا بھی ہوں اور قیام بھی کرتا ہوں۔ روزے کھتا بھی ہوں اور نہیں بھی رکھتا۔ گوشت بھی کھاتا ہوں اور گھی بھی ۔ پس جو میرے طریقے کو پسند نہیں کرتا وہ مجھ سے نہیں ہے“۔ پھر فرمایا” یہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ انہوں نے عورتوں کو اور اچھے کھانے کو اور خوشبو اور نیند اور دُنیا کی لذّتوں کو اپنے اُوپر حرام کر لیا ہے؟ میں نے تو تمہیں یہ تعلیم نہیں دی ہے کہ تم راہب اور پادری بن جاؤ۔ میرے دین میں نہ عورتوں اور گوشت سے اجتناب ہے اور نہ گوشہ گیری و عزلت نشینی ہے ۔ ضبطِ نفس کے لیے میرے ہاں روزہ ہے ، رہبانیت کے سارے فائدے یہاں جہاد سے حاصل ہوتے ہیں۔ اللہ کی بندگی کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، حج و عمرہ کرو، نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور رمضان کے روزے رکھو ۔ تم سے پہلے جو لوگ ہلاک ہوئے وہ اس لیے ہلاک ہوئے کہ انہوں نے اپنے اُوپر سختی کی ، اور جب انہوں نے خود اپنے اُوپر سختی کی تو اللہ نے بھی اُن پر سختی کی۔ یہ انہی کے بقایا ہیں جو تم کو صومعوں اور خانقاہوں میں نظر آتے ہیں“۔ اسی سلسلہ میں بعض روایات سے یہاں تک معلوم ہوتا ہے کہ ایک صحابی کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا کہ وہ ایک مُدّت سے اپنی بیوی کے پاس نہیں گئے ہیں اور شب و روز عبادت میں مشغول رہتے ہیں تو آپ ؐ نے بُلا کر اُن کو حکم دیا کہ ابھی اپنی بیوی کے پاس جا ؤ ۔ اُنہوں نے کہا کہ میں روزے سے ہوں۔ آپ ؐ نے فرمایا روزہ توڑ دو اور جا ؤ حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں ایک خاتون نے شکایت پیش کی کہ میرے شوہر دن بھر روزہ رکھتے ہیں اور رات بھر عبادت کرتے ہیں اور مجھ سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ حضرت عمر ؓ نے مشہور تابعی بزرگ، کعب ؓ بن سَور الاَزْدِی کو اُن کے مقدمہ کی سماعت کے لیے مقرر کیا ، اور اُنہوں نے فیصلہ دیا کہ اس خاتون کے شوہر کو تین راتوں کے لیے اختیار ہے کہ جتنی چاہیں عبادت کریں مگر چوتھی رات لازماً ان کی بیوی کا حق ہے۔

105. ”حد سے تجاوز کرنا“وسیع مفہُوم کا حامل ہے۔ حلال کو حرام کرنا اور خدا کی ٹھیرائی ہوئی پاک چیزوں سے اِس طرح پرہیز کرنا کہ گویا کہ وہ ناپاک ہیں ، یہ بجائے خود ایک زیادتی ہے۔ پھر پاک چیزوں کے استعمال میں اسراف اور افراط بھی زیادتی ہے۔ پھر حلال کی سرحد سے باہر قدم نکال کر حرام کے حُدُود میں داخل ہونا بھی زیادتی ہے۔ اللہ کو یہ تینوں باتیں نا پسند ہیں۔

106. چونکہ بعض لوگوں نے حلال چیزوں کو اپنے اُوپر حرام کر لینے کی قسم کھا رکھی تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسی سلسلہ میں قسم کا حکم بھی بیان فرما دیا کہ اگر کسی شخص کی زبان سے بلا ارادہ قسم کا لفظ نِکل گیا ہے تو اس کی پابندی کرنے کی ویسے ہی ضرورت نہیں، کیونکہ ایسی قسم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے، اور اگر جان بُوجھ کر کسی نے قسم کھائی ہے تو وہ اُسے توڑ دے اور کفّارہ ادا کر دے، کیونکہ جس نے کسی معصیت کی قسم کھائی ہو اسے اپنی قسم پر قائم نہ رہنا چاہیے ( ملاحظہ ہو سُورۂ بقرہ، حاشیہ نمبر ۲۴۳ و ۲۴۴ – نیز کفّارہ کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سُورہ ٔ نساء حاشیہ نمبر ۱۲۵)۔

107. قسم کی حفاظت کے کئی مفہُوم ہیں: ایک یہ کہ قسم کو صحیح مَصْرف میں استعمال کیا جائے، فضول باتوں اور معصیت کے کاموں میں استعمال نہ کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ جب کسی بات پر آدمی قسم کھائے تو اسے یاد رکھے، ایسا نہ ہو کہ اپنی غفلت کی وجہ سے وہ اُسے بھُول جائے۔ اور پھر اس کی خلاف ورزی کرے۔ تیسرے یہ کہ جب کسی صحیح معاملہ میں بالارادہ قسم کھائی جائے تو اسے پُورا کیا جائے اور اگر اس کی خلاف ورزی ہو جائے تو اس کا کفارہ ادا کیا جائے۔

108. آستانوں اور پانسوں کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سُورۂ مائدہ ، حاشیہ نمبر ۱۲ و ۱۴۔ اِس سلسلہ میں جُوئے کی تشریح بھی حاشیہ نمبر ۱۴ میں مِل جائے گی۔ اگرچہ پانسے ( جُوئے) ہی کی ایک قسم ہیں۔ لیکن ان دونوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ عربی زبان میں ازلام فال گیری اور قرعہ اندازی کی اُس صُورت کو کہتے ہیں کہ جو مشرکانہ عقائد اور وہمیّات سے آلودہ ہو۔ اور مَیسِر کا اطلاق اُن کھیلوں اور اُن کاموں پر ہوتا ہے جن میں اتفاقی اُمُور کو کمائی اور قسمت آزمائی اور تقسیمِ اموال و اشیاء کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔

109. اِس آیت میں چار چیزیں قطعی طور پر حرام کی گئی ہیں۔ ایک شراب۔ دوسرے قمار بازی ۔ تیسرے وہ مقامات جو خدا کے سوا کسی دُوسرے کی عبادت کرنے یا خدا کے سوا کسی اَور کے نام پر قربانی اور نذر و نیاز چڑھانے کے لیے مخصُوص کیے گئے ہوں۔ چوتھے پانسے۔ مؤ خّر الذکر تینوں چیزوں کی ضروری تشریح پہلے کی جا چکی ہے۔ شراب کے متعلق احکام کی تفصیل حسب ذیل ہے:

شراب کی حُرمت کے سلسلہ میں اس سے پہلے دو حکم آچکے تھے ، جو سُورۂ بقرہ آیت ۲۱۹ اور سُورۂ نساء آیت ۴۳ میں گزر چکے ہیں۔ اب اس آخری حکم کے آنے سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطبہ میں لوگوں کو متنبّہ فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ کو شراب سخت ناپسند ہے ، بعید نہیں کہ اس کی قطعی حُرمت کا حکم آجائے ، لہٰذا جن جن لوگوں کے پاس شراب موجود ہو وہ اسے فروخت کر دیں۔ اس کے کچھ مدٔت بعد یہ آیت نازل ہوئی اور آپ نے اعلان کر ایا کہ اب جن کے پاس شراب ہو وہ نہ اسے پی سکتے ہیں ، نہ بیچ سکتے ہیں، بلکہ وہ اسے ضائع کر دیں۔ چنانچہ اسی وقت مدینہ کی گلیوں میں شراب بہادی گئی ۔ بعض لوگوں نے پُوچھا ہم یہُودیوں کو تحفۃً کیوں نہ دے دیں؟ آپ ؐ نے فرمایا” جس نے یہ چیز حرام کی ہے اُس نے اِسے تحفۃً دینے سے بھی منع کر دیا ہے“۔ بعض لوگوں نے پُوچھا ہم شراب کو سِرکے میں کیوں نہ تبدیل کر دیں؟ آپ ؐ نے اس سے بھی منع فرمایا اور حکم دیا کہ” نہیں، اسے بہا دو“۔ ایک صاحب نے باصرار دریافت کیا کہ دواء کے طور پر استعمال کی تو اجازت ہے؟ فرمایا” نہیں ، وہ دوا ء نہیں ہے بلکہ بیماری ہے“۔ ایک اَور صاحب نے عرض کیا یا رسُول اللہ ! ہم ایک ایسے علاقے کے رہنے والے ہیں جو نہایت سرد ہے، اور ہمیں محنت بھی بہت کرنی پڑتی ہے۔ ہم لوگ شراب سے تکان اور سردی کا مقابلہ کرتے ہیں۔ آپ ؐ نے پُوچھا جو چیز تم پیتے ہو وہ نشہ کرتی ہے؟ انہوں نے عرض کیا ہاں۔ فرمایا تو اس سے پرہیز کرو۔ انہوں نے عرض کیا مگر ہمارے علاقے کے لوگ تو نہیں مانیں گے ۔ فرمایا” اگر وہ نہ مانیں تو ان سے جنگ کرو“۔

ابنِ عمر ؓ کی روایت ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا لعَن اللہ الخمر و شاربھا و ساقیھا و بائعھا و مُبتا عھا و عاصر ھا و معتصر ھا و حاملھا و المحمولۃ الیہ۔” اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے شراب پر اور اس کے پینے والے پر اور پلانے والے پر اور بیچنے والے پر اور خریدنے والے پر اور کشید کرنے والے پر اور کشید کرانے والے پر اور ڈھوکر لے جانے والے پر اور اس شخص پر جس کے لیے وہ ڈھو کر لے جائی گئی ہو“۔

ایک اَور حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس دستر خوان پر کھانا کھانے سے منع فرمایا جس پر شراب پی جا رہی ہو ۔ ابتداءً آپ نے اُن برتنوں کے استعمال کو منع فرما دیا تھا جس میں شراب بنائی اور پی جاتی تھی ۔ بعد میں جب شراب کی حُرمت کا حکم پُوری طرح نافذ ہو گیا تب آپ نے برتنوں پر سے یہ قید اُٹھا دی۔

(خمر کا لفظ عرب میں انگوری شراب کے لیے استعمال ہوتا تھا اور مجاز اً گیہُوں ، جَو ، کِشمِش،کھجُور اور شہد کی شرابوں کے لیے بھی یہ الفاظ بولتے تھے، مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حُرمت کے اس حکم کو تمام اُن چیزوں پر عام قرار دیا جو نشہ پیدا کرنے والی ہیں۔ چنانچہ حدیث میں حضُور کے یہ واضح ارشادات ہمیں ملتے ہیں کہ کل مسکر خمر و کل مسکر حرام۔” ہر نشہ آور چیز خمر ہے اور ہرنشہ آور چیز حرام ہے“۔کل شراب ٍ اسکر فھو حرام۔” ہر وہ مشروب جو نشہ پیدا کرے وہ حرام ہے“۔وانا انھی عن کل مسکرٍ۔”اور میں ہر نشہ آور چیز سے منع کرتا ہوں“۔ حضرت عمر ؓ نے جُمعہ کے خطبہ میں شراب کی یہ تعریف بیان کی تھی کہ الخمر ما خامر العقل ۔”خمر سے مراد ہر وہ چیز ہے جو عقل کو ڈھانک لے“۔

نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اُصُول بیان فرمایا کہ ما اسکر کثیرہ فقلیْلہ حرام ۔” جس چیز کی کثیر مقدار نشہ پیدا کر ے اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے“۔ اور ما اسکر الفرق منہ مفلٔ الکف منہ حرام ۔” جس چیز کا ایک پُورا قرابہ نشہ پیدا کرتا ہو اس کا ایک چُلّو پینا بھی حرام ہے“۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں شراب پینے والے کے لیے کوئی خاص سزا مقرر نہ تھی۔ جو شخص اِس جُرم میں گرفتار ہو کر آتا تھا اُسے جُوتے ، لات، مُکّے، بل دی ہوئی چادروں کے سونٹے اور کھجُور کے سَنٹے مارے جاتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ ۴۰ ضربیں آپ ؐ کے زمانہ میں اس جُرم پر لگائی گئی ہیں۔ حضرت ابوبکر ؓ کے زمانے میں ۴۰ کوڑے مارے جاتے تھے۔ حضرت عمر ؓ کے زمانے میں بھی ابتداءً کوڑوں ہی کی سزا رہی۔ پھر جب اُنہوں نے دیکھا کہ لوگ اس جُرم سے باز نہیں آتے تو اُنہوں نے صحابۂ کرام کے مشورے سے ۸۰ کوڑے سزا مقرر کی۔ اسی سزا کو امام مالک ؒ اور امام ابو حنیفہ ؒ ، اور ایک روایت کے بموجب امام شافعیؒ بھی، شراب کی حد قرار دیتے ہیں۔ مگر امام احمد ؒ ابن حنبل اور ایک دُوسری روایت کے مطابق امام شافعی ؒ ۴۰ کوڑوں کو قائل ہیں، اور حضرت علی ؓ نے بھی اسی کو پسند فرمایا ہے۔

شریعت کی رُو سے یہ بات حکومتِ اسلامی کے فرائض میں داخل ہے کہ وہ شراب کی بندش کے اس حکم کو بزور و قوت نافذ کرے۔ حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں بنی ثَقِیف کے ایک شخص رُوَیشِد نامی کی دوکان اس بنا پر جلوا دی گئی کہ وہ خفیہ طور پر شراب بیچتا تھا۔ ایک دُوسرے موقع پر ایک پُورا گاؤں حضرت عمر ؓ کے حکم سے اِس قصُور پر جلا ڈالا گیا کہ وہاں خفیہ طریقہ سے شراب کی کشید اور فروخت کا کاروبار ہو رہا تھا۔

110. شکار خواہ آدمی خود کرے، یا کسی دُوسرے کو شکار میں کسی طور پر مدد دے، دونوں باتیں حالتِ احرام میں منع ہیں۔ نیز اگر مُحرِم کی خاطر شکار مارا گیا ہو تب بھی اس کا کھانا مُحِرم کے لیے جائز نہیں ہے۔ البتہ اگر کسی شخص نے اپنے لیے خود شکار کیا ہو اور پھر وہ اس میں سے مُحِرم کو بھی تحفۃً کچھ دیدے تو اس کے کھانے میں کچھ مضائقہ نہیں۔ اس حکِم عام سے مُوذی جانور مستثنیٰ ہیں۔ سانپ ، بچھّو، باؤ لا کتّا اور ایسے دُوسرے جانور جو انسان کو نقصان پہنچانے والے ہیں، حالتِ احرام میں مارے جا سکتے ہیں۔

111. اِن اُمُور کا فیصلہ بھی دو عادل آدمی ہی کریں گے کہ کس جانور کے مارنے پر آدمی کتنے مسکینوں کو کھانا کھِلائے، یا کتنے روزے رکھے۔

112. چونکہ سمندر کے سفر میں بسا اوقات زادِ راہ ختم ہو جا تا ہے اور غذا کی فراہمی کے لیے بجُز اس کے کہ آبی جانوروں کا شکار کیا جائے اور کوئی تدبیر ممکن نہیں ہوتی اس لیے بحری شکار حلال کر دیا گیا۔

113. عرب میں کعبہ کی حیثیت محض ایک مقدّس عباد ت گاہ ہی کی نہ تھی بلکہ اپنی مرکزیّت اور اپنے تقدس کی وجہ سے وہی پُورے ملک کی معاشی و تمدّنی زندگی کاسہارا بنا ہوا تھا۔ حج اور عُمرے کے لیے سارا ملک اُس کی طرف کھِنچ کر آتا تھا اور اس اجتماع کی بدولت انتشار کے مارے ہوئے عربوں میں وحدت کا ایک رشتہ پیدا ہوتا، مختلف علاقوں اور قبیلوں کے لوگ باہم تمدّنی روابط قائم کرتے، شاعری کے مقابلوں سے ان کی زبان اور ادب کو ترقی نصیب ہوتی، اور تجارتی لین دین سے سارے ملک کی معاشی ضروریات پوری ہوتیں۔ حرام مہینوں کی بدولت عربوں کو سال کا پُورا ایک تہائی زمانہ امن کا نصیب ہو جاتا تھا۔ بس یہی زمانہ ایسا تھا جس میں ان کے قافلے ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بسہُولت آتے جاتے تھے۔ قربانی کے جانوروں اور قلادوں کی موجودگی سے بھی اس نقل و حرکت میں بڑی مدد ملتی تھی ، کیونکہ نذر کی علامت کے طور پر جن جانوروں کی گردن میں پٹے پڑے ہوتے انہیں دیکھ کر عربوں کی گردنیں احترام سے جُھک جاتیں اور کسی غارت گر قبیلے کو ان پر ہاتھ ڈالنے کی جُرأت نہ ہوتی۔

114. یعنی اگر تم اس انتظام پر غور کرو تو تمہیں خود اپنے ملک کی تمدّنی و معاشی زندگی ہی میں اس امر کی ایک بیّن شہادت مل جائے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے مصالح اور اُن کی ضروریات کا کیسا مکمل اور گہرا علم رکھتا ہے اور اپنے ایک ایک حکم کے ذریعہ سے انسانی زندگی کے کتنے کتنے شعبوں کو فائدہ پہنچا دیتا ہے۔ بد امنی کے یہ سینکڑوں برس جو محمد ؐ ِ عربی کے ظہُور سے پہلے گزرے ہیں، ان میں تم لوگ خود اپنے مفاد سے ناواقف تھے اور اپنے آپ کو تباہ کرنے پر تُلے ہوئے تھے، مگر اللہ تمہاری ضرورتوں کو جانتا تھا اور اُس نے صرف ایک کعبہ کی مرکزیّت قائم کر کے تمہارے لیے وہ انتظام کر دیا تھا جس کی بدولت تمہاری قومی زندگی برقرار رہ سکی۔ دُوسری بے شمار باتوں کو چھوڑ کر اگر صرف اسی بات پر دھیان کرو تو تمہیں یقین حاصل ہو جائے کہ اللہ نے جو احکام تمہیں دیے ہیں اُن کی پابندی میں تمہاری اپنی بھلائی ہے اور ان میں تمہارے لیے وہ وہ مصلحتیں پوشیدہ ہیں جن کو نہ تم خود سمجھ سکتے ہو اور نہ اپنی تدبیروں سے پُورا کر سکتے ہو۔