Tafheem ul Quran

Surah 50 Qaf, Ayat 1-15

قٓ ۚ وَالۡقُرۡاٰنِ الۡمَجِيۡدِۚ‏ ﴿50:1﴾ بَلۡ عَجِبُوۡۤا اَنۡ جَآءَهُمۡ مُّنۡذِرٌ مِّنۡهُمۡ فَقَالَ الۡكٰفِرُوۡنَ هٰذَا شَىۡءٌ عَجِيۡبٌ​ۚ‏ ﴿50:2﴾ ءَاِذَا مِتۡنَا وَكُنَّا تُرَابًا ​ۚ ذٰ لِكَ رَجۡعٌ ۢ بَعِيۡدٌ‏ ﴿50:3﴾ قَدۡ عَلِمۡنَا مَا تَنۡقُصُ الۡاَرۡضُ مِنۡهُمۡ​ۚ وَعِنۡدَنَا كِتٰبٌ حَفِيۡظٌ‏  ﴿50:4﴾ بَلۡ كَذَّبُوۡا بِالۡحَقِّ لَمَّا جَآءَهُمۡ فَهُمۡ فِىۡۤ اَمۡرٍ مَّرِيۡجٍ‏  ﴿50:5﴾ اَ فَلَمۡ يَنۡظُرُوۡۤا اِلَى السَّمَآءِ فَوۡقَهُمۡ كَيۡفَ بَنَيۡنٰهَا وَزَ يَّـنّٰهَا وَمَا لَهَا مِنۡ فُرُوۡجٍ‏ ﴿50:6﴾ وَالۡاَرۡضَ مَدَدۡنٰهَا وَاَ لۡقَيۡنَا فِيۡهَا رَوَاسِىَ وَاَنۡۢبَتۡنَا فِيۡهَا مِنۡ كُلِّ زَوۡجٍۢ بَهِيۡجٍ ۙ‏ ﴿50:7﴾ تَبۡصِرَةً وَّذِكۡرٰى لِكُلِّ عَبۡدٍ مُّنِيۡبٍ‏ ﴿50:8﴾ وَنَزَّلۡنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً مُّبٰـرَكًا فَاَنۡۢبَـتۡـنَا بِهٖ جَنّٰتٍ وَّحَبَّ الۡحَصِيۡدِ ۙ‏ ﴿50:9﴾ وَالنَّخۡلَ بٰسِقٰتٍ لَّهَا طَلۡـعٌ نَّضِيۡدٌ ۙ‏ ﴿50:10﴾ رِّزۡقًا لِّلۡعِبَادِ​ ۙ وَاَحۡيَيۡنَا بِهٖ بَلۡدَةً مَّيۡـتًا​ ؕ كَذٰلِكَ الۡخُـرُوۡجُ‏ ﴿50:11﴾ كَذَّبَتۡ قَبۡلَهُمۡ قَوۡمُ نُوۡحٍ وَّاَصۡحٰبُ الرَّسِّ وَثَمُوۡدُۙ‏ ﴿50:12﴾ وَعَادٌ وَّفِرۡعَوۡنُ وَاِخۡوَانُ لُوۡطٍۙ‏ ﴿50:13﴾ وَّاَصۡحٰبُ الۡاَيۡكَةِ وَقَوۡمُ تُبَّعٍ​ؕ كُلٌّ كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِيۡدِ‏ ﴿50:14﴾ اَفَعَيِيۡنَا بِالۡخَـلۡقِ الۡاَوَّلِ​ؕ بَلۡ هُمۡ فِىۡ لَبۡسٍ مِّنۡ خَلۡقٍ جَدِيۡدٍ‏ ﴿50:15﴾

1 - ق، قسم ہے قرآن مجید کی 1 2 - ۔۔۔۔ بلکہ ان لوگوں کو تعجب اس بات پر ہوا کہ ایک خبردار کرنے والا خود انہی میں سے ان کے پاس آگیا۔2 پھر منکرین کہنے لگے”یہ تو عجیب بات ہے، 3 - کیا جب ہم مر جائیں گے اور خاک ہو جائیں گے (تو دوبارہ اٹھا ئے جائیں گے)؟ یہ واپسی تو عقل سے بعید ہے۔“3 4 - (حالانکہ) زمین ان کے جسم میں سے کچھ کھاتی ہے وہ سب ہمارے علم میں ہے اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جس میں سب کچھ محفوظ ہے۔4 5 - بلکہ ان لوگوں نے تو جس وقت حق اِن کے پاس آیا اُسی وقت اُسے صاف جھٹلادیا۔ اسی وجہ سے اب یہ الجھن میں پڑے ہوئے ہیں۔5 6 - 6 اچھا، تو کیا انہوں نے کبھی اپنے اوپر آسمان کی طرف نہیں دیکھا؟ کس طرح ہم نے اسے بنایا اور آراستہ کیا، 7 اور اس میں کوئی رخنہ نہیں ہے۔8 7 - اور زمین کو ہم نے بچھایا اور اس میں پہاڑ جمائے اور اس کے اندر ہر طرح کی خوش منظر نباتات اُگادیں۔ 9 8 - یہ ساری چیزیں آنکھیں کھولنے والی اور سبق دینے والی ہیں ہر اس بندے کے لیے جو (حق کی طرف) رجوع کرنے والا ہو۔ 9 - اور آسمان سے ہم نے برکت والا پانی نازل کیا، پھر اس سے پیدا کر دیے باغ اور فصل کے غلّے 10 - اور بلندو بالا کھجور کے درخت جن پر پھلوں سے لدے ہوئے خوشے تہ بر تہ لگتے ہیں۔ 11 - یہ انتظام ہے بندوں کی رزق دینے کا۔ اس پانی سے ہم ایک مُردہ زمین کو زندگی بخش دیتے ہیں۔ 10 (مَرے ہوئے انسانوں کا زمین سے) نکلنا بھی اسی طرح ہوگا۔ 11 12 - ان سے پہلے نوحؑ کی قوم ، اور اصحاب الرّس، 12 اور ثمُود، جھٹلاچکے ہیں۔ 13 - اور عاد، اور فرعون، 13 اور لوُط کے بھائی 14 - اور ایکہ والے، اور تُبَّع کی قوم 14 کے لوگ بھی 15 ہر ایک نے رسولوں کو جھٹلایا، 16 اور آخر کار میری وعید اُن پرچسپاں ہوگئی۔17 15 - کیا پہلی بار کی تخلیق سے ہم عاجز تھے؟ مگر ایک نئی تخلیق کی طرف سے یہ لوگ شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ 18 ؏۱


Notes

1. ’’مجید‘‘ کا لفظ عربی زبان میں دو معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ایک، بلند مرتبہ، با عظمت، بزرگ اور صاحب عزت و شرف۔ دوسرے، کریم، کثیرالعطاء، بہت نفع پہنچانے والا۔ قرآن کے لیے یہ لفظ ان دونوں معنوں میں استعمال فرمایا گیا ہے۔ قرآن اس لحاظ سے عظیم ہے کہ دنیا کی کوئی کتاب اس کے مقابلے میں نہیں لائی جا سکتی۔ اپنی زبان اور ادب کے لحاظ سے بھی وہ معجزہ ہے اور اپنی تعلیم اور حکمت کے لحاظ سے بھی معجزہ۔ جس وقت وہ نازل ہوا تھا اس وقت بھی انسان اس کے مانند کلام بنا کر لانے سے عاجز تھے اور آج بھی عاجز ہیں۔ اس کی کوئی بات کبھی کسی زمانے میں غلط ثابت نہیں کی جا سکی ہے نہ کی جا سکتی ہے۔ باطل نہ سامنے سے اس کا مقابلہ کر سکتا ہے نہ پیچھے سے حملہ آور ہو کر اسے شکست دے سکتا ہے۔ اور اس لحاظ سے وہ کریم ہے کہ انسان جس قدر زیادہ اس سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کرے اسی قدر زیادہ وہ اس کو رہنمائی دیتا ہے اور جتنی زیادہ اس کی پیروی کرے اتنی ہی زیادہ اسے دنیا اور آخرت کی بھلائیا ں حاصل ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اس کے فوائد و منافع کی کوئی حد نہیں ہے جہاں جا کر انسان اس سے بے نیاز ہو سکتا ہو، یا جہاں پہنچ کر اس نفع بخشی ختم ہو جاتی ہو۔

2. یہ فقرہ بلاغت کا بہترین نمونہ ہے جس میں ایک بہت بڑے مضمون کو چند مختصر الفاظ میں سمو دیا گیا ہے۔ قرآن کی قسم جس بات پر کھائی گئی ہے اسے بیان نہیں کیا گیا۔ اس کا ذکر کرنے کے بجائے بیچ میں ایک لطیف خلا چھوڑ کر آگے کی بات ’’ بلکہ‘‘ سے شروع کر دی گئی ہے۔ آدمی ذرا غور کرے اور اس پس منظر کو بھی نگاہ میں رکھے جس میں یہ بات فرمائی گئی ہے تو اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ قَسم اور بلکہ کے درمیان جو خلا چھوڑ دیا گیا ہے اس کا مضمون کیا ہے۔ اس میں در اصل قسم جس بات پر کھائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ’’اہل مکہ نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کو ماننے سے کسی معقول بنیاد پر انکار نہیں کیا ہے، بلکہ اس سراسر غیر معقول بنیاد پر کیا ہے کہ ان کی اپنی جنس کے ایک بشر، اور ان کی اپنی ہی قوم کے ایک فرد کا خدا کی طرف سے خبردار بن کر آجانا ان کے نزدیک سخت قابل تعجب بات ہے۔ حالانکہ تعجب کے قابل بات اگر ہوسکتی تھی تو وہ یہ تھی کہ خدااپنے بندوں کی بھلائی اور برائی سے بے پروا ہو کر انہیں خبردا ر کرنے کا کوئی انتظام نہ کرتا، یا انسانوں کو خبر دار کرنے کے لیے کسی غیر انسان کو بھیجتا، یا عربوں کو خبر دار کرنے کے لیے کسی چینی کو بھیج دیتا۔ اس لیے انکار کی یہ بنیاد تو قطعی نا معقول ہے اور ایک صاحب عقل سلیم یقیناً یہ ماننے پر مجبور ہے کہ خدا کی طرف سے بندوں کو خبردار کرنے کا انتظام ضرور ہونا چاہیے اور اسی شکل میں ہونا چاہیے کہ خبر دار کرنے والا خود انہی لوگوں میں سے کوئی شخص ہو جن کے درمیان وہ بھیجا گیا ہو‘‘۔ اب رہ جاتا ہے کہ سوال کہ آیا محمد صلی اللہ عدلیہ و سلم ہی وہ شخص ہیں جنہیں خدا نے ا س کام کے لیے بھیجا ہے، تو اس کا فیصلہ کرنے کے لیے کسی اور شہادت کی حاجت نہیں، یہ عظیم و کریم قرآن، جسے وہ پیش کر رہے ہیں، اس بات کا ثبوت دینے کے لیے بالکل کافی ہے۔

اس تشریح سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اس آیت میں قرآن کی قسم اس بات پر کھائی گئی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم واقعی اللہ کے رسول ہیں اور ان کی رسالت پر کفار کا تعجب بے جا ہے۔ اور قرآن کے ’’مجید‘‘ ہونے کو اس دعوے کے ثبوت میں پیش کیا گیا ہے۔

3. یہ ان لوگوں کا دوسرے تعجب تھا۔ پہلا اور اصل تعجب زندگی بعد موت پر نہ تھا بلکہ اس پر تھا کہ انہی کی جنس اور قسم کے ایک فرد نے اٹھ کر دعویٰ کیا تھا کہ میں خدا کی طرف سے تمہیں خبر دار کرنے کے لیے آیا ہوں۔ اس کے بعد مزید تعجب انہیں اس پر ہوا کہ وہ شخص انہیں جس چیز پر خبردار کر رہا تھا وہ یہ تھی کہ تمام انسان مرنے کے بعد از سر نو زندہ کیے جائیں گے، اور ان سب کو اکٹھا کر کے اللہ کی عدالت میں پیش کیا جائے گا، اور وہاں ان کے اعمال کا محاسبہ کرنے کے بعد جزا اور سزا دی جائے گی۔

4. یعنی یہ بات اگر ان لوگوں کی عقل میں نہیں سماتی تو یہ ان کی اپنی ہی عقل کی تنگی ہے۔ اس سے یہ تو لازم نہیں آتا کہ اللہ کا علم اور اس کی قدرت بھی تنگ ہو جائے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ ابتدائے آفرینش سے قیامت تک مرنے والے بے شمار انسانوں کے جسم کے اجزاء جو زمین میں بکھر چکے ہیں اور آئندہ بکھرتے چلے جائیں گے، ان کو جمع کرنا کسی طرح ممکن نہیں ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان میں سے ہر ہر جُز جس شکل میں جہاں بھی ہے، اللہ تعالیٰ براہ راست اس کو جانتا ہے، اور مزید براں اس کا پورا ریکارڈ اللہ کے دفتر میں محفوظ کیا جا رہا ہے جس سے کوئی ایک ذرہ بھی چھُٹا ہوا نہیں ہے۔ جس وقت اللہ کا حکم ہو گا اسی وقت آناً فاناً اس کے فرشتے اس ریکارڈ سے رجوع کر کے ایک ایک ذرے کو نکال لائیں گے اور تمام انسانوں کے وہ جسم پھر بنا دیں گے جن میں رہ کر انہوں نے دنیا کی زندگی میں کام کیا تھا۔

یہ آیت بھی من جملہ ان آیات کے ہے جن میں اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ آخرت کی زندگی نہ صرف یہ کہ ویسی ہی جسمانی زندگی ہو گی جیسی اس دنیا میں ہے، بلکہ جسم بھی ہر شخص کا وہی ہوگا جو اس دنیا میں تھا اگر یہ حقیقت یہ نہ ہوتی تو کفار کی بات کے جواب میں یہ کہنا بالکل بے معنی تھا کہ زمین تمہارے جسم میں سے جو کچھ کھاتی ہے وہ سب ہمارے علم ہے۔ اور ذرے ذرے کا ریکارڈ موجود ہے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم، تفسیر سورہ حٰم السجدہ، حاشیہ 25)۔

5. اس مختصر سے فقرے میں بھی ایک بہت بڑا مضمون بیان کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں نے صرف تعجب کرنے اور بعید از عقل ٹھیرانے پر ہی اکتفا نہ کیا، بلکہ جس وقت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی دعوت حق پیش کی اسی وقت بلا تامل اسے قطعی جھوٹ قرار دے دیا۔ اس کا نتیجہ لازماً یہ ہونا تھا اور یہی ہوا کہ انہیں اس دعوت اور اس کے پیش کرنے والے رسول کے معاملہ میں کسی ایک موقف پر قرار نہیں ہے۔ کبھی اس کو شاعر کہتے ہیں تو کبھی کاہن اور کبھی مجنون۔ کبھی کہتے ہیں کہ یہ جادوگر ہے اور کبھی کہتے ہیں کہ کسی نے اس پر جادو کر دیا ہے۔کبھی کہتے ہیں کہ یہ اپنی بڑائی قائم کرنے کے لیے خود یہ چیز بنا لایا ہے، اور کبھی یہ الزام تراشتے ہیں کہ اس کے پس پشت کچھ دوسرے لوگ ہیں جو یہ کلام گھڑ گھڑ کر اسے دیتے ہیں۔ یہ متضاد باتیں خود ظاہر کرتی ہیں کہ یہ لوگ اپنے موقف میں بالکل الجھ کر رہ گئے ہیں۔ اس الجھن میں یہ ہر گز نہ پڑتے اگر جلد بازی کر کے نبی کو پہلے ہی قدم پر جھٹلا نہ دیتے اور بلا فکر و تامل ایک پیشگی فیصلہ صادر کر دینے سے پہلے سنجیدگی کے ساتھ غور کرتے کہ یہ دعوت کون پیش کر رہا ہے، کیا بات کہہ رہا ہے اور اس کے لیے دلیل کیا دے رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ شخص ان کے لیے اجنبی نہ تھا۔ کہیں سے اچانک ان کے درمیان نہ آ کھڑا ہوا تھا۔ ان کی اپنی ہی قوم کا فرد تھا۔ ان کا اپنا دیکھا بھالا آدمی تھا۔ یہ اس کی سیرت و کردار اور اس کی قابلیت سے نا واقف نہ تھے۔ ایسے آدمی کی طرف سے جب ایک بات پیش کی گئی تھی تو چاہے اسے فوراً قبول نہ کر لیا جاتا، مگر وہ اس کی مستحق بھی تو نہ تھی کہ سنتے ہی اسے رد کر دیا جاتا۔ پھر وہ بات بے دلیل بھی نہ تھی۔ وہ اس کے لیے دلائل پیش کر رہا تھا۔ چاہیے تھا کہ اس کے دلائل کھلے کانوں سے سنے جاتے اور تعصب کے بغیر ان کو جانچ کر دیکھا جاتا کہ وہ کہاں تک معقول ہیں۔ لیکن یہ روش اختیار کرنے کے بجائے جب ان لوگوں نے ضد میں آ کر ابتدا ہی میں اسے جھٹلا دیا تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک حقیقت تک پہنچنے کا دروازہ تو انہوں نے اپنے لیے خود بند کر لیا اور ہر طرف بھٹکتے پھرنے کے بہت سے راستے کھول لیے۔ اب یہ اپنی ابتدائی غلطی کو نباہنے کے لیے دس متضاد باتیں تو بنا سکتے ہیں مگر اس ایک بات کو سوچنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں کہ نبی سچا بھی ہو سکتا ہے اور اس کی پیش کردہ بات حقیقت بھی ہو سکتی ہے۔

6. اوپر کی پانچ آیتوں میں کفار مکہ کے موقف کی نا معقولیت واضح کرنے کے بعد اب بتایا جا رہا ہے کہ آخرت کی جو خبر محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے دی ہے اس کی صحت کے دلائل کیا ہیں۔ اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ کفار جن دو باتوں پر تعجب کا اظہار کر رہے تھے ان میں سے ایک، یعنی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کے بر حق ہونے کی دو دلیلیں ابتدا ہی میں دی جاچکی ہیں۔ اول یہ کہ وہ تمہارے سامنے قرآن مجید پیش کر رہے ہیں جو ان کے نبی ہونے کا کھلا ہوا ثبوت ہے۔ دوم یہ کہ وہ تمہاری اپنی ہی جنس اور قوم اور برادری کے آدمی ہیں۔ اچانک آسمان سے یا کسی دوسری سر زمین سے نہیں آ گئے ہیں کہ تمہارے لیے ان کی زندگی اور سیرت و کردار کو جانچ کر یہ تحقیق کرنا مشکل ہو کہ وہ قابل اعتماد آدمی ہیں یا نہیں اور یہ قرآن ان کا اپنا گھڑا ہوا کلام ہو بھی سکتا ہے یا نہیں، اس لیے ان کے دعوائے نبوت پر تمہارا تعجب بے جا ہے۔ یہ استدلال تفصیل کے ساتھ پیش کرنے کے بجائے دو مختصر اشاروں کی شکل میں بیان کیا گیا ہے، کیونکہ جس زمانے میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم خود مکہ میں کھڑے ہو کر ان لوگوں کو قرآن سنا ہے تھے جو بچپن سے جوانی اور ادھیڑ عمر تک آپ کی ساری زندگی دیکھے ہوئے تھے، اس وقت ان اشاروں کی پوری تفصیل ماحول کے ہر شخص پر آپ ہی واضح تھی۔ اس لیے اس کو چھوڑ کر اب تفصیلی استدلال اس دوسری بات کی صداقت پر کیا جا رہا ہے جس کو وہ لوگ عجیب اور عقل سے بعید کہہ رہے تھے۔

7. یہاں آسمان سے مراد پورا عالم بالا ہے جسے انسان شب و روز اپنے اوپر چھایا ہوا دیکھتا ہے۔ جس میں دن کو سورج چمکتا ہے اور رات کو چاند اور بے حد و حساب تارے روشن نظر آتے ہیں۔ جسے آدمی برہنہ آنکھ ہی سے دیکھے تو حیرت طاری ہو جاتی ہے، لیکن اگر دوربین لگا لے تو ایک ایسی وسیع و عریض کائنات اس کے سامنے آتی ہے جو نا پیدا کنار ہے، کہیں سے شروع ہو کر کہیں ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔ ہماری زمین سے لاکھوں گنے بڑے عظیم الشان سیارے اس کے اندر گیندوں کی طرح گھوم رہے ہیں۔ ہمارے سورج سے ہزاروں درجہ زیادہ روشن تارے اس میں چمک رہے ہیں۔ ہمارا یہ پورا نظام شمسی اس کی صرف ایک کہکشاں (Galaxy) کے ایک کونے میں پڑا ہوا ہے۔ تنہا اسی ایک کہکشاں میں ہمارے سورج جیسے کم از کم 3 ارب دوسرے تارے (ثوابت) موجود ہیں، اور اب تک کا انسانی مشاہدہ ایسی ایسی دس لاکھ کہکشانوں کا پتہ دے رہا ہے۔ ان لاکھوں کہکشانوں میں سے ہماری قریب ترین ہمسایہ کہکشاں اتنے فاصلے پر واقع ہے کہ اس کی روشنی ایک لاکھ 86 ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چل کر دس لاکھ سال میں زمین تک پہنچتی ہے۔ یہ تو کائنات کے صرف اس حصے کی وسعت کا حال ہے جو اب تک انسان کے علم اور اس کے مشاہدہ میں آئی ہے۔ خدا کی خدائی کس قدر وسیع ہے، اس کا کوئی اندازہ ہم نہیں کر سکتے۔ ہو سکتا ہے کہ انسان کی معلوم کائنات کے مقابلے میں وہ نسبت بھی نہ رکھتی ہو جو قطرے کو سمندر سے ہے۔ اس عظیم کار گاہ ہست و بود کو جو خدا وجود میں لایا ہے اس کے بارے میں زمین پر رینگنے والا یہ چھوٹا سا حیوان ناطق، جس کا نام انسان ہے، اگر یہ حکم لگائے کہ وہ اسے مرنے کے بعد دوبارہ پیدا نہیں کر سکتا، تو یہ اس کی اپنی ہی عقل کی تنگی ہے۔ کائنات کے خالق کی قدرت اس سے کیسے تنگ ہو جائے گی!

8. یعنی اپنی اس حیرت انگیز وسعت کے باوجود یہ عظیم الشان نظام کائنات ایسا مسلسل اور مستحکم ہے اور اس کی بندش اتنی چست ہے کہ اس میں کسی جگہ کوئی دراڑ یا شگاف نہیں ہے اور اس کا تسلسل کہیں جا کر ٹوٹ نہیں جاتا۔ اس چیز کو ایک مثال سے اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔ جدید زمانے کے ریڈیائی ہیئت دانوں نے ایک کہکشانی نظام کا مشاہدہ کیا ہے جسے وہ منبع 3 ج 295 (Source 3c,295) کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کے متعلق ان کا اندازہ یہ ہے کہ اس کی جو شعاعیں اب ہم تک پہنچ رہی ہیں وہ 4 ارب سال سے بھی زیادہ مدت پہلے اس میں سے روانہ ہوئی ہونگی۔ اس بعید ترین فاصلے سے ان شعاعوں کا زمین تک پہنچنا آخر کیسے ممکن ہوتا اگر زمین اور اس کہکشاں کے درمیان کائنات کا تسلسل کسی جگہ سے ٹوٹا ہوا ہوتا اور اس کی بندش میں کہیں شگاف پڑا ہوا ہوتا۔ اللہ تعالیٰ اس حقیقت کی طرف اشارہ کر کے در اصل یہ سوال آدمی کے سامنے پیش کرتا ہے کہ میری کائنات کے اس نظام میں جب تم ایک ذرا سے رخنے کی نشان دہی بھی نہیں کر سکتے تو میری قدرت میں اس کمزوری کا تصور کہاں سے تمہارے دماغ میں آگیا کہ تمہاری مہلت امتحان ختم ہو جانے کے بعد تم سے حساب لینے کے لیے میں تمہیں پھر زندہ کر کے اپنے سامنے حاضر کرنا چاہوں تو نہ کر سکوں گا۔ یہ صرف امکان آخرت ہی کا ثبوت نہیں ہے بلکہ توحید کا ثبوت بھی ہے چار ارب سال نوری (Light Years) کی مسافت سے ان شعاعوں کا زمین تک پہنچنا، اور یہاں انسان کے بنائے ہوئے آلات کی گرفت میں آنا صریحاً اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس کہکشاں سے لے کر زمین تک کی پوری دنیا مسلسل ایک ہی مادے سے بنی ہوئی ہے، ایک ہی طرح کی قوتیں اس میں کار فرما ہیں، اور کسی فرق و تفاوت کے بغیر وہ سب ایک ہی طرح کے قوانین پر کام کر رہی ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ شعاعیں نہ یہاں تک پہنچ سکتی تھیں اور نہ ان آلات کی گرفت میں آسکتی تھیں جو انسان نے زمین اور اس کے ماحول میں کام کرنے والے قوانین کا فہم حاصل کر کے بنائے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک ہی خدا اس پوری کائنات کا خالق و مالک اور حاکم و مدبر ہے۔

9. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، النحل، حواشی 12۔13۔14۔ جلد سوم، النمل، حواشی 73۔74۔ جلد چہارم، الزخرف، حاشیہ 7۔

10. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، النمل، حواشی 73۔74۔81۔الروم، حواشی 25۔33۔35۔جلد چہارم،یٰس، حاشیہ 29۔

11. استدلال یہ ہے کہ جس خدا نے زمین کے اس کرے کو زندہ مخلوقات کی سکونت کے لیے موزوں مقام بنا یا، اور جس نے زمین کی بے جان مٹی کو آسمان کے بے جان پانی کے ساتھ ملا کر اتنی اعلیٰ درجے کی نباتی زندگی پیدا کر دی جسے تم اپنے باغوں اور کھیتوں کی شکل میں لہلہاتے دیکھ رہے ہو، اور جس نے اس نباتات کو انسان و حیوان سب کے لیے رزق کا ذریعہ بنا دیا، اس کے متعلق تمہارا یہ گمان کہ وہ تمہیں مرنے کے بعد دو بارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے، سراسر بے عقلی کا گمان ہے۔ تم اپنی آنکھوں سے آئے دن دیکھتے ہو کہ ایک علاقہ بالکل خشک اور بے جان پڑا ہوا ہے۔ بارش کا ایک چھینٹا پڑتے ہی اس کے اندر یکایک زندگی کے چشمے پھوٹ نکلتے ہیں، مدتوں کی مری ہوئی جڑیں یک لخت جی اٹھتی ہیں، اور طرح طرح کے حشرات الارض زمین کی تہوں سے نکل کر اچھل کود شروع کر دیتے ہیں۔ یہ اس بات کا کھلا ہوا ثبوت ہے کہ موت کے بعد دوبارہ زندگی نا ممکن نہیں ہے۔ اپنے اس صریح مشاہدے کو جب تم نہیں جھٹلا سکتے تو اس بات کو کیسے جھٹلاتے ہو کہ جب خدا چاہے گا تم خود بھی اسی طرح زمین سے نکل آؤ گے جس طرح نباتات کی کونپلیں نکل آتی ہیں۔ اس سلسلے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عرب کی سر زمین میں بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں بسا اوقات پانچ پانچ برس بارش نہیں ہوتی، بلکہ کبھی کبھی اس سے بھی زیادہ مدت گزر جاتی ہے اور آسمان سے ایک خطرہ تک نہیں ٹپکتا۔ اتنے طویل زمانے تک تپتے ہوئے ریگستانوں میں گھاس کی جڑوں اور حشرات الارض کا زندہ رہنا قابل تصور نہیں ہے۔ اس کے باوجود جب وہاں کسی وقت تھوڑی سی بارش بھی ہو جاتی ہے تو گھاس نکل آتی ہے اور حشرات الارض جی اٹھتے ہیں۔ اس لیے عرب کے لوگ اس استدلال کو ان لوگوں کی بہ نسبت زیادہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں جنہیں اتنی طویل خشک سالی کا تجربہ نہیں ہوتا۔

12. اس سے پہلے سورہ فرقان، آیت 28 میں اصحاب الرس کا ذکر گزر چکا ہے، اور دوسری مرتبہ اب یہاں ان کا ذکر ہو رہا ہے۔ مگر دونوں جگہ انبیاء کو جھٹلانے والی قوموں کے سلسلے میں صرف ان کا نام ہی لیا گیا ہے، کوئی تفصیل ان کے قصے کی بیان نہیں کی گئی ہے۔ عرب کی روایات میں الرس کے نام سے دو مقام معروف ہیں، ایک نجد میں، دوسرا شمالی حجاز میں۔ ان میں نجد کا الرس زیادہ مشہور ہے اور اشعار جاہلیت میں زیادہ تر اسی کا ذکر ملتا ہے۔ اب یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ اصحاب الرس ان دونوں میں سے کس جگہ کے رہنے والے تھے۔ ان کے قصے کی بھی کوئی قابل اعتماد تفصیل کسی روایت میں نہیں ملتی۔ زیادہ سے زیادہ بس اتنی بات صحت کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ یہ کوئی ایسی قوم تھی جس نے اپنے نبی کو کنوئیں میں پھینک دیا تھا۔ لیکن قرآن مجید میں جس طرح ان کی طرف محض ایک اشارہ کر کے چھوڑ دیا گیا ہے اس سے خیال ہوتا ہے کہ نزول قرآن کے زمانے میں اہل عرب بالعموم اس قوم اور اس کے قصے سے واقف تھے اور بعد میں یہ روایات تاریخ میں محفوظ نہ رہ سکیں۔

13. قوم فرعون کے بجائے صرف فرعون کا نام لیا گیا ہے، کیونکہ وہ اپنی قوم پر اس طرح مسلط تھا کہ اس کے مقابلے میں قوم کی کوئی آزادانہ رائے اور عزیمت باقی نہیں رہی تھی۔ جس گمراہی کی طرف وہ جاتا تھا، قوم اس کے پیچھے گھسٹتی چلی جاتی تھی۔ اس بنا پر پوری قوم کی گمراہی کا ذمہ دار تنہا اس شخص کو قرار دیا گیا۔ جہاں قوم کے لیے رائے اور عمل کی آزادی موجود ہو وہاں اپنے اعمال کا بوجھ وہ خود اٹھاتی ہے۔ اور جہاں ایک آدمی کی آمریت نے قوم کو بے بس کر رکھا ہو، وہاں وہی ایک آدمی پوری قوم کے گناہوں کا بار اپنے سر لے لیتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ فرد واحد پر یہ بوجھ لَد جانے کے بعد قوم سبکدوش ہو جاتی ہے۔نہیں، قوم پر اس صورت میں اس اخلاقی کمزوری کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس نے کیوں اپنے اوپر ایک آدمی کو اس طرح مسلط ہونے دیا۔ اسی چیز کی طرف سورۂ زخرف، آیت 54 میں اشارہ کیا گیا ہے کہ : فَاَسْتَخَفَّ قَوْمَہٗ فَاَطَاعُوْہُ اِنَّہُمْ کَانُوْ اقَوْ ماً فَا سِقِیْنَ۔ ’’فرعون نے اپنی قوم کو ہلکا سمجھا اور انہوں نے اس کی اطاعت کی، در حقیقت وہ تھے ہی فاسق لوگ‘‘۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ زخرف، حاشیہ 50)۔

14. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ سبا، حاشیہ 37۔ سورہ دخان، حاشیہ 32۔

15. یعنی ان سب نے اپنے رسولوں کی رسالت کو بھی جھٹلایا اور ان کی دی ہوئی اس خبر کو بھی جھٹلایا کہ تم مرنے کے بعد پھر اٹھائے جاؤ گے۔

16. اگر چہ ہر قوم نے صرف اس رسول کو جھٹلایا جواس کے پاس بھیجا گیا تھا، مگر چونکہ وہ اس خبر کو جھٹلا رہی تھی جو تمام رسول بالاتفاق پیش کرتے رہے ہیں، اس لیے ایک رسول کو جھٹلانا در حقیقت تمام رسولوں کو جھٹلا دینا تھا۔ علاوہ بریں ان قوموں میں سے ہر ایک نے محض اپنے ہاں آنے والے رسول ہی کی رسالت کا انکار نہ کیا تھا بلکہ وہ سرے سے یہی بات ماننے کے لیے تیار نہ تھیں کہ انسانوں کی ہدایت کے لیے انسان اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہو کر آ سکتا ہے، اس لیے وہ نفس رسالت کی منکر تھیں اور ان میں سے کسی کا جرم بھی صرف ایک رسول کی تکذیب تک محدود نہ تھا۔

17. یہ آخرت کے حق میں تاریخی استدلال ہے۔ اس سے پہلے کی 6 آیتوں میں امکان آخرت کے دلائل دیے گئے تھے، اور اب ان آیات میں عرب اور اس کے گرد و پیش کی قوموں کے تاریخی انجام کو اس بات کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے کہ آخرت کا جو عقیدہ تمام انبیاء علیہم السلام پیش کرتے رہے ہیں وہی حقیقت کے عین مطابق ہے، کیونکہ اس کا انکار جس قوم نے بھی کیا وہ شدید اخلاقی بگاڑ میں مبتلا ہو کر رہی اور آخر کار خدا کے عذاب نے آ کر اس کے وجود سے دنیا کو پاک کیا۔ آخرت کے انکار اور اخلاق کے بگاڑ کا یہ لزوم، جو تاریخ کے دوران میں مسلسل نظر آ رہا ہے، اس امر کا صریح ثبوت ہے کہ انسان فی الواقع اس دنیا میں غیر ذمہ دار اور غیر جواب دہ بنا کر نہیں چھوڑ دیا گیا ہے بلکہ اسے لازماً اپنی مہلت عمل ختم ہونے کے بعد اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ اسی لیے تو جب کبھی وہ اپنے آپ کو غیر ذمہ دار سمجھ کر دنیا میں کام کرتا ہے، اس کی پوری زندگی تباہی کے راستے پر چل پڑتی ہے۔ کسی کام سے اگر پے در پے غلط نتائج برآمد ہوتے چلے جائیں تو یہ اس بات کی کھلی علامت ہے کہ وہ کام حقیقت سے متصادم ہو رہا ہے۔

18. یہ آخرت کے حق میں عقلی استدلال ہے۔ جو شخص خدا کا منکر نہ ہو اور حماقت کی اس حد تک نہ پہنچ گیا ہو کہ اس منظم کائنات اور اس کے اندر انسان کی پیدائش کو محض ایک اتفاقی حادثہ قرار دینے لگے،اس کے لیے یہ مانے بغیر چارہ نہیں ہے کہ خدا ہی نے ہمیں اور اس پوری کائنات کو پیدا کیا ہے۔ اب یہ امر واقعہ کہ ہم اس دنیا میں زندہ موجود ہیں اور زمین و آسمان کا یہ سارا کارخانہ ہماری آنکھوں کے سامنے چل رہا ہے، آپ ہی اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ خدا ہمیں اور اس کائنات کو پیدا کرنے سے عاجز نہ تھا۔ اس کے بعد اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ قیامت برپا کرنے کے بعد وہی خدا ایک دوسرا نظام عالم نہ بنا سکے گا، اور موت کے بعد وہ ہمیں دوبارہ پیدا نہ کر سکے گا، تو وہ محض ایک خلاف عقل بات کہتا ہے۔ خدا عاجز ہوتا تو پہلے ہی پیدا نہ کر سکتا۔ جب وہ پہلے پیدا کر چکا ہے اور اسی تخلیق کی بدولت ہم خود وجود میں آئے بیٹھے ہیں، تو یہ فرض کر لینے کے لیے آخر کیا معقول بنیاد ہو سکتی ہے کہ اپنی ہی بنائی ہوئی چیز کو توڑ کر پھر بنا دینے سے وہ عاجز ہو جائے گا؟