Tafheem ul Quran

Surah 50 Qaf, Ayat 16-29

وَلَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ وَنَعۡلَمُ مَا تُوَسۡوِسُ بِهٖ نَفۡسُهٗ ۖۚ وَنَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَيۡهِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِيۡدِ‏ ﴿50:16﴾ اِذۡ يَتَلَقَّى الۡمُتَلَقِّيٰنِ عَنِ الۡيَمِيۡنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيۡدٌ‏  ﴿50:17﴾ مَا يَلۡفِظُ مِنۡ قَوۡلٍ اِلَّا لَدَيۡهِ رَقِيۡبٌ عَتِيۡدٌ‏ ﴿50:18﴾ وَ جَآءَتۡ سَكۡرَةُ الۡمَوۡتِ بِالۡحَـقِّ​ؕ ذٰلِكَ مَا كُنۡتَ مِنۡهُ تَحِيۡدُ‏  ﴿50:19﴾ وَنُفِخَ فِى الصُّوۡرِ ​ؕ ذٰ لِكَ يَوۡمُ الۡوَعِيۡدِ‏ ﴿50:20﴾ وَجَآءَتۡ كُلُّ نَفۡسٍ مَّعَهَا سَآئِقٌ وَّشَهِيۡدٌ‏ ﴿50:21﴾ لَقَدۡ كُنۡتَ فِىۡ غَفۡلَةٍ مِّنۡ هٰذَا فَكَشَفۡنَا عَنۡكَ غِطَآءَكَ فَبَصَرُكَ الۡيَوۡمَ حَدِيۡدٌ‏ ﴿50:22﴾ وَقَالَ قَرِيۡـنُهٗ هٰذَا مَا لَدَىَّ عَتِيۡدٌ ؕ‏ ﴿50:23﴾ اَلۡقِيَا فِىۡ جَهَنَّمَ كُلَّ كَفَّارٍ عَنِيۡدٍۙ‏ ﴿50:24﴾ مَّنَّاعٍ لِّلۡخَيۡرِ مُعۡتَدٍ مُّرِيۡبِ ۙ‏ ﴿50:25﴾ اۨلَّذِىۡ جَعَلَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ فَاَ لۡقِيٰهُ فِى الۡعَذَابِ الشَّدِيۡدِ‏ ﴿50:26﴾ قَالَ قَرِيۡنُهٗ رَبَّنَا مَاۤ اَطۡغَيۡتُهٗ وَلٰـكِنۡ كَانَ فِىۡ ضَلٰلٍۢ بَعِيۡدٍ‏  ﴿50:27﴾ قَالَ لَا تَخۡتَصِمُوۡا لَدَىَّ وَقَدۡ قَدَّمۡتُ اِلَيۡكُمۡ بِالۡوَعِيۡدِ‏  ﴿50:28﴾ مَا يُبَدَّلُ الۡقَوۡلُ لَدَىَّ وَمَاۤ اَنَا بِظَلَّامٍ لِّلۡعَبِيۡدِ‏ ﴿50:29﴾

16 - 19 ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں ابھرنے والے وسوسوں تک کو ہم جانتے ہیں۔ ہم اس کی رگِ گردن سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں، 20 17 - (اور ہمارے اس براہِ راست علم کے علاوہ) دو کاتب اس کے دائیں اور بائیں بیٹھے ہر چیز ثبت کر رہے ہیں۔ 18 - کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگراں موجود نہ ہو۔ 21 19 - پھر دیکھو، وہ موت کی جاں کنی حق لے کر آ پہنچی،22 یہ وہی چیز ہے جس سے تُو بھاگتا تھا۔23 20 - اور پھر صُور پھونکا گیا، 24یہ ہے وہ دن جس کا تجھے خوف دلایا جاتا تھا۔ 21 - ہر شخص اِس حال میں آگیا کہ اس کے ساتھ ایک ہانک کرلانے والا ہے اور ایک گواہی دینے والا۔25 22 - اِس چیز کی طرف سے تُو غفلت میں تھا ، ہم نے وہ پردہ ہٹا دیا جو تیرے آگے پڑا ہوا تھا اور آج تیری نگاہ خوب تیز ہے۔26 23 - اُس کے ساتھی نے عرض کیا یہ جو میری سپردگی میں تھا حاضر ہے۔27 24 - حکم دیا گیا ”پھینک دو جہنم میں28 ہر کَٹّے کافر کو 29جو حق سے عند رکھتا تھا، 25 - خیر کو روکنے والا30 اور حد سے تجاوز کرنے والا تھا،31 شک میں پڑا ہوا تھا 32 26 - اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو خدا بنائے بیٹھا تھا۔ ڈال دو اُسے سخت عذاب میں۔“33 27 - اس کے ساتھی نے عرض کیا ”خداوند ، میں نے اِس کو سرکش نہیں بنایا بلکہ یہ خود ہی پرلے درجے کی گمراہی میں پڑا ہوا تھا۔“34 28 - جواب میں ارشاد ہوا”میرے حضور جھگڑا نہ کرو، میں تم کو پہلے ہی انجامِ بد سے خبر دار کر چکا تھا۔35 29 - میرے ہاں بات پلٹی نہیں جاتی36 اور میں اپنے بندوں پر ظلم توڑنے والا نہیں ہوں۔“37؏۲


Notes

19. آخرت کے دلائل بیان کرنے کے بعد اب یہ فرمایا جا رہا ہے کہ تم چاہےاس آخرت کو مانو یا اس کا انکار کرو، بہر حال اس کو آنا ہے اور یہ ایک ایسا امر واقعہ ہے جو تمہارے انکار کے باوجود پیش آ کر رہے گا۔ انبیاء کی پیشگی تنبیہ کو مان کر اس وقت کے لیے پہلے سے تیاری کر لو گے تو اپنا بھلا کرو گے۔ نہ مانو گے تو خود ہی اپنی شامت بلاؤ گے۔ تمہارے نہ ماننے سے آخرت آتے آتے رک نہیں جائے گی اور خدا کا قانون عدل معطل نہ ہو جائے گا۔

20. یعنی ہماری قدرت اور ہمارے علم نے انسان کو اندر اور باہر سے اس طرح گھیر رکھا ہے کہ اس کی رگ گردن بھی اس سے اتنی قریب نہیں ہے جتنا ہمارا علم اور ہماری قدرت اس سے قریب ہے۔ اس کی بات سننے کے لیے ہمیں کہیں سے چل کر نہیں آنا پڑتا، اس کے دل میں آنے والے خیالات تک کو ہم براہ راست جانتے ہیں۔ اسی طرح اگر اسے پکڑنا ہو گا تو ہم کہیں سے آ کر اس کو نہیں پکڑیں گے، وہ جہاں بھی ہے ہر وقت ہماری گرفت میں ہے، جب چاہیں گے اسے دھر لیں گے۔

21. یعنی ایک طرف تو ہم خود براہ راست انسان کی حرکات و سکنات اور اس کے خیالات کو جانتے ہیں، دوسری طرف ہر انسان پر دو فرشتے مامور ہیں جو اس کی ایک ایک بات کو نوٹ کر رہے ہیں اور اس کا کوئی قول و فعل ان کے ریکارڈ سے نہیں چھوٹتا۔ اس کی معنی یہ ہیں کہ جس وقت اللہ تعالیٰ کی عدالت میں انسان کی پیشی ہوگی اس وقت اللہ کو خود بھی معلوم ہوگا کہ کون کیا کر کے آیا ہے، اور اس پر شہادت دینے کے لیے دو گواہ بھی موجود ہوں گے جو اس کے اعمال کا دستاویزی ثبوت لا کر سامنے رکھ دیں گے۔ یہ دستاویزی ثبوت کس نوعیت کا ہوگا، اس کا ٹھیک ٹھیک تصور کرنا تو ہمارے لیے مشکل ہے۔ مگر جو حقائق آج ہمارے سامنے آ رہے ہیں انہیں دیکھ کر یہ بات بالکل یقینی معلوم ہوتی ہے۔ کہ جس فضا میں انسان رہتا اور کام کرتا ہے اس میں ہر طرف اس کی آوازیں، اس کی تصویریں اور اس کی حرکات و سکنات کے نقوش ذرے ذرے پر ثبت ہو رہے ہیں اور ان میں سے ہر چیز کو بعینہٖ ان ہی شکلوں اور آوازوں میں دوبارہ اس طرح پیش کیا جا سکتا ہے کہ اصل اور نقل میں ذرہ برابر فرق نہ ہو۔ انسان یہ کام نہایت ہی محدود پیمانے پر آلات کی مدد سے کر رہا ہے۔ لیکن خدا کے فرشتے نہ ان آلات کے محتاج ہیں نہ ان قیود سے مقید۔ انسان کا اپنا جسم اور اس کے گردو پیش کی ہر چیز ان کی ٹیپ اور ان کی فِلم ہے جس پر وہ ہر آواز اور ہر تصویر کو اس کی نازک ترین تفصیلات کے ساتھ جوں کی توں ثبت کر سکتے ہیں اور قیامت کے روز آدمی کو اس کے اپنے کانوں سے اس کی اپنی آواز میں اس کی وہ باتیں سنوا سکتے ہیں جو وہ دنیا میں کرتا تھا، اور اس کی اپنی آنکھوں سے اس کے اپنے تمام کر توتوں کی چلتی پھرتی تصویریں دکھا سکتے ہیں جن کی صحت سے انکار کرنا اس کے لیے ممکن نہ رہے۔

اس مقام پر یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ آخرت کی عدالت میں کسی شخص کو محض اپنے ذاتی علم کی بنا پر سزا نہ دے دیگا بلکہ عدل کی تمام شرائط پوری کر کے اس کو سزا دے گا۔ اسی لیے دنیا میں ہر شخص کے اقوال و افعال کا مکمل ریکارڈ تیار کرایا جا رہا ہے تاکہ اس کی کار گزاریوں کا پورا ثبوت ناقابل انکار شہادتوں سے فراہم ہو جائے۔

22. حق لے کر آ پہنچے سے مراد یہ ہے کہ موت کی جانکنی وہ نقطۂ آغاز ہے جہاں سے وہ حقیقت کھلُنی شروع ہو جاتی جس پر دنیا کی زندگی میں پردہ پڑا ہوا تھا۔ اس مقام سے آدمی وہ دوسرا عالم صاف دیکھنے لگتا ہے جس کی خبر انبیاء علیہم السلام نے دی تھی۔ یہاں آدمی کو یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ آخرت بالکل برحق ہے، اور یہ حقیقت بھی اس کو معلوم ہو جاتی ہے کہ زندگی کے اس دوسرے مرحلے میں وہ نیک بخت کی حیثیت سے داخل ہو رہا ہے یا بد بخت کی حیثیت سے۔

23. یعنی یہ وہی حقیقت ہے جس کو ماننے سے تو کنّی کتراتا تھا۔ تو چاہتا تھا کہ دنیا میں بے نتھے بیل کی طرح چھوٹا پھرے اور مرنے کے بعد کوئی دوسری زندگی نہ ہو جس میں تجھے اپنے اعمال کا خمیازہ بھگتنا پڑے۔ اسی لیے آخرت کے تصور سے تو دور بھا کتا تھا اور کسی طرح یہ ماننے کے لیے تیار نہ تھا کہ کبھی یہ عالم بھی برپا ہونا ہے۔ اب دیکھ لے، یہ وہی دوسرا عالم تیرے سامنے آ رہا ہے۔

24. اس سے مراد وہ نفخ صور ہے جس کے ساتھ ہی تمام مرے ہوئے لوگ دو بارہ حیات جسمانی پا کر اٹھ کھڑے ہوں گے۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، انعام، حاشیہ 47۔ جلد دوم، ابراہیم، حاشیہ 57۔ جلد سوم، طہٰ، حاشیہ 78۔ الحج، حاشیہ۔1۔ جلد چہارم، یٰس، حواشی 46۔47۔ الزُّمر، حاشیہ 79۔

25. اغلب یہ ہے کہ اس سے مراد وہی دو فرشتے ہیں جو دنیا میں اس شخص کے قول و عمل کا ریکارڈ مرتب کر نے کے لیے مامور رہے تھے۔ قیامت کے روز جب صور کی آواز بلند ہوتے ہی ہر انسان اپنے مرقد سے اٹھے گا تو فوراً وہ دونوں فرشتے آ کر اسے اپنے چارج میں لے لیں گے۔ ایک اسے عدالت گاہ خداوندی کی طرف ہانکتا ہو الے چلے گا اور دوسرا اس کا نامۂ اعمال ساتھ لیے ہوئے ہو گا۔

26. یعنی اب تو تجھے خوب نظر آ رہا ہے کہ وہ سب کچھ یہاں موجود ہے جس کی خبر خدا کے نبی تجھے دیتے تھے۔

27. بعض مفسرین نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ’’ ساتھی‘‘ سے مراد وہ فرشتہ ہے جسے آیت نمبر 21 میں ’’گواہی دینے والا‘‘ فرمایا گیا ہے۔ وہ کہے گا کہ یہ اس شخص کا نامۂ اعمال میرے پاس تیار ہے۔ کچھ دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ ’’ساتھی ‘‘ سے مراد وہ شیطان ہے جو دنیا میں اس شخص کے ساتھ لگا ہوا تھا۔ وہ عرض کرے گا کہ یہ شخص جس کو میں نے اپنے قابو میں کر کے جہنم کے لیے تیار کیا تھا اب آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ مگر سیاق و سباق سے زیادہ مناسبت رکھنے والی تفسیر وہ ہے جو قتادہ اور ابن زید سے منقول ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ساتھی سے مراد ہانک کر لانے والا فرشتہ ہے اور وہی عدالت الٰہی میں پہنچ کر عرض کرے گا کہ یہ شخص جو میری سپردگی میں تھا سر کار کی پیشی میں حاضر ہے۔

28. اصل الفاظ میں اَلْقِیَا فَیْ جَھَنَّمَ، ’’ پھینک دو جہنم میں تم دونوں ‘‘۔ سلسلہ کلام خود بتا رہا ہے کہ یہ حکم ان دونوں فرشتوں کو دیا جائے گا جنہوں نے مرقد سے اٹھتے ہی مجرم کو گرفتار کیا تھا اور لا کر عدالت میں حاضر کر دیا تھا۔

29. اصل میں لفظ ’’کَفَّار‘‘ استعمال ہوا ہے جس کے دو معنی ہیں۔ ایک، سخت نا شکرا۔ دوسرے سخت منکر حق۔

30. خیر کا لفظ عربی زبان میں مال کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور بھلائی کے لیے بھی۔ پہلے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے مال میں سے کسی کا حق ادا نہ کرتا تھا۔ نہ خدا کا نہ بندوں کا۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ وہ بھلائی کے راستے سے خود ہی رک جانے پر اکتفا نہ کرتا تھا بلکہ دوسروں کو بھی اس سے روکتا تھا۔ دنیا میں خیر کے لیے سدِّ راہ بنا ہوا تھا۔ اپنی ساری قوتیں اس کام میں صرف کر رہا تھا کہ نیکی کسی طرح پھیلنے نہ پائے۔

31. یعنی اپنے ہر کام میں اخلاق کی حدیں توڑ دینے والا تھا۔ اپنے مفاد اور اپنی اغراض اور خواہشات کی خاطر سب کچھ کر گزرنے کے لیے تیار تھا۔ حرام طریقوں سے مال سمیٹتا اور حرام راستوں میں صرف کرتا تھا۔ لوگوں کے حقوق پر دست درازیاں کرتا تھا۔ نہ اس کی زبان کسی حد کی پا بند تھی نہ اس کے ہاتھ کسی ظلم اور زیادتی سے رکتے تھے۔ بھلائی کے راستے میں صرف رکاوٹیں ڈالنے ہی پر بس نہ کرتا تھا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر بھلائی اختیار کرنے والوں کو ستاتا تھا اور بھلائی کے لیے کام کرنے والوں پر ستم ڈھاتا تھا۔

32. اصل میں لفظ’’مُرِیْب‘‘ استعمال ہوا ہے جس کے دو معنی ہیں۔ ایک، شک کرنے والا۔ دوسرے، شک میں ڈالنے والا۔ اور دونوں ہی معنی یہاں مراد ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہ خود شک میں پڑا ہوا تھا اور دوسروں کے دلوں میں شکوک ڈالتا تھا۔ اس کے نزدیک اللہ اور آخرت اور ملائکہ اور رسالت اور وحی، غرض دین کی سب صداقتیں مشکوک تھیں۔ حق کی جو بات بھی انبیاء کی طرف سے پیش کی جاتی تھی اس کے خیال میں و ہ قابل یقین نہ تھی۔ اور یہی بیماری وہ اللہ کے دوسرے بندوں کو لگاتا پھرتا تھا۔ جس شخص سے بھی اس کو سابقہ پیش آتا اس کے دل میں وہ کوئی نہ کوئی شک اور کوئی نہ کوئی وسوسہ ڈال دیتا۔

33. ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے وہ صفات گِن کر بتا دی ہیں جو انسان کو جہنم کا مستحق بنانے والی ہیں، (1) انکار حق، (2) خدا کی ناشکری،(3) حق اور اہل حق سے عناد، (4) بھلائی کے راستے میں سدِّ راہ بننا، (5) اپنے مال سے خدا اور بندوں کے حقوق ادا نہ کرنا، (6) اپنے معاملات میں حدود سے تجاوز کرنا، (7) لوگوں پر ظلم اور زیادتیاں کرنا، (8) دین کی صداقتوں پر شک کرنا، (9)دوسروں کے دلوں میں شکوک ڈالنا، اور (10) اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو خدائی میں شریک ٹھیرانا۔

34. یہاں فحوائے کلام خود بتا رہا ہے کہ ’’ساتھی‘‘ سے مراد وہ شیطان ہے جو دنیا میں اس شخص کے ساتھ لگا ہوا تھا۔ اور یہ بات بھی انداز بیان ہی سے مترشح ہوتی ہے کہ وہ شخص اور اس کا شیطان، دونوں خدا کی عدالت میں ایک دوسرے سے جھگڑ رہے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ حضور، یہ ظالم میرے پیچھے پڑا ہوا تھا اور اسی نے آخر کار مجھے گمراہ کر کے چھوڑا، اس لیے سزا اس کو ملنی چاہیے۔ اور شیطان جواب میں کہتا ہے کہ سردار، میرا اس پر کوئی زور تو نہیں تھا کہ یہ سرکش نہ بننا چاہتا ہو اور میں نے زبردستی اس کو سرکش بنا دیا ہو۔ یہ کم بخت تو خود نیکی سے نفور اور بدی پر فریفتہ تھا۔ اسی لیے انبیاء کی کوئی بات اسے پسند نہ آئی اور میری ترغیبات پر پھسلتا چلا گیا۔

35. یعنی تم دونوں ہی کو میں نے متنبہ کر دیا تھا کہ تم میں سے جو بہکائے گا وہ کیا سزا پائے گا اور جو بہکے گا اسے کیا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ میری اس تنبیہ کے باوجود جب تم دونوں اپنے اپنے حصے کا جرم کرنے سے باز نہ آئے تو اب جھگڑا کرنے سے حاصل کیا ہے۔ بہکنے والے کو بہکنے کی اور بہکانے والے کو بہکانے کی سزا تو اب لازماً ملنی ہی ہے۔

36. یعنی فیصلے بدلنے کا دستور میرے ہاں نہیں ہے۔تم کو جہنم میں پھینک دینے کا جو حکم میں دے چکا ہوں اب واپس نہیں لیا جا سکتا۔ اور نہ اس قانون ہی کو بدلا جا سکتا ہے جو کا اعلان میں نے دنیا میں کر دیا تھا کہ گمراہ کرنے اور گمراہ ہونے کی کیا سزا آخرت میں دی جائے گی۔

37. اصل میں لفظ ’’ظَلَّام ‘‘ استعمال ہوا ہے جس کے معنی بہت بڑے ظالم کے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اپنے بندوں کے حق میں ظالم تو ہوں مگر بہت بڑا ظالم نہیں ہوں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر میں خالق اور رب ہو کر اپنی ہی پروردہ مخلوق پر ظلم کروں تو بہت بڑا ظالم ہوں گا۔ اس لیے میں سرے سے کوئی ظلم بھی اپنے بندوں پر نہیں کرتا۔ یہ سزا جو میں تم کو دے رہا ہوں یہ ٹھیک ٹھیک وہی سزا ہے جس کا مستحق تم نے اپنے آپ کو خود بنایا ہے۔ تمہارے استحقاق سے رتّی بھر بھی زیادہ سزا تمہیں نہیں دی جا رہی ہے۔ میری عدالت بے لاگ انصاف کی عدالت ہے۔ یہاں کوئی شخص کوئی ایسی سزا نہیں پا سکتا جس کا وہ فی الحقیقت مستحق نہ ہو اور جس کے لیے اس کا استحقاق بالکل یقینی شہادتوں سے ثابت نہ کر دیا گیا ہو۔