Tafheem ul Quran

Surah 50 Qaf, Ayat 30-45

يَوۡمَ نَـقُوۡلُ لِجَهَـنَّمَ هَلِ امۡتَلَـئْتِ وَتَقُوۡلُ هَلۡ مِنۡ مَّزِيۡدٍ‏  ﴿50:30﴾ وَاُزۡلِفَتِ الۡجَـنَّةُ لِلۡمُتَّقِيۡنَ غَيۡرَ بَعِيۡدٍ‏ ﴿50:31﴾ هٰذَا مَا تُوۡعَدُوۡنَ لِكُلِّ اَوَّابٍ حَفِيۡظٍ​ۚ‏ ﴿50:32﴾ مَنۡ خَشِىَ الرَّحۡمٰنَ بِالۡغَيۡبِ وَجَآءَ بِقَلۡبٍ مُّنِيۡبِۙ‏ ﴿50:33﴾ اۨدۡخُلُوۡهَا بِسَلٰمٍ​ؕ ذٰلِكَ يَوۡمُ الۡخُلُوۡدِ‏ ﴿50:34﴾ لَهُمۡ مَّا يَشَآءُوۡنَ فِيۡهَا وَلَدَيۡنَا مَزِيۡدٌ‏ ﴿50:35﴾ وَكَمۡ اَهۡلَـكۡنَا قَبۡلَهُمۡ مِّنۡ قَرۡنٍ هُمۡ اَشَدُّ مِنۡهُمۡ بَطۡشًا فَنَقَّبُوۡا فِى الۡبِلَادِ ؕ هَلۡ مِنۡ مَّحِيۡصٍ‏ ﴿50:36﴾ اِنَّ فِىۡ ذٰلِكَ لَذِكۡرٰى لِمَنۡ كَانَ لَهٗ قَلۡبٌ اَوۡ اَلۡقَى السَّمۡعَ وَهُوَ شَهِيۡدٌ‏ ﴿50:37﴾ وَلَقَدۡ خَلَقۡنَا السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ وَمَا بَيۡنَهُمَا فِىۡ سِتَّةِ اَيَّامٍ​ۖ وَّمَا مَسَّنَا مِنۡ لُّغُوۡبٍ‏ ﴿50:38﴾ فَاصۡبِرۡ عَلٰى مَا يَقُوۡلُوۡنَ وَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّكَ قَبۡلَ طُلُوۡعِ الشَّمۡسِ وَقَبۡلَ الۡغُرُوۡبِ​ۚ‏ ﴿50:39﴾ وَمِنَ الَّيۡلِ فَسَبِّحۡهُ وَاَدۡبَارَ السُّجُوۡدِ‏ ﴿50:40﴾ وَاسۡتَمِعۡ يَوۡمَ يُنَادِ الۡمُنَادِ مِنۡ مَّكَانٍ قَرِيۡبٍۙ‏ ﴿50:41﴾ يَوۡمَ يَسۡمَعُوۡنَ الصَّيۡحَةَ بِالۡحَـقِّ​ ؕ ذٰ لِكَ يَوۡمُ الۡخُـرُوۡجِ‏  ﴿50:42﴾ اِنَّا نَحۡنُ نُحۡىٖ وَنُمِيۡتُ وَاِلَيۡنَا الۡمَصِيۡرُۙ‏ ﴿50:43﴾ يَوۡمَ تَشَقَّقُ الۡاَرۡضُ عَنۡهُمۡ سِرَاعًا​ ؕ ذٰ لِكَ حَشۡرٌ عَلَيۡنَا يَسِيۡرٌ‏  ﴿50:44﴾ نَحۡنُ اَعۡلَمُ بِمَا يَقُوۡلُوۡنَ​ وَمَاۤ اَنۡتَ عَلَيۡهِمۡ بِجَـبَّارٍ​ فَذَكِّرۡ بِالۡقُرۡاٰنِ مَنۡ يَّخَافُ وَعِيۡدِ‏ ﴿50:45﴾

30 - وہ دن جبکہ ہم جہنم سے پوچھیں گے کیا تُو بھر گئی؟ اور وہ کہے گی کیا اور کچھ ہے؟38 31 - اور جنت متقین کے قریب لے آئی جائے گی، کچھ بھی دور نہ ہوگی۔39 32 - ارشاد ہوگا”یہ ہے وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا، ہر اس شخص کے لیے جو بہت رجوع کرنے والا 40اور بڑی نگہداشت کرنے والا تھا،41 33 - جو بے دیکھے رحمٰن سے ڈرتا تھا،42 اور جو دلِ گرویدہ لیے ہوئے آیا ہے۔43 34 - داخل ہو جاؤ جنت میں سلامتی کے ساتھ۔“44 وہ دن حیاتِ ابدی کا دن ہو گا۔ 35 - وہاں ان کے لیے وہ سب کچھ ہو گا جو وہ چاہیں گے، اور ہمارے پاس اس سے زیادہ بھی بہت کچھ ان کے لیے ہے۔45 36 - ہم ان سے پہلے بہت سی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں جو ان سے بہت زیادہ طاقتور تھیں اور دنیا کے ملکوں کو انہوں نے چھان مارا تھا۔46 پھر کیا وہ کوئی جائے پناہ پا سکے؟47 37 - اس تاریخ میں عبرت کا سبق ہے ہر اس شخص کے لیے جو دل رکھتا ہو، یا جو توجہ سے بات کو سنے۔ 38 - ہم نے زمین اور آسمانوں کو اور ان کے درمیان کی ساری چیزوں کو چھ دنوں میں پیدا کردیا 49 اور ہمیں کوئی تکان لاحق نہ ہوئی۔ 39 - پس اے نبیؐ، جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان پر صبر کرو،50 اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو، طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے، 40 - اور رات کے وقت پھر اس کی تسبیح کرو اور سجدہ ریزیوں سے فارغ ہونے کے بعد بھی۔51 41 - اور سنو، جس دن منادی کرنے والا (ہر شخص کے) قریب ہی سے پکارے گا،52 42 - جس دن سب لوگ آوازہٴ حشر کو ٹھیک ٹھیک سن رہے ہوں گے،53 وہ زمین سے مُردوں کے نکلنے کا دن ہوگا۔ 43 - ہم ہی زندگی بخشتے ہیں اور ہم ہی موت دیتے ہیں، اور ہماری طرف ہی اس دن سب کو پلٹنا ہے 44 - جب زمین پھٹے گی اور لوگ اس کے اندر سے نکل کر تیز تیز بھاگے جا رہے ہوں گے۔ یہ حشر ہمارے لیے بہت آسان ہے۔54 45 - اے نبیؐ ، جو باتیں یہ لوگ بنا رہے ہیں انہیں ہم خوب جانتے ہیں،55 اور تمہارا کام ان سے جبراً بات منوانا نہیں ہے۔ بس تم اس قرآن کے ذریعہ سے ہر اُس شخص کو نصیحت کر دو جو میری تنبیہ سے ڈرے۔56 ؏۳


Notes

38. اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ’’ میرے اندر اب مزید آدمیوں کی گنجائش نہیں ہے۔‘‘ دوسرے یہ کہ ’’اور جتنے مجرم بھی ہیں انہیں لے آیئے ‘‘ پہلا مطلب لیا جائے تو اس ارشاد سے تصور یہ سامنے آتا ہے کہ مجرموں کو جہنم میں اس طرح ٹھونس ٹھونس کر بھر دیا گیا ہے کہ اس میں ایک سوئی کی بھی گنجائش نہیں رہی، حتیٰ کہ جب اس سے پوچھا گیا کی کیا تو بھر گئی تو وہ گھبرا کر چیخ اٹھی کہ کیا ابھی اور آدمی بھی آنے باقی ہیں؟ دوسرا مطلب لیا جائے تو یہ تصور ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ جہنم کا غیظ اس وقت مجرموں پر کچھ اس بڑی طرح بھڑکا ہوا ہے کہ وہ ہل من مزید کا مطالبہ کیے جاتی ہے اور چاہتی ہے کہ آج کوئی مجرم اس سے چھوٹنے نہ پائے۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جہنم سے اللہ تعالیٰ کے اس خطاب اور اس کے جواب کی نوعیت کیا ہے۔؟ کیا یہ محض مجازی کلام ہے؟ یا فی الواقع جہنم کوئی ذی روح اور ناطق چیز ہے جسے مخاطب کیا جا سکتا ہو اور وہ بات کا جواب دے سکتی ہو؟ اس معاملہ میں درحقیقت کوئی بات قطعیت کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی۔ ہو سکتا ہے کہ یہ مجازی کلام ہو اور محض صورت حال کا نقشہ کھینچنے کے لیے جہنم کی کیفیت کو سوال و جوا ب کی شکل میں بیان کیا گیا ہو، جیسے کوئی شخص یوں کہے کہ میں نے موٹر سے پوچھا تو چلتی کیوں نہیں، اس نے جواب دیا، میرے اندر پٹرول نہیں ہے۔ لیکن یہ بات بھی بالکل ممکن ہے کہ یہ کلام مبنی بر حقیقت ہو۔ اس لیے کہ دنیا کی جو چیزیں ہمارے لیے جامد و صامت ہیں ان کے متعلق ہمارا یہ گمان کرنا درست نہیں ہو سکتا کہ وہ ضرور اللہ تعالیٰ کے لیے بھی ویسی ہی جامدو صامت ہوں گی۔ خالق اپنی ہر مخلوق سے کلام کر سکتا ہے اور اس کی ہر مخلوق اس کے کلام کا جواب دے سکتی ہے خواہ ہمارے لیے اس کی زبان کتنی ہی ناقابل فہم ہو۔

39. یعنی جوں ہی کسی شخص کے متعلق اللہ تعالیٰ کی عدالت سے یہ فیصلہ ہوگا کہ وہ متقی اور جنت کا مستحق ہے، فی الفور وہ جنت کو اپنے سامنے موجود پائے گا۔ وہاں تک پہنچنے کے لیے اسے کوئی مسافت طے نہیں کرنی پڑے گی کہ پاؤں سے چل کر یا کسی سواری میں بیٹھ کر سفر کرتا ہو وہاں جائے اور فیصلے کے وقت اور دخول جنت کے درمیان کوئی وقفہ ہو۔ بلکہ ادھر فیصلہ ہوا اور ادھر متقی جنت میں داخل ہو گیا۔ گویا وہ جنت میں پہنچایا نہیں گیا بلکہ خود جنت ہی اٹھا کر اس کے پاس لے آئی گئی ہے۔ اس سے کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عالم آخرت میں زمان و مکان کے تصورات ہماری اس دنیا کے تصورات سے کس قدر مختلف ہوں گے۔ جلدی اور دیر اور دوری اور نزدیکی کے وہ سارے مفہومات وہاں بے معنی ہوں گے جن سے ہم اس دنیا میں واقف ہیں۔

40. اصل میں لفظ اَوّاب استعمال ہوا ہے جس کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ اس سے مراد ایسا شخص ہے جس نے نافرمانی اور خواہشات نفس کی پیروی کا راستہ چھوڑ کر طاعت اور اللہ کی رضا جوئی کا راستہ اختیار کر لیا ہو، جو ہر اس چیز کو چھوڑ دے جو اللہ کو ناپسند ہے، اور ہر اس چیز کا اختیار کر لے جو اللہ کو پسند ہے، جو راہ بندگی سے ذرا قدم ہٹتے ہی گھبرا اٹھے اور توبہ کر کے بندگی کی راہ پر پلٹ آئے، جو کثرت سے اللہ کو یاد کرنے والا اور اپنے تمام معاملات میں اس کی طرف رجوع کرنے والا ہو۔

41. اصل میں لفظ ’’ حفیظ‘‘ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں ’’ حفاظت کرنے والا‘‘۔ اس سے مراد ایساشخص ہے جو اللہ کے حدود اور اسے کے فرائض اور اس کی حرمتوں اور ا سکی سپرد کی ہوئی امانتوں کی حفاظت کرے، جو ان حقوق کی نگہداشت کرے جو اللہ کی طرف اس پر عائد ہوتے ہیں، جو اس عہد و پیمان کی نگہداشت کرے جو ایمان لا کر اس نے اپنے رب سے کیا ہے، جو اپنے اوقات اور اپنی قوتوں اور محنتوں اور کوششوں کی پاسبانی کرے کہ ان میں سے کوئی چیز غلط کاموں میں ضائع نہ ہو، جو توبہ کر کے اس کی حفاظت کرے اور اسے پھر نہ ٹوٹنے دے، جو ہر وقت اپنا جائز ہ لے کر دیکھتا رہے کہ کہیں میں اپنے قول یا فعل میں اپنے رب کی نافرمانی تو نہیں کر رہا ہوں۔

42. یعنی باوجود اس کے کہ رحمان اس کو کہیں نظر نہ آتا تھا، اور اپنے حواس سے کسی طرح بھی وہ اس کو محسوس نہ کر سکتا تھا، پھر بھی وہ اس کی نافرمانی کرتے ہوئے ڈرتا تھا۔ اس کے دل پر دوسری محسوس طاقتوں اور علانیہ نظر آنے والی زور آور ہستیوں کے خوف کی بہ نسبت اس اَن دیکھے رحمان کا خوف زیادہ غالب تھا۔ اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ رحمٰن ہے، اس کی رحمت کے بھروسے پر وہ گناہ گار نہیں بنا بلکہ ہمیشہ اس کی ناراضی سے ڈرتا ہی رہا۔ اس طرح یہ آیت مومن کی دو اہم اور بنیادی خوبیوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ایک یہ کہ وہ محسوس نہ ہونے اور نظر نہ آنے کے باوجود خدا سے ڈرتا ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ خدا کی صفت رحمت سے اچھی طرح واقف ہونے کے باوجود گناہوں پر جَری نہیں ہوتا۔ یہی دو خوبیاں اسے اللہ کے ہاں قدر کا مستحق بناتی ہیں۔اس کے علاوہ اس میں ایک اور لطیف نکتہ بھی ہے جسے امام رازی نے بیان کیا ہے۔ وہ یہ کہ عربی زبان میں ڈر کے لیے خوف اور خَشِیَّت، دو لفظ استعمال ہوتے ہیں جن کے مفہوم میں ایک باریک فرق ہے خوف کا لفظ بالعموم اس ڈر کے لیےاستعمال ہوتا ہے جو کسی کی طاقت کے مقابلہ میں اپنی کمزوری کے احساس کی بنا پر آدمی کے دل میں پیدا ہو۔ اور خشیت اس ہیبت کے لیے بولتے ہیں جو کسی کی عظمت کے تصور سے آدمی کے دل پر طاری ہو۔ یہاں خوف کے بجائے خشیت کا لفظ استعمال فرمایا گیا ہے جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ مومن کے دل میں اللہ کا ڈر محض اس کی سزا کے خو ف ہی سے نہیں ہوتا، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اللہ کی عظمت و بزرگی کا احساس اس پر ہر وقت ایک ہیبت طاری کیے رکھتا ہے۔

43. اصل الفاظ ہیں ’’ قلبِ مُنِیب‘‘ لے کر آیا ہے۔ مُنیب انابت سے ہے جس کے معنی ایک طرف رخ کرنے اور بار بار اسی کی طرف پلٹنے کے ہیں۔ جیسے قطب نما کی ہوئی ہمیشہ قطب ہی کی طرف رخ کیے رہتی ہے اور آپ خواہ کتنا ہی بلائیں جُلائیں، وہ ہِر پھر کر پھر قطب ہی کی سمت میں آجاتی ہے۔پس قلب منیب سے مراد ایسا دل ہےجو ہر طرف سے رخ پھیر کر ایک اللہ کی طرف مڑ گیا اور پھر زندگی بھر جو احوال بھی اس پر گزرے ان میں وہ بار بار اسی کی طرف پلٹتا رہا۔ اسی مفہوم کو ہم نے دل گرویدہ کے الفاظ سے ادا کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے ہاں اصلی قدر اس شخص کی ہے جو محض زبان سے نہیں بلکہ پورے خلوص کے ساتھ سچے دل سے اسی کا ہو کر رہ جائے۔

44. اصل الفاظ ہیں اُدْخُلُوْ ھَا بِسَلامٍ۔ سلام کو اگر سلامتی کے معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر قوم کے رنج اور غم اور فکر اور آفات سے محفوظ ہو کر اس جنت میں داخل ہو جاؤ۔ اور اگر اسے سلام ہی کے معنی میں لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ آؤ اس جنت میں اللہ اور اس کے ملائکہ کی طرف سے تم کو سلام ہے۔

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے وہ صفات بتا دی ہیں جن کی بنا پر کوئی شخص جنت کا مستحق ہوتا ہے، اور وہ ہیں (1) تقویٰ،(2) رجوع الی اللہ،(3) اللہ سے اپنے تعلق کی نگہداشت۔(4) اللہ کو دیکھے بغیر اور اس کی رحیمی پر یقین رکھنے کے باوجود اس سے ڈرنا، اور (5) قلبِ منیب لیے ہوئے اللہ کے ہاں پہنچنا، یعنی مرتے دم تک ِانابَت کی روش پر قائم رہنا۔

45. یعنی جو کچھ وہ چاہیں گے وہ تو ان کے ملے گا ہی، مگر اس پر مزید ہم انہیں وہ کچھ بھی دیں گے جس کا کوئی تصور تک ان کے ذہن میں نہیں آیا ہے کہ وہ اس کے حاصل کرنے کی خواہش کریں۔

46. یعنی صرف اپنے ملک ہی میں وہ زور آور نہ تھیں بلکہ دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی وہ جا گھسی تھیں اور ان کی تاخت کا سلسلہ روئے زمیں پر دور دور تک پہنچا ہوا تھا۔

47. یعنی جب خدا کی طرف سے ان کی پکڑ کا وقت آیا تو کیا ان کی وہ طاقت ان کو بچاسکی؟ اور کیا دنیا میں پھر کہیں ان کو پناہ مل سکی؟ اب آخر تم کس بھروسے پر یہ امید رکھتے ہو کہ خدا کے مقابلے میں بغاوت کر کے تمہیں کہیں پناہ مل جائے گی؟

49. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ حٰم السجدہ، حواشی نمبر 11 تا 15۔

50. یعنی امر واقعہ یہ ہے کہ یہ پوری کائنات ہم نے چھ دن میں بنا ڈالی ہے اوراس کو بنا کرہم تھک نہیں گئے ہیں کہ اس کی تعمیر تو کرنا ہمارے بس میں نہ رہا ہو۔ اب اگر یہ نادان لوگ تم سے زندگی بعد موت کی خبر سن کر تمہارا مذاق اڑاتے ہیں اور تمہیں دیوانہ قرار دیتے ہیں تو اس پر صبر کرو۔ ٹھنڈے دل سے ان کی ہر بیہودہ بات کو سنو اور جس حقیقت کے بیان کرنے پر تم مامور کیے گئے ہو اسے بیان کرتے چلے جاؤ۔

اس آیت میں ضمناً ایک لطیف طنز یہود و نصاریٰ پر بھی ہے جن کی بائیبل میں یہ افسانہ گھڑا گیا ہے کہ خدا نے چھ دنوں میں زمین و آسمان کو بنایا اور ساتویں دن آرام کیا ( پیدائش2:2)۔اگرچہ اب مسیحی پادری اس بات سے شرمانے لگے ہیں اور انہوں نے کتاب مقدس کے اردو ترجمہ میں آرام کیا کو ’’فارغ ہوا‘‘ سے بدل دیا ہے۔ مگر کنگ جیمز کی مستند انگریزی بائیبل میں (And He rested on the seventh day) کے الفاظ صاف موجود ہیں۔ اور یہی الفاظ اس ترجمے میں بھی پائے جاتے ہیں جو 1954 ء میں یہودیوں نے فلیڈلفیا سے شائع کیا ہے۔ عربی ترجمہ میں بھی فاستراح فی الیوم السَّا بع کے الفاظ ہیں۔

51. یہ ہے وہ ذریعہ جس سے آدمی کو یہ طاقت حاصل ہوتی ہے کہ دعوت حق کی راہ میں اسے خواہ کیسے ہی دل شکن اور روح فرسا حالات سے سابقہ پیش آئے، اور اس کی کوششوں کا خواہ کوئی ثمرہ بھی حاصل ہوتا نظر نہ آئے، پھر بھی وہ پورے عزم کے ساتھ زندگی بھر کلمۂ حق بلند کرنےا ور دنیا کو خیر کی طرف بلانے کی سعی جاری رکھے۔ رب کی حمد اور اس کی تسبیح سے مراد یہاں نماز ہے اور جس مقام پر بھی قرآن میں حمد و تسبیح کو خاص اوقات کے ساتھ مخصوص کیا گیا ہے وہاں اس سے مراد نماز ہی ہوتی ہے۔ ’’ طلوع آفتاب سے پہلے۔‘‘ فجر کی نماز ہے ‘‘غروب آفتاب سے پہلے ‘’ دو نمازیں ہیں، ایک ظہر، دوسری عصر ‘‘۔ رات کے وقت۔ مغرب اور عشاء کی نمازیں ہیں اور تیسری تہجد بھی رات کی تسبیح میں شامل ہے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد دوم، بنی اسرائیل، حواشی 91 تا 97۔ جلد سوم، طہٰ، حاشیہ 111۔ الروم، حواشی 23۔24)۔ رہی وہ تسبیح جو ’’سجدے فارغ ہونے کے بعد ‘‘ کرنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے، تو اس سے مراد ذکر بعد الصلوٰۃ بھی ہو سکتا ہے اور فرض کے بعد نفل ادا کرنا بھی۔ حضرت عمر، حضرت علی، حضرت حسن بن علی، حضرات ابوہریرہ، ان عباس، شُیبی، مجاہد، عکرمہ، حسن بصری، قتادہ، ابراہیم نخَعی اور اَوزاعی اس سے مراد نماز مغرب کے بعد کی دو رکعتیں لیے ہیں۔ حضرت عبداللہ ن عَمرو بن العاص اور ایک روایت کے بموجب حضرت عبداللہ بن عباس کا بھی یہ خیال ہے کہ اس سے مراد ذکر بعد الصلوٰۃ ہے۔ اور ابن زید کہتے ہیں کہ اس ارشاد کا مقصود یہ ہے کہ فرائض کے بعد بھی نوافل ادا کے جائیں۔ صحیحین میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ غریب مہاجرین نے حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ مالدار لوگ تو بڑے درجے لوٹ لے گئے۔ حضورؐ نے فرمایا ’’ کیا ہوا‘‘؟۔ انہوں نے عرض کیا وہ بھی نمازیں پڑھتے ہیں جیسے ہم پڑھتے ہیں اور روزے رکھتے ہیں جیسے ہم رکھتے ہیں، مگر وہ صدقہ کرتے ہیں اور ہم نہیں کر سکتے، وہ غلام آزاد کرتے ہیں اور ہم نہیں کر سکتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا’’ کیا میں تمہیں ایسی چیز بتاؤں جسے اگر تم کرو تو تم دوسرے لوگوں سے بازی لے جاؤ گے بجز ان کے جو وہی عمل کریں جو تم کرو گے؟ وہ عمل یہ ہے کہ تم ہر نماز کے بعد 33۔33 مرتبہ سبحان اللہ، الحمد لِلّٰہ، اللہ اکبر کہا کرو‘‘۔ کچھ مدت کے بعد ان لوگوں نے عرض کیا کہ ہمارے مال دار بھائیوں نے بھی یہ بات سن لی ہے اور وہ بھی یہی عمل کرنے لگے ہیں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا ذٰلک فضل اللہ یؤتیہ من یشآء۔ ایک روایت میں ان کلمات کی تعداد 33۔ 33 کے بجائے دس دس بھی منقول ہوئی ہے۔ حضرت زید بن ثابت کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم کو ہدایت فرمائی تھی کہ ہم ہر نماز کے بعد 33۔ 33 مرتبہ سبحان اللہ اور الحمد لِلّٰہ کہا کریں اور 34 مرتبہ اللہ اکبر کہیں۔ بعد میں ایک انصاری نے عرض کیا میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ کوئی کہتا ہے اگر تم 25۔25 مرتبہ یہ تین کلمے کہو اور پھر 25 مرتبہ لا اِلٰہ الا اللہ کہو تو یہ زیادہ بہتر ہوگا۔ حضورؐ نے فرمایا اچھا اسی طرح کیا کرو۔(احمد۔نسائی۔ دارمی)۔ حضرت ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز سے فارغ ہو کر جب پلٹتے تھے تو میں نے آپ کو یہ الفاظ کہتے سنا ہے :سُبْحَا نَ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزِّۃِ عَمَّایَصِفُوْنَ o وَسَلَامٌ عَلی َالْمُرْسَلِیْنَ o وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o (احکام القرآن للجصاص)۔

اس کے علاوہ بھی ذکر بعد الصلوٰۃ کی متعدد صورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول ہوئی ہیں۔ جو حضرات قرآن مجید کی اس ہدایت پر عمل کرنا چاہیں وہ مشکوٰۃ، باب الذکر بعد الصلوٰۃ میں سے کوئی ذکر جو ان کے دل کو سب سے زیادہ لگے، چھانٹ کر یاد کر لیں اور اس کا التزام کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اپنے بتائے ہوئے ذکر سے بہتر اور کونسا ذکر ہو سکتا ہے۔ مگر یہ خیال رکھیں کہ ذکر سے اصل مقصود چند مخصوص الفاظ کو زبان سے گزار دینا نہیں ہے بلکہ ان معانی کو ذہن میں تازہ اور مستحکم کرنا ہے جو ان الفاظ میں بیان کیے گئے ہیں۔ اس لیے جو ذکر بھی کیا جائے اس کے معنی اچھی طرح سمجھ لینے چاہییں اور پھر معنی کے استحضار کے ساتھ ذکر کرنا چاہیے۔

52. یعنی جو شخص جہاں مرا پڑا ہوگا، یا جہاں بھی دنیا میں اس کی موت واقع ہوئی تھی، وہیں خدا کے منادی کی آواز اس کو پہنچے گی کہ اٹھو اور چلو اپنے رب کی طرف اپنا حساب دینے کے لیے۔ یہ آواز کچھ اس طرح کی ہوگی روئے زمین کے چپے چپے پر جو شخص بھی زندہ ہوکر اٹھے گا وہ محسوس کرے گا کہ پکارنے والے نے کہیں قریب ہی سے اس کو پکارا ہے۔ ایک ہی وقت میں پورے کرۂ ارض پرہر جگہ یہ آواز یکساں سنائی دے گی۔اس سے بھی کچھ اندازہ ہوسکتا ہے کہ عالم آخرت میں زمان ومکان کے اعتبارات ہماری موجودہ دنیا کی بہ نسبت کس قدر بدلے ہوئے ہوں گے اور کیسی قوتیں کس طرح کے قوانین کے مطابق وہاں کا کر فرما ہوں گی۔

53. اصل الفاظ ہیں یَسْمَعُوْنَ الصَّیْحَۃَ بِالْحَقِّ۔ اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ سب لوگ امِر حق کی پکار کو سن رہے ہوں گے۔ دوسرے یہ کہ آوازۂ حشر کو ٹھیک ٹھیک سن رہے ہوں گے۔ پہلے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ لوگ اسی امر حق کی پکار کو اپنے کانوں سے سن رہے ہوں گے جس کو دنیا میں وہ ماننے کے لیے تیار نہ تھے، جس سے انکار کرنے پر انہیں اصرار تھا، اور جس کی خبر دینے والے پیغمبروں کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ وہ یقینی طور پر یہ آوازۂ حشر سنیں گے، انہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ یہ کوئی وہم نہیں ہے بلکہ واقعی یہ آوازۂحشر ہی ہے، کوئی شبہ انہیں اس امر میں نہ رہے گا کہ جس حشر کی انہیں خبر دی گئی تھی وہ آگیا ہے اور یہ اسی کی پکار بلند ہو رہی ہے۔

54. یہ جواب ہے کفار کی اس بات کا جو آیت نمبر 3 میں نقل کی گئی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ بھلا یہ کیسے ہو سکتا کہ جب ہم مر کر خاک ہو چکے ہوں اس وقت ہمیں پھر سے زندہ کر کے اٹھا کھڑا کیا جائے، یہ واپسی تو بعید از عقل و امکان ہے۔ ان کی اسی بات کے جواب میں فرمایا گیا ہے کہ یہ حشر، یعنی سب اگلے پچھلے انسانوں کو بیک وقت زندہ کر کے جمع کر لینا ہمارے لیے بالکل آسان ہے۔ ہمارے لیے یہ معلوم کرنا کچھ مشکل نہیں ہے کہ کس شخص کی خاک کہاں پڑی ہے ہمیں یہ جاننے میں بھی کوئی وقت نہیں پیش آئے گی کہ ان بکھرے ہوئے ذرات میں سے زید کے ذرات کون سے ہیں اور بکر کے ذرات کون سے۔ ان سب کو الگ الگ سمیٹ کر ایک ایک آدمی کا جسم پھر سے بنا دینا، اور اس جسم میں اسی شخصیت کو از سر نو پیدا کر دینا جو پہلے اس میں رہ چکی تھی، ہمارے لیے کوئی بڑا محنت طلب کام نہیں ہے، بلکہ ہمارے ایک اشارے سے یہ سب کچھ آناً فاناً ہو سکتا ہے۔ وہ تمام انسان جو آدم کے وقت سے قیامت تک دنیا میں پیدا ہوئے ہیں ہمارے ایک حکم پر بڑی آسانی سے جمع ہو سکتے ہیں۔ تمہارا چھوٹا سا دماغ اسے بعید سمجھتا ہو تو سمجھا کرے۔ خالق کائنات کی قدرت سے یہ بعید نہیں ہے۔

55. اس فقرے میں رسول اللہ صلی اللہ و سلم کے لیے تسلی بھی ہے اور کفار کے لیے دھمکی بھی۔ حضورؐ کو مخاطب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ تم پر جو باتیں یہ لوگ بنا ہے ہیں ان کی قطعاً پروانہ کرو، ہم سب کچھ سن رہے ہیں اور ان سے نمٹنا ہمارا کام ہے۔ کفار کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ ہمارے نبی پر جو فقرے تم کس رہے ہو وہ تمہیں بہت مہنگے پڑیں گے۔ ہم خود ایک ایک بات سن رہے ہیں اور اس کا خمیازہ تمہیں بھگتنا پڑے گا۔

56. اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم جبراً لوگوں سے اپنی بات منوانا چاہتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے روک دیا۔ بلکہ در اصل یہ بات حضورؐ کو مخاطب کر کے کفار کو سنائی جا رہی ہے۔ گویا ان سے یہ کہا جا رہا ہے کہ ہمارا نبی تم پر جبار بنا کر نہیں بھیجا گیا ہے۔اس کا کام زبردستی تمہیں مومن بنانا نہیں کہ تم نہ ماننا چاہو اور وہ جبراً تم سے منوائے۔ اس کی ذمہ داری تو بس اتنی ہے کہ جو متنبہ کرنے سے ہوش میں آ جائے اسے قرآن سنا کر حقیقت سمجھا دے۔ اب اگر تم نہیں مانتے تو نبی تم سے نہیں نمٹے گا بلکہ ہم تم سے نمٹیں گے۔