Tafheem ul Quran

Surah 51 Adh-Dhariyat, Ayat 1-23

وَالذّٰرِيٰتِ ذَرۡوًا ۙ‏ ﴿51:1﴾ فَالۡحٰمِلٰتِ وِقۡرًا ۙ‏ ﴿51:2﴾ فَالۡجٰرِيٰتِ يُسۡرًا ۙ‏ ﴿51:3﴾ فَالۡمُقَسِّمٰتِ اَمۡرًا ۙ‏ ﴿51:4﴾ اِنَّمَا تُوۡعَدُوۡنَ لَصَادِقٌ ۙ‏ ﴿51:5﴾ وَّاِنَّ الدِّيۡنَ لوَاقِعٌ ؕ‏ ﴿51:6﴾ وَالسَّمَآءِ ذَاتِ الۡحُـبُكِ ۙ‏ ﴿51:7﴾ اِنَّـكُمۡ لَفِىۡ قَوۡلٍ مُّخۡتَلِفٍ ۙ‏ ﴿51:8﴾ يُّـؤۡفَكُ عَنۡهُ مَنۡ اُفِكَ ؕ‏ ﴿51:9﴾ قُتِلَ الۡخَـرّٰصُوۡنَۙ‏ ﴿51:10﴾ الَّذِيۡنَ هُمۡ فِىۡ غَمۡرَةٍ سَاهُوۡنَۙ‏ ﴿51:11﴾ يَسۡـئَـلُوۡنَ اَيَّانَ يَوۡمُ الدِّيۡنِؕ‏ ﴿51:12﴾ يَوۡمَ هُمۡ عَلَى النَّارِ يُفۡتَنُوۡنَ‏ ﴿51:13﴾ ذُوۡقُوۡا فِتۡنَتَكُمۡؕ هٰذَا الَّذِىۡ كُنۡتُمۡ بِهٖ تَسۡتَعۡجِلُوۡنَ‏ ﴿51:14﴾ اِنَّ الۡمُتَّقِيۡنَ فِىۡ جَنّٰتٍ وَّعُيُوۡنٍۙ‏ ﴿51:15﴾ اٰخِذِيۡنَ مَاۤ اٰتٰٮهُمۡ رَبُّهُمۡ​ؕ اِنَّهُمۡ كَانُوۡا قَبۡلَ ذٰلِكَ مُحۡسِنِيۡنَؕ‏  ﴿51:16﴾ كَانُوۡا قَلِيۡلًا مِّنَ الَّيۡلِ مَا يَهۡجَعُوۡنَ‏ ﴿51:17﴾ وَبِالۡاَسۡحَارِ هُمۡ يَسۡتَغۡفِرُوۡنَ‏ ﴿51:18﴾ وَفِىۡۤ اَمۡوَالِهِمۡ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالۡمَحۡرُوۡمِ‏ ﴿51:19﴾ وَفِى الۡاَرۡضِ اٰيٰتٌ لِّلۡمُوۡقِنِيۡنَۙ‏ ﴿51:20﴾ وَفِىۡۤ اَنۡفُسِكُمۡ​ؕ اَفَلَا تُبۡصِرُوۡنَ‏ ﴿51:21﴾ وَفِى السَّمَآءِ رِزۡقُكُمۡ وَمَا تُوۡعَدُوۡنَ‏ ﴿51:22﴾ فَوَرَبِّ السَّمَآءِ وَالۡاَرۡضِ اِنَّهٗ لَحَـقٌّ مِّثۡلَ مَاۤ اَنَّكُمۡ تَنۡطِقُوۡنَ‏ ﴿51:23﴾

1 - قسم ہے ان ہواؤں کی جو گرد اڑانے والی ہیں، 2 - پھر پانی سے لدے ہوئے بادل اٹھانے والی ہیں۔ 1 3 - پھر سُبک رفتاری کے ساتھ چلنے والی ہیں، 4 - پھر ایک بڑے کام (بارش) کی تقسیم کرنے والی ہیں، 2 5 - حق یہ ہے کہ جس چیز کا تمہیں خوف دلایا جارہا ہے 3 وہ سچی ہے 6 - اور جزائے اعمال ضرور پیش آنی ہے۔4 7 - قسم ہے متفرق شکلوں والے آسمان کی، 5 8 - (آخرت کے بارے میں) تمہاری بات ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ 6 9 - اس سے وہی بر گشتہ ہوتا ہے جو حق سے پِھرا ہوا ہے۔ 7 10 - مارے گئے قیاس و گمان سے حکم لگانے والے، 8 11 - جو جہالت میں غرق اور غفلت میں مدہوش ہیں۔ 9 12 - پوچھتے ہیں آخر وہ روزِ جزاء کب آئے گا؟ 13 - وہ اُس روز آئے گا جب یہ لوگ آگ پر تپائے جائیں گے۔ 10 14 - (اِن سے کہا جائےگا) اب چکھو مزا اپنے فتنے کا۔11 یہ وہی چیز ہےجس کے لیے تم جلدی مچارہے تھے۔ 12 15 - البتہ متّقی لوگ 13 اُس روز باغوں اور چشموں میں ہوں گے، 16 - جو کچھ ان کا رب انہیں دے گا اسے خوشی خوشی لے رہے ہوں گے۔ 14 وہ اُس دن کے آنے سے پہلے نیکو کار تھے، 17 - راتوں کو کم ہی سوتے تھے۔ 15 18 - پھر وہی رات کے پچھلے پہروں میں معافی مانگتے تھے،16 19 - اور ان کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لیے۔17 20 - زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں یقین لانے والوں کے لیے، 18 21 - اور خود تمہارے اپنے وجود میں ہیں۔ 19 کیا تم کو سُوجھتا نہیں؟ 22 - آسمان ہی میں ہے تمہارا رزق بھی اور وہ چیز بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔ 20 23 - پس قسم ہے آسمان اور زمین کے مالک کی، یہ بات حق ہے، ایسی ہی یقینی جیسے تم بول رہے ہو۔ ؏۱


Notes

1. اس امر پر تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ الذاریات سے مراد پراگندہ کرنے والی اور گردو غبار اڑانے والی ہوائیں ہیں، اور اَلْحٰمِلٰتِ وِقْراً، (بھاری بوجھ اٹھانے والیوں) سے مراد وہ ہوائیں ہیں جو سمندروں سے لاکھوں کروڑوں گیلن پانی کے بخارات بادلوں کی شکل میں اٹھا لیتی ہیں۔ یہی تفسیر حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن عمر اور مجاہد، سعید بن جبیر، حسن بصری، قتادہ اور سدی وغیرہ حضرات سے منقول ہے۔

2. الجَارِیَا تِ یُسْراً اور المُقَسِّمٰتِ اَمْراً کی تفسیر میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ ایک گروہ نے اس بات کو ترجیح دی ہے، یا یہ مفہوم لینا جائز رکھا ہے کہ ان دونوں سے مراد بھی ہوائیں ہی ہیں، یعنی یہی ہوائیں پھر بادلوں کو لے کر چلتی ہیں اور پھر روئے زمین کے مختلف حصوں میں پھیل کر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق، جہاں جتنا حکم ہوتا ہے، پانی تقسیم کرتی ہیں۔ دوسرے گروہ نے الجَارِیَاتِ یُسْراً سے مراد سبک رفتاری کے ساتھ چلنے والی کشتیاں لی ہیں اور المُقَسِّمٰتِ اَمْراً سے مراد وہ فرشتے لیے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اس کی مخلوقات کے نصیب کی چیزیں ان میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایک روایت کی رو سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان دونوں فقروں کا یہ مطلب بیان کر کے فرمایا کہ اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے نہ سنا ہوتا تو میں اسے بیان نہ کرتا۔ اسی بنا پر علامۂ آلوسی اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ اس کے سوا ان فقروں کا کوئی اور مطلب لینا جائز نہیں ہے اور جن لوگوں نے کوئی دوسرا مفہوم لیا ہے انہوں نے بے جا جسارت کی ہے۔ لیکن حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس روایت کی سند ضعیف ہے اس کی بنیاد پر قطعیت کے ساتھ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ فی الواقع حضورؐ ہی نے ان فقروں کی یہ تفسیر فرمائی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ صحابہ و تابعین کی ایک معتد بہ جماعت سے یہی دوسری تفسیر منقول ہے، لیکن مفسرین کی ایک اچھی خاصی جماعت نے پہلی تفسیر بھی بیان کی ہے اور سلسلہ کلام سے وہ زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔ شاہ رفیع الدین صاحب، شاہ عبدالقادر صاحب اور مولانا محمود الحسن صاحب نے بھی اپنے ترجموں میں پہلا مفہوم ہی لیا ہے۔

3. اصل میں لفظ تُوْعَدُوْنَ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ اگر وَعْد سے ہو تو اس کا مطلب ہو گا ’’جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے ‘‘۔ اور وَعید سے ہو تو مطلب یہ ہو گا کہ ’’ جس چیز کا تم کو ڈراوا دیا جا رہا ہے ‘‘۔ زبان کے لحاظ سے دونوں مطلب یکساں درست ہیں۔ لیکن موقع و محل کے ساتھ دوسرا مفہوم زیادہ مناسبت رکھتا ہے، کیونکہ مخاطب وہ لوگ ہیں جو کفر و شرک اور فسق و فجور میں غرق تھے اور یہ بات ماننے کے لیے تیار نہ تھے کہ کبھی ان کو محاسبے اور جزائے اعمال سے بھی سابقہ پیش آنے والا ہے۔ اسی لیے ہم نے تُوْعَدُوْنَ کو وعدے کے بجائے وعید کے معنی میں لیا ہے۔

4. یہ ہے وہ بات جس پر قسم کھائی گئی ہے۔ اس قسم کا مطلب یہ ہے کہ جس بے نظیر نظم اور باقاعدگی کے ساتھ بارش کا یہ عظیم الشان ضابطہ تمہاری آنکھوں کے سامنے چل رہا ہے، اور جو حکمت اور مصلحتیں اس میں صریح طور پر کار فرما نظر آتی ہیں، وہ اس بات پر گواہی دے رہی ہیں کہ یہ دنیا کوئی بے مقصد اور بے معنی گھروندا نہیں ہے جس میں لاکھوں کروڑوں برس سے ایک بہت بڑا کھیل بس یوں ہی الل ٹپ ہوئے جا رہا ہو، بلکہ یہ در حقیقت ایک کمال درجے کا حکیمانہ نظام ہے جس میں ہر کام کسی مقصد اور کسی مصلحت کے لیے ہو رہا ہے۔ اس نظام میں یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ یہاں انسان جیسی ایک مخلوق کو عقل، شعور، تمیز اور تصرف کے اختیارات دے کر، اس میں نیکی و بدی کی اخلاقی حس پیدا کر کے، او راسے ہر طرح کے اچھے اور برے، صحیح اور غلط کاموں کے مواقع دے کر، زمین میں تُرکتازیاں کرنے کے لیے محض فضول اور لایعنی طریقے سے چھوڑ دیا جائے، اور اس سے کبھی یہ باز پرس نہ ہو کہ دل و دماغ اور جسم کی جو قوتیں اس کو دی گئی تھیں، دنیا میں کام کرنے کے لیے جو وسیع ذرائع اس کے حوالے کیے گئے تھے، اور خدا کی بے شمار مخلوقات پر تصرف کے جو اختیارات اسے دیے گئے تھے،انکو اس نے کس طرح استعمال کیا۔ جس نظام کائنات میں سب کچھ با مقصد ہے، اس میں صرف انسان جیسی عظیم مخلوق کی تخلیق کیسے بے مقصد ہو سکتی ہے ! جس نظام میں ہر چیز مبنی بر حکمت ہے اس میں تنہا ایک انسان ہی کی تخلیق کیسے فضول اور عبث ہو سکتی ہے؟ مخلوقات کی جو اقسام عقل و شعور نہیں رکھتیں ان کی تخلیق کی مصلحت تواسی عالم طبیعی میں پوری ہو جاتی ہے۔ اس لیے اگر وہ اپنی مدت عمر ختم ہونے کے بعد ضائع کر دی جائیں تو یہ عین معقول بات ہے، کیونکہ انہیں کوئی اختیارات دیے ہی نہیں گئے ہیں کہ ان سے محاسبے کا کوئی سوال پیدا ہو۔ مگر عقل و شعور اور اختیارات رکھنے والی مخلوق، جس کے افعال محض عالم طبیعت تک محدود نہیں ہیں بلکہ اخلاقی نوعیت بھی رکھتے ہیں، اور جس کے اخلاقی نتائج پیدا کرنے والے اعمال کا سلسلہ محض زندگی کی آخری ساعت تک ہی نہیں چلتا بلکہ مرنے کے بعد بھی اس پر اخلاقی نتائج مترتب ہوتے رہتے ہیں، اسے صرف اس کا طبیعی کام ختم ہو جانے کے بعد نباتات و حیوانات کی طرح کیسے ضائع کیا جا سکتا ہے؟ اس نے تو اپنے اختیار و ارادہ سے جو نیکی یا بدی بھی کی ہے اس کی ٹھیک ٹھیک مبنی برحق و انصاف جزاء اس کو لازماً ملنی ہی چاہیے، کیونکہ یہ اس مصلحت کا بنیادی تقاضا ہے جس کے تحت دوسری مخلوقات کے برعکس اسکو ایک ذی اختیار مخلوق بنایا گیا ہے۔ اس سے محاسبہ نہ ہو، اس کے اخلاقی اعمال پر جزاء و سزانہ ہو، اور اس کو بھی بے اختیار مخلوقات کی طرح عمر طبیعی ختم ہونے پر ضائع کر دیا جائے، تو لامحالہ اس کی تخلیق سراسر عبث ہو گی، اور ایک حکیم سے فعل عبث کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

اس کے علاوہ آخرت اور جزاء و سزا کے وقوع پر ان چار مظاہر کائنات کی قسم کھانے کی ایک اور وجہہ بھی ہے۔ منکرین آخرت زندگی بعد موت کو جس بنا پر غیر ممکن سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم جب مر کر خاک میں رل مل جائیں گے اور ہمارا ذرہ ذرہ جب زمین میں منتشر ہو جائے گا تو کیسے ممکن ہے کہ سارے منتشر اجزائے جسم پھر اکٹھے ہو جائیں اور ہمیں دو بارہ بنا کر کھڑا کیا جائے۔ اس شبہ کی غلطی ان چاروں مظاہر کائنات پر غور کرنے سے خود بخود رفع ہو جاتی ہے جنیہں آخرت کے لیے دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ سورج کی شعاعیں روئے زمین کے ان تمام ذخائر آب پر اثر انداز ہوتی ہیں جن تک ان کی حرارت پہنچتی ہے۔ اس عمل سے پانی کے بے حد و حساب قطرے اڑ جاتے ہیں اور اپنے مخزن میں باقی نہیں رہتے۔ مگر وہ فنا نہیں ہو جاتے بلکہ بھاپ بنکر ایک ایک قطرہ ہوا میں محفوظ رہتا ہے۔ پھر جب خدا کا حکم ہوتا ہے تو یہ ہوا ان قطروں کی بھاپ کو سمیٹ لاتی ہے،اس کو کثیف بادلوں کی شکل میں جمع کرتی ہے، ان بادلوں کے لے کر روئے زمین کے مختلف حصوں میں پھیل جاتی ہے، اور خدا کی طرف سے جو وقت مقرر ہے ٹھیک اسی وقت ایک ایک قطرے کو اسی شکل میں جس میں وہ پہلے تھا، زمین پر واپس پہنچا دیتی ہے۔ یہ منظر جو آئے دن انسان کی آنکھوں کے سامنے گزر رہا ہے، اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ مرے ہوئے انسانوں کے اجزائے جسم بھی اللہ تعالیٰ کے ایک اشارے پر جمع ہو سکتے ہیں اور ان انسانوں کو اسی شکل میں پھر اُٹھا کھڑا کیا جا سکتا ہے جس میں وہ پہلے موجود تھے۔ یہ اجزا خواہ مٹی میں ہوں، یا پانی میں، یا ہوا میں، بہر حال رہتے اسی زمین اور اس کے ماحول ہی میں ہیں۔ جو خدا پانی کے بخارات کو ہوا میں منتشر ہو جانے کے بعد پھر اسی ہوا کے ذریعہ سے سمیٹ لاتا ہے اور انہیں پھر پانی کی شکل میں برسا دیتا ہے، اس کے لیے انسانی جسموں کے بکھرے ہوئے اجزاء کو ہوا، پانی اور مٹی میں سے سمیٹ لانا اور پھر سابق شکلوں میں جمع کر دینا آخر کیوں مشکل ہو؟

5. اصل میں لفظ ذاتِ الْحُبُکِ استعمال ہوا ہے۔ حبُک راستوں کو بھی کہتے ہیں۔ ان لہروں کو بھی کہتے ہیں جو ہوا کےچلنے سے ریگستان کی ریت اور ٹھیرے ہوئے پانی میں پیدا ہو جاتی ہیں۔ اور گھونگھر والے بالوں میں جو لٹیں سے بن جاتی ہیں ان کے لیے بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ یہاں آسمان کو حُبک والا یا تو اس لحاظ سے فرمایا گیا ہے کہ آسمان پر اکثر طرح طرح کی شکلوں والے بادل چھائے رہتے ہیں جن میں ہوا کے اثر سے بار بار تغیر ہوتا ہے اور کبھی کوئی شکل نہ خود قائم رہتی ہے، نہ کسی دوسری شکل سے مشابہ ہوتی ہے۔ یا اس بنا پر فرمایا گیا ہے کہ رات کے وقت آسمان پر جب تارے بکھرے ہوتے ہیں تو آدمی دیکھتا ہے کہ ان کی بہت سی مختلف شکلیں ہیں اور کوئی شکل دوسری شکل سے نہیں ملتی۔

6. اس اقوال پر متفرق شکلوں والے آسمان کی قسم تشبیہ کے طور پر کھائی گئی ہے۔ یعنی جس طرح آسمان کے بادلوں اور تاروں کے جھرمٹوں کی شکلیں مختلف ہیں اور ان میں کوئی مطابقت نہیں پائی جاتی اسی طرح آخرت کے متعلق تم لوگ بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہو اور ہر ایک بات دوسرے سے مختلف ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ دنیا ازلی و ابدی ہے اور کوئی قیامت برپا نہیں ہو سکتی۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ نظام حادث ہے اور ایک وقت میں یہ جا کر ختم بھی ہو سکتا ہے، مگر انسان سمیت جو چیز بھی فنا ہو گئی، پھر اس کا اعادہ ممکن نہیں ہے۔ کوئی اعادے کو ممکن مانتا ہے، مگر اس کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان اپنے اعمال کے اچھے اور برے نتائج بھگتنے کے لیے بار بار اسی دنیا میں جنم لیتا ہے۔ کوئی جنت اور جہنم کا بھی قائل ہے، مگر اس کے ساتھ تناسُخ کو بھی ملاتا رہتا ہے، یعنی اس کا خیال یہ ہے کہ گناہ گار جہنم میں بھی جا کر سزا بھگتتا ہے اور پھر اس دنیا میں بھی سزا پانے کے لیے جنم لیتا رہتا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ دنیا کی زندگی خود ایک عذاب ہے جب تک انسان کے نفس کو مادی زندگی سے لگاؤ باقی رہتا ہے اس وقت تک وہ اس دنیا میں مر مر کر پھر جنم لیتا رہتا ہے، اور اس کی حقیقی نجات (نِروان) یہ ہے کہ وہ بالکل فنا ہو جائے۔ کوئی آخرت اور جنت و جہنم کا قائل ہے، مگر کہتا ہے کہ خدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کو صلیب پر موت دے کر انسان کے ازلی گناہ کا کفارہ ادا کر دیا ہے، اور اس بیٹے پر ایمان لا کر آدمی اپنے اعمال بد کے برے نتائج سے بچ جائے گا۔ کچھ دوسرے لوگ آخرت اور جزا و سزا، ہر چیز کو مان کر بعض ایسے بزرگوں کو شفیع تجویز کر لیتے ہیں جو اللہ کے ایسے پیارے ہیں، یا اللہ کے ہاں ایسا زور رکھتے ہیں کہ جو ان کا دامن گرفتہ ہو وہ دنیا میں سب کچھ کر کے بھی سزا سے بچ سکتا ہے۔ ان بزرگ ہستیوں کے بارے میں بھی اس عقیدے کے ماننے والوں میں اتفاق نہیں ہے،بلکہ ہر ایک گروہ نے اپنے الگ الگ شفیع بنا رکھے ہیں۔ یہ اختلاف اقوال خود ہی اس امر کا ثبوت ہےکہ وحی و رسالت سے بے نیاز ہو کر انسان نے اپنے اور اس دنیا کے انجام پر جب بھی کوئی رائے قائم کی ہے،علم کے بغیر قائم کی ہے۔ ورنہ اگر انسان کے پاس اس معاملہ میں فی الواقع براہ راست علم کا کوئی ذریعہ ہوتا تو اتنے مختلف اور متضاد عقیدے پیدا نہ ہوتے۔

7. اصل الفاظ ہیں یُؤْفَکْ عَنْہُ مَنْ اُفِکَ اس فقرے میں عَنْہُ کی ضمیر کے دو مرجع ہو سکتے ہیں۔ ایک جزائے اعمال۔ دوسرے قول مختلف۔پہلی صورت میں اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ ’’ جزائے اعمال کو تو ضرور پیش آنا ہے، تم لوگ اس کے بارے میں طرح طرح کے مختلف عقیدے رکھتے ہو، مگر اس کو ماننے سے وہی شخص برگشتہ ہوتا ہے جو حق سے پھرا ہوا ہے۔’’ دوسرے صورت میں مطلب یہ ہے کہ ’’ ان مختلف اقوال سے وہی شخص گمراہ ہوتا ہے جو دراصل حق سے برگشتہ ہے ‘‘

8. ان الفاظ میں قرآن مجید ایک اہم حقیقت پر انسان کو متنبہ کر رہی ہے۔ قیاس و گمان کی بنا پر کوئی اندازہ کرنا یا تخمینہ لگانا، دنیوی زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں تو کسی حد تک چل سکتا ہے، اگر چہ علم کا قائم مقام پھر بھی نہیں ہو سکتا، لیکن اتنا بڑا بنیادی مسئلہ کہ ہم اپنی پوری زندگی کے اعمال کے لیے کسی کے سامنے ذمہ دار و جواب دہ ہیں یا نہیں، اور ہیں تو کس کے سامنے، کب اور کیا جوابدہی ہمیں کرنی ہو گی، اور اس جوابدہی میں کامیابی و ناکامی کے نتائج کیا ہوں گے، یہ ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ اس کے متعلق آدمی محض اپنے قیاس و گمان کے مطابق ایک اندازہ قائم کر لے اور پھر اسی جوئے کے داؤں پر اپنا تمام سرمایۂ حیات لگا دے۔ اس لیے کہ یہ اندازہ اگر غلط نکلے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ آدمی نے اپنے کو بالکل تباہ و برباد کر لیا۔ مزید براں یہ مسئلہ سرے سے ان مسائل میں سے ہے ہی نہیں جن کے بارے میں آدمی محض قیاس اور ظن و تخمین سے کوئی صحیح رائے قائم کر سکتا ہو۔کیونکہ قیاس ان امور میں چل سکتا ہے جو انسان کے دائرہ محسوسات میں شامل ہوں، اور یہ مسئلہ ایسا ہے جس کا کوئی پہلو بھی محسوسات کے دائرے میں نہیں آتا۔لہٰذا یہ بات ممکن ہی نہیں ہے کہ اس کے بارے میں کوئی قیاسی اندازہ صحیح ہو سکے۔ اب رہا یہ سوال کہ بھی آدمی کے لیے ان ماورائے حس و ادراک مسائل کے بارے میں رائے قائم کرنے کی صحیح صورت کیا ہے، تو اس کا جواب قرآن مجید میں جگہ جگہ یہ دیا گیا ہے، اور خود اس سورہ سے بھی یہی جواب مترشح ہوتا ہے کہ(1) انسان براہ راست خود حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا، (2) حقیقت کا علم اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی ذریعہ سے دیتا ہے، اور (3) اس علم کی صحت کے متعلق آدمی اپنا اطمینان اس طریقہ سے کر سکتا ہے کہ زمین اور آسمان اور خود اس کے اپنے نفس میں جو بے شمار نشانیاں موجود ہیں ان پر غائر نگاہ ڈال کر دیکھے اور پھر بے لاگ طرز پر سوچے کہ یہ نشانیاں آیا اس حقیقت کی شہادت دے رہی ہیں جو نبی بیان کر رہا ہے، یا ان مختلف نظریات کی تائید کرتی ہیں جو دوسرے لوگوں نے اس کے بارے میں پیش کیے ہیں؟ خدا اور آخرت کے متعلق علمی تحقیق کا یہی ایک طریقہ ہے جو قرآن میں بتایا گیا ہے۔ اس سے ہٹ کر جو بھی اپنے قیاسی اندازوں پر چلا وہ مارا گیا۔

9. یعنی انہیں کچھ پتہ نہیں ہے کہ اپنے ان غلط اندازوں کی وجہ سے وہ کس انجام کی طرف چلے جا رہے ہیں۔ ان اندازوں کی بنا پر جو راستہ بھی کسی نے اختیار کیا ہے وہ سیدھا تباہی کی طرف جاتا ہے۔ جو شخص آخرت کا منکر ہے وہ سرے سے کسی جوابدہی کی تیاری ہی نہیں کر رہا ہے اور اس خیال میں مگن ہے کہ مرنے کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہو گی، حالانکہ اچانک وہ وقت آ جائے گا جب اس کی توقعات کے بالکل خلاف دوسری زندگی میں اس کی آنکھیں کھلیں گی، اور اسے معلوم ہو گا کہ یہاں اس کو اپنے ایک ایک عمل کی جواب دہی کرنی ہے۔ جو شخص اس خیال میں ساری عمر کھپا رہا ہے کہ مر کر پھر اسی دنیا میں واپس آؤں گا اسے مرتے ہی معلوم ہو جائے گا کہ اب واپسی کے سارے دروازے بند ہیں، کسی نئے عمل سے پچھلی زندگی کے اعمال کی تلافی کا اب کوئی موقع نہیں،اور آگے ایک اور زندگی ہے جس میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسے اپنی دنیوی زندگی کے نتائج دیکھنے اور بھگتنے ہیں۔ جو شخص اس امید میں اپنے آپ کو ہلاک کیے ڈالتا ہے کہ نفس اور اس کی خواہشات کو جب پوری طرح مار دونگا تو فنائے محض کی شکل میں مجھے عذاب ہستی سے نجات مل جائے گی، وہ موت کے دروازے سے گزرتے ہی دیکھ لے گا کہ آگے فنا نہیں بلکہ بقا ہے اور اسے اب اس امر کی جوابدہی کرنی ہے کہ کیا تجھے وجود کی نعمت اسی لیے دی گئی تھی کہ تو اسے بنانے اور سنوارنے کے بجائے مٹانے میں اپنی ساری محنتیں صرف کر دیتا؟ اسی طرح جو شخص کسی ابن اللہ کے کفارہ بن جانے یا کسی بزرگ ہستی کے شفیع بن جانے پر بھروسہ کر کے عمر بھر خدا کی نا فرمانیاں کرتا رہا اسے خدا کے سامنے پہنچتے ہی پتہ چل جائے گا کہ یہاں نہ کوئی کسی کا کفارہ ادا کرنے والا ہے اور نہ کسی میں یہ طاقت ہے کہ اپنے زور سے یا اپنی محبوبیت کے صدقے میں کسی کو خدا کی پکڑ سے بچا لے۔ پس یہ تمام قیاسی عقیدے در حقیقت ایک افیون ہیں جس کی پینک میں یہ لوگ بے سدھ پڑے ہوئے ہیں اور انہیں کچھ خبر نہیں ہے کہ خدا اور نبیاء کے دیے ہوئے صحیح علم کو نظر انداز کر کے اپنی جس جہالت پر یہ مگن ہیں وہ انہیں کدھر لیے جا رہی ہے۔

10. کفارکا یہ سوال کہ روز جزاء کب آئے گا، علم حاصل کرنے کے لیے نہ تھا بلکہ طعن اور استہزاء کے طور پر تھا، اس لیے ان کو جواب اس انداز سے دیا گیا۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے آپ کسی شخص کو بد کرداریوں سے باز نہ آنے کی نصیحت کرتے ہوئے اس سے کہیں کہ ایک روز ان حرکات کا برا نتیجہ دیکھو گے، اور وہ اس پر ایک ٹھٹھا مار کر آپ سے پوچھے کہ حضرت، آخر وہ دن کب آئے گا؟ ظاہر ہے کہ اس کا یہ سوال اس بُرے انجام کی تاریخ معلوم کرنے کے لیے نہیں بلکہ آپ کی نصیحتوں کا مذاق اڑانے کے لیے ہو گا۔ اس لیے اس کا صحیح جواب یہی ہے کہ وہ اس روز آئے گا جب تمہاری شامت آئے گی۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ آخرت کے مسئلے پر اگر کوئی منکر آخرت سنجیدگی کے ساتھ بحث کر رہا ہو تو وہ اس کے موافق و مخالف دلائل پر تو بات کر سکتا ہے، مگر جب تک اس کا دماغ بالکل ہی خراب نہ ہو چکا ہو، یہ سوال وہ کبھی نہیں کر سکتا بتاؤ، وہ آخرت کس تاریخ کو آئے گی۔اس کی طرف سے یہ سوال جب بھی ہو گا طنز اور تمسخر کے طور پر ہی ہو گا۔ اس لیے کہ آخرت کے آنے کی تاریخ بیان کرنے اور نہ کرنے کا کوئی اثر بھی اصل بحث پر نہیں پڑتا۔ کوئی شخص نہ اس بنا پر آخرت کا انکار کرتا ہے کہ اس کی آمد کا سال، مہینہ اور دن نہیں بتایا گیا ہے، اور نہ یہ سن کر اس کی آمد کو مان سکتا ہے کہ وہ فلاں سال فلاں مہینے کی فلاں تاریخ کو آئے گی۔ تاریخ کا تعین سرےسے کوئی دلیل ہی نہیں ہے کہ وہ کسی منکر کو اقرار پر آمادہ کر دے، کیونکہ اس کے بعد پھر یہ سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ دن آنے سے پہلے آخر کیسے یہ یقین کر لیا جائے کہ اس روز واقعی آخرت برپا ہو جائے گی۔

11. فتنے کا لفظ یہاں دو معنی دے رہا ہے۔ ایک معنی یہ ہیں کہ اپنے اس عذاب کا مزہ چکھو۔ دوسرے معنی یہ کہ اپنے اس فتنے کا مزہ چکھو جو تم نے دنیا میں بر پا کر رکھا تھا۔ عربی زبان میں اس لفظ کے ان دونوں مفہوموں کی یکساں گنجائش ہے۔

12. کفار کا یہ پوچھنا کہ ’’آخر وہ روز جزا کب آئے گا‘‘ اپنے اندر خود یہ مفہوم رکھتا تھا کہ اس کے آنے میں دیر کیوں لگ رہی ہے؟ جب ہم اس کا انکار کر رہے ہیں اور اس کے جھٹلانے کی سزا ہمارے لیے لازم ہو چکی ہے تو وہ آ کیوں نہیں جاتا؟ اسی لیے جہنم کی آگ میں جب وہ تپ رہے ہوں گے اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ یہ ہے وہ چیز جس کے لیے تم جلدی مچا رہے تھے۔ اس فقرے سے یہ مفہوم آپ سے آپ نکلتا ہے کہ یہ تو اللہ تعالیٰ مہر بانی تھی کہ اس نے تم سے نافرمانی کا ظہور ہوتے ہی تمہیں فوراً نہ پکڑ لیا اور سوچنے، سمجھنے اور سنبھلنے کے لیے وہ تم کو ایک لمبی مہلت دیتا رہا۔ مگر تم ایسے احمق تھے کہ اس مہلت سے فائدہ اٹھانے کے بجائے الٹا یہ مطالبہ کرتے رہے کہ یہ وقت تم پر جلدی لے آیا جائے۔ اب دیکھ لو کہ وہ کیا چیز تھی جس کے جلدی آ جا نے کا مطالبہ تم کر رہے تھے۔

13. اس سیاق و سباق میں لفظ متقی صاف طور پر یہ معنی دے رہا ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے خدا کی کتاب اور اس کے رسول کی دی ہوئی خبر پر یقین لا کر آخرت کو مان لیا، اور وہ رویہ اختیار کر لیا جو حیات اخروی کی کامیابی کے لیے انہیں بتایا گیا تھا، اور اس روش سے اجتناب کیا جس کے متعلق انہیں بتا دیا گیا تھا کہ یہ خدا کے عذاب میں مبتلا کرنے والی ہے۔

14. اگر چہ اصل الفاظ ہیں اٰخِذِیْنَ مَآاٰتٰہُمْ رَبُّھُمْ، اور ان کا لفظی ترجمہ صرف یہ ہے کہ ’’ لے رہے ہوں گے جو کچھ ان کے رب نے ان کو دیا ہو گا‘‘، لیکن موقع و محل کی مناسبت سے اس جگہ ’’لینے ‘‘ کا مطلب محض ’’لینا‘‘ نہیں بلکہ خوشی خوشی لینا ہے، جیسے کچھ لوگوں کو ایک سخی داتا مٹھیاں بھر بھر کر انعام دے رہا ہو اور وہ لپک لپک اسے لے رہے ہوں۔ جب کسی شخص کو اس کی پسند کی چیز دی جائے تو اس لینے میں آپ سے آپ بخوشی قبول کرنے کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے کہ اَلَمْ یَعْلَموٓا اَنَّ اللہَ ھُوَ یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عَبَا دِہٖ ویَأ خُذُ الصَّدَقَاتِ۔ (التوبہ۔104)۔ ’’ کیا تم نہیں جانتے کہ وہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں سے توبہ قبول کرتا ہے اور صدقات لیتا ہے۔‘‘ اس جگہ صدقات لینے سے مراد محض ان کو وصول کرنا نہیں بلکہ پسندیدگی کے ساتھ ان کو قبول کرنا ہے۔

15. مفسرین کے ایک گروہ نے اس آیت کا مطلب یہ لیا ہے کہ کم ہی ایسا ہوتا تھا کہ وہ رات بھر سو کر گزار دیں اور اس کا کچھ نہ کچھ حصہ، کم یا زیادہ، ابتدائے شب میں یا وسط شب میں یا آخر شب میں، جاگ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں صرف نہ کریں۔ یہ تفسیر تھوڑے تھوڑے لفظی اختلافات کے ساتھ حضرات ابن عباس، انس بن مالک، محمد الباقر، مطرف بن عبداللہ، ابوالعالیہ، مجاہد، قتادہ، ربیع بن انس وغیرہم سے منقول ہے۔ دوسرے گروہ نے اس کے معنی یہ بیان کیے ہیں کہ وہ اپنی راتوں کا زیادہ حصہ اللہ جل شانہ کی عبادت میں گزارتے تھے اور کم سوتے تھے۔ یہ قول حضرات حسن بصری، اَحنف بن قیس، اور ابن شِہاب زُہری کا ہے، اور بعد کے مفسرین و مترجمین نے اسی کو ترجیح دی ہے، کیونکہ آیت کے الفاظ اور موقع و محل کے لحاظ سے یہی تفسیر زیادہ مناسبت رکھتی نظر آتی ہے۔ اسی لیے ہم نے ترجمے میں یہی معنی اختیار کیے ہیں۔

16. یعنی وہ ان لوگوں میں سے نہ تھے جو اپنی راتیں فوق و فجور اور فواحش میں گزارتے رہے اور پھر بھی کسی استغفار کا خیال تک انہیں نہ آیا۔ اس کے برعکس ان کا حال یہ تھا کہ رات کا اچھا خاصا حصہ عبادت الٰہی میں صرف کر دیتے تھے اور پھر بھی پچھلے پہروں میں اپنے رب کے حضور معافی مانگتے تھے کہ آپ کی بندگی کا جو حق ہم پر تھا، اس کے ادا کرنے میں ہم سے تقصیر ہوئی۔ ھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ کے الفاظ میں ایک اشارہ اس بات کی طرف بھی نکلتا ہے کہ یہ پرسش انہی کو زیبا تھی۔ وہی اس شان عبودیت کے اہل تھے کہ اپنے رب کی بندگی میں جان بھی لڑائیں اور پھر اس پر پھولنے اور اپنی نیکی پر فخر کرنے کے بجائے گڑ گڑا کر اپنی کوتاہیوں کی معافی بھی مانگیں۔ یہ ان بے شرم گناہ گاروں کا رویہ نہ ہو سکتا تھا جو گناہ بھی کرتے تھے۔اور اوپر سے اکڑتے بھی تھے۔

17. بالفاظِ دیگر، ایک طرف اپنے رب کا حق وہ اس طرح پہچانتے اور ادا کرتے تھے، دوسری طرف بندوں کے ساتھ ان کا معاملہ یہ تھا۔ جو کچھ بھی اللہ نے ان کو دیا تھا، خواہ تھوڑا یا بہت، اس میں وہ صرف اپنا اور اپنے بال بچوں ہی کا حق نہیں سمجھتے تھے، بلکہ ان کو یہ احساس تھا کہ ہمارے اس مال میں ہر اس بندہ خدا کا حق ہے جو ہماری مدد کا محتاج ہو۔ وہ بندوں کی مدد خیرات کے طور پر نہیں کرتے تھے کہ اس پر ان سے شکریہ کے طالب ہوتے اور ان کو اپنا زیر بار احسان ٹھیراتے، بلکہ وہ اسے ان کا حق سمجھتے تھے اور اپنا فرض سمجھ کر ادا کرتے تھے۔ پھر ان کی یہ خدمت خلق صرف انہی لوگوں تک محدود نہ تھی جو خود سائل بن کر ان کے پاس مدد مانگنے کے لیے آتے، بلکہ جس کے متعلق بھی ان کے علم میں یہ بات آ جاتی تھی کہ وہ اپنی روزی پانے سے محروم رہ گیا ہے اس کی مدد کے لیے وہ خود بے چین ہو جاتے تھے۔ کوئی یتیم بچہ جو بے سہارا رہ گیا ہو، کوئی بیوہ جس کا کوئی سر دھرا نہ ہو، کوئی معذور جو اپنی روزی کے لیے ہاتھ پاؤں نہ مار سکتا ہو، کوئی شخص جس کا روز گار چھوٹ گیا ہو یا جس کی کمائی اس کی ضروریات کے لیے کافی نہ ہو رہی ہو، کوئی شخص جو کسی آفت کا شکار ہو گیا ہو اور اپنے نقصان کی تلافی خود نہ کر سکتا ہو، غرض کوئی حاجت مند ایسا نہ تھا جس کی حالت ان کے علم میں آئی ہو اور وہ اس کی دستگیری کر سکتے ہوں، اور پھر بھی انہوں نے اس کا حق مان کر اس کی مدد کرنے سے دریغ کیا ہو۔ یہ تین صفات ہیں جن کی بنا پر اللہ تعالیٰ ان کو متقی اور محسن قرار دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ انہی صفات نے ان کو جنت کا مستحق بنایا ہے۔ ایک یہ کہ آخرت پر ایمان لا کر انہوں نے ہر اس روش سے پرہیز کیا جسے اللہ اور اس کے رسول نے اُخروی زندگی کے لیے تباہ کن بتایا تھا۔ دوسرے یہ کہ انہوں نے اللہ کی بندگی کا حق اپنی جان لڑا کر ادا کیا اور اس پر فخر کرنے کے بجائے استغفار ہی کرتے رہے۔ تیسرے یہ کہ انہوں نے اللہ کے بندوں کی خدمت ان پر احسان سمجھ کر نہیں بلکہ اپنا فرض اور ان کا حق سمجھ کر کی۔ اس مقام پر یہ بات اور جان لینی چاہیے کہ اہل ایمان کے اموال میں سائل اور محروم کے جس حق کا یہاں ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد زکوٰۃ نہیں ہے جسے شرعاً ان پر فرض کر دیا گیا ہے، بلکہ یہ وہ حق ہے جو زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد بھی ایک صاحب استطاعت مومن اپنے مال میں خود محسوس کرتا ہے اور اپنے دل کی رغبت سے اس کو ادا کرتا ہے بغیر اس کے کہ شریعت نے اسے لازم کیا ہو۔ ابن عباس، مجاہد اور زید بن اسلم وغیرہ بزرگوں نے اس آیت کا یہ مطلب بیان کیا ہے۔ در حقیقت اس ارشاد الٰہی کی اصل روح یہ ہے کہ ایک متقی و محسن انسان کبھی اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہوتا کہ خدا اور اس کے بندوں کا جو حق میرے مال میں تھا، زکوٰۃ ادا کر کے میں اس سے بالکل سبکدوش ہو چکا ہوں، اب میں نے اس بات کا کوئی ٹھیکہ نہیں لے لیا ہے کہ ہر ننگے، بھوکے، مصیبت زدہ آدمی کی مدد کرتا پھروں۔ اس کے بر عکس جو اللہ کا بندہ واقعی متقی و محسن ہوتا ہے وہ ہر وقت ہر اس بھلائی کے لیے جو اس کے بس میں ہو، دل و جان سے تیار رہتا ہے اور جو موقع بھی اسے دنیا میں کوئی نیک کام کرنے کے لیے ملے اسے ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ اس کے سوچنے کا یہ اندازہی نہیں ہوتا کہ جو نیکی مجھ پر فرض کی گئی تھی وہ میں کر چکا ہوں، اب مزید نیکی کیوں کروں؟ نیکی کی قدر جو شخص پہچان چکا ہو وہ اسے بار سمجھ کر برداشت نہیں کرتا بلکہ اپنے ہی نفع کا سودا سمجھ کر زیادہ سے زیادہ کمانے کا حریص ہو اتا ہے۔

18. نشانیوں سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو آخرت کے امکان اور اس کے وجوب و لزوم کی شہادت دے رہی ہیں۔ زمین کا اپنا وجود اور اس کی ساخت، اس کا سورج سے ایک خاص فاصلے پر اور ایک خاص زاویے پر رکھا جانا، اس پر حرارت اور روشنی کا انتظام، اس پر مختلف موسموں کی آمد و رفت، اس کے اوپر ہوا اور پانی کی فراہمی، اس کے پیٹ میں طرح طرح کے بے شمار خزانوں کا مہیا کیا جانا، اس کی سطح پر ایک زر خیز چھلکا چڑھایا جانا، اس میں قسم قسم کی بے حد و حساب نباتات کا اگایا جانا، اس کے اندر خشکی اور تری اور ہوا کے جانوروں کی بے شمار نسلیں جاری کرنا، اس میں ہر نوع کی زندگی کے لیے مناسب حالات اور موزوں خوراک کا انتظام کرنا، اس پر انسان کو وجود میں لانے سے پہلے وہ تمام ذرائع و وسائل فراہم کر دینا جو تاریخ کے ہر مرحلے میں اس کی روز افزوں ضروریات ہی کا نہیں بلکہ اس کی تہذیب و تمدن کے ارتقاء کا ساتھ بھی دیتے چلے جائیں، یہ اور دوسری ان گنت نشانیاں ایسی ہیں کہ دیدۂ بینا رکھنے والا جس طرف بھی زمین اور اس کے ماحول میں نگاہ ڈالے وہ اس کا دامن دل کھینچ لیتی ہیں۔ جو شخص یقین کے لیے اپنے دل کے دروازے بند کر چکا ہو اس کی بات تو دوسری ہے۔ وہ ان میں اور سب کچھ دیکھ لے گا، بس حقیقت کی طرف اشارہ کرنے والی کوئی نشانی ہی نہ دیکھے گا۔ مگر جس کا دل تعصب سے پاک اور سچائی کے لیے کھلا ہوا ہے وہ ان چیزوں کو دیکھ کر ہر گز یہ تصور قائم نہ کرے گا کہ یہ سب کچھ کسی اتفاقی دھماکے کا نتیجہ ہے جو کئی ارب سال پہلے کائنات میں اچانک برپا ہوا تھا، بلکہ اسے یقین آ جائے گا کہ یہ کمال درجے کی حکیمانہ صنعت ضرور ایک قادر مطلق اور دانا و بینا خدا کی تخلیق ہے، اور وہ خدا جس نے یہ زمین بنائی ہے نہ اس بات سے عاجز ہو سکتا ہے کہ انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کر دے، اور نہ ایسا نادان ہو سکتا ہے کہ اپنی زمین میں عقل و شعور رکھنے والی ایک مخلوق کو اختیارات دے کر بے نتھے بیل کی طرح چھوڑ دے۔ اختیارات کا دیا جانا آپ سے آپ محاسبے کا تقاضا کرتا ہے، جو اگر نہ ہو تو حکمت اور انصاف کے خلاف ہو گا۔ اور قدرت مطلقہ کا پایا جانا خود بخود اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا میں نوع انسانی کا کام ختم ہونے کے بعد اس کا خالق جب چاہے محاسبے کے لیے اس کے تمام افراد کو زمین کے ہر گوشے سے، جہاں بھی وہ مرے پڑے ہوں، اٹھا کر لا سکتا ہے۔

19. یعنی باہر دیکھنے کی بھی حاجت نہیں، خود اپنے اندر دیکھو تو تمہیں اسی حقیقت پر گواہی دینے والی بے شمار نشانیاں مل جائیں گی۔ کس طرح ایک خورد بینی کیڑے اور ایسے ہی ایک خورد بینی انڈے کو ملا کر ماں کے ایک گوشۂ جسم میں تمہاری تخلیق کی بنا ڈالی گئی۔ کس طرح تمہیں اس تاریک گوشے میں پرورش کر کے بتدریج بڑھایا گیا۔ کس طرح تمہیں ایک بے نظیر ساخت کس جسم اور حیرت انگیز قوتوں سے مالا مال نفس عطا کیا گیا۔ کس طرح تمہاری بناوٹ کی تکمیل ہوتے ہی شکم مادر کی تنگ و تاریک دنیا سے نکال کر تمہیں اس وسیع و عریض دنیا میں اس شان کے ساتھ لایا گیا کہ ایک زبردست خود کار مشین تمہارے اندر نصب ہے جو روز پیدائش سے جوانی اور بڑھاپے تک سانس لینے، غذا ہضم کرنے، خون بنانے اور رگ رگ میں اس کو دوڑانے، فضلات خارج کرنے، تحلیل شدہ اجزائے جسم کی جگہ دوسرے اجزاء تیار کرنے، اور اندر سے پیدا ہونے والی یا باہر سے آنے والی آفات کا مقابلہ کرنے اور نقصانات کی تلافی کرنے، حتیٰ کہ تھکاوٹ کے بعد تمہیں آرام کے لیے سلا دینے کا تک کا کام خود بخود کیے جاتی ہے بغیر اس کے کہ تمہاری توجہات اور کوششوں کا کوئی حصہ زندگی کی ان بنیادی ضروریات پر صرف ہو۔ ایک عجیب دماغ تمہارے کاسۂ سر میں رکھ دیا گیا ہے جس کی پیچیدہ تہوں میں عقل، فکر، تخیُّل، شعور، تمیز، ارادہ، حافظہ، خواہش، احساسات و جذبات، میلانات و رجحانات، اور دوسری ذہنی قوتوں کی ایک انمول دولت بھری پڑی ہے۔ بہت سے ذرائع علم تم کو دیے گئے ہیں جو آنکھ، ناک،کان اور پورے جسم کی کھال سے تم کو ہر نوعیت کی اطلاعات بہم پہنچاتے ہیں۔ زبان اور گویائی کی طاقت تم کو دے دی گئی ہے جس کے ذریعہ سے تم اپنے ما فی الضمیر کا اظہار کر سکتے ہو۔ اور پھر تمہارے وجود کی اس پوری سلطنت پر تمہاری اَنا کو ایک رئیس بنا کر بٹھا دیا گیا ہے کہ ان تمام قوتوں سے کام لے کر رائیں قائم کرو اور یہ فیصلہ کرو کہ تمہیں کن راہوں میں اپنے اوقات،محنتوں اور کوششوں کو صرف کرنا ہے، کیا چیز رد کرنی ہے اور کیا

قبول کرنی ہے، کس چیز کو اپنا مقصود بنانا ہے اور کس کو نہیں بنانا۔ یہ ہستی بنا کر جب تمہیں دنیا میں لایا گیا تو ذرا دیکھو کہ یہاں آتے ہی کتنا سرو سامان تمہاری پرورش، نشو نما، اور ترقی و تکمیل ذات کے لیے تیار تھا جس کی بدولت تم زندگی کے ایک خاص مرحلے پر پہنچ کر اپنے ان اختیارات کو استعمال کرنے کے قابل ہو گئے۔ ان اختیارات کو استعمال کرنے کے لیے زمین میں تم کو ذرائع دیے گئے۔ مواقع فراہم کیے گئے۔ بہت سی چیزوں پر تم کو تصرف کی طاقت دی گئی۔ بہت سے انسانوں کے ساتھ تم نے طرح طرح کے معاملات کیے۔ تمہارے سامنے کفر و ایمان، فسق و طاعت، ظلم و انصاف، نیکی و بدی، حق و باطل کی تمام راہیں کھلی ہوئی تھیں، اور ان راہوں میں سے ہر ایک کی طرف بلانے والے اور ہر ایک کی طرف لے جانے والے اسباب موجود تھے۔ تم میں سے جس نے جس راہ کو بھی انتخاب کی اپنی ذمہ داری پر گیا، کیوں کہ فیصلہ و انتخاب کی طاقت اس کے اندر ودیعت تھی۔ ہر ایک کے اپنے ہی انتخاب کے مطابق اس کی نیتوں اور ارادوں کو عمل میں لانے کے جو مواقع اس کو حاصل ہوئے ان سے فائدہ اٹھا کر کوئی نیک بنا اور کوئی بد، کسی نے ایمان کی راہ اختیار کی اور کسی نے کفر و شرک یا دہریت کی راہ لی، کسی نے اپنے نفس کو ناجائز خواہشات سے روکا اور کوئی بندگی نفس میں سب کچھ کر گزرا، کسی نے ظلم کیا اور کسی نے ظلم سہا، کسی نے حقوق ادا کیے اور کسی نے حقوق مارے، کسی نے مرتے دم تک دنیا میں بھلائی کی اور کوئی زندگی کی آخری ساعت تک بُرائیاں کرتا رہا، کسی نے حق کا بول بالا کرنے کے لیے جان لڑائی، اور کوئی باطل کو سر بلند کرنے کے لیے اہل حق پر دست درازیاں کرتا رہا۔

اب کیا کوئی شخص جس کی ھیے کی آنکھیں بالکل ہی پھوٹ نہ گئی ہوں، یہ کہہ سکتا ہے کہ اس طرح کی ایک ہستی زمین پر اتفاقاً وجود میں آ گئی ہے؟ کوئی حکمت اور کوئی منصوبہ اس کے پیچھے کار فرما نہیں ہے؟ زمین پر اس کے ہاتھوں یہ سارے ہنگامے جو بر پا ہو رہے ہیں سب بے مقصد ہیں اور بے نتیجہ ہی ختم ہو جانے والے ہیں؟ کسی بھلائی کا کوئی ثمرہ اور کسی بدی کا کوئی پھل نہیں؟ کسی ظلم کی کوئی داد اور کسی ظالم کی کوئی باز پرس نہیں؟ اس طرح کی باتیں ایک عقل کا اندھا تو کہہ سکتا ہے، یا پھر وہ شخص کہہ سکتا ہے جو پہلے سے قسم کھائے بیٹھا ہے کہ تخلیق انسان کے پیچھے کسی حکیم کی حکمت کو نہیں ماننا ہے۔ مگر ایک غیر متعصب صاحب عقل آدمی یہ مانے بغیر نہیں رہ سکتا کہ انسان کو جس طرح، جن قوتوں اور قابلیتوں کے ساتھ اس دنیا میں پیدا کیا گیا ہے اور جو حیثیت اس کو یہاں دی گئی ہے وہ یقیناً ایک بہت بڑا حکیمانہ منصوبہ ہے، اور جس خدا کا یہ منصوبہ ہے اس کی حکمت لازماً یہ تقاضا کرتی ہے کہ انسان سے اس کے اعمال کی باز پرس ہو، اور اس کی قدرت کے بارے میں یہ گمان کرنا درست نہیں ہو سکتا کہ جس انسان کو وہ ایک خورد بینی خلیے سے شروع کر کے اس مرتبے تک پہنچا چکا ہے اسے پھر وجود میں نہ لا سکے گا۔

20. آسمان سے مراد یہاں عالم بالا ہے۔ رزق سے مراد وہ سب کچھ جو دنیا میں انسان کو جینے اور کام کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ اور مَاتُوْعَدُوْنَ سے مراد قیامت، حشر و نشر، محاسبہ و باز پرس، جزا و سزا، اور جنت و دوزخ ہیں جن کے رونما ہونے کا وعدہ تمام کتب آسمانی میں اور اس قرآن میں کیا جاتا رہا ہے۔ ارشاد الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ عالم بالا ہی سے یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ تم میں سے کس کو کیا کچھ دنیا میں دیا جائے، اور وہیں سے یہ فیصلہ بھی ہونا ہے کہ تمہیں باز پرس اور جزائے اعمال کے لیے کب بلایا جائے۔